Type Here to Get Search Results !

کیا جان بوجھ کر باربار نماز چھوڑنے والا کافر ہوجاتا ہے؟

 (سوال نمبر 4953)
کیا جان بوجھ کر باربار نماز چھوڑنے والا کافر ہوجاتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کچھ دن نماز پڑھنا ہے پھر چھوڑ دیتا ہے ایسا وہ بار بار کر تا ہے 
اس کے بارے حکم شرع کیا ہے 
۲ من ترک الصلوۃ متعمدا فقد کفر ،کی روشنی میں کیا زید سے کفر سرزد ہوا اور یہاں کفر سے کونسا کفر مراد ہے ؟
وضاحت فرمائیں عین نوازش ہو گی 
سائل:- علیم الدین ضلع کشی نگر یو پی انڈیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ ہر عاقل بالغ مسلمان مرد و زن پر پنجوقتہ نماز پڑھنا فرض عین ہے ۔ایک وقت کی نماز عمدا ترک کرنےبوالا گناہ کبیرہ کا مرتکب اور فاسق ہے 
زید نے جتنی نماز چھوڑی سب کی قضا فرض ہے ۔اور توبہ بھی کرے۔
٢/عمدا نماز چھوڑنے والا کافر نہیں ہوتا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا یے ۔البتہ اگر کوئی نماز کا انکار کرے تو کافر ہوجاتا یے 
مذکورہ حدیث پاک میں نماز کی اہمیت اور تاکید مراد یے ۔
اقا علیہ السلام نے فرمایا 
إِنَّ الْعَهْدَ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ.
’یقینا ہمارے اور ان (کفار) کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے، لہٰذا جس نے نماز کو ترک کیا (گویا) اس نے کفر کیا (عہد سے منہ موڑ لیا)
(ابن حبان، الصحيح، 4: 305، الرقم: 1454)
جان بوجھ کر قصدا نماز کو چھوڑنا گناہ کبیرہ یعنی بڑا گناہ ہے اور گناہ کبیرہ کا مرتکب فاسق ہوتا ہے، کافر نہیں ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے شخص کوتہدیداً یعنی دھمکی کے طور پر کافر فرمایا ہے، تاکہ وہ اس کے ترک کرنے سے بچ سکے۔ اور صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر نہیں ہوتا کہ وہ دائرہ اسلام سے نکل جائے، بلکہ اس گناہ کی وجہ سے فاسق ہوجاتا ہے۔ 
صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے جسم مبارک پر سفید کپڑا تھا اور آپ سو رہے تھے، پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہو چکے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الجَنَّةَ قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ» قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ» قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ» وَكَانَ أَبُو ذَرٍّ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا قَالَ: وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي ذَرٍّ.
جس بندہ نے بھی کلمہ «لا إله إلا الله» ’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ کو مان لیا اور پھر اسی پر وہ مرا تو جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، میں نے پھر عرض کیا: چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ فرمایا: چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ میں نے (حیرت کی وجہ سے پھر) عرض کیا: چاہے اس نے زنا کیا ہو یا اس نے چوری کی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو۔ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔ ابوذر رضی اللہ عنہ بعد میں جب بھی یہ حدیث بیان کرتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ ابوذر کے لیے «وإن رغم أنف أبي ذر‏‏») ضرور بیان کرتے۔(البخاري، الصحيح، كتاب اللباس، باب الثياب البيض، 5: 2193، الرقم: 5489، بيروت: دار ابن كثير اليمامة)
یہ حدیث مبارکہ واضح طور پر دلالت کر رہی ہے کہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب مسلمان، اگر ایمان کی حالت میں اس دنیا سے چلا گیا ہے تو وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا، چاہے اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر ہی ہو۔ اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں علی بن سلطان المعروف ملاء علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں
فَفِيهِ بِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ عَاقِبَتَهُ دُخُولُ الْجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ لَهُ ذُنُوبٌ جَمَّةٌ، لَكِنَّ أَمْرَهُ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ وَأَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ بِقَدْرِ ذَنْبِهِ، ثُمَّ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ.
اس حدیث میں اس بات کی خوشخبری ہے کہ مسلمان بالآخر انجام کار کے اعتبار سے جنت میں داخل ہوگا، چاہے اس پر گناہوں کے انبار ہی کیوں نہ ہوں لیکن اس کا معاملہ اللہ کے قبضے میں ہے، چاہے تو معاف فرما دیں اور جنت میں داخل فرما دیں اور چاہیں تو گناہوں کے بقدر سزا دیں اور پھر جنت میں داخل فرمائیں۔
(مرقاة المفاتيح، 1: 175، بيروت: دار الكتب العلمية)
یہ بات واضح ہے کہ جنت میں کافر کو ہرگز داخل نہیں کیا جائےگا، لہٰذا معلوم ہوا کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب فاسق تو ہے، لیکن کافر نہیں ہے۔ اور جن احادیث میں یہ آیا ہے کہ بندہ اور کفر کے درمیان فرق صرف نماز چھوڑنا ہے۔اس کے محدثین نے کئی مطلب لکھے ہیں
١/ اس حدیث کا مطلب ہے کہ جو نماز چھوڑنے کو حلال سمجھے وہ کافر ہے، البتہ جو اس کو حلال نہ سمجھے، بلکہ اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے نماز کو ادا نہ کر سکے تو وہ اس حکم میں داخل نہ ہوگا، وہ فاسق ہے۔
٢/ اس حدیث کا مطلب ہے کہ نماز چھوڑنا کفر تک پہنچا دیتا ہے۔
٣/ اس حدیث کا مطلب ہے کہ نماز کے چھوڑنے والے کے بارے میں یہ خدشہ ہے کہ وہ کافر ہو کر مرے۔
٤/ نماز کا چھوڑنا کافرانہ عمل ہے ، اس کے چھوڑنے والے نے گویا کافروں والا کام کیا۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
11/11_2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area