(سوال نمبر 4929)
ایک ہاتھ سے مرغی پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے ذبح کرے شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ ذیل میں ایک شخص خود سے ایک ہاتھ سے مرغی کو پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے ذبح کرے یہ درست ہے یا نہیں؟
زید اور بکر میں اختلاف چل رہا ہے زید کا کہنا ہےکہ اس طرح کا ذبیحہ حرام ہے اور بکر کا کہنا ہے اس طرح کا ذبیحہ حلال ہے
مفتیان کرام رہنمائی فرمائیں کرم ہوگا
سائل:- محمدسلامت اللہ اشرفی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
زید غلط ہے بس شرائط ذبیحہ پائی جایے پھر جانور حلال ہے کسی کا پکڑنا شرائط ذبیحہ سے نہیں۔
یہ شرطیں پالی جائیں
١/ ذبح کرنے والا مسلمان عاقل ہو ، یعنی پاگل یا بالکل چھوٹا نا بالغ بچہ نہ ہو، لیکن اگر چھوٹا بچہ ذبح کو سمجھتا اور اس کا شرعی طریقہ جانتا ہے اور ذبح کرنے پر قادر بھی ہے تو اس کا ذبیحہ حلال ہوگا ۔
٢/ ذبح کرنے والا مسلمان ہو ،لہذا مشرک ، کافر اور مرتد کا ذبیحہ نا جائز و حرام ہے ،
٣/ اللہ عز وجل کے نام سے ذبح کرے ۔ یعنی ذبح کرتے وقت اللہ تعالی کے ناموں میں سے کوئی نام ذکر کرے ،مثلا اللہ اکبر، اللہ اعظم ،الرحمن اعظم وغیرہ سبحان اللہ اور الحمد للہ کہنے سے بھی حلال ہو جاۓ گا ۔
٤/ ذبح کرنے والا خود اپنی زبان سے اللہ تعالی کا نام لے، اگر وہ قصداً خاموش رہا اور دوسروں نے نام لیا تو جانور حرام و مر دار ہو گا ، اسے کھانا جائز نہیں ہوگا۔
٥/ جانور ذبح کرنے ہی کی نیت سے بسم اللہ بڑھے ،اگر کسی اور مقصد کے لئے بسم اللہ پڑھی اور پھر دوبارہ بسم اللہ پڑھے بغیر جانور ذبح کر دیا تو وہ حرام و نا جائز ہو گا ۔
٦/ حلق اور لبّہ کے درمیان چھری پھیری جائے اور چار رگوں میں سے کم ازکم تین رگیں ضرور کٹ جائیں اورگردن بالکل الگ نہ کی جائے، ۔
تنویر الأبصار مع الدر والرد میں ہے
وذکاة الاختیار ذبح بین الحلق واللبة وعروقہ الحلقوم والمرئ والودجان، وحل المذبوح بقطع أي ثلاث منہا۔
ایک ہاتھ سے مرغی پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے ذبح کرے شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ ذیل میں ایک شخص خود سے ایک ہاتھ سے مرغی کو پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے ذبح کرے یہ درست ہے یا نہیں؟
زید اور بکر میں اختلاف چل رہا ہے زید کا کہنا ہےکہ اس طرح کا ذبیحہ حرام ہے اور بکر کا کہنا ہے اس طرح کا ذبیحہ حلال ہے
مفتیان کرام رہنمائی فرمائیں کرم ہوگا
سائل:- محمدسلامت اللہ اشرفی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
زید غلط ہے بس شرائط ذبیحہ پائی جایے پھر جانور حلال ہے کسی کا پکڑنا شرائط ذبیحہ سے نہیں۔
یہ شرطیں پالی جائیں
