عشر کے احکام متعلق کے سوال و جواب قسط اول
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
محمد مفید عالم قادری صمدی
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
محمد مفید عالم قادری صمدی
••────────••⊰❤️⊱••───────••
سوال:- عشر کسے کہتے ہیں ؟
جواب:- زمین سے نفع حاصل کرنے کی غرض سے اُگائی جانے والی شے کی پیداوار پر جو زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے اسے عشر کہتے ہیں۔(الفتاوی الھندیہ ، کتاب الزکوۃ، الباب السادس، ج۱، ص۱۸۵، ملخصاً)
سوال:- زمین کی زکوٰۃ کو عشر کیوں کہتے ہیں؟
جواب:- زمین کی پیداوار کا عموماً دسواں ( 10/1)حصہ بطورِ زکوٰۃ دیا جاتا ہے اس لئے اسے عشر (یعنی دسواں حصہ)کہتے ہیں ۔
عشر کے فضائل:-
سوال:- عشر دینے کی کیا فضیلت ہے ؟
جواب:- عشر کی ادائیگی کرنے والوں کو انعامات آخرت کی بشارت ہے جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تَعَالٰی ارشاد فرماتا ہے :
سوال:- عشر کسے کہتے ہیں ؟
جواب:- زمین سے نفع حاصل کرنے کی غرض سے اُگائی جانے والی شے کی پیداوار پر جو زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے اسے عشر کہتے ہیں۔(الفتاوی الھندیہ ، کتاب الزکوۃ، الباب السادس، ج۱، ص۱۸۵، ملخصاً)
سوال:- زمین کی زکوٰۃ کو عشر کیوں کہتے ہیں؟
جواب:- زمین کی پیداوار کا عموماً دسواں ( 10/1)حصہ بطورِ زکوٰۃ دیا جاتا ہے اس لئے اسے عشر (یعنی دسواں حصہ)کہتے ہیں ۔
عشر کے فضائل:-
سوال:- عشر دینے کی کیا فضیلت ہے ؟
جواب:- عشر کی ادائیگی کرنے والوں کو انعامات آخرت کی بشارت ہے جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تَعَالٰی ارشاد فرماتا ہے :
وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَهُوَ یُخْلِفُهٗۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ
(۳۹) (پ۲۲، سبا : ۳۹)
تر جمہ کنزالایمان : اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ۔
سورۂ بقرہ میں ہے :
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ وَاللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱) اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَاۤ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًىۙ-لَّهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۲۶۲) (پ۳، البقرۃ : ۲۶۱، ۲۶۲)
ترجمہ کنزالایمان : ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے او گائیں سات بالیں ۔ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے وہ جواپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، پھر دئیے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کا نیگ(انعام) ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہونہ کچھ غم۔
سرورِ عالم ، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی ترغیب ِ امت کے لئے کئی مقامات پر راہِ خدا عزوجل میں خرچ کرنے کے کئی فضائل بیان کئے ہیں :
تر جمہ کنزالایمان : اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ۔
سورۂ بقرہ میں ہے :
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ وَاللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱) اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَاۤ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًىۙ-لَّهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۲۶۲) (پ۳، البقرۃ : ۲۶۱، ۲۶۲)
ترجمہ کنزالایمان : ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے او گائیں سات بالیں ۔ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے وہ جواپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، پھر دئیے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کا نیگ(انعام) ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہونہ کچھ غم۔
سرورِ عالم ، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی ترغیب ِ امت کے لئے کئی مقامات پر راہِ خدا عزوجل میں خرچ کرنے کے کئی فضائل بیان کئے ہیں :
چنانچہ حضرت سیدنا حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی کریم ، رء ُوف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’زکوۃ دے کر اپنے مالوں کو مضبو ط قلعوں میں کر لو اور اپنے بیمارو ں کا علا ج صدقہ سے کرو اور بلا نازل ہو نے پر دعا و تضرع (یعنی گریہ و زاری)سے استعانت (یعنی مدد طلب )کرو ۔‘‘
(مراسیل ابی داؤد مع سنن ابی داؤد ، باب فی الصائم، ص۸)
اور حضرت ِ سیدنا جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی پاک صاحبِ لولاک ، سیّاحِ افلا ک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جس نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کر دی، بے شک اللہ تَعَالٰی نے اس سے شر دور فرما دیا۔‘‘
اور حضرت ِ سیدنا جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی پاک صاحبِ لولاک ، سیّاحِ افلا ک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جس نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کر دی، بے شک اللہ تَعَالٰی نے اس سے شر دور فرما دیا۔‘‘
(المعجم الاوسط، باب الالف، الحدیث۱۵۷۹، ج۱، ص۴۳۱)
عشر ادا نہ کرنے کا وبال
سوال:- عشر ادا نہ کرنے کا کیا وبال ہے ؟
