Type Here to Get Search Results !

بغیر وضو قرآن مجید چھونا کیسا ہے؟


بغیر وضو قرآن مجید چھونا کیسا ہے؟
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ بے وضو قرآن مجید کو چھو سکتے ہیں یا نہیں ؟شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔
سائل:- محمد عظیم خان مہرو پور غازیپور۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ 
جس کا وضو نہ ہو اسے قرآنِ مجید یا اس کی کسی آیت کا چھونا حرام ہے، البتہ چھوئے بغیر زبانی یا دیکھ کر کوئی آیت پڑھے تواس میں کوئی حرج نہیں ۔محدث کو مصحف چھونا مطلقاً حرام ہے خواہ اُس میں صرف نظم قرآن عظیم مکتوب ہو یا اُس کے ساتھ ترجمہ وتفسیر ورسم خط وغیرہا بھی کہ ان کے لکھنے سے نامِ مصحف زائل نہ ہوگا آخر اُسے قرآن مجید ہی کہا جائے گا ترجمہ یا تفسیر یا اور کوئی نام نہ رکھا جائےگا یہ زوائد قرآن عظیم کے توابع ہیں اور مصحف شریف سے جُدا نہیں ولہٰذافـــ۱ حاشیہ مصحف کی بیاض سادہ کو چھُونا بھی ناجائز ہوا بلکہ پٹھوں کو بھی بلکہ چولی پر سے بھی بلکہ ترجمہ کا چھونافـــ۲ خود ہی ممنوع ہے اگرچہ قرآن مجید سے جُدا لکھا ہو ۔قرآن عظیم سورہ واقعہ میں ہے۔فِیْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ(78)لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَﭤ(79)تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(80)
ترجمہ: کنزالایمان
محفوظ نَوِشْتَہ میں اسے نہ چھوئیں مگر باوضو اتارا ہوا ہے سارے جہان کے رب کا۔
حدیث شریف میں بھی اسی چیز کا حکم دیا ہے ،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قرآن پاک کو وہی ہاتھ لگائے جو پاک ہو۔
(معجم صغیر، باب الیاء، من اسمہ: یحیی، ص ۱۳۹، الجزء الثانی)
ہندیہ میں ہے: منھا حرمۃ مس المصحف لا یجوز لہما وللجنب والمحدث مس المصحف الا بغلاف متجاف عنہ کالخریطۃ والجلد الغیر المشرز لابما ھو متصل بہ ھو الصحیح ھکذا فی الھدایۃ وعلیہ الفتوی کذا فی الجوھرۃ النیرۃ والصحیح منع مس حواشی المصحف والبیاض الذی لاکتابۃ علیہ ھکذا فی التبیین ۱؎۔ ان ہی امور میں سے مصحف چھونے کی حرمت بھی ہے۔ حیض ونفاس والی کے لئے ،جنب کے لئے ،اوربے وضو کے لئے مصحف چھونا جائز نہیں۔مگر ایسے غلاف کے ساتھ جو اس سے الگ ہوجیسے جزدان اوروہ جلد جو مصحف کے ساتھ لگی ہوئی نہ ہو، اس غلاف کے ساتھ چھُونا جائز نہیں جو مصحف سے جُڑا ہوا ہو یہی صحیح ہے، ایسا ہی ہدایہ میں ہے، اسی پر فتوٰی ہے اسی طرح جوہرہ نیرہ میں ہے ۔اور صحیح ہے کہ مصحف کے کناروں اوراس بیاض کو بھی چھونا منع ہے جس پر کتابت نہیں ہے۔ایسا ہی تبیین میں ہے۔(ت)
فـــ۱:مسئلہ بے وضو آیت کو چھونا تو خود ہی حرام ہے اگرچہ آیت کسی اور کتاب میں لکھی ہو مگر قرآن مجید کے سادہ حاشیہ بلکہ پٹھوں بلکہ چولی کا بھی چھونا حرام ہے ہاں جزدان میں ہو تو جزدان کو ہاتھ لگاسکتاہے۔
فـــ۲:مسئلہ قرآن مجید کا خالی ترجمہ اگر جدا لکھا ہو اسے بھی بے وضو چھونا منع ہے۔
(۱؎ الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ،الباب السادس،الفصل الرابع نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۳۸ و ۳۹)
اُسی میں ہے: لوکان القراٰن مکتوبا بالفارسیۃ یکرہ لھم مسہ عند ابی حنیفۃ وھکذا عندھما علی الصحیح ھکذا فی الخلاصۃ۱؎۔
اگر قرآن فارسی میں لکھا ہوا ہو تومذکورہ افراد کے لئے امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کا چھونا مکروہ ہے اور صحیح یہ ہے کہ صاحبین کے نزدیک بھی ایسا ہی ہے۔ اسی طرح خلاصہ میں ہے۔(ت)
(۱؎ الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ،الباب السادس،الفصل الرابع نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۳۹)
درمختار میں ہے: ولو مکتوبا بالفار سیۃ فی الاصح الا بغلافہ المنفصل۲؎۔ اصح یہ ہے کہ فارسی میں قرآن لکھا ہوتوبھی چھونا جائز نہیں مگر ایسے غلاف کے ساتھ جو مصحف سے الگ ہو۔ (ت)
