Type Here to Get Search Results !

مسلم خواتین کا غیر مسلم ڈاکٹر کے پاس علاج کروانا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 4994)
مسلم خواتین کا غیر مسلم ڈاکٹر کے پاس علاج کروانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ آج کل لیڈی ڈاکٹر کا ملنا مشکل ہوتا ہے اور کبھی ایمرجنسی میں عورت کو مرد ڈاکٹر کو ہی چیک کرانا لازم ہوتا ہے ۔اب مرد ڈاکٹر bp۔چیک کرتا ہے اسی طرح heart beat .چیک کرتا ہے اور عورت کے سینے پر مشین رکھ کر چیک کرتا ہے ۔
تو کیا اس کی اجازت ہے کہ مرد ڈاکٹر عورت کے سینے پر ہاتھ کے ذریعہ مشین رکھے اور چیک کرے۔
سائل:- عبد اللہ جموں کشمیر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ سوال قابل غور و فکر ہے اب جو لوگ مسلم عورتوں کو کالج یا یونیورسٹی پڑھانے سے منع کرتے ہیں حتی کہ بہت سے تنگ ذہن و فکر کے لوگ مدراس اسلامیہ میں بھی جانے سے منع کرتے ہیں انہیں اپنی عقل و شعور پر ماتم کرنی چاہئے ۔ہند و نیپال میں آپریشن کے بڑے بڑے ڈاکٹرس غیر مسلم ہی ہے اب مسلمہ عورتیں کہاں جائیں حتی بعض دیہی علاقوں میں صرف غیر مسلم ڈاکٹرس ہوتے ہیں وہاں کیا کیا جائے ؟۔
اس لئے میں اکثر اس بات پر زور دیتا ہوں کہ تعلیمی میدان میں چاہے وہ دینی ہو یا دنیاوی مرد و زن میں شرعا کوئی تفریق نہیں ہے، 
جب مسلم لڑکیاں تعلیم میں اگے ائےگی پھر ڈاکٹرس بنے گی پھر ہماری ماں اور بہنیں غیر محرم ڈاکٹرس یا غیر مسلم ڈاکٹرس سے بچ پائے گی اس سے پہلے کوئی طریق نہیں ہے۔ یاد رہے حدود شرع میں رہ کر عورتیں ہر کام کر سکتی ہے ۔  
اب ہم جواب کی طرف اتے ہیں اگر مسلمہ ڈاکٹر موجود ہو پھر مرد ڈاکٹر سے کے پاس نہ جائے 
خواتین کے لیے نامحرم کے سامنے علاج کی غرض سے متاثرہ بدن کھولنے کی ضرورت کی بنیاد پر ضرورت ہی کے بقدر گنجائش ہے لیکن جب اسی فیلڈ کی ڈاکٹرعورت موجود ہو تو نامحرم مرد ڈاکٹر کے سامنے بدن کھولنا، آپریشن کرانا اورڈاکٹر کے لیے کرنا دونوں جائز نہیں۔ مرد ڈاکٹر کو چاہیے کہ وہ کسی عورت ڈاکٹر کی جانب راہ نمائی کردے۔ اور اگر کوئی عورت اس فیلڈ کی نہ ملے تو وہ علاج مرد ڈاکٹر سے کرانا بھی جائز ہے
قواعد الفقه میں ہے 
إذا تعارض مفسدتان روعي أعظمهما ضرراً بارتکاب أخفهما"۔
(ص/۵۶ ، فقه النوازل :۴/۲۱۴ ، أحکام الجراحة)
الفتاوی الهندیة میں ہے 
امرأة أصابتها قرحة في موضع لایحل للرجل أن ینظر إلیه، لایحل أن ینظر إلیهما، لکن تعلم امرأة تداویها، فإن لم یجدوا امرأة تداویها ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت، وخیف علیها البلاء والوجع أو الهلاك، فإنه یستر منها کل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم یداویها الرجل ویغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، ولا فرق في هذا بین ذوات المحارم وغیرهنّ، لأن النظر إلی العورة لایحل بسبب المحرمیة"۔
(۵/۳۳۰ ، کتاب الکراهية، الباب الثامن فیما یحل للرجل النظر الخ)
رد المحتار میں ہے 
إذا کان المرض في سائر بدنها غیر الفرج یجوز النظر إلیه عند الدواء؛ لأنه موضع ضرورة، وإن کان في موضع الفرج، فینبغي أن یعلم امرأة تداویها، فإن لم توجد وخافوا علیها أن تهلك أو یصیبها وجع لاتحتمله یستروا منها کل شيء إلا موضع العلة، ثم یداویها الرجل، ویغضّ بصره ما استطاع إلا عن موضع العلة، ثم یداویها الرجل ویغضّ بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح۔
(۹/۴۵۳ رد المحتار الحظر والإباحة ، فصل في النظر والمسّ)
اور اگر آپریشن کی ضرورت ہو 
اور مسلم ڈاکٹر نہ ہو یا ہوں پر ماہر نہ ہوں پھر جتنی ضرورت ہے اتنی ستر کھول سکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں ۔
یہ اس صورت میں ہے جب  
مرد ڈاکٹر سے علاج معالجہ یا سرجری کروانا ناگزیرہو تو ضرورت کے بقدر مرد ڈاکٹر کے سامنے بھی  جسم کا وہ حصہ کھولنے کی گنجائش ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جب علاج کے لیے کوئی ماہر خاتون ڈاکٹر دست یاب نہیں ہوں تو ماہر مرد ڈاکٹر سے علاج کرواسکتی ہیں ، شرعاً اس کی گنجائش ہے۔
كما في الفتاوى الهندية
ويجوز النظر إلى الفرج للخاتن وللقابلة وللطبيب عند المعالجة ويغض بصره ما استطاع، كذا في السراجية. ... امرأة أصابتها قرحة في موضع لايحل للرجل أن ينظر إليه لايحل أن ينظر إليها لكن تعلم امرأة تداويها، فإن لم يجدوا امرأة تداويها، ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت وخيف عليها البلاء أو الوجع أو الهلاك، فإنه يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، ولا فرق في هذا بين ذوات المحارم وغيرهن؛ لأن النظر إلى العورة لايحل بسبب المحرمية، كذا في فتاوى قاضي خان.
الفتاوى الهندية (5/ 330)
واضح رہے کہ علاج معالجہ کا تعلق میڈیکل اور طب کے شعبے سے ہو، تو ہندو ڈاکٹر سے علاج کرانا شرعاً جائز ہے۔
البحر الرائق میں ہے 
وفيه إشارة إلى أن المريض يجوز له أن يستطب بالكافر فيما عدا إبطال العبادة۔
البحر الرائق
(فصل في العوارض، 303/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
14/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area