مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما
امریکہ چاہتا ہے کہ جنگ نہ پھیلے
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
امریکہ چاہتا ہے کہ جنگ نہ پھیلے
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
(1)امریکہ چاہتا ہے کہ اسرائیل وفلسطین کی جنگ نہ پھیلے۔جنگ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے امریکہ شروع دن سے کوشش کر رہا ہے۔اکتوبر ہی میں امریکہ کا صدر اور دیگر وزرا مشرق وسطی آئے اور عرب ممالک سے بات چیت کئے اور جنگ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے امریکہ اور مغربی ممالک کے وزرا ولیڈران مسلسل عرب دنیا میں آتے رہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کو نیست ونابود کر دے اور سارے مسلمان خاموش تماشائی بنے رہیں۔اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرار داد پیش ہو تو امریکہ اس کی مخالفت کرے،تاکہ اسرائیل بلا روک ٹوک فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کر سکے۔ابھی امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا دورہ بھی جنگ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ہے،یعنی مسلمان ممالک کو ڈرانے دھمکانے کے لئے ہے،لیکن جن کو میدان میں نہیں آنا تھا،وہ آج تک میدان میں نہ آ سکے اور جن کو میدان میں اترنا تھا،وہ اتر چکے ہیں اور حسب قوت کام کر رہے ہیں۔
اسرائیل شام،لبنان،ایران پر حملے کر رہا ہے،لیکن امریکہ نے اسرائیل کو کبھی نہیں کہا کہ جنگ مت پھیلاؤ۔اگر کبھی ایسا کہتا بھی ہے تو محض دنیا کو دھوکا دینے کے لئے کہتا ہے اور اسرائیل کو مسلسل ہتھیار بھی بھیج رہا ہے۔اس سے بالکل واضح ہے کہ امریکہ ڈبل پالیسی اختیار کر رہا ہے اور امریکہ کی ڈبل پالیسی مشہور زمانہ ہے۔
(2)یمن ایک کمزور ملک ہے۔معاشی حالت خستہ ہے۔بہت بڑی فوجی قوت بھی نہیں،لیکن پیٹ پر پتھر باندھ کر میدان عمل میں ہے۔یمن کے خلاف امریکہ کبھی چوالیس ملکوں کا اتحاد بناتا ہے،کبھی بائیس ملکوں کا اتحاد،کبھی بارہ ملکوں کا اور کبھی دس ملکوں کا اتحاد،لیکن:
ع/ اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
امریکہ پیچ وتاب کھا رہا ہے۔یمن کو ڈرا نہ سکا،بلکہ خود ہی جنگ کے نتائج سے ڈرا ہوا ہے اور ان مسلم ممالک کو ڈرا رہا ہے جو پہلے ہی سے ڈرے ہوئے ہیں۔
(3)ترکی کے پاس فوجی قوت بھی ہے اور معاشی حالت بھی اچھی ہے،لیکن وہ 1952 سے نیٹو کا ممبر ہے،یعنی فوجی محاذ پر امریکہ کا غلام ہے،نیز یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے ایک مدت سے ہاتھ پیر مار رہا ہے۔ترکی میں امریکہ واسرائیل کے فوجی اڈے بھی ہیں۔
ترکی یورپی یونین کی رکنیت کو اپنے لئے معراج کمال سمجھتا ہے۔ترکی کا شہر قسطنطنیہ یورپ میں ہے۔اسی اعتبار سے وہ یورپی یونین کی رکنیت کا دعویٰ پیش کرتا ہے۔حدیث نبوی میں ارشاد فرمایا گیا کہ آخری زمانہ میں قسطنطنیہ پر نصاری کا قبضہ ہو جائے گا،یعنی جس شہر کی بنیاد پر ترکی یورپی یونین کی رکنیت کا متمنی ہے،وہ ترکی کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔یورپی یونین کی رکنیت ملے گی یا نہیں،اس کا علم اللہ تعالی کو ہے۔
