فاتح کرناٹک حضرت مولانا محمد منصور علی خان رحمتہ اللہ علیہ کا عشق رسول
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
ازقلم:- حضرت مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدر افتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء
پوجانگر میراروڈ ممبئی
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
حضرت منصور ملت فاتح کرناٹکا نے ایک علمی گھرانے میں اپنی آنکھ کھولی ، والد گرامی حضرت محبوب ملت محبوب العلما مولانا مفتی محمد محبوب علی خان رحمتہ اللہ علیہ اسلام و سنت کے عظیم داعی و مبلغ تھے ، ناشر اہل سنت کا تاج زریں آپ کے سر تھا عروس البلاد کو آپ نے اپنے علمی ، تبلیغی فیضان سے خوب سیراب کیا ، مدنپورہ کی جامع مسجد جسے عوام خواص ہری مسجد یابڑی مسجد سے جانتے ہیں ، زندگی کے آخری لمحہ تک آپ اس مسجد کی امامت و خطابت کا فریضہ انجام دیتے رہے ، آپ کے بعد آپ کے بڑے فرزند حضرت فاتح کرناٹکا کو امامت و خطابت کا منصب تفویض ہوا جسے آپ نے بڑی ذمہ داری اور خوش اسلوبی سے نبھایا ، جس عمر میں بچے کھیلتے ہیں ، آپ آغاز بلوغیت کے دن سے اس اہم ذمہ داری کے امین قرار پائے ،ہند کے نامور علمائے اہل سنت جواپنے زمانے کی سرخیل کہے جاتے ہیں ان کی اجازت و موجودگی میں اس اہم منصب پر فائز ومرائم ہوئے اور آپ بھی اپنے والد محترم حضرت محبو ب العلما ہی کی طرح پوری زندگی اس مسجد کی خدمت میں وقف کردی آخر داعی اجل کو لبیک کہنے کے ساتھ ہی آپ اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے ، اس اثنا بہت سی تکلیفوں سے بھی گذرنا ہوا لیکن دین و سنت کی خدمت پر آپ نے اپنی اور خانگی تکالیف کو کبھی حاوی نہیں ہونے دیا ،جب تک ( راقم الحروف ) فقیر قادری مدنپورہ ’’جامعہ فاروقیہ انجمن مفید الیتامیٰ ‘‘میں درس و تدریس کی خدمت پر مامور رہا اکثر نمازیں باجماعت آپ کی اقتدا میں پڑھنے کا حسین شرف ہوتا رہاہے ،جس دن آپ کا نائب نماز پڑھاتا تو یہ با ت ہر اک مقتدی پر واضح ہوجاتی کہ حضرت فا تح کرناٹکا بیرون ممبئی دینی ، تعلیمی اور دعوتی پر وگرام پر ہیں وہ اس لئے بھی کہ ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ ممبئی یا قرب وجوار میں ہوں اور بلا عذر شرعی نماز کی امامت آپ کا نائب کرے اور آپ حجرہ میں ہوں یہ میں نے کبھی نہیں دیکھا ، آپ فرمایا کرتے تھے کہ امام کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ شہر یا محلہ میں ہوں تو حق امامت انہیں کا ہے اس لئے آپ اپنا حق کسی کو ہر گز ہرگز نہ دیا کریں ! آج اماموں کا حال دگرگوں ہے وہ مسجد کے حجرہ میں ہوتے ہوئے بھی اپنے نائب سے یہ خدمت لیتے ہیں جو نہایت قابل افسوس ہے ، عذر شرعی ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے ، شوقیہ نماز نہ پڑھانا اور اپنا حق کسی اور کو دے کر دنیاوی جلسوں میں مصروف بہ عمل رہنا یہ نیک اور صالح امام کا کام نہیں ، آپ کی ذات ان تمام چیز وں سے منزہ تھی ،آپ کی نماز پر استقامت یہ حضور نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کا اظہار ہے ، نماز کی پابند ی یہ کسی بھی عالم دین کے لئے باعمل عالم اور عاشق رسول ہونے کی اول کڑ ی ہیں ، حضرت فاتح کرناٹک اس کڑی کی اٹوٹ بندھ میں بندھے ہوئے تھے ، ایمان و ایقان کے بعد یہی وہ عمل ہے جس سے عشق رسول کا اظہار ہوتاہے جو عاشق رسول ہوگا وہ نمازی بھی ہوگا بغیر نماز کے عشق رسول کا اظہار وہ محض دعویٰ ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ آپ نے ہمیشہ اپنے عمل سے عشق رسول کا مظاہرہ کیا ہے شاتم رسول ، نجدی ، وہابی ، دیوبندی ، سلفی ، شیعہ وغیرہ جن سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخیاں ہوئی ہیں ان کو وہ دیکھنا تک پسند نہیں کرتے تھے اپنی تمام تقریروں اور بیانوں میں ہمیشہ عشق رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ہی بات کیا کرتے تھے ، رد وہابیت ، بدمذہبیت اور سلفیت و شعیت آپ کا مشن تھا جو آپ کو اپنے خاندان کے بزرگوں سے وارثت میں ملی تھی ، عشق رسول کی انتہا نہ پوچھیئے جہاں جاتے کتابوں کی ایک لائبریری آپ کے ساتھ ہوتی تھی ، مجھے خوب یاد ہے کہ مہاراشٹرا کے دہی علا قہ " ناڑہ وڈولی اسر کیمپ گاؤں ’’ جو بھیونڈی کے بہت قریب ہے‘‘ کہ ایک دینی جلسہ میں حضرت فاتح کرنا ٹک کے ساتھ میں بھی مدعو تھا حضرت کے بیان سے قبل ناظم جلسہ نے میرے نام کا اعلان کیا اور میں نے بھی حمد وصلاۃ کے بعد رد وہابیت کے موضوع پر مختصر تقریر کی ،جس میں عقائد دیابنہ ووہابیہ انہیں کی کتابوں کے حوالے سے بتارہا تھا اور آپ نہایت غور سے میری تقریر سماعت کررہے تھے ۔پھر ایک نعت پڑھی گئی اس کے بعد جب آپ منبر رسول پر خطاب کے لئے جلوہ فگن ہوئے تو خطبہ مسنونہ کے بعد آپ اپنے منفردانہ لب ولہجہ میں فرماتے ہیں کہ الحمد للہ ! پوری زندگی ہم نے اصلاح امت اور رد بد مذہباں پر بے شمار کتب کے حوالوں سے مزین خطاب کرتا رہا لیکن آج مجھے بیحد خوشی ہورہی ہے کہ میری آنے والی نسلیں ہمارے اسلاف کی امانتوں کو بڑی آسانی سے آگے منتقل کررہی ہیں ، مفتی موصوف (فقیر کا نام لیا ) مفتی موصوف کی تقریر سن کر دل شاد کام ہوا ۔انہیں چند تمہیدی کلمات کے بعد آپ اپنی اصل موضوع کی طر ف آتے ہیں اور مسلسل عشق رسول کے عنوان پر ایک گھنٹہ خطاب فرماتے ہیں جو آپ کی وسعت علمی پر دال ہے ۔منبر رسول یا عوام میں سے کسی نے بھی نام محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم )سنا اور عقیدت و محبت کے ساتھ انگوٹھا آنکھوں سے نہیں لگاتا تو فوراً آپ اس کی اصلاح کرتے اورفرماتے کہ جو یہ چاہتے ہیں کہ اس کی بینائی سلامت رہے اور دیابنہ وہا بیہ ودیگر بدمذہبوں میں امیتاز ہو تو انہیں چاہئے کہ وہ جب بھی پیارے آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا نامِ مبارک لے یا کسی سے سنے تو درود بھیجنے کے ساتھ ساتھ ضرور پیار سے اپنا انگو ٹھاآنکھوں سے لگا کر چوم لیا کر یں کہ یہ اظہار عشق کے ساتھ تمام باطل فرقوں سے آپ کو ممتاز کرتا ہے آپ اپنی تقریر میں نام محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب پر ضرور خطاب فرمایا کرتے تھے غالباً نام محمد لینے پر احادیث میں جو فضائل ومناقب آئے ہیں وہ روایتیں ہمیشہ آپ کے پیش نظر ہوا کرتی تھیں اور کیا بعید کہ آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا ہرجمعہ میں خطاب جو کیا کرتے تھے نیز سال کے تمام ماہ و شب کسی نہ کسی دینی جلسہ سے خطا ب ضرور کر تے تھے وہ مدلل و مبرہن کہ کسی میں آپ کی تقریر پر کلام کی ہمت نہ ہوتی ، وہابیوں اور دیوبندیوں کا حال مت پوچھیئے جہاں آپ کی تقریر ہوتی یہ ارد گرد بھی بھٹکنے کی کوشش نہیں کرتے کہ ان کے لئے گویا یہ تیز دھار تلوار سے بھی زیادہ زخم دی جانےوالی ہوتی تھی ان کے مولویوں کے پاس آپ کی تقریر کا کوئی جواب نہ ہوتا اور اس طرح بدمذہبیت کی بنیاد میں آپ اہل سنت اور عشق و وفا کی طرف سے آخری کیل نصب فرماجاتے ، آپ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے ، کشمیر سے کنیا کماری تک اور ملک کے تمام گو شوں میں عموماً اور کرناٹکا میں خصوصاً آپ نے جماعت کی ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں ۔آپ کے برادر اصغر حضرت علامہ مولانا محمد مقصود علی خاں نوری (جنرل سکریٹری ، سنی جمعیت العلما ممبئی )جو خود بھی بہت بڑے عالم دین ہیں اور عشق و عرفان کی دولت سے لبریز شخصیت ہیں آپ فرماتے ہیں کہ ’’میرے برادر اکبر سلطان المناظرین منصورالعلما منصور ملت فاتح کرناٹک حضرت علا مہ مولانا محمد منصور علی خاں رحمتہ اللہ علیہ جب کبھی سنی جمیت العلما کے آفس حاضر آتے تو راہ میں اپنی نگاہیں نیچے کیے ہوتے آفس پہنچ کر ہی نگاہ اپنی ٹیبل کی طر ف رکھتے ، راہ چلتے اگر کسی صاحب نے سلام کر لیا تو جواب دیتے ہوئے آگے گزر جاتے تھے ، حکم رسول کا اتنا پاس و لحاظ تھا کہ کبھی راہ میں کھڑے ہو کر کسی سے باتیں نہیں کرتے تھے بلکہ ضرورتمندوں کو اپنی نشست گاہ پر ہی بلالیتے اور وہیں ہم کلام ہوتے ۔رمضان المبارک میں نماز فجر کے بعد آپ قرآن کی تفسیر فرمایا کرتے تھے جو موضوعاتی اعتبار سے پرمغز تفسیر ہوتی تھی ۔کا ش وہ تمام تفاسیر جو حضرت رمضان المبارک میں بیان فرمایا کرتے تھے جمع ہوگئی ہوتی تو وہ عشق و عر فان کا گراں قدر علمی سرمایہ ہوتا اور قارئین عشق رسول کی لذتوں سے یقینا آشنا ہوتے ۔گو آپ جہاں ایک بہت بڑے عالم دین تھے وہیں آپ ایک قابل خطیب و امام حاضر جواب ماہر مناظر اور مفسر قرآن بھی تھے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ حضرت سلطان المناظرین عشق رسول کے کس درجہ پرفائز تھے تو انہیں چاہئے کہ وہ حضرت کی مشہور زمانہ کتاب ’’خوابوں کی برات ‘‘کا مطالعہ ضرور کریں یہ کتاب آپ کے عشق رسول ہی کا فیضان ہے کہ نجدیوں کے مصنوعی اور اختراعی دین و مذہب کو آپ نے خنجر رضا کی نوک سے پارہ پارہ کر دیاہے ۔
صدر افتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء
پوجانگر میراروڈ ممبئی
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
