Type Here to Get Search Results !

کیا مذی سے غسل فرض ہوتا ہے؟

 (سوال نمبر 4954)
کیا مذی سے غسل فرض ہوتا ہے؟
اور جس کپڑے پر لگ جائے اس کپڑے کا کیا حکم ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ لڑکی سے بات کرنے سے يا پھِر بے پردہ ویڈیوز دیکھنے سے جو پانی مذی نکل آتا ہے اس سے غسل فرض ہوگا کِہ نہیں؟ اور ایک بار پانی نکلا جو ائک درہم سے کم تھا اور وہ سوکھ گیا پھر تھوڑی دیر بعد نکلا اور وہ بھی ایک درہم سے کم تھا اور وہ بھی سوکھ گیا پھِر نکلا آلاخر۔ اب اگر سب کو ملایا جائے تو ائک درہم سے زیادہ ہوگا تو حضرت اس سے وہ کپڑا جس پر بار بار مذی لگتی تھی وہ ناپاک ہوگا کہ نہیں؟ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔ 
سائل:- محمد ذیشان شمسی ساکن یو پی انڈیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ مذی خارج ہونے سے غسل فرض نہیں ہوتا یے چاہے جتنی بار نکلے البتہ اگر باوضو ہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
اور جس جگہ لگی ہو کم یا زیادہ اسے دھوکر پاک کرے۔
مذی پتلی سفیدی مائل پانی کی رنگت کی طرح ہوتی ہے اور اس کے نکلنے کا احساس بھی نہیں ہوتا، اس کے نکلنے پر شہوت قائم رہتی ہے اور جوش کم نہیں ہوتا بلکہ شہوت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اس کے خروج سے غسل فرض نہیں ہوتا البتہ اس کے خروج سے وضو ٹوٹ جاتاہے، اور نماز و دیگر عبادات، جیسے قرآن مجید کی تلاوت وغیرہ کے لیے وضو کرنا ضروری ہوتا ہے
مذی جسم یا کپڑے پر لگی ہو تو نماز ادا کرنے سے پہلے اسے پاک کرنا ضروری ہوگا۔ اگر ایک درہم یا ایک درہم سے زیادہ زیادہ لگی رہ گئی اور اس حالت میں نماز ادا کی تو اس نماز کو لوٹانا واجب ہوگا۔اگر ایک درہم سے کم ہے پھر پاک کرنا سنت ہے ۔اگر اسی حال میں نماز پڑھی تو اعادہ مستحب ہے۔
٢/ تھوڑی تھوڑی مختلف اوقات میں لگی ہو، یا نماز سے پہلے قدر درہم سے کم لگی تھی لیکن نماز کے وقت قدر درہم سے زیادہ جگہ پر پھیل گئی ہو
تو نماز نہیں ہوگی 
 قال الشامي
لو أصاب ثوبہ دہن نجس أقل من قدر الدرہم ثم انبسط وقت الصلاة فزاد علی الدرہم قیل یمنع وبہ أخذ الأکثرون․
حدیث شریف میں ہے 
روایت ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے
مذی کے متعلق پوچھاتو فرمایا کہ مذی سے وضو ہے اورمنی سے غسل(ترمذی)
منی و مذی میں یہ فرق ہے کہ منی شہوت توڑ دیتی ہے۔اور
مذی بڑھا دیتی ہے۔،نیز منی دودھ کی طرح سفید اور گاڑھی لیسدار ہوتی ہے اور
 مذی پیشاب کی طرح مگر لیسدار۔
(المرأة المناجیح ج ج 1 ص 299 مکتبہ المدینہ)
مراقي الفلاح میں ہے
منها مذي.... وهو ماء أبيض رقيق يخرج عند شهوة لا بشهوة ولا دفق ولا يعقبه فتور وربما لا يحس بخروجه وهو أغلب في النساء من الرجال.ويسمى في جانب النساء قذى بفتح القاف والدال المعجمة. "و" منها "ودي" بإسكان الدال المهملة وتخفيف الياء وهو ماء أبيض كدر ثخين لا رائحة له يعقب البول وقد يسبقه أجمع العلماء على أنه لايجب الغسل بخروج المذي والودي۔
(حاشية الطحطاوی علی المراقي، فصل: عشرة أشياء لايغتسل، ١ / ١٠٠ - ١٠١)
تنوير الأبصار مع الدر المختار میں ہے
(لَا) عِنْدَ (مَذْيٍ أَوْ وَدْيٍ) بَلْ الْوُضُوءُ مِنْهُ وَمِنْ الْبَوْلِ جَمِيعًا عَلَى الظَّاهِرِ (الشامیة، ١/ ١٦٥)
فتاویٰ شامی میں ہے
(و عفا) الشارع (عن قدر درهم) وإن كره تحريماً، فيجب غسله و ما دونه تنزيهاً فيسن، و فوقه مبطل (وهو مثقال) عشرون قيراطاً (في) نجس (كثيف) له جرم (و عرض مقعر الكف) و هو داخل مفاصل أصابع اليد (في رقيق من مغلظة كعذرة) آدمي و كذا كل ما خرج منه موجبًا لوضوء أو غسل مغلظ.
(1/316،ط:بیروت)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
11/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area