١/ ذبح کرنے والا مسلمان عاقل ہو ، یعنی پاگل یا بالکل چھوٹا نا بالغ بچہ نہ ہو، لیکن اگر چھوٹا بچہ ذبح کو سمجھتا اور اس کا شرعی طریقہ جانتا ہے اور ذبح کرنے پر قادر بھی ہے تو اس کا ذبیحہ حلال ہوگا ۔
٢/ ذبح کرنے والا مسلمان ہو ،لہذا مشرک ، کافر اور مرتد کا ذبیحہ نا جائز و حرام ہے ،
٣/ اللہ عز وجل کے نام سے ذبح کرے ۔ یعنی ذبح کرتے وقت اللہ تعالی کے ناموں میں سے کوئی نام ذکر کرے ،مثلا اللہ اکبر، اللہ اعظم ،الرحمن اعظم وغیرہ سبحان اللہ اور الحمد للہ کہنے سے بھی حلال ہو جاۓ گا ۔
٤/ ذبح کرنے والا خود اپنی زبان سے اللہ تعالی کا نام لے، اگر وہ قصداً خاموش رہا اور دوسروں نے نام لیا تو جانور حرام و مر دار ہو گا ، اسے کھانا جائز نہیں ہوگا۔
٥/ جانور ذبح کرنے ہی کی نیت سے بسم اللہ بڑھے ،اگر کسی اور مقصد کے لئے بسم اللہ پڑھی اور پھر دوبارہ بسم اللہ پڑھے بغیر جانور ذبح کر دیا تو وہ حرام و نا جائز ہو گا ۔
٦/ حلق اور لبّہ کے درمیان چھری پھیری جائے اور چار رگوں میں سے کم ازکم تین رگیں ضرور کٹ جائیں اورگردن بالکل الگ نہ کی جائے، ۔
تنویر الأبصار مع الدر والرد میں ہے
وذکاة الاختیار ذبح بین الحلق واللبة وعروقہ الحلقوم والمرئ والودجان، وحل المذبوح بقطع أي ثلاث منہا۔
(تنویر الأبصار مع الدر والرد ۹:۴۲۴، ۴۲۵ مطبوعہ)
درمختار میں ہے
لا تحل ذبيحة غير کتابى من وثنى و مجوس و مرتد اھ۔۔
درمختار میں ہے
لا تحل ذبيحة غير کتابى من وثنى و مجوس و مرتد اھ۔۔
(در مختار ج 6 ص 298)
اور اسی میں دوسری جگہ ہے کہ
و شرط کون الذابح مسلما حلالا۔
اور اسی میں دوسری جگہ ہے کہ
و شرط کون الذابح مسلما حلالا۔
(در مختارج 6 ص 269)
فتاوی ہندیہ میں ہے کہ
لا توکل ذبيحة اهل الشرک و المرتد
فتاوی ہندیہ میں ہے کہ
لا توکل ذبيحة اهل الشرک و المرتد
(فتاویٰ ھندیہ ج 5 ص 285)
یاد رہے اگر کوئی پکڑنے والا نہ ہو اور اگر چھری پھیرنے میں ہندو نے مسلمان کا تعاون نہیں کیا اس نے صرف مرغی یا کسی جانور پکڑی اور دبائی اور مسلمان نے تنہا چھری پھیرکر جانور ذبح کی تو یہ ذبیحہ حلال وجائز ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے
فیھا - فی البزازیة- تشترط التسمیة من الذابح حال الذبح الخ
یاد رہے اگر کوئی پکڑنے والا نہ ہو اور اگر چھری پھیرنے میں ہندو نے مسلمان کا تعاون نہیں کیا اس نے صرف مرغی یا کسی جانور پکڑی اور دبائی اور مسلمان نے تنہا چھری پھیرکر جانور ذبح کی تو یہ ذبیحہ حلال وجائز ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے
فیھا - فی البزازیة- تشترط التسمیة من الذابح حال الذبح الخ
(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الذبائح، ۹: ۴۳۸)
بہار شریعت میں ہے کہ