جواب : عشر ادا نہ کرنے والے کے لئے قرآن پاک واحادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں ۔چنانچہ اللہ تَعَالٰی ارشاد فرماتا ہے : وَلَایَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-
عشر ادا نہ کرنے کا وبال
سوال:- عشر ادا نہ کرنے کا کیا وبال ہے ؟
جواب : عشر ادا نہ کرنے والے کے لئے قرآن پاک واحادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں ۔چنانچہ اللہ تَعَالٰی ارشاد فرماتا ہے : وَلَایَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-
(پ۴، آل عمران : ۱۸۰)
ترجمہ کنزالایمان : اورجو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ، ہر گز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا۔
حضرت ِ سیدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ مکی مدنی سرکار ، دو عالم کے مالک و مختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جس کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ مال دے اور وہ اس کی زکوۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا جس کے سر پر دو چتیا ں ہوں گی(یعنی دو نشان ہوں گے) ، وہ سانپ ا س کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا ، پھر اس (زکوۃ نہ دینے والے ) کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا : میں تیرا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں ۔ اس کے بعد نبی پاک، ﷺ نے اس آیت کی تلا وت فرمائی :
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-
ترجمہ کنزالایمان : اورجو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ، ہر گز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا۔
حضرت ِ سیدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ مکی مدنی سرکار ، دو عالم کے مالک و مختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جس کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ مال دے اور وہ اس کی زکوۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا جس کے سر پر دو چتیا ں ہوں گی(یعنی دو نشان ہوں گے) ، وہ سانپ ا س کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا ، پھر اس (زکوۃ نہ دینے والے ) کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا : میں تیرا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں ۔ اس کے بعد نبی پاک، ﷺ نے اس آیت کی تلا وت فرمائی :
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-
(پ۴، آل عمران : ۱۸۰)
ترجمہ کنزالایمان : اورجو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ، ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا۔
ترجمہ کنزالایمان : اورجو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ، ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا۔
(صحیح البخاری، کتاب الزکوۃ ، باب اثم مانع الزکوۃ ، الحدیث۱۴۰۳، ج۱، ص۴۷۴)
حضرت ِ سیدنا بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :
حضرت ِ سیدنا بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’جو قوم زکوۃ نہ دے گی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا۔‘‘(المعجم الاوسط، الحدیث۴۵۷۷، ج۳، ص۲۷۵)
حضرت ِ سیدنا امیر المؤمنین عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روا یت ہے کہ نبی کریم ، رء ُوف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
حضرت ِ سیدنا امیر المؤمنین عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روا یت ہے کہ نبی کریم ، رء ُوف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ خشکی و تری میں جو مال تلف ہوتا ہے ، وہ زکوۃ نہ دینے کی وجہ سے تلف ہوتا ہے۔‘‘
(کنزالعمال، کتاب الزکوۃ، الفصل الثانی فی ترہیب مانع الزکوۃ، الحدیث۱۵۸۰۳، ج۶، ص۱۳۱)
کس پیداوار پر عشر واجب ہے؟
سوال:- زمین کی کس پیداوار پر عشر واجب ہے؟
جواب : جو چیزیں ایسی ہوں کہ ان کی پیداوار سے زمین کا نفع حاصل کرنا مقصود ہو خواہ وہ غلہ ، اناج اور پھل فروٹ ہوں یا سبزیاں وغیرہ مثلاً اناج اور غلو میں گندم ، جو ، چاول ، گنا ، کپاس، جوار، دھان(چاول)، باجرہ، مونگ پھلی ، مکئی، اور سورج مکھی، رائی، سرسوں اور لوسن وغیرہ ۔ پھلوں میں خربوزہ، آم، امرود، مالٹا، لوکاٹ، سیب، چیکو، انار، ناشپاتی، جاپانی پھل، سنگ ترا، پپیتا ، اورناریل، تربوز، فالسہ، جامن، لیچی، لیموں ، خوبانی ، آڑو، کھجور ، آلوبخارا ، گرما، انناس، انگور ا و ر آلوچہ وغیرہ ۔
سبزیوں میں ککڑی، ٹینڈا، کریلا، بھنڈی توری، آلو ، ٹماٹر ، گھیا توری ، سبز مرچ، شملہ مرچ، پودینا ، کھیرا، ککڑی(تر)اور اروی ، توریا ، پھول گوبھی ، بندگوبھی ، شلغم، گاجر، چقندر، مٹر، پیاز، لہسن، ، پالک، دھنیا اور مختلف قسم کے ساگ اور میتھی اور بینگن وغیرہ۔ ان سب کی پیداوار میں سے عشر( یعنی دسواں حصہ) یا نصف عشر( یعنی بیسواں حصہ)واجب ہے۔
کس پیداوار پر عشر واجب ہے؟
سوال:- زمین کی کس پیداوار پر عشر واجب ہے؟