حضرت منصور ملت فاتح کرناٹکا نے ایک علمی گھرانے میں اپنی آنکھ کھولی ، والد گرامی حضرت محبوب ملت محبوب العلما مولانا مفتی محمد محبوب علی خان رحمتہ اللہ علیہ اسلام و سنت کے عظیم داعی و مبلغ تھے ، ناشر اہل سنت کا تاج زریں آپ کے سر تھا عروس البلاد کو آپ نے اپنے علمی ، تبلیغی فیضان سے خوب سیراب کیا ، مدنپورہ کی جامع مسجد جسے عوام خواص ہری مسجد یابڑی مسجد سے جانتے ہیں ، زندگی کے آخری لمحہ تک آپ اس مسجد کی امامت و خطابت کا فریضہ انجام دیتے رہے ، آپ کے بعد آپ کے بڑے فرزند حضرت فاتح کرناٹکا کو امامت و خطابت کا منصب تفویض ہوا جسے آپ نے بڑی ذمہ داری اور خوش اسلوبی سے نبھایا ، جس عمر میں بچے کھیلتے ہیں ، آپ آغاز بلوغیت کے دن سے اس اہم ذمہ داری کے امین قرار پائے ،ہند کے نامور علمائے اہل سنت جواپنے زمانے کی سرخیل کہے جاتے ہیں ان کی اجازت و موجودگی میں اس اہم منصب پر فائز ومرائم ہوئے اور آپ بھی اپنے والد محترم حضرت محبو ب العلما ہی کی طرح پوری زندگی اس مسجد کی خدمت میں وقف کردی آخر داعی اجل کو لبیک کہنے کے ساتھ ہی آپ اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے ، اس اثنا بہت سی تکلیفوں سے بھی گذرنا ہوا لیکن دین و سنت کی خدمت پر آپ نے اپنی اور خانگی تکالیف کو کبھی حاوی نہیں ہونے دیا ،جب تک ( راقم الحروف ) فقیر قادری مدنپورہ ’’جامعہ فاروقیہ انجمن مفید الیتامیٰ ‘‘میں درس و تدریس کی خدمت پر مامور رہا اکثر نمازیں باجماعت آپ کی اقتدا میں پڑھنے کا حسین شرف ہوتا رہاہے ،جس دن آپ کا نائب نماز پڑھاتا تو یہ با ت ہر اک مقتدی پر واضح ہوجاتی کہ حضرت فا تح کرناٹکا بیرون ممبئی دینی ، تعلیمی اور دعوتی پر وگرام پر ہیں وہ اس لئے بھی کہ ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ ممبئی یا قرب وجوار میں ہوں اور بلا عذر شرعی نماز کی امامت آپ کا نائب کرے اور آپ حجرہ میں ہوں یہ میں نے کبھی نہیں دیکھا ، آپ فرمایا کرتے تھے کہ امام کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ شہر یا محلہ میں ہوں تو حق امامت انہیں کا ہے اس لئے آپ اپنا حق کسی کو ہر گز ہرگز نہ دیا کریں ! آج اماموں کا حال دگرگوں ہے وہ مسجد کے حجرہ میں ہوتے ہوئے بھی اپنے نائب سے یہ خدمت لیتے ہیں جو نہایت قابل افسوس ہے ، عذر شرعی ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے ، شوقیہ نماز نہ پڑھانا اور اپنا حق کسی اور کو دے کر دنیاوی جلسوں میں مصروف بہ عمل رہنا یہ نیک اور صالح امام کا کام نہیں ، آپ کی ذات ان تمام چیز وں سے منزہ تھی ،آپ کی نماز پر استقامت یہ حضور نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کا اظہار ہے ، نماز کی پابند ی یہ کسی بھی عالم دین کے لئے باعمل عالم اور عاشق رسول ہونے کی اول کڑ ی ہیں ، حضرت فاتح کرناٹک اس کڑی کی اٹوٹ بندھ میں بندھے ہوئے تھے ، ایمان و ایقان کے بعد یہی وہ عمل ہے جس سے عشق رسول کا اظہار ہوتاہے جو عاشق رسول ہوگا وہ نمازی بھی ہوگا بغیر نماز کے عشق رسول کا اظہار وہ محض دعویٰ ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ آپ نے ہمیشہ اپنے عمل سے عشق رسول کا مظاہرہ کیا ہے شاتم رسول ، نجدی ، وہابی ، دیوبندی ، سلفی ، شیعہ وغیرہ جن سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخیاں ہوئی ہیں ان کو وہ دیکھنا تک پسند نہیں کرتے تھے اپنی تمام تقریروں اور بیانوں میں ہمیشہ عشق رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ہی بات کیا کرتے تھے ، رد وہابیت ، بدمذہبیت اور سلفیت و شعیت آپ کا مشن تھا جو آپ کو اپنے خاندان کے بزرگوں سے وارثت میں ملی تھی ، عشق رسول کی انتہا نہ پوچھیئے جہاں جاتے کتابوں کی ایک لائبریری آپ کے ساتھ ہوتی تھی ، مجھے خوب یاد ہے کہ مہاراشٹرا کے دہی علا قہ " ناڑہ وڈولی اسر کیمپ گاؤں ’’ جو بھیونڈی کے بہت قریب ہے‘‘ کہ ایک دینی جلسہ میں حضرت فاتح کرنا ٹک کے ساتھ میں بھی مدعو تھا حضرت کے بیان سے قبل ناظم جلسہ نے میرے نام کا اعلان کیا اور میں نے بھی حمد وصلاۃ کے بعد رد وہابیت کے موضوع پر مختصر تقریر کی ،جس میں عقائد دیابنہ ووہابیہ انہیں کی کتابوں کے حوالے سے بتارہا تھا اور آپ نہایت غور سے میری تقریر سماعت کررہے تھے ۔پھر ایک نعت پڑھی گئی اس کے بعد جب آپ منبر رسول پر خطاب کے لئے جلوہ فگن ہوئے تو خطبہ مسنونہ کے بعد آپ اپنے منفردانہ لب ولہجہ میں فرماتے ہیں کہ الحمد للہ ! پوری زندگی ہم نے اصلاح امت اور رد بد مذہباں پر بے شمار کتب کے حوالوں سے مزین خطاب کرتا رہا لیکن آج مجھے بیحد خوشی ہورہی ہے کہ میری آنے والی نسلیں ہمارے اسلاف کی امانتوں کو بڑی آسانی سے آگے منتقل کررہی ہیں ، مفتی موصوف (فقیر کا نام لیا ) مفتی موصوف کی تقریر سن کر دل شاد کام ہوا ۔انہیں چند تمہیدی کلمات کے بعد آپ اپنی اصل موضوع کی طر ف آتے ہیں اور مسلسل عشق رسول کے عنوان پر ایک گھنٹہ خطاب فرماتے ہیں جو آپ کی وسعت علمی پر دال ہے ۔منبر رسول یا عوام میں سے کسی نے بھی نام محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم )سنا اور عقیدت و محبت کے ساتھ انگوٹھا آنکھوں سے نہیں لگاتا تو فوراً آپ اس کی اصلاح کرتے اورفرماتے کہ جو یہ چاہتے ہیں کہ اس کی بینائی سلامت رہے اور دیابنہ وہا بیہ ودیگر بدمذہبوں میں امیتاز ہو تو انہیں چاہئے کہ وہ جب بھی پیارے آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا نامِ مبارک لے یا کسی سے سنے تو درود بھیجنے کے ساتھ ساتھ ضرور پیار سے اپنا انگو ٹھاآنکھوں سے لگا کر چوم لیا کر یں کہ یہ اظہار عشق کے ساتھ تمام باطل فرقوں سے آپ کو ممتاز کرتا ہے آپ اپنی تقریر میں نام محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب پر ضرور خطاب فرمایا کرتے تھے غالباً نام محمد لینے پر احادیث میں جو فضائل ومناقب آئے ہیں وہ روایتیں ہمیشہ آپ کے پیش نظر ہوا کرتی تھیں اور کیا بعید کہ آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا ہرجمعہ میں خطاب جو کیا کرتے تھے نیز سال کے تمام ماہ و شب کسی نہ کسی دینی جلسہ سے خطا ب ضرور کر تے تھے وہ مدلل و مبرہن کہ کسی میں آپ کی تقریر پر کلام کی ہمت نہ ہوتی ، وہابیوں اور دیوبندیوں کا حال مت پوچھیئے جہاں آپ کی تقریر ہوتی یہ ارد گرد بھی بھٹکنے کی کوشش نہیں کرتے کہ ان کے لئے گویا یہ تیز دھار تلوار سے بھی زیادہ زخم دی جانےوالی ہوتی تھی ان کے مولویوں کے پاس آپ کی تقریر کا کوئی جواب نہ ہوتا اور اس طرح بدمذہبیت کی بنیاد میں آپ اہل سنت اور عشق و وفا کی طرف سے آخری کیل نصب فرماجاتے ، آپ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے ، کشمیر سے کنیا کماری تک اور ملک کے تمام گو شوں میں عموماً اور کرناٹکا میں خصوصاً آپ نے جماعت کی ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں ۔آپ کے برادر اصغر حضرت علامہ مولانا محمد مقصود علی خاں نوری (جنرل سکریٹری ، سنی جمعیت العلما ممبئی )جو خود بھی بہت بڑے عالم دین ہیں اور عشق و عرفان کی دولت سے لبریز شخصیت ہیں آپ فرماتے ہیں کہ ’’میرے برادر اکبر سلطان المناظرین منصورالعلما منصور ملت فاتح کرناٹک حضرت علا مہ مولانا محمد منصور علی خاں رحمتہ اللہ علیہ جب کبھی سنی جمیت العلما کے آفس حاضر آتے تو راہ میں اپنی نگاہیں نیچے کیے ہوتے آفس پہنچ کر ہی نگاہ اپنی ٹیبل کی طر ف رکھتے ، راہ چلتے اگر کسی صاحب نے سلام کر لیا تو جواب دیتے ہوئے آگے گزر جاتے تھے ، حکم رسول کا اتنا پاس و لحاظ تھا کہ کبھی راہ میں کھڑے ہو کر کسی سے باتیں نہیں کرتے تھے بلکہ ضرورتمندوں کو اپنی نشست گاہ پر ہی بلالیتے اور وہیں ہم کلام ہوتے ۔رمضان المبارک میں نماز فجر کے بعد آپ قرآن کی تفسیر فرمایا کرتے تھے جو موضوعاتی اعتبار سے پرمغز تفسیر ہوتی تھی ۔کا ش وہ تمام تفاسیر جو حضرت رمضان المبارک میں بیان فرمایا کرتے تھے جمع ہوگئی ہوتی تو وہ عشق و عر فان کا گراں قدر علمی سرمایہ ہوتا اور قارئین عشق رسول کی لذتوں سے یقینا آشنا ہوتے ۔گو آپ جہاں ایک بہت بڑے عالم دین تھے وہیں آپ ایک قابل خطیب و امام حاضر جواب ماہر مناظر اور مفسر قرآن بھی تھے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ حضرت سلطان المناظرین عشق رسول کے کس درجہ پرفائز تھے تو انہیں چاہئے کہ وہ حضرت کی مشہور زمانہ کتاب ’’خوابوں کی برات ‘‘کا مطالعہ ضرور کریں یہ کتاب آپ کے عشق رسول ہی کا فیضان ہے کہ نجدیوں کے مصنوعی اور اختراعی دین و مذہب کو آپ نے خنجر رضا کی نوک سے پارہ پارہ کر دیاہے ۔
(روایت :مولانا محمد مقصود علی خاں نوری ،جنرل سکریٹری سنی جمیعت العلما ممبئی )
ترسیل:- صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی ثنائی
رکن اعلیٰ:- شیرمہاراشٹرا تعلیمی فاؤنڈیشن
پوجانگر میراروڈ ممبئی۔7/ جنوری 2024ء
بموقع : عرس حضرت محبوب ملت و حضرت منصور ملت رحمھما اللہ تعالیٰ
ترسیل:- صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی ثنائی
رکن اعلیٰ:- شیرمہاراشٹرا تعلیمی فاؤنڈیشن
پوجانگر میراروڈ ممبئی۔7/ جنوری 2024ء
بموقع : عرس حضرت محبوب ملت و حضرت منصور ملت رحمھما اللہ تعالیٰ