بہر حال ترکی سے بڑی امیدیں وابستہ کرنا غلط ہے۔ترکی کسی مسلم ملک کی فوجی مدد نہیں کر سکتا ہے۔ہاں،وہ مسلمانوں پر غیروں کے مظالم دیکھ کر عورتوں کی طرح ماتم کرے گا اور کچھ مالی امداد فراہم کرے گا اور اتنا کام عام مسلمان بھی کر لیتے ہیں،بلکہ غیر مسلمین بھی اپنی ڈیوٹی،اپنی تجارت اور صنعت وحرفت چھوڑ کر مظالم کے خلاف احتجاج ومظاہرے کے لئے سڑکوں پر اترتے ہیں،جیل جاتے ہیں،پولیس کی لاٹھیاں کھاتے ہیں۔ظالم پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے ہیں۔ظالموں کے مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔اپنے لیڈروں پر دباؤ ڈالتے ہیں۔مظلوموں کی مالی مدد کرتے ہیں اور مظلوموں سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔
اسرائیل کے سخت ظلم وستم کے باوجود ترکی اپنے یہاں سے اسرائیل کا فوجی اڈہ بھی ختم نہ کر سکا،نہ ہی تجارتی تعلقات ختم کیا۔اگر ترکی نے حماس کو دہشت گرد نہیں کہا تو بے شمار غیر مسلم ممالک حماس کو دہشت گرد نہیں کہتے ہیں،جیسے بھارت کی متعصب حکم راں پارٹی بھی حماس کو دہشت گرد نہیں کہتی ہے۔ترکی نے غزہ پٹی میں انسانی ضروریات کے ساز وسامان بھیجے تو انڈیا کی بھاجپائی حکومت نے بھی دو بار غزہ پٹی کے مسلمانوں کے لئے انسانی ضرورتوں کے ساز وسامان بھیجے ہیں۔اقوام متحدہ میں ترکی فلسطین کے ساتھ ہے تو بھارت بھی اقوام متحدہ میں فلسطین کے ساتھ ہے۔آخر غیروں اور اپنوں میں فرق کیا ہوا۔
(4)یمن کا حوثی قبیلہ زیدی شیعہ ہے۔اسی قبیلہ کی تحریک انصار اللہ ہے۔یہی لوگ بحر احمر میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو آنکھیں دکھا رہے ہیں اور ظالموں سے مسلسل ٹکر لے رہے ہیں۔حزب اللہ بھی شیعوں کی تحریک ہے جو لبنان کی طرف سے اسرائیل پر حملہ آور ہے۔شامی حکومت بھی شیعوں کی حکومت ہے جو گولان ہائٹس سے اسرائیل پر حملے کر رہی ہے۔ایران بھی شیعہ ملک ہے جو تمام ذیلی قوتوں کو مدد فراہم کر رہا ہے۔
داعش وہابیوں کی تحریک ہے جسے امریکہ واسرائیل نے مسلمانوں کی تباہی کے لئے ایک مدت قبل وجود دیا ہے جیسے عہد ماضی میں وہابی تحریک تشکیل دی گئی تھی۔داعش اور وہابیہ اسرائیل وامریکہ کے ساتھ ہیں۔
جس طرح شیعہ ممالک اور شیعہ تحریکیں دشمنان اسلام کے خلاف میدان عمل میں ہیں،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالی عنہ کا ظہور ہو گا تو شیعہ لوگ ان کے ساتھ ہو جائیں گے اور پھر ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں گے۔حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالی عنہ اہل سنت وجماعت سے ہوں گے اور مجتہد مطلق ہوں گے۔ان کے عہد میں مذاہب اربعہ پر عمل ختم ہو جائے گا اور امام مہدی رضی اللہ تعالی عنہ کے فقہی مذہب پر عمل ہو گا۔
وہابیہ تو شاید دجال ہی کے ساتھ رہیں گے۔دجالی لشکر میں ستر ہزار یہودی ہوں گے اور ستر ہزار بدمذہب کلمہ ہوں گے۔خبر ملی ہے کہ سعودی حکومت نے مدینہ منورہ کے قریب پہاڑی پر دجال کے استقبال کے لئے ایک محل بنوایا ہے اور دجال کے لئے ایک شہر بھی بنایا ہے۔گوگل پر ساری تفصیل موجود ہے۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کو نیست ونابود کر دے اور سارے مسلمان خاموش تماشائی بنے رہیں۔اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرار داد پیش ہو تو امریکہ اس کی مخالفت کرے،تاکہ اسرائیل بلا روک ٹوک فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کر سکے۔ابھی امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا دورہ بھی جنگ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ہے،یعنی مسلمان ممالک کو ڈرانے دھمکانے کے لئے ہے،لیکن جن کو میدان میں نہیں آنا تھا،وہ آج تک میدان میں نہ آ سکے اور جن کو میدان میں اترنا تھا،وہ اتر چکے ہیں اور حسب قوت کام کر رہے ہیں۔
اسرائیل شام،لبنان،ایران پر حملے کر رہا ہے،لیکن امریکہ نے اسرائیل کو کبھی نہیں کہا کہ جنگ مت پھیلاؤ۔اگر کبھی ایسا کہتا بھی ہے تو محض دنیا کو دھوکا دینے کے لئے کہتا ہے اور اسرائیل کو مسلسل ہتھیار بھی بھیج رہا ہے۔اس سے بالکل واضح ہے کہ امریکہ ڈبل پالیسی اختیار کر رہا ہے اور امریکہ کی ڈبل پالیسی مشہور زمانہ ہے۔
(2)یمن ایک کمزور ملک ہے۔معاشی حالت خستہ ہے۔بہت بڑی فوجی قوت بھی نہیں،لیکن پیٹ پر پتھر باندھ کر میدان عمل میں ہے۔یمن کے خلاف امریکہ کبھی چوالیس ملکوں کا اتحاد بناتا ہے،کبھی بائیس ملکوں کا اتحاد،کبھی بارہ ملکوں کا اور کبھی دس ملکوں کا اتحاد،لیکن:
ع/ اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
امریکہ پیچ وتاب کھا رہا ہے۔یمن کو ڈرا نہ سکا،بلکہ خود ہی جنگ کے نتائج سے ڈرا ہوا ہے اور ان مسلم ممالک کو ڈرا رہا ہے جو پہلے ہی سے ڈرے ہوئے ہیں۔
(3)ترکی کے پاس فوجی قوت بھی ہے اور معاشی حالت بھی اچھی ہے،لیکن وہ 1952 سے نیٹو کا ممبر ہے،یعنی فوجی محاذ پر امریکہ کا غلام ہے،نیز یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے ایک مدت سے ہاتھ پیر مار رہا ہے۔ترکی میں امریکہ واسرائیل کے فوجی اڈے بھی ہیں۔
ترکی یورپی یونین کی رکنیت کو اپنے لئے معراج کمال سمجھتا ہے۔ترکی کا شہر قسطنطنیہ یورپ میں ہے۔اسی اعتبار سے وہ یورپی یونین کی رکنیت کا دعویٰ پیش کرتا ہے۔حدیث نبوی میں ارشاد فرمایا گیا کہ آخری زمانہ میں قسطنطنیہ پر نصاری کا قبضہ ہو جائے گا،یعنی جس شہر کی بنیاد پر ترکی یورپی یونین کی رکنیت کا متمنی ہے،وہ ترکی کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔یورپی یونین کی رکنیت ملے گی یا نہیں،اس کا علم اللہ تعالی کو ہے۔
بہر حال ترکی سے بڑی امیدیں وابستہ کرنا غلط ہے۔ترکی کسی مسلم ملک کی فوجی مدد نہیں کر سکتا ہے۔ہاں،وہ مسلمانوں پر غیروں کے مظالم دیکھ کر عورتوں کی طرح ماتم کرے گا اور کچھ مالی امداد فراہم کرے گا اور اتنا کام عام مسلمان بھی کر لیتے ہیں،بلکہ غیر مسلمین بھی اپنی ڈیوٹی،اپنی تجارت اور صنعت وحرفت چھوڑ کر مظالم کے خلاف احتجاج ومظاہرے کے لئے سڑکوں پر اترتے ہیں،جیل جاتے ہیں،پولیس کی لاٹھیاں کھاتے ہیں۔ظالم پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے ہیں۔ظالموں کے مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔اپنے لیڈروں پر دباؤ ڈالتے ہیں۔مظلوموں کی مالی مدد کرتے ہیں اور مظلوموں سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔
اسرائیل کے سخت ظلم وستم کے باوجود ترکی اپنے یہاں سے اسرائیل کا فوجی اڈہ بھی ختم نہ کر سکا،نہ ہی تجارتی تعلقات ختم کیا۔اگر ترکی نے حماس کو دہشت گرد نہیں کہا تو بے شمار غیر مسلم ممالک حماس کو دہشت گرد نہیں کہتے ہیں،جیسے بھارت کی متعصب حکم راں پارٹی بھی حماس کو دہشت گرد نہیں کہتی ہے۔ترکی نے غزہ پٹی میں انسانی ضروریات کے ساز وسامان بھیجے تو انڈیا کی بھاجپائی حکومت نے بھی دو بار غزہ پٹی کے مسلمانوں کے لئے انسانی ضرورتوں کے ساز وسامان بھیجے ہیں۔اقوام متحدہ میں ترکی فلسطین کے ساتھ ہے تو بھارت بھی اقوام متحدہ میں فلسطین کے ساتھ ہے۔آخر غیروں اور اپنوں میں فرق کیا ہوا۔
(4)یمن کا حوثی قبیلہ زیدی شیعہ ہے۔اسی قبیلہ کی تحریک انصار اللہ ہے۔یہی لوگ بحر احمر میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو آنکھیں دکھا رہے ہیں اور ظالموں سے مسلسل ٹکر لے رہے ہیں۔حزب اللہ بھی شیعوں کی تحریک ہے جو لبنان کی طرف سے اسرائیل پر حملہ آور ہے۔شامی حکومت بھی شیعوں کی حکومت ہے جو گولان ہائٹس سے اسرائیل پر حملے کر رہی ہے۔ایران بھی شیعہ ملک ہے جو تمام ذیلی قوتوں کو مدد فراہم کر رہا ہے۔
داعش وہابیوں کی تحریک ہے جسے امریکہ واسرائیل نے مسلمانوں کی تباہی کے لئے ایک مدت قبل وجود دیا ہے جیسے عہد ماضی میں وہابی تحریک تشکیل دی گئی تھی۔داعش اور وہابیہ اسرائیل وامریکہ کے ساتھ ہیں۔
جس طرح شیعہ ممالک اور شیعہ تحریکیں دشمنان اسلام کے خلاف میدان عمل میں ہیں،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالی عنہ کا ظہور ہو گا تو شیعہ لوگ ان کے ساتھ ہو جائیں گے اور پھر ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں گے۔حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالی عنہ اہل سنت وجماعت سے ہوں گے اور مجتہد مطلق ہوں گے۔ان کے عہد میں مذاہب اربعہ پر عمل ختم ہو جائے گا اور امام مہدی رضی اللہ تعالی عنہ کے فقہی مذہب پر عمل ہو گا۔
وہابیہ تو شاید دجال ہی کے ساتھ رہیں گے۔دجالی لشکر میں ستر ہزار یہودی ہوں گے اور ستر ہزار بدمذہب کلمہ ہوں گے۔خبر ملی ہے کہ سعودی حکومت نے مدینہ منورہ کے قریب پہاڑی پر دجال کے استقبال کے لئے ایک محل بنوایا ہے اور دجال کے لئے ایک شہر بھی بنایا ہے۔گوگل پر ساری تفصیل موجود ہے۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
کتبہ:- طارق انور مصباحی
جاری کردہ:07:جنوری 2024
جاری کردہ:07:جنوری 2024