جواب : جو چیزیں ایسی ہوں کہ ان کی پیداوار سے زمین کا نفع حاصل کرنا مقصود ہو خواہ وہ غلہ ، اناج اور پھل فروٹ ہوں یا سبزیاں وغیرہ مثلاً اناج اور غلو میں گندم ، جو ، چاول ، گنا ، کپاس، جوار، دھان(چاول)، باجرہ، مونگ پھلی ، مکئی، اور سورج مکھی، رائی، سرسوں اور لوسن وغیرہ ۔ پھلوں میں خربوزہ، آم، امرود، مالٹا، لوکاٹ، سیب، چیکو، انار، ناشپاتی، جاپانی پھل، سنگ ترا، پپیتا ، اورناریل، تربوز، فالسہ، جامن، لیچی، لیموں ، خوبانی ، آڑو، کھجور ، آلوبخارا ، گرما، انناس، انگور ا و ر آلوچہ وغیرہ ۔
سبزیوں میں ککڑی، ٹینڈا، کریلا، بھنڈی توری، آلو ، ٹماٹر ، گھیا توری ، سبز مرچ، شملہ مرچ، پودینا ، کھیرا، ککڑی(تر)اور اروی ، توریا ، پھول گوبھی ، بندگوبھی ، شلغم، گاجر، چقندر، مٹر، پیاز، لہسن، ، پالک، دھنیا اور مختلف قسم کے ساگ اور میتھی اور بینگن وغیرہ۔ ان سب کی پیداوار میں سے عشر( یعنی دسواں حصہ) یا نصف عشر( یعنی بیسواں حصہ)واجب ہے۔
(الفتاوی الھندیہ ، کتاب الزکوۃ، الباب السادس، ج۱، ص۱۸۶)
اللہ تَعَالٰی نے سورۃ الانعام میں فرمایا :
وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ (پ۸، الانعام : ۱۴۱)
ترجمہ کنزالایمان : کھیتی کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو ۔
امامِ اہلِسنّت مجددِ دین وملت ، پروانۂ شمع رسالت ، الشاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَّحْمٰن لکھتے ہیں کہ اکثر مفسرین مثلاًحضرت ابن ِعباس ، طاؤس ، حسن ، جابر بن زید اورسعید بن المسیّب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے نزدیک اس حق سے مراد عشر ہے ۔(فتاویٰ رضویہ جدید، کتاب الزکوۃ، ج۱۰، ص۶۵)
نبی کریم ، رء وف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ہر اس شے میں جسے زمین نے نکالا، (اس میں )عشر یا نصف عشر ہے۔‘‘
حضرت ِ سیدنا جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم ، نورِ ِمجسّم، شاہِ بنی آدم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جن زمینوں کو دریا اور بارش سیراب کرے ان میں عشر(دسواں حصہ دینا واجب) ہے اور جو زمینیں اونٹ کے ذریعے سیر اب کی جائیں ان میں نصف عشر (بیسواں حصہ واجب)ہے۔‘‘
(صحیح مسلم، کتاب الزکوۃ، باب مافیہ العشر اونصف العشر، الحدیث۹۸۱، ص۴۸۸ )
سوال:- نصف عشر سے کیا مراد ہے؟
جواب : نصف عشر سے مراد بیسواں حصہ20/1ہے۔
اللہ تَعَالٰی نے سورۃ الانعام میں فرمایا :
وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ (پ۸، الانعام : ۱۴۱)
ترجمہ کنزالایمان : کھیتی کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو ۔
امامِ اہلِسنّت مجددِ دین وملت ، پروانۂ شمع رسالت ، الشاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَّحْمٰن لکھتے ہیں کہ اکثر مفسرین مثلاًحضرت ابن ِعباس ، طاؤس ، حسن ، جابر بن زید اورسعید بن المسیّب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے نزدیک اس حق سے مراد عشر ہے ۔(فتاویٰ رضویہ جدید، کتاب الزکوۃ، ج۱۰، ص۶۵)
نبی کریم ، رء وف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ہر اس شے میں جسے زمین نے نکالا، (اس میں )عشر یا نصف عشر ہے۔‘‘
حضرت ِ سیدنا جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم ، نورِ ِمجسّم، شاہِ بنی آدم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جن زمینوں کو دریا اور بارش سیراب کرے ان میں عشر(دسواں حصہ دینا واجب) ہے اور جو زمینیں اونٹ کے ذریعے سیر اب کی جائیں ان میں نصف عشر (بیسواں حصہ واجب)ہے۔‘‘
(صحیح مسلم، کتاب الزکوۃ، باب مافیہ العشر اونصف العشر، الحدیث۹۸۱، ص۴۸۸ )
سوال:- نصف عشر سے کیا مراد ہے؟
جواب : نصف عشر سے مراد بیسواں حصہ20/1ہے۔
(بہار شریعت ، حصہ۵، ص۱۵)
شہد کی پیداوار پرعشر
سوال:- عشری زمین میں جو شہد پیدا ہو کیا اس پربھی عشر دینا پڑے گا؟
جواب : جی ہاں ۔
شہد کی پیداوار پرعشر
سوال:- عشری زمین میں جو شہد پیدا ہو کیا اس پربھی عشر دینا پڑے گا؟
جواب : جی ہاں ۔
(الفتاوی الھندیہ، کتاب الزکاۃ، الباب السادس ، ج ۱ ص ۱۸۶ )
کس پیداوار پر عشر واجب نہیں ؟
سوال:- کن فصلوں پر عشر واجب نہیں؟
جواب : جو چیزیں ایسی ہوں کہ ان کی پیداوار سے زمین کا نفع حاصل کرنا مقصود نہ ہوان میں عشر نہیں جیسے ایندھن ، گھاس، بید، سرکنڈا، ، جھائو (وہ پودا جس سے ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں )، کھجورکے پتے وغیرہ، ان کے علاوہ ہر قسم کی ترکاریوں اور پھلوں کے بیج کہ ان کی کھیتی سے ترکاریاں مقصود ہو تی ہیں بیج مقصود نہیں ہوتے اورجو بیج دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں مثلاً کُنْدُر، میتھی اور کلونجی وغیرہ کے بیج، ان میں بھی عشر نہیں ہے۔ اسی طرح وہ چیزیں جو زمین کے تا بع ہوں جیسے درخت اور جو چیز درخت سے نکلے جیسے گوند ‘اس میں عشر واجب نہیں ۔ البتہ اگر گھاس ، بید ، جھاؤ (وہ پودا جس سے ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں )وغیرہ سے زمین کے منافع حاصل کرنا مقصود ہو اور زمین ان کے لئے خالی چھوڑ دی تو ان میں بھی عشر واجب ہے۔کپاس اور بینگن کے پودوں میں عشر نہیں مگران سے حاصل کپاس اور بینگن کی پیداوار میں عشر ہے ۔
(در مختار، کتاب الزکوٰۃ ، باب العشر، ج۳، ص۳۱۵، الفتاوی الھندیہ ، کتاب الزکوۃ، الباب السادس فی زکوۃ الزرع، ج۱، ص۱۸۶ )
عشر واجب ہو نے کے لئے کم ازکم مقدار
سوال:- عشر واجب ہو نے کے لئے غلہ ، پھل اور سبزیوں کی کم ازکم کتنی مقدار ہونا ضروری ہے ؟