(۲؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ،باب الحیض مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۵۱)
ردالمحتار میں ہے: دون المتصل کالجلد المشرز ھو الصحیح وعلیہ الفتوی لان الجلد تبع لہ سراج ۳؎۔ اس غلاف کے ساتھ نہیں جو مصحف سے ملا ہوا ہو جیسے اس کے ساتھ جُڑی ہوئی جلد،یہی صحیح ہے، اوراسی پر فتوٰی ہے اس لئے کہ جلد تابع ہے۔ سراج۔(ت)
(۳؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ،باب الحیض دار احیاء التراث العربی ۱ /۱۹۵)
اُسی فـــ میں ہے: فی السراج عن الایضاح ان کتب التفسیر لایجوز مس موضع القراٰن منہا ولہ ان یمس غیرہ وکذا کتب الفقہ اذا کان فیہا شیئ من القراٰن بخلاف المصحف فان الکل فیہ تبع للقراٰن۱؎ اھ واللّٰہ سبحٰنہ وتعالی اعلم۔
سراج میں ایضاح کے حوالے سے ہے کہ کتب تفسیر میں جہاں قرآن لکھا ہوا ہے اس جگہ کو چھونا جائز نہیں، اور وہ دوسری جگہ کوچھوسکتاہے۔ یہی حکم کتب فقہ کاہے جب ان میں قرآن سے کچھ لکھا ہوا ہو، بخلاف مصحف کے کہ اس میں سب قرآن کے تابع ہیں اھ۔واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔(ت)
فـــ:مسئلہ کتب تفسیر و حدیث و فقہ میں جہاں آیت لکھی ہو خاص اس جگہ بے وضو ہاتھ لگانا حرام ہے باقی عبارت میں افضل یہ ہے کہ باوضو ہو۔
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ،قبیل باب المیاہ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۱۸ و ۱۱۹)
قرآن پاک چھونے سے متعلق 7اَحکام:
یہاں آیت کی مناسبت سے قرآنِ مجید چھونے سے متعلق7اَحکام ملاحظہ ہوں ،
(1) قرآن عظیم کو چھونے کے لئے وضو کرنا فرض ہے۔
(نور الایضاح، کتاب الطہارۃ، فصل فی اوصاف الوضو ء، ص ۵۹)
(2)…جس کا وضو نہ ہو اسے قرآنِ مجید یا اس کی کسی آیت کا چھونا حرام ہے، البتہ چھوئے بغیر زبانی یادیکھ کر کوئی آیت پڑھے تواس میں کوئی حرج نہیں ۔
(3) جس کو نہانے کی ضرورت ہو( یعنی جس پر غسل فرض ہو) اسے قرآن مجید چھونا اگرچہ اس کا سادہ حاشیہ یا جلد یا چولی چھوئے ،یا چھوئے بغیردیکھ کر یا زبانی پڑھنا ،یا کسی آیت کا لکھنا ،یا آیت کا تعویذ لکھنا ،یا قرآنِ پاک کی آیات سے لکھا تعویذ چھونا ،یا قرآن پاک کی آیات والی انگوٹھی جیسے حروفِ مُقَطَّعات کی انگوٹھی چھونا یا پہننا حرام ہے۔
(4) اگر قرانِ عظیم جُزدان میں ہو تو جزدان پر ہاتھ لگانے میں حرج نہیں ،یوہیں رومال وغیرہ کسی ایسے کپڑے سے پکڑنا جو نہ اپنا تابع ہو نہ قرآنِ مجید کا تو جائز ہے۔ کرتے کی آستین، دُوپٹے کی آنچل سے یہاں تک کہ چادر کا ایک کونا اس کے کندھے پر ہے تو دوسرے کونے سے قرآن پاک چھونا حرام ہے کیونکہ یہ سب اس کے ایسے ہی تابع ہیں جیسے چولی قرآن مجید کے تابع تھی۔
(5)…روپیہ کے او پر آیت لکھی ہو تو ان سب کو (یعنی بے وضو اور جنب اور حیض و نفاس والی کو) اس کا چھونا حرام ہے ،ہاں اگر روپے تھیلی میں ہوں تو تھیلی اٹھانا جائز ہے۔یوہیں جس برتن یا گلاس پر سورت یا آیت لکھی ہو اس کو چھونا بھی انہیں حرام ہے اور اس برتن یا گلاس کواستعمال کرنا ان سب کے لئے مکروہ ہے،البتہ اگر خاص شفا کی نیت سے انہیں استعمال کریں تو حرج نہیں ۔
(6)…قرآن کا ترجمہ فارسی یا اردو یا کسی اور زبان میں ہو تو اسے بھی چھونے اور پڑھنے میں قرآنِ مجید ہی کا سا حکم ہے۔
(7)…قرآنِ مجید دیکھنے میں ان سب پر کچھ حرج نہیں اگرچہ حروف پر نظر پڑے اور الفاظ سمجھ میں آئیں اور دل میں پڑھتے جائیں ۔ (بہار شریعت، حصہ دوم، غسل کا بیان، ۱ / ۳۲۶-۳۲۷، ملخصاً)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم ﷺ
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
کتبہ:- محمد صدام حسین قادری امجدی رضوی 

خادم مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز۔

 مورخہ 2/رجب 1445ھ 
مطابق 14/جنوری 24 0 2 ء۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
مفتی حیدر علی وحیدی قاضی شہر غازی پور۔
منجانب۔دارالشریعہ شہر غازی پور۔یوپی۔الھند۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area