Type Here to Get Search Results !

دیوالی کی مبارک بادی پر مسلمان کیا جواب دے؟

 (سوال نمبر 4930)
دیوالی کی مبارک بادی پر مسلمان کیا جواب دے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ اگر کوئی غیر مسلم دیوالی DIWALI کی مبارک باد دیتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے اگر ہم سامنے جواب نہیں دیتے تو فتنے کا اندیشہ ہے ایسے میں کیا حکمت اختیار کی جائے۔
سائل:- افضل کمسنی گجرات انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
مسلئہ مسئولہ مناسب ہے کہ حالات حاضرہ کے تحت کچھ اہم گوشوں کو اجاگر کر دیا جائے۔
١/ مثلا آگر کوئی شخص غیر مسلم کمپنی میں نوکری کر تا ہے۔
٢/ یا غیر مسلم سے تجارت کرتا ہے
٣/ یا محلہ ،آس پڑوس میں سب غیر مسلم ہے۔
اگر غیر مسلم ابتداء مسلم کو دیوالی کی مبارکبادی پیش کرے اور مسلم جوابا کچھ نہ کہے تو اسے غیر مسلم کی جانب سے نقصان پہنچ سکتا ہے یا نوکری جا سکتی ہے، جیسا کہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ غیر مسلم بھی مسلمانوں کی تہواروں پر مبارکبادی دیتا ہے۔
ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
پس اسی تعلق سے مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
۔جس لفظ سے مناسب جانے جواب دے دیا جائے اگرچہ ہیپی کے جواب میں ہیپی ہی کہہ کر۔ لیکن یہ ضرورت کے وقت ہے بلا ضرورت جائز نہیں اور دل میں اس چیز کو بہتر نہ جانے. 
مثلا اگر غیر مسلم کی کمپنی میں کام کرتا ہو اور مالک رابطہ کرکے ایسا کہے. اگر جواب نہ دے تو خطرہ ہو کہ روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے گا تو ایسا کہنا جائز ہے۔
اگر ایپی کہے تو وہ کافر اسے استہزا خیال کرے گا. اور ایپی کہنا بنیت تحیت، ہیپی کہنے سے جب بغیر نیت تحیت ہو زیادہ برا ہے 
اور اور اگر بات کاٹ سکنے کی کوئی صورت ہو تو یہ ان تمام سے بہتر ہے. مثلا اگر کوئی کہے ہیپی دیوالی تو جوابا کہے: ”اوہ! آج دیوالی ہے مجھے تو یاد ہی نہیں تھا. اور کیا حال ہے؟“ وغیرہ. 
قال المجدد رحمه الله: کافر کو بے ضرورت ابتداء بسلام ناجائز ہے. نص علیه فی الحدیث والفقه. اور ہندوستان میں وہ طرق تحیت جاری ہیں کہ بضرورت بھی انھیں سلام شرعی کرنے کی حاجت نہیں مثلا یہی کافی کہ لالہ صاحب، بابو صاحب، منشی صاحب، یا بے سر جھکائے سر پر ہاتھ رکھ لینا وغیر ذلک، کافر اگر بے لفظ سلام سلام کرے تو ایسے ہی الفاظ رائجہ جواب میں بس ہیں۔ اور بلفظ سلام ابتداء کرے تو علماء فرماتے ہیں جواب میں وعلیک ہے مگر یہ لفظ یہاں مخصوص باہل اسلام ٹھہرا ہواہے۔ اور وہ کافر بھی اسے جواب سلام نہ سمجھے گا بلکہ اپنے ساتھ استہزاء خیال کرے گا تو جس لفظ سے مناسب جانے جواب دے لے اگرچہ سلام کے جواب میں سلام ہی کہہ کر۔
(فتاویٰ رضویہ، ٤١٧/٢٢)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
09/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area