جواب : عشر واجب ہو نے کے لئے ان کی کوئی مقدار مقرر نہیں ہے بلکہ زمین سے غلہ ، پھل اور سبزیوں کی جتنی پیداوار بھی حاصل ہو اس پر عشر یا نصف عشر دینا واجب ہو گا۔
کس پیداوار پر عشر واجب نہیں ؟
سوال:- کن فصلوں پر عشر واجب نہیں؟
جواب : جو چیزیں ایسی ہوں کہ ان کی پیداوار سے زمین کا نفع حاصل کرنا مقصود نہ ہوان میں عشر نہیں جیسے ایندھن ، گھاس، بید، سرکنڈا، ، جھائو (وہ پودا جس سے ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں )، کھجورکے پتے وغیرہ، ان کے علاوہ ہر قسم کی ترکاریوں اور پھلوں کے بیج کہ ان کی کھیتی سے ترکاریاں مقصود ہو تی ہیں بیج مقصود نہیں ہوتے اورجو بیج دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں مثلاً کُنْدُر، میتھی اور کلونجی وغیرہ کے بیج، ان میں بھی عشر نہیں ہے۔ اسی طرح وہ چیزیں جو زمین کے تا بع ہوں جیسے درخت اور جو چیز درخت سے نکلے جیسے گوند ‘اس میں عشر واجب نہیں ۔ البتہ اگر گھاس ، بید ، جھاؤ (وہ پودا جس سے ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں )وغیرہ سے زمین کے منافع حاصل کرنا مقصود ہو اور زمین ان کے لئے خالی چھوڑ دی تو ان میں بھی عشر واجب ہے۔کپاس اور بینگن کے پودوں میں عشر نہیں مگران سے حاصل کپاس اور بینگن کی پیداوار میں عشر ہے ۔
(در مختار، کتاب الزکوٰۃ ، باب العشر، ج۳، ص۳۱۵، الفتاوی الھندیہ ، کتاب الزکوۃ، الباب السادس فی زکوۃ الزرع، ج۱، ص۱۸۶ )
عشر واجب ہو نے کے لئے کم ازکم مقدار
سوال:- عشر واجب ہو نے کے لئے غلہ ، پھل اور سبزیوں کی کم ازکم کتنی مقدار ہونا ضروری ہے ؟
جواب : عشر واجب ہو نے کے لئے ان کی کوئی مقدار مقرر نہیں ہے بلکہ زمین سے غلہ ، پھل اور سبزیوں کی جتنی پیداوار بھی حاصل ہو اس پر عشر یا نصف عشر دینا واجب ہو گا۔
(الفتاویٰ الھندیۃ، المرجع السابق)
پاگل اور نابالغ پر عشر
سوال:- اگر ان کی پیداوار کا مالک پاگل اور نابالغ ہو تو اس کو بھی عشر دینا ہوگا؟
جواب : عشر چونکہ زمین کی پیداوار پر ادا کیا جاتاہے لہذا جو بھی اس پیداوار کا مالک ہوگا وہ عشر ادا کرے گا چاہے وہ مجنون (یعنی پاگل)اور نابالغ ہی کیوں نہ ہو۔
(الفتاوى الهند بيه، كتاب الزكوة ، الباب السادس فی زکوۃ الزرع ، ج ا ص ۱۸۵ ملخصاً )
قرض دار پر عشر
سوال:- کیا قرض دار کو عشر معاف ہے ؟
جواب : قرض دار سے عشر معاف نہیں ، اس لئے اگر قرض لے کر زمین خریدی ہو یا کاشت کار پہلے سے مقروض ہو یا قرض لے کر کاشت کاری کی ہوان سب صورتوں میں قرض دار پر بھی عشر واجب ہے۔‘‘
پاگل اور نابالغ پر عشر
سوال:- اگر ان کی پیداوار کا مالک پاگل اور نابالغ ہو تو اس کو بھی عشر دینا ہوگا؟
جواب : عشر چونکہ زمین کی پیداوار پر ادا کیا جاتاہے لہذا جو بھی اس پیداوار کا مالک ہوگا وہ عشر ادا کرے گا چاہے وہ مجنون (یعنی پاگل)اور نابالغ ہی کیوں نہ ہو۔
(الفتاوى الهند بيه، كتاب الزكوة ، الباب السادس فی زکوۃ الزرع ، ج ا ص ۱۸۵ ملخصاً )
قرض دار پر عشر
سوال:- کیا قرض دار کو عشر معاف ہے ؟
جواب : قرض دار سے عشر معاف نہیں ، اس لئے اگر قرض لے کر زمین خریدی ہو یا کاشت کار پہلے سے مقروض ہو یا قرض لے کر کاشت کاری کی ہوان سب صورتوں میں قرض دار پر بھی عشر واجب ہے۔‘‘
(الدرالمختار وردالمحتار، کتاب الزکوۃ، باب العشر، ج۳، ص۳۱۴)
علامہ عالم بن علاء الانصاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ’’زکوۃ کے برخلاف عشر مقروض پر بھی واجب ہوتا ہے۔ ‘‘ (فتاوی تاتار خانیہ، کتاب العشر، ج۲، ص۳۳۰)
شرعی فقیر پر عشر
سوال:- کیا شرعی فقیر پر بھی عشر واجب ہوگا؟
جواب : جی ہاں ، شرعی فقیر پر بھی عشر واجب ہے کیونکہ عشر واجب ہونے کا سبب زمین ِنامی (یعنی قابل ِ کاشت)سے حقیقتاً پیداوار کا ہونا ہے، اس میں مالک کے غنی یا فقیر ہو نے کا کوئی اعتبار نہیں ۔
علامہ عالم بن علاء الانصاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ’’زکوۃ کے برخلاف عشر مقروض پر بھی واجب ہوتا ہے۔ ‘‘ (فتاوی تاتار خانیہ، کتاب العشر، ج۲، ص۳۳۰)
شرعی فقیر پر عشر
سوال:- کیا شرعی فقیر پر بھی عشر واجب ہوگا؟
جواب : جی ہاں ، شرعی فقیر پر بھی عشر واجب ہے کیونکہ عشر واجب ہونے کا سبب زمین ِنامی (یعنی قابل ِ کاشت)سے حقیقتاً پیداوار کا ہونا ہے، اس میں مالک کے غنی یا فقیر ہو نے کا کوئی اعتبار نہیں ۔
(ماخوذ من العنایۃ والکفایۃ، کتاب الزکوۃ، باب زکاۃالزروع، ج۲ص۱۸۸)
عشر کے لئے سال گزرنا شرط ہے یا نہیں ؟
سوال:- کیا عشر واجب ہونے کے لئے سال گزرنا شرط ہے؟
جواب : عشر واجب ہو نے کے لئے پورا سال گزرنا شرط نہیں بلکہ سال میں ایک ہی کھیت میں چند بار پیداوار ہو ئی تو ہر با ر عشر واجب ہے۔
مختلف زمینوں کا عشر
سوال:- مختلف زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے الگ الگ طریقے استعمال کئے جاتے ہیں ، تو کیا ہر قسم کی زمین میں عشر(یعنی دسواں حصہ ہی)واجب ہوگا؟
جواب : اس سلسلے میں قاعدہ یہ ہے کہ جو کھیت بارش ، نہر ، نالے کے پانی سے (قیمت اداکئے بغیر)سیراب کیا جائے ، اس میں عشر یعنی دسواں حصہ واجب ہے ،
٭ جس کھیت کی آبپاشی ڈول (یا اپنے ٹیوب ویل )وغیرہ سے ہو ، اس میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ واجب ہے ،
٭ اگر (نہر یا ٹیوب ویل وغیرہ کا)پانی خرید کر آبپاشی کی ہو یعنی وہ پانی کسی کی ملکیت ہے اس سے خرید کر آبپاشی کی ، جب بھی نصف عشر واجب ہے ، اگر وہ کھیت کچھ دنوں بارش کے پانی سے سیرا ب کر دیا جاتا ہے اور کچھ دن ڈول (یا اپنے ٹیوب ویل )وغیرہ سے ، تو اگر اکثر بارش کے پانی سے کام لیا جاتا ہے اور کبھی کبھی ڈول (یا اپنے ٹیوب ویل ) وغیرہ سے تو عشر واجب ہے ورنہ نصف عشر واجب ہے۔