اللہ عز وجل کے نام ساتھ ذبح کرنا ۔ ذبح کرنے کے وقت اللہ تعالی کے ناموں میں سے کوئی نام ذکر کرے جانور حلال ہوجائے گا یہی ضروری نہیں کہ لفظ اللہ عزوجل ہی زبان سے کہے ، تنہا نام ہی ذکر کرے یا نام کے ساتھ صفت بھی ذکر کرے دونوں صورتوں جانور حلال ہوجاتا ہے مثلا اللہ اکبر ، اللہ اعظم ، اللہ اجل ، اللہ الرحمن ، اللہ الرحیم ، یا صرف اللہ یا الرحمن یا الرحیم کہے اسی طرح سبحان اللہ یا الحمد للہ یا لاالہ اللہ پڑھنے سے بھی حلال ہوجائے گا اللہ عز وجل کا نام عربی کے سوا دوسری زبان میں لیا جب بھی حلال ہوجائے گا۔
بہار شریعت میں ہے کہ
اللہ عز وجل کے نام ساتھ ذبح کرنا ۔ ذبح کرنے کے وقت اللہ تعالی کے ناموں میں سے کوئی نام ذکر کرے جانور حلال ہوجائے گا یہی ضروری نہیں کہ لفظ اللہ عزوجل ہی زبان سے کہے ، تنہا نام ہی ذکر کرے یا نام کے ساتھ صفت بھی ذکر کرے دونوں صورتوں جانور حلال ہوجاتا ہے مثلا اللہ اکبر ، اللہ اعظم ، اللہ اجل ، اللہ الرحمن ، اللہ الرحیم ، یا صرف اللہ یا الرحمن یا الرحیم کہے اسی طرح سبحان اللہ یا الحمد للہ یا لاالہ اللہ پڑھنے سے بھی حلال ہوجائے گا اللہ عز وجل کا نام عربی کے سوا دوسری زبان میں لیا جب بھی حلال ہوجائے گا۔
(بہار شریعت ج 3 ص 314 : ذبح کا بیان)
ذبح کرنے کا طریقہ
ذَبْح کرنے والا اور جانور دونوں قبلہ رُو ہوں ہمارے عَلاقے یعنی پاک و ہند میں قِبلہ مغرِب میں ہے اس لئے سرِ ذَبیحہ یعنی جانور کا سر جُنُوب کی طرف ہونا چاہئے تا کہ جانور بائیں یعنی الٹے پہلو لیٹا ہو،اور اس کی پیٹھ مشرِق کی طرف ہو تا کہ اس کا مُنہ قبلے کی طرف ہو جائے، اور ذَبْح کرنے والا اپنا دایاں یعنی سیدھا پاؤں جانور کی گردن کے دائیں یعنی سیدھے حصّے یعنی گردن کے قریب پہلو پر رکھے اور ذَبْح کرے اور خود اپنا یا جانور کا مُنہ قبلے کی طرف کرنا ترک کیا تو مکروہ ہے۔
ذبح کرنے کا طریقہ
ذَبْح کرنے والا اور جانور دونوں قبلہ رُو ہوں ہمارے عَلاقے یعنی پاک و ہند میں قِبلہ مغرِب میں ہے اس لئے سرِ ذَبیحہ یعنی جانور کا سر جُنُوب کی طرف ہونا چاہئے تا کہ جانور بائیں یعنی الٹے پہلو لیٹا ہو،اور اس کی پیٹھ مشرِق کی طرف ہو تا کہ اس کا مُنہ قبلے کی طرف ہو جائے، اور ذَبْح کرنے والا اپنا دایاں یعنی سیدھا پاؤں جانور کی گردن کے دائیں یعنی سیدھے حصّے یعنی گردن کے قریب پہلو پر رکھے اور ذَبْح کرے اور خود اپنا یا جانور کا مُنہ قبلے کی طرف کرنا ترک کیا تو مکروہ ہے۔
(فتاوٰی رضویہ ج ۲۰ص ۲۱۶،۲۱۷)
حاصل کلام یہ ہے کہ اگر شرائط ذبح پائی جائے تو ذبیحہ حلال ہے چاہے تہنا ہو یا رسی سے باندھ کر ہو ذبیحہ حلال ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اگر شرائط ذبح پائی جائے تو ذبیحہ حلال ہے چاہے تہنا ہو یا رسی سے باندھ کر ہو ذبیحہ حلال ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
09/ 11/2023
09/ 11/2023