(سوال نمبر 4931)
امام مسجد کو نوکر کہنا شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ امام کو نوکر کہنا کیسا ہے؟
امام کو نوکر کہنے والے پر کیا حکم ہے ؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- فرمان رضا دہلی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
امام مسجد کو نوکر کہنا درست نہیں ہے جیسے ماں، باپ کی بیوی ضرور ہے مگر اسے اس لفظ کے ساتھ یاد کرنا ماں کی توہین ہے. تنخواہ لینے والا ضرور نوکر ہے مگر تنخواہ دار امام کو نوکر کہنا اس کی توہین ہے.
اگر کوئی امام کو نوکر کیے تو امام سے معافی مانگے اور آئندہ اس کے بارے میں اس لفظ کے بولنے سے احتراز کرے۔
یاد رہے کہ مسجد کے امام کو امامتِ صغریٰ کا درجہ حاصل ہے اور اس امامت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے کی نماز کا اس کے ساتھ وابستہ ہونا (بہارِ شریعت ج۱ ص 560 )
بے شک امامت ایک بڑی سعادت ہے جو خود اقا علیہ السلام
نے اس امامت کو سر انجام دیا
امام کی قدر کریں کم از کم ان کے 10 حقوق ادا کریں۔
١/ امام کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کو امام تسلیم کیا جائے اگر کسی میں امامت کی جامع شرائط پائی جا رہی ہیں اور مسجد انتظامیہ متفقہ فیصلے سے اس کو امام منتخب کرچکی ہے تو اس کو امام تسلیم کر لینا چاہیے خواہ مخواہ اس کی ذات پر کیچڑ نہ اُچھالا جائے جب تک شریعت اس کی اجازت نہ دے۔
٢/ امام کا دوسر احق یہ ہے کہ امام کی غیبت،چغلی وغیرہ سے بچا جائے کیونکہ غیبت کرنا ویسے ہی بُرا کام ہے کہ غیبت کرنے والا گویا اپنے مردار بھائی گوشت کھاتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اپنے پیش امام کی غیبت کرنا کس قدر بُرا ہوگا لہذا اپنے مسجد کے امام کی غیبت وغیرہ کرنے سے بچنا چاہیے۔
٣/ امام کا حق ہے کہ اس کی عزّت کی جائے اور ہونی بھی چاہئے کیونکہ ہماری نمازیں اس امام کے ساتھ وابستہ ہیں جب تک امام نماز شروع نہ کرے ہم نماز شروع نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے پیش امام کی عزّت کریں اور طعنہ زنی کا نشانہ نہ بنیں ۔
٤/ جہاں امام کا یہ حق ہے کہ اس کی عزت کی جائے وہیں امام کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی بھی کی جائے امام کو پریشان دیکھ کر اسکی پریشانی دور کرنے کی کوشش کی جائے اور ہمت بڑھائی جائے حوصلہ دیا جائے۔
٥/ مسجد کمیٹی پر یہ لازم ہے کہ امام کی معقول تنحواہ مقرر کی جائے اور اس کی ضروریات کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے ۔جس طرح ہمارے دیگر طبقے کے ملازمین کی تنخوائیں ہوتی ہیں اسی طرح مسجد کے امام کی بھی معقول تنخواہ ہونی چاہئے کیونکہ یہ امام مسجد کا حق ہے ۔
٦/ مقتدیوں کو چاہئے کہ جہاں امام مسجد کی تنخواہ مقرر ہوتی ہے اسی کے ساتھ اس کی ذاتی طور پر بھی مالی خدمت کرتے رہنا چاہئے۔ امیرِ اہلِسنت دامت برکاتہم العالیہ (اپنے تصنیف کردہ) نیک اعمال نامی رسالے میں فرماتے ہیں :کیا آپ نے اس ماہ مسجد کے امام کو 112 روپے یا کم از کم 12 روپے بطورِ نزرانہ پیش کیے؟
٧/ امام مسجد کا حق ہے کہ اہلِ محلّہ اس کو اپنی خو شی غمی کے معاملات میں یاد رکھیں ہمارے ہاں غمی کے مواقع پر تو امام صاحب کو فاتحہ وغیرہ کے لئے بلایا جاتا ہے لیکن خوشی کے مواقع میں امام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
٨/ جس طرح کئی یا تقریباً تمام ہی نوکری کرنے والے افراد کے لئے ہفتے میں ایک دن چھٹی مقرر ہوتی ہے اسی طرح مسجد کا امام جب چھٹی پر جائے تو ا س کا یہ حق ہے کہ اسکی غیر موجودگی میں مسجد کمیٹی خوش الحان قاری صاحب کو بطورِ نائب مقرر کرے ۔
٩/ امام صاحب اگر کسی نماز میں لیٹ ہوجائیں تو اس کا یہ حق ہے کہ اس کو سُست ،کاہل ،کام چور وغیرہ کہہ کر اس کی دل آزاری نہ کی جائے کہیں یہ دل آزاری کرنے والے کو آخرت میں رسواء نہ کر دے ۔
١٠/ جن مساجد میں امام صاحب اپنی فیملی کو ساتھ رہائش پزیر ہیں اُس علاقے کے اہلِ محلہ کو چاہئے کہ وہ امام صاحب کے اہلِ خانہ کا بطورِ خاص خیال رکھیں ، ان کو احساسِ محرومی کا شکار نہ ہونے دیا جائے ۔(ماہنامہ فیضان مدینہ 2022)
یہ دس حقوق کما حقہ اگر امام صاحب کی ادا نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنی زبان بند رکھیں۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ امام کو نوکر کہنا کیسا ہے؟
امام کو نوکر کہنے والے پر کیا حکم ہے ؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- فرمان رضا دہلی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
امام مسجد کو نوکر کہنا درست نہیں ہے جیسے ماں، باپ کی بیوی ضرور ہے مگر اسے اس لفظ کے ساتھ یاد کرنا ماں کی توہین ہے. تنخواہ لینے والا ضرور نوکر ہے مگر تنخواہ دار امام کو نوکر کہنا اس کی توہین ہے.
اگر کوئی امام کو نوکر کیے تو امام سے معافی مانگے اور آئندہ اس کے بارے میں اس لفظ کے بولنے سے احتراز کرے۔
یاد رہے کہ مسجد کے امام کو امامتِ صغریٰ کا درجہ حاصل ہے اور اس امامت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے کی نماز کا اس کے ساتھ وابستہ ہونا (بہارِ شریعت ج۱ ص 560 )
بے شک امامت ایک بڑی سعادت ہے جو خود اقا علیہ السلام
نے اس امامت کو سر انجام دیا
امام کی قدر کریں کم از کم ان کے 10 حقوق ادا کریں۔
١/ امام کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کو امام تسلیم کیا جائے اگر کسی میں امامت کی جامع شرائط پائی جا رہی ہیں اور مسجد انتظامیہ متفقہ فیصلے سے اس کو امام منتخب کرچکی ہے تو اس کو امام تسلیم کر لینا چاہیے خواہ مخواہ اس کی ذات پر کیچڑ نہ اُچھالا جائے جب تک شریعت اس کی اجازت نہ دے۔
٢/ امام کا دوسر احق یہ ہے کہ امام کی غیبت،چغلی وغیرہ سے بچا جائے کیونکہ غیبت کرنا ویسے ہی بُرا کام ہے کہ غیبت کرنے والا گویا اپنے مردار بھائی گوشت کھاتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اپنے پیش امام کی غیبت کرنا کس قدر بُرا ہوگا لہذا اپنے مسجد کے امام کی غیبت وغیرہ کرنے سے بچنا چاہیے۔
٣/ امام کا حق ہے کہ اس کی عزّت کی جائے اور ہونی بھی چاہئے کیونکہ ہماری نمازیں اس امام کے ساتھ وابستہ ہیں جب تک امام نماز شروع نہ کرے ہم نماز شروع نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے پیش امام کی عزّت کریں اور طعنہ زنی کا نشانہ نہ بنیں ۔
٤/ جہاں امام کا یہ حق ہے کہ اس کی عزت کی جائے وہیں امام کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی بھی کی جائے امام کو پریشان دیکھ کر اسکی پریشانی دور کرنے کی کوشش کی جائے اور ہمت بڑھائی جائے حوصلہ دیا جائے۔
٥/ مسجد کمیٹی پر یہ لازم ہے کہ امام کی معقول تنحواہ مقرر کی جائے اور اس کی ضروریات کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے ۔جس طرح ہمارے دیگر طبقے کے ملازمین کی تنخوائیں ہوتی ہیں اسی طرح مسجد کے امام کی بھی معقول تنخواہ ہونی چاہئے کیونکہ یہ امام مسجد کا حق ہے ۔
٦/ مقتدیوں کو چاہئے کہ جہاں امام مسجد کی تنخواہ مقرر ہوتی ہے اسی کے ساتھ اس کی ذاتی طور پر بھی مالی خدمت کرتے رہنا چاہئے۔ امیرِ اہلِسنت دامت برکاتہم العالیہ (اپنے تصنیف کردہ) نیک اعمال نامی رسالے میں فرماتے ہیں :کیا آپ نے اس ماہ مسجد کے امام کو 112 روپے یا کم از کم 12 روپے بطورِ نزرانہ پیش کیے؟
٧/ امام مسجد کا حق ہے کہ اہلِ محلّہ اس کو اپنی خو شی غمی کے معاملات میں یاد رکھیں ہمارے ہاں غمی کے مواقع پر تو امام صاحب کو فاتحہ وغیرہ کے لئے بلایا جاتا ہے لیکن خوشی کے مواقع میں امام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
٨/ جس طرح کئی یا تقریباً تمام ہی نوکری کرنے والے افراد کے لئے ہفتے میں ایک دن چھٹی مقرر ہوتی ہے اسی طرح مسجد کا امام جب چھٹی پر جائے تو ا س کا یہ حق ہے کہ اسکی غیر موجودگی میں مسجد کمیٹی خوش الحان قاری صاحب کو بطورِ نائب مقرر کرے ۔
٩/ امام صاحب اگر کسی نماز میں لیٹ ہوجائیں تو اس کا یہ حق ہے کہ اس کو سُست ،کاہل ،کام چور وغیرہ کہہ کر اس کی دل آزاری نہ کی جائے کہیں یہ دل آزاری کرنے والے کو آخرت میں رسواء نہ کر دے ۔
١٠/ جن مساجد میں امام صاحب اپنی فیملی کو ساتھ رہائش پزیر ہیں اُس علاقے کے اہلِ محلہ کو چاہئے کہ وہ امام صاحب کے اہلِ خانہ کا بطورِ خاص خیال رکھیں ، ان کو احساسِ محرومی کا شکار نہ ہونے دیا جائے ۔(ماہنامہ فیضان مدینہ 2022)
یہ دس حقوق کما حقہ اگر امام صاحب کی ادا نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنی زبان بند رکھیں۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
09/11/2023
09/11/2023