عشر کے لئے سال گزرنا شرط ہے یا نہیں ؟
سوال:- کیا عشر واجب ہونے کے لئے سال گزرنا شرط ہے؟
جواب : عشر واجب ہو نے کے لئے پورا سال گزرنا شرط نہیں بلکہ سال میں ایک ہی کھیت میں چند بار پیداوار ہو ئی تو ہر با ر عشر واجب ہے۔
مختلف زمینوں کا عشر
سوال:- مختلف زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے الگ الگ طریقے استعمال کئے جاتے ہیں ، تو کیا ہر قسم کی زمین میں عشر(یعنی دسواں حصہ ہی)واجب ہوگا؟
جواب : اس سلسلے میں قاعدہ یہ ہے کہ جو کھیت بارش ، نہر ، نالے کے پانی سے (قیمت اداکئے بغیر)سیراب کیا جائے ، اس میں عشر یعنی دسواں حصہ واجب ہے ،
٭ جس کھیت کی آبپاشی ڈول (یا اپنے ٹیوب ویل )وغیرہ سے ہو ، اس میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ واجب ہے ،
٭ اگر (نہر یا ٹیوب ویل وغیرہ کا)پانی خرید کر آبپاشی کی ہو یعنی وہ پانی کسی کی ملکیت ہے اس سے خرید کر آبپاشی کی ، جب بھی نصف عشر واجب ہے ، اگر وہ کھیت کچھ دنوں بارش کے پانی سے سیرا ب کر دیا جاتا ہے اور کچھ دن ڈول (یا اپنے ٹیوب ویل )وغیرہ سے ، تو اگر اکثر بارش کے پانی سے کام لیا جاتا ہے اور کبھی کبھی ڈول (یا اپنے ٹیوب ویل ) وغیرہ سے تو عشر واجب ہے ورنہ نصف عشر واجب ہے۔
(درمختارو رد المحتار، کتاب الزکوۃ، باب العشر، ج۳، ص۳۱۶)
ٹھیکے کی زمینوں کا عشر
سوال:- کیا ٹھیکے پر دی جانے والی زمین کی پیداوار پر بھی عشر ہو گا ؟
جواب:- جی ہاں ، ٹھیکے پر دی جانے والی زمین کی پیداوار پر بھی عشر ہو گا ۔
سوال:- یہ عُشر کون ادا کرے گا ؟
جواب:- اس عشر کی ادائیگی کاشتکار پر واجب ہو گی۔
ٹھیکے کی زمینوں کا عشر
سوال:- کیا ٹھیکے پر دی جانے والی زمین کی پیداوار پر بھی عشر ہو گا ؟
جواب:- جی ہاں ، ٹھیکے پر دی جانے والی زمین کی پیداوار پر بھی عشر ہو گا ۔
سوال:- یہ عُشر کون ادا کرے گا ؟
جواب:- اس عشر کی ادائیگی کاشتکار پر واجب ہو گی۔
(رد المحتار ، کتاب الزکوۃ، باب العشر، ج۳، ص۳۱۴)
اگر خود فصل نہ بوئی تو عشر کس پر ہے؟
سوال:- اگر زمین کا مالک خود کھیتی باڑی میں حصہ نہ لے بلکہ مزارعوں سے کام لے تو عشر مزارع پر ہو گا یا مالک ِزمین پر ؟
جواب : اس سلسلے میں دیکھا جائے گا کہ اگر مزارع سے مراد وہ ہے جو زمین بٹائی پر لیتا ہے یعنی پیداوار میں سے آدھا یا تیسرا حصہ وغیر ہ مالک ِزمین کا اور بقیہ مزارع کاہو تو اس صور ت میں دونوں پر ان کے حصہ کے مطابق عشر واجب ہو گا۔ صدر الشریعۃ، بدر الطریقہ، مولانا امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بہارشریعت میں فرماتے ہیں ، ’’عشری زمین بٹائی پر دی تو عشر دونوں پر ہے ‘‘ (بہارِ شریعت، حصہ۵، ص۵۴)
اوراگر مزارع سے مراد وہ ہے کہ جس کو مالک ِزمین نے زمین اجارہ پر دی مثلاََ فی ایکڑ پچاس ہزار روپیہ تو اس صور ت میں عشر مزارع پر ہوگا مالکِ زمین پر نہیں ۔
اگر خود فصل نہ بوئی تو عشر کس پر ہے؟
سوال:- اگر زمین کا مالک خود کھیتی باڑی میں حصہ نہ لے بلکہ مزارعوں سے کام لے تو عشر مزارع پر ہو گا یا مالک ِزمین پر ؟
جواب : اس سلسلے میں دیکھا جائے گا کہ اگر مزارع سے مراد وہ ہے جو زمین بٹائی پر لیتا ہے یعنی پیداوار میں سے آدھا یا تیسرا حصہ وغیر ہ مالک ِزمین کا اور بقیہ مزارع کاہو تو اس صور ت میں دونوں پر ان کے حصہ کے مطابق عشر واجب ہو گا۔ صدر الشریعۃ، بدر الطریقہ، مولانا امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بہارشریعت میں فرماتے ہیں ، ’’عشری زمین بٹائی پر دی تو عشر دونوں پر ہے ‘‘ (بہارِ شریعت، حصہ۵، ص۵۴)
اوراگر مزارع سے مراد وہ ہے کہ جس کو مالک ِزمین نے زمین اجارہ پر دی مثلاََ فی ایکڑ پچاس ہزار روپیہ تو اس صور ت میں عشر مزارع پر ہوگا مالکِ زمین پر نہیں ۔
(ماخوذ از بدائع الصنائع، ج۲ ، ص۸۴)
مشترکہ زمین کا عشر
سوال:- جو زمین کسی کی مشترکہ ملکیت ہوتو عشر کون ادا کرے گا ؟
جواب:- عشر کی ادائیگی میں زمین کا مالک ہونا شرط نہیں ہے بلکہ پیداوار کا مالک ہونا شرط ہے اس لئے جو جتنی پیداوار کا مالک ہو گا وہ اس پیداوار کا عشر ادا کرے گا۔فتاویٰ شامی میں ہے کہ ’’عشر واجب ہونے کے لئے زمین کا مالک ہو نا شرط نہیں بلکہ پیداوار کا مالک ہونا شرط ہے کیونکہ عشر پیداوار پر واجب ہو تا ہے نہ کہ زمین پر، اور زمین کا مالک ہو نا یا نہ ہونا دو نو ں برابر ہے۔‘‘
مشترکہ زمین کا عشر
سوال:- جو زمین کسی کی مشترکہ ملکیت ہوتو عشر کون ادا کرے گا ؟
جواب:- عشر کی ادائیگی میں زمین کا مالک ہونا شرط نہیں ہے بلکہ پیداوار کا مالک ہونا شرط ہے اس لئے جو جتنی پیداوار کا مالک ہو گا وہ اس پیداوار کا عشر ادا کرے گا۔فتاویٰ شامی میں ہے کہ ’’عشر واجب ہونے کے لئے زمین کا مالک ہو نا شرط نہیں بلکہ پیداوار کا مالک ہونا شرط ہے کیونکہ عشر پیداوار پر واجب ہو تا ہے نہ کہ زمین پر، اور زمین کا مالک ہو نا یا نہ ہونا دو نو ں برابر ہے۔‘‘
(ردالمحتار، کتاب الزکوۃ، باب العشر، ج۳، ص۳۱۴ )
گھریلو پیداوار پر عشر
سوال:- گھر یا قبرستان میں جو پیداوار ہو اس پر عشر ہو گا یا نہیں ؟
جواب:- گھر یا قبرستان میں جو پیداوار ہو ، اس میں عشر واجب نہیں ہے ۔
گھریلو پیداوار پر عشر
