Type Here to Get Search Results !

جب مرد چار شادی کر سکتے ہیں تو عورت کیوں نہیں؟

 (سوال نمبر 4995)
جب مرد چار شادی کر سکتے ہیں تو عورت کیوں نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جب مرد چار نکاح ایک ساتھ کر سکتا ہے تو عورت چار نکاح ایک ساتھ کیوں نہیں کر سکتی ۔قرآن حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- عبد اللہ جموں انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
سب سے پہلی بات تو یہ کہ جب اللہ و رسول کا حکم جس امر میں آ جائے ہمیں اف نہیں کرنی کیوں اور کیسے ؟
رب کا حکم ہے مردوں کے لئے چار شادی کی اجازت ہے اور خواتین کہ لئے بس ایک ،عورت کو اللہ تعالی نے بہت سی رعائتیں دے رکھی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک عورت کا صرف ایک ہی شوہر ہو سکتا ہے یعنی اس پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ نسب مرد کی طرف سے ثابت ہوتا ہے یعنی بچہ مرد کے ذمہ ہوتا ہے۔ جب ایک عورت ہو اور چار شوہر ہوں تو پھر یہ معلوم نہیں ہو گا کہ بچہ کس کا ہے؟ یہ فطرت سے بھی بغاوت ہے۔ آج کل تو میڈیکل سائنس بھی یہ ثابت کر چکی ہے کہ ایک عورت جو مختلف مردوں سے زنا کرواتی ہے اس سے خطرناک قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
انسانی نسب کا تحفظ اہم فریضہ ہے اور یہ مقاصد شریعہ میں بھی داخل ہے، گر عورت کو بیک وقت ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دے دی جائے تو انسانی نسب کا تحفظ نہیں ہوسکے گا۔
عورت اور مرد کی جسمانی اور ذہنی ساخت اور بناوٹ میں فرق ہے، فطری طور پر عورت محبت اور دھیان چاہتی ہے، بیک وقت ایک سے زائد مردوں کے تعلق کو فطرتاً بُرا اور غلط سمجھتی ہے، لہذا فطرتاً عورت بیک وقت اپنی محبت، قلبی و جسمانی جذبات اور خدمات دینے کی متحمل صرف ایک ہی مرد کو ہو سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے تمام مذاہب میں حتٰی کہ لادین لوگوں میں بھی عورت کا بیک وقت ایک سے زائد مردوں سے شادی کا تصور نہیں پایا جاتا ہے، کیونکہ یہ فطرت کے خلاف ہے۔
مزید یہ کہ مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دے کر در اصل ایک سے زائد خواتین کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، تاکہ خواتین معاشرے کے رحم و کرم پر رہنے کے بجائے ایک باوقار رشتے کے تحت معاشی تحفظ کے ساتھ باوقار اور پر سکون زندگی گزار سکے۔
القرآن الکریم میں ہے 
وَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا تُقۡسِطُواْ فِي ٱلۡيَتَٰمَىٰ فَٱنكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَآءِ مَثۡنَىٰ وَثُلَٰثَ وَرُبَٰعَۖ فَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا تَعۡدِلُواْ فَوَٰحِدَةً أَوۡ مَا مَلَكَتۡ أَيۡمَٰنُكُمۡۚ ذَٰلِكَ أَدۡنَىٰٓ أَلَّا تَعُولُواْ o القرآن الکریم: (النساء، الآية: 3، 4)
  ١/ آزاد مرد کے لئے ایک وقت میں چار عورتوں تک سے نکاح جائز ہے۔
٢/ تمام امّت کا اِجماع ہے کہ ایک وقت میں چار عورتوں سے زیادہ نکاح میں رکھنا کسی کے لئے جائز نہیں سوائے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اور یہ بات آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خصوصیات میں سے ہے۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اسلام قبول کیا، اس کی آٹھ بیویاں تھیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اِن میں سے صرف چار رکھنا۔
(ابو داؤد، کتاب الطلاق، باب فی من اسلم وعندہ نساء، الخ، ۲ / ۳۹۶، الحدیث: ۲۲۴۱)
٣/ چار شادی کرنے کی اجازت اس شرط پر ہے 
اگر تمہیں اس بات کا ڈر ہو کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی صورت میں سب کے درمیان عدل نہیں کرسکو گے تو صرف ایک سے شادی کرو۔اسی سے یہ معلوم ہوا کہ اگرکوئی چار میں عدل نہیں کرسکتا لیکن تین میں کرسکتا ہے تو تین شادیاں کرسکتا ہے اور تین میں عدل نہیں کرسکتا لیکن دو میں کرسکتا ہے تو دو کی اجازت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بیویوں کے درمیان عدل کرنا فرض ہے، اس میں نئی، پرانی، کنواری یا دوسرے کی مُطَلَّقہ، بیوہ سب برابر ہیں۔ یہ عدل لباس میں ، کھانے پینے میں ، رہنے کی جگہ میں اوررات کوساتھ رہنے میں لازم ہے۔ ان امور میں سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو۔
(تفسیر صراط الجنان سورہ نساء)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
14/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area