Type Here to Get Search Results !

کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت 13 رجب کو ہوئی؟

  •┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
 کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت 13 رجب کو ہوئی؟
••────────••⊰❤️⊱••───────••
جیسا کی آج کے دور میں تاریخ ولادت محفوظ کرنے کا رواج ہے ایسا رواج زمانہ قدیم میں تاریخ ولادت محفوظ رکھنے کا رواج نہ تھا اور نہ ہی اس وقت اس کی ضرورت پیش آتی تھی برخلاف ہمارے دور کے کہ اس دور میں ضرورت پیش آتی ہے اسی لیۓ تاریخ ولادت محفوظ کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے تمام صحابہ کرام کی تاریخ ولادت محفوظ نہیں ہے اور اگر بعض اوقات تاریخ ولادت معلوم ہو بھی جاۓ تو اس میں شدید اختلاف ہوتا ہے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بھی ولادت کی تاریخ محفوظ نہیں ہے۔ 13 رجب یہ تاریخ محض ایک اندازہ سے متعین کی گئ ہے اس متعین کرنے میں شیعوں کی کتب کا زیادہ اعتبار کیا گیا ہے۔ شیعہ حضرات نے 13 رجب تاریخ ایک واقعہ سے متعین کی ہے مگر وہ واقعہ بھی غیر معتبر ہے۔ شیعہ حضرات کا یہ نظریہ ہے حضرت علی کی ولادت کعبہ میں ہوئی کہ وقت ولادت آپ کی والدہ کو وحی ہوئی تو آپ کعبہ میں گئیں وہاں حضرت علی کی ولادت ہوئی اور یہ تاریخ ولادت 13 رجب تھی۔ اول تو غیر نبی کی طرف وحی کی نسبت کرنا گمراہی و کفر ہے۔
امام اہلسنت سیدی اعلٰی حضرت رحمتة اللہ علیہ فرماتے ہیں
یہ جو کہا جاتا ہے کہ فاطمہ بنت اسد کو وحی آئی خانہ کعبہ میں جائے اور وہاں بچے کی پیدائش کر یہ سب جھوٹ اور باطل ہے کیونکہ کوئی بھی اسلامی ہو یا غیر اسلامی فرقہ فاطمہ بنت اسد کی نبوت کا قائل نہیں ہے
 
(فتاویٰ رضویہ جلد 15 صفحہ 196)
دوم حضرت علی کی ولادت کعبہ میں نہ ہوئی یہی صحیح و راجح ہے۔ بات در اصل یہ ہے مولا علی کی ولادت کعبہ میں ہوئ اس بات کے پیچھے شیعہ حضرات کا ایک کفریہ عقیدہ پوشیدہ ہے۔ شیعہ حضرات مولی علی کو انبیاء علیہم السلام سے افضل قرار دیتے ہیں۔ کعبہ میں ولادت ہوئی اس بات کے پیچھے شیعہ حضرات کا نبی سے حضرت علی کا افضل ہونا پوشیدہ ہے۔
شیعہ حضرات کہتے ہیں۔ کہ حضرت مریم کو حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کے وقت بیت المقدس سے بہار نکال دیا گیا تھا مگر حضرت علی کی ولادت کعبہ میں ہوئی تو حضرت علی حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل ہوۓ۔ اور یہ بات بالکل ظاہر ہے غیر نبی کو نبی سے افضل ماننا گمراہی و کفر ہے۔
جس روایت سے حضرت علی کی ولادت کی 13 رجب مقرر کی گئ وہ یہ ہے ۔
شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
مشہور روایت میں آیا ہے ایام جاہلیت میں 15 رجب کو کعبہ کا دروازہ کھولتے اور اس میں داخل ہوتے زیارت کرنے کے لیۓ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت چونکہ 15 رجب کو ہوئی اس لیۓ اس کو روزہ مریم بھی کہتے ہیں۔ رسم یہ تھی عورتیں 15 رجب سے ایک یا دو روز قبل زیارت کرتی حضرت علی کی والدہ بھی زیارت کے لیۓ آئی اور وہی آپ کی ولادت ہوئی۔
تحفہ اثنہ عشریہ صفحہ 165
یہی وہ روایت ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ حضرت علی کی ولادت 13 رجب کو ہوئی یعنی آپ کی والدہ کعبہ کی زیارت کے لیۓ رسم کے مطابق 15 رجب سے 2 دن پہلے یعنی 13 کو گئیں حالانکہ دو دن پہلے تسلیم کرنا کسی دلیل سے ثابت نہیں ممکن 1 دن پہلے گئیں ہوں یعنی 14 رجب کو اور پھر یہ روایت یعنی کعبہ میں پیدا ہونے والی بھی ضعیف و مجروح ہے شاہ صاحب مزید فرماتے ہیں۔
تاریخ کی معتبر کتب یہ بتاتی ہیں حضرت حکیم بن حزام کعبہ میں پیدا ہوۓ تھے سو شیعہ منطق کی رو سے ان کو بھی حضرت عیسی علیہ السلام ہی نہیں تمام انبیاء سے افضل ہونا چاہئے
(تحفہ اثنہ عشریہ صفحہ 166)
الإصابة في تمییز الصحابة میں علامہ عسقلانی فرماتے ہیں۔
 ولد قبل البعثة بعشر سنين على الصحيح
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت بعثت سے 10 سال قبل ہوئی 
(العين بعدها اللام، ج:4 :464)
خلاصہ کلام یہ ہے 13 رجب محض ایک اندازہ سے مقرر کی گئ ہے اور جس روایت سے یہ اندازہ مقرر کیا گیا ہے وہ ضعیف ہے اور اس کے پیچھے شیعہ حضرات کا کفریہ عقیدہ پوشیدہ ہے
 معتبر کتب میں صرف اتنا ملتا ہے بعثت سے 10 سال قبل ولادت ہوئی۔
••────────••⊰❤️⊱••───────••
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
 ہلدوانی نینیتال
9917420179

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area