سوال:- گھر یا قبرستان میں جو پیداوار ہو اس پر عشر ہو گا یا نہیں ؟
جواب:- گھر یا قبرستان میں جو پیداوار ہو ، اس میں عشر واجب نہیں ہے ۔
(الدرالمختار، کتاب الزکوۃ، مطلب مھم فی حکم اراضی مصر والشام السلطانیۃ ، ج۳، ص۳۲۰)
عشر کی ادائیگی سے پہلے اخراجات الگ کرنا
سوال:- کیا عشر کل پیداوار سے اداکیا جائے گا یا اخراجات وغیرہ نکال کر بقیہ پیداوار سے ادا کیا جائے گا؟
جواب:- جس پیداوار میں عشر یا نصف عشر واجب ہو، اس میں کل پیداوار کا عشر یا نصف عشر لیا جائے گا ۔ایسا نہیں ہے کہ زراعت ، ہل ، بیل ، حفاظت کر نے والے اور کام کرنے والو ں کی اجرت یا بیج، کھاد اور ادویات وغیرہ کے اخراجات نکال کر باقی کا عشر یا نصف عشر دیا جائے۔
(الدرالمختار وردالمحتار، کتاب الزکوۃ، مطلب مہم فی حکم اراضی مصر والشام السلطانیۃ، ج۳، ص۳۱۷)
سوال:- حکومت کو جو مالگزاری دی جاتی ہے کیا اسے بھی پیداوار سے نہیں نکالا جائے گا ؟
جواب : جی نہیں ، اس مالگزاری کو بھی پیداوار سے الگ نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے بھی شامل کر کے عشر کا حساب لگایا جائے گا ۔
عشر کی ادائیگی
سوال:- عشر کب ادا کرنا ہو گا ؟
جواب : جب پیداوار حاصل ہوجائے یعنی فصل پک جائے یا پھل نکل آئیں اور نفع اٹھانے کے قابل ہوجائیں تو عشر واجب ہوجائے گا ۔فصل کاٹنے یا پھل توڑنے کے بعد حساب لگا کر عشر ادا کرنا ہوگا ۔
عشر کی ادائیگی سے پہلے اخراجات الگ کرنا
سوال:- کیا عشر کل پیداوار سے اداکیا جائے گا یا اخراجات وغیرہ نکال کر بقیہ پیداوار سے ادا کیا جائے گا؟
جواب:- جس پیداوار میں عشر یا نصف عشر واجب ہو، اس میں کل پیداوار کا عشر یا نصف عشر لیا جائے گا ۔ایسا نہیں ہے کہ زراعت ، ہل ، بیل ، حفاظت کر نے والے اور کام کرنے والو ں کی اجرت یا بیج، کھاد اور ادویات وغیرہ کے اخراجات نکال کر باقی کا عشر یا نصف عشر دیا جائے۔
(الدرالمختار وردالمحتار، کتاب الزکوۃ، مطلب مہم فی حکم اراضی مصر والشام السلطانیۃ، ج۳، ص۳۱۷)
سوال:- حکومت کو جو مالگزاری دی جاتی ہے کیا اسے بھی پیداوار سے نہیں نکالا جائے گا ؟
جواب : جی نہیں ، اس مالگزاری کو بھی پیداوار سے الگ نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے بھی شامل کر کے عشر کا حساب لگایا جائے گا ۔
عشر کی ادائیگی
سوال:- عشر کب ادا کرنا ہو گا ؟
جواب : جب پیداوار حاصل ہوجائے یعنی فصل پک جائے یا پھل نکل آئیں اور نفع اٹھانے کے قابل ہوجائیں تو عشر واجب ہوجائے گا ۔فصل کاٹنے یا پھل توڑنے کے بعد حساب لگا کر عشر ادا کرنا ہوگا ۔
(الدرالمختار و ردالمحتار، کتاب الزکوۃ، باب العشر، مطلب مہم فی حکم اراضی ۔۔۔۔الخ، ج۳، ص۳۲۱)
عشر پیشگی ادا کرنا
سوال:- کیا عشر پیشگی طور پرادا کیا جا سکتا ہے؟
جواب : اس کی چند صورتیں ہیں:
عشر پیشگی ادا کرنا
سوال:- کیا عشر پیشگی طور پرادا کیا جا سکتا ہے؟
جواب : اس کی چند صورتیں ہیں:
(١) جب کھیتی تیار ہوجائے تو اس کا عشر پیشگی دینا جائز ہے ۔
(۲) کھیتی بو نے اور ظاہر ہونے کے بعدادا کیا تو بھی جائز ہے۔
(۳) اگر بونے کے بعد اور ظاہر ہونے سے پہلے ادا کیا تو اظہر (یعنی زیادہ ظاہر) یہ ہے کہ پیشگی ادا کرنا جائز نہیں ۔
(۴) پھلو ں کے ظاہر ہونے سے پہلے دیا تو پیشگی دینا جائز نہیں اور ظاہر ہونے کے بعد دیا تو جائز ہے ۔
(۳) اگر بونے کے بعد اور ظاہر ہونے سے پہلے ادا کیا تو اظہر (یعنی زیادہ ظاہر) یہ ہے کہ پیشگی ادا کرنا جائز نہیں ۔
(۴) پھلو ں کے ظاہر ہونے سے پہلے دیا تو پیشگی دینا جائز نہیں اور ظاہر ہونے کے بعد دیا تو جائز ہے ۔
(فتاویٰ عالمگیر ی ، کتاب الزکاۃ، ج ۱ ، ص ۱۸۶ )
مدینہ : اگرچہ ذکر کی گئی بعض صورتوں میں پیشگی عشر ادا کرنا جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ پیداوار حاصل ہونے کے بعد عشر ادا کیا جائے ۔(البحرالرائق، کتا ب الزکوۃ، ج۲، ص ۳۹۲)
پھل ظاہر ہونے اور کھیتی تیار ہونے سے مراد
سوال:- پھل ظاہر ہونے اور کھیتی تیار ہونے سے کیا مراد ہے؟
جواب:- اس سے مراد یہ ہے کہ کھیتی اتنی تیار ہوجائے اور پھل اتنے پک جائیں کہ ان کے خراب ہونے یا سوکھ جانے وغیرہ کا اندیشہ نہ رہے اگر چہ توڑ نے یا کاٹنے کے قابل نہ ہوئے ہو ں ۔(ماخوذ از فتاویٰ رضویہ ، ج۱۰ ، ص۲۴۱)
پیداوار بیچ دی تو عشر کس پر ہے؟
سوال:- پھل ظاہر ہونے اور کھیتی تیار ہونے کے بعد پھل بیچے تو عشر بیچنے والے پر ہوگا یا خریدنے والے پر ؟
جواب : ایسی صورت میں عشر بیچنے والے پر ہوگا ۔
مدینہ : اگرچہ ذکر کی گئی بعض صورتوں میں پیشگی عشر ادا کرنا جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ پیداوار حاصل ہونے کے بعد عشر ادا کیا جائے ۔(البحرالرائق، کتا ب الزکوۃ، ج۲، ص ۳۹۲)
پھل ظاہر ہونے اور کھیتی تیار ہونے سے مراد
سوال:- پھل ظاہر ہونے اور کھیتی تیار ہونے سے کیا مراد ہے؟
جواب:- اس سے مراد یہ ہے کہ کھیتی اتنی تیار ہوجائے اور پھل اتنے پک جائیں کہ ان کے خراب ہونے یا سوکھ جانے وغیرہ کا اندیشہ نہ رہے اگر چہ توڑ نے یا کاٹنے کے قابل نہ ہوئے ہو ں ۔(ماخوذ از فتاویٰ رضویہ ، ج۱۰ ، ص۲۴۱)
پیداوار بیچ دی تو عشر کس پر ہے؟
سوال:- پھل ظاہر ہونے اور کھیتی تیار ہونے کے بعد پھل بیچے تو عشر بیچنے والے پر ہوگا یا خریدنے والے پر ؟
جواب : ایسی صورت میں عشر بیچنے والے پر ہوگا ۔
(ماخوذ از فتاویٰ رضویہ ، ج۱۰ ، ص۲۴۱)
عشر کی ادائیگی میں تاخیر
سوال:- عشر ادا کر نے میں تا خیر کرنا کیسا؟
جواب : عشر پیداوار کی زکوۃ کا نام ہے اس لئے جو احکام زکوۃ کی ادائیگی کے ہیں ، وہی احکام عشر کی ادائیگی کے بھی ہیں ۔اس لئے بغیر مجبوری کے اس کی ادائیگی میں تاخیر کرنے والا گنہگار ہے اور اس کی شہادت (یعنی گواہی ) مقبول نہیں ۔
عشر کی ادائیگی میں تاخیر
سوال:- عشر ادا کر نے میں تا خیر کرنا کیسا؟
جواب : عشر پیداوار کی زکوۃ کا نام ہے اس لئے جو احکام زکوۃ کی ادائیگی کے ہیں ، وہی احکام عشر کی ادائیگی کے بھی ہیں ۔اس لئے بغیر مجبوری کے اس کی ادائیگی میں تاخیر کرنے والا گنہگار ہے اور اس کی شہادت (یعنی گواہی ) مقبول نہیں ۔
(الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ، الباب الاول ، ج۱، ص۱۷۰)
سوال:- اگر کوئی عشر واجب ہو نے کے باوجود ادا نہ کرے تو کیا کرنا چاہئے؟
جواب : جو خوشی سے عشر نہ دے تو بادشاہ اسلام جبراً (یعنی زبردستی)اس سے عشر لے سکتا ہے اور اس صورت میں بھی عشر ادا ہو جائے گا مگر ثواب کا مستحق نہیں اور خو شی سے ادا کرے تو ثواب کا مستحق ہے۔‘‘
سوال:- اگر کوئی عشر واجب ہو نے کے باوجود ادا نہ کرے تو کیا کرنا چاہئے؟
جواب : جو خوشی سے عشر نہ دے تو بادشاہ اسلام جبراً (یعنی زبردستی)اس سے عشر لے سکتا ہے اور اس صورت میں بھی عشر ادا ہو جائے گا مگر ثواب کا مستحق نہیں اور خو شی سے ادا کرے تو ثواب کا مستحق ہے۔‘‘
(الفتاوی الھندیہ ، کتاب الزکوۃ ، الباب السادس فی زکوۃ الزرع والثمار، ج۱، ص۱۸۵)
عشر ادا کرنے سے پہلے پیداوار کا استعمال
سوال:- کیا عشر اد اکر نے سے پہلے پیداوار استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب : جب تک عشر ادا نہ کر دے یا پیداوار سے عشر الگ نہ کر لے ، اس وقت تک پیداوار میں سے کچھ بھی استعمال کرنا جائز نہیں اور اگر استعمال کر لیا تو اس میں جو عشر کی مقدار بنتی ہے اتنا تاوان ادا کرے البتہ تھوڑا سا استعمال کر لیا تو معاف ہے ۔(الدرالمختار وردالمحتار، کتاب الزکاۃ، مطلب مھم فی حکم اراضی مصر الخ، ج۳، ص۳۲۱، ۳۲۲)
عشر دینے سے پہلے فوت ہوگیا تو؟
سوال:- جس پر عشر واجب ہو اوروہ فوت ہو جائے اور پیداوار بھی موجود ہے تو کیااس میں سے عشر دیا جائے گا؟
جواب : ایسی صورت میں اگر پیداوار موجود ہو تو اس پیداوار میں سے عشر دیا جائے گا۔
عشر ادا کرنے سے پہلے پیداوار کا استعمال
سوال:- کیا عشر اد اکر نے سے پہلے پیداوار استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب : جب تک عشر ادا نہ کر دے یا پیداوار سے عشر الگ نہ کر لے ، اس وقت تک پیداوار میں سے کچھ بھی استعمال کرنا جائز نہیں اور اگر استعمال کر لیا تو اس میں جو عشر کی مقدار بنتی ہے اتنا تاوان ادا کرے البتہ تھوڑا سا استعمال کر لیا تو معاف ہے ۔(الدرالمختار وردالمحتار، کتاب الزکاۃ، مطلب مھم فی حکم اراضی مصر الخ، ج۳، ص۳۲۱، ۳۲۲)
عشر دینے سے پہلے فوت ہوگیا تو؟
سوال:- جس پر عشر واجب ہو اوروہ فوت ہو جائے اور پیداوار بھی موجود ہے تو کیااس میں سے عشر دیا جائے گا؟
جواب : ایسی صورت میں اگر پیداوار موجود ہو تو اس پیداوار میں سے عشر دیا جائے گا۔
(الفتاوی الھندیہ، کتاب الزکوۃ، الباب الساد س فی زکاۃ الزرع، ج۱، ص۱۸۵)
عشر میں رقم دینا
سوال:- کیا عشر میں صرف پیداوار ہی دینی ہوگی یا اس کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے ؟
جواب : موجودہ فصل میں سے جس قدر غلہ یا پھل ہوں ان کا پورا عشر علیحدہ کرے یا اس کی پوری قیمت(بطورِ عشر ) دے ، دونوں طرح سے جائز ہے ۔
عشر میں رقم دینا
سوال:- کیا عشر میں صرف پیداوار ہی دینی ہوگی یا اس کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے ؟
جواب : موجودہ فصل میں سے جس قدر غلہ یا پھل ہوں ان کا پورا عشر علیحدہ کرے یا اس کی پوری قیمت(بطورِ عشر ) دے ، دونوں طرح سے جائز ہے ۔
(الفتاوی المصطفویۃ، ص۲۹۸)
اگر طویل عرصے سے عشر ادا نہ کیا ہوتو؟
سوال:- اگر کئی سال عشر ادا نہ کیا ہو توکیا کِیا جائے ؟
جواب : عشر کی عدمِ ادائیگی پر توبہ کرے اور سابقہ سالوں کے عشر کا حساب لگا کر بقدرِ استطاعت ادا کرتا رہے ۔
اگر طویل عرصے سے عشر ادا نہ کیا ہوتو؟
سوال:- اگر کئی سال عشر ادا نہ کیا ہو توکیا کِیا جائے ؟
جواب : عشر کی عدمِ ادائیگی پر توبہ کرے اور سابقہ سالوں کے عشر کا حساب لگا کر بقدرِ استطاعت ادا کرتا رہے ۔
(ماخوذ از الفتاوی المصطفویۃ، ص۲۹۸)
اگر فصل ہی کاشت نہ کی تو؟
سوال:- اگر زراعت پر قادر ہو نے کے باوجود کسی نے فصل کاشت نہیں کی توکیا اس صورت میں بھی اس پر عشر واجب ہو گا ؟
جواب : اگر کسی نے زراعت پر قادر ہونے کے باوجود فصل کاشت نہیں کی تو پیداوار نہ ہونے کی بنا پراس پر عشر کی ادائیگی واجب نہیں کیونکہ عشر زمین پر نہیں اس کی پیداوار پر واجب ہوتا ہے۔
اگر فصل ہی کاشت نہ کی تو؟
سوال:- اگر زراعت پر قادر ہو نے کے باوجود کسی نے فصل کاشت نہیں کی توکیا اس صورت میں بھی اس پر عشر واجب ہو گا ؟
جواب : اگر کسی نے زراعت پر قادر ہونے کے باوجود فصل کاشت نہیں کی تو پیداوار نہ ہونے کی بنا پراس پر عشر کی ادائیگی واجب نہیں کیونکہ عشر زمین پر نہیں اس کی پیداوار پر واجب ہوتا ہے۔
(ردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ ، باب العشر ، ج۳، ص۳۲۳)
فصل ضائع ہونے کی صورت میں عشر
سوال:- اگر کسی وجہ سے فصل ضائع ہو گئی تو عشر واجب ہو گا ؟
جواب : کھیت بویا مگر پیداوار ضائع ہو گئی مثلاً کھیتی ڈوب گئی یا جل گئی یا سردی اور لُو سے جاتی رہی توان سب صورتوں میں عشر ساقط ہے، جب کہ کل جاتی رہی اور اگر کچھ باقی ہے تو اس با قی کا عشر لیں گے اور اگر جانور کھا گئے تو (عشر)ساقط نہیں اور (عشر)ساقط ہو نے کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ اس کے بعد اس سال کے اندر اس میں دوسری زراعت تیار نہ ہو سکے اور یہ بھی شرط ہے کہ توڑنے یا کاٹنے سے پہلے ہلاک ہو ورنہ ساقط نہیں ۔
فصل ضائع ہونے کی صورت میں عشر
سوال:- اگر کسی وجہ سے فصل ضائع ہو گئی تو عشر واجب ہو گا ؟
جواب : کھیت بویا مگر پیداوار ضائع ہو گئی مثلاً کھیتی ڈوب گئی یا جل گئی یا سردی اور لُو سے جاتی رہی توان سب صورتوں میں عشر ساقط ہے، جب کہ کل جاتی رہی اور اگر کچھ باقی ہے تو اس با قی کا عشر لیں گے اور اگر جانور کھا گئے تو (عشر)ساقط نہیں اور (عشر)ساقط ہو نے کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ اس کے بعد اس سال کے اندر اس میں دوسری زراعت تیار نہ ہو سکے اور یہ بھی شرط ہے کہ توڑنے یا کاٹنے سے پہلے ہلاک ہو ورنہ ساقط نہیں ۔
(ردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ ، ج۳، ص۳۲۳)
عشر کس کو دیا جائے
سوال:- عشر کسے دیا جائے ؟
جواب : عشر چونکہ کھیت کی پیداوار کی زکوۃ کا نام ہے ، اس لئے جن کو زکوۃ دی جاسکتی ہے ان کو عشر بھی دیا جاسکتا ہے۔
ان لوگوں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے :
(۱)فقیر (۲)مسکین (۳)عامل (۴) رِقاب (۵)غارِم (۶)فی سبیل اللہ (۷)ابن السبیل یعنی مسافر۔(الفتاوی الھندیہ ، کتاب الزکوۃ ، الباب السابع فی المصارف ، ج۱، ص۱۸۷)
وضاحت:-
فقیر : وہ جو مالک ِنصاب نہ ہو ۔مالک ِ نصاب ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے سات تولے سونا، یا ساڑھے باون تولے چاندی، یا اتنی مالیت کی رقم، یا اتنی مالیت کا مالِ تجارت ہو ، یا اتنی مالیت کا ضروریات ِ زندگی سے زائد سامان ہو اور اس پر اللہ تَعَالٰی یا بندوں کا اتنا قرض نہ ہو کہ جسے ادا کر کے ذکرکردہ نصاب باقی نہ رہے ۔
(الفتاوی الھندیہ ، کتاب الزکوۃ ، الباب السابع فی المصارف ، ج۱، ص۱۸۷)
مدینہ : ضروریاتِ زندگی سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی عمومًا انسانی کو ضرورت ہوتی ہے اور ان کے بغیر گزر اوقات میں شدید تنگی ودشواری محسوس ہوتی ہے جیسے رہنے کا گھر ، پہننے کے کپڑے ، سواری ، علم دین سے متعلق کتابیں اور پیشے سے متعلق اوزار وغیرہ ۔اللہ تَعَالٰی کے قرض سے مراد سابقہ زکوٰۃ یا قربانی واجب ہونے کے باوجود نہ کرنے کی صورت میں جانور کی قیمت صدقہ کرنا ہے ۔
مسکین : وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لئے اس کا محتاج ہے کہ لوگو ں سے سوال کرے۔ (المرجع السابق)
عامل : وہ ہے جسے بادشاہ اسلام نے زکو ۃ اور عشر وصول کرنے کے لئے مقرر کیا ہو ۔(المرجع السابق، ص۱۸۸)
مدینہ : صدر الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بہار شریعت میں فرماتے ہیں کہ’’ عامل اگرچہ غنی ہو اپنے کام کی اجرت لے سکتا ہے اور ہاشمی ہو تو اس کو مال زکوۃ میں سے دینا بھی ناجائز اور اسے لینا بھی ناجائز ، ہاں اگر کسی اور مَد(یعنی ضمن)میں دیں تو لینے میں حرج نہیں ۔(لیکن فی زمانہ شرعی عامل موجود نہیں ہیں )
عشر کس کو دیا جائے
سوال:- عشر کسے دیا جائے ؟
جواب : عشر چونکہ کھیت کی پیداوار کی زکوۃ کا نام ہے ، اس لئے جن کو زکوۃ دی جاسکتی ہے ان کو عشر بھی دیا جاسکتا ہے۔
ان لوگوں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے :
(۱)فقیر (۲)مسکین (۳)عامل (۴) رِقاب (۵)غارِم (۶)فی سبیل اللہ (۷)ابن السبیل یعنی مسافر۔(الفتاوی الھندیہ ، کتاب الزکوۃ ، الباب السابع فی المصارف ، ج۱، ص۱۸۷)
وضاحت:-
فقیر : وہ جو مالک ِنصاب نہ ہو ۔مالک ِ نصاب ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے سات تولے سونا، یا ساڑھے باون تولے چاندی، یا اتنی مالیت کی رقم، یا اتنی مالیت کا مالِ تجارت ہو ، یا اتنی مالیت کا ضروریات ِ زندگی سے زائد سامان ہو اور اس پر اللہ تَعَالٰی یا بندوں کا اتنا قرض نہ ہو کہ جسے ادا کر کے ذکرکردہ نصاب باقی نہ رہے ۔
(الفتاوی الھندیہ ، کتاب الزکوۃ ، الباب السابع فی المصارف ، ج۱، ص۱۸۷)
مدینہ : ضروریاتِ زندگی سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی عمومًا انسانی کو ضرورت ہوتی ہے اور ان کے بغیر گزر اوقات میں شدید تنگی ودشواری محسوس ہوتی ہے جیسے رہنے کا گھر ، پہننے کے کپڑے ، سواری ، علم دین سے متعلق کتابیں اور پیشے سے متعلق اوزار وغیرہ ۔اللہ تَعَالٰی کے قرض سے مراد سابقہ زکوٰۃ یا قربانی واجب ہونے کے باوجود نہ کرنے کی صورت میں جانور کی قیمت صدقہ کرنا ہے ۔
مسکین : وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لئے اس کا محتاج ہے کہ لوگو ں سے سوال کرے۔ (المرجع السابق)
عامل : وہ ہے جسے بادشاہ اسلام نے زکو ۃ اور عشر وصول کرنے کے لئے مقرر کیا ہو ۔(المرجع السابق، ص۱۸۸)
مدینہ : صدر الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بہار شریعت میں فرماتے ہیں کہ’’ عامل اگرچہ غنی ہو اپنے کام کی اجرت لے سکتا ہے اور ہاشمی ہو تو اس کو مال زکوۃ میں سے دینا بھی ناجائز اور اسے لینا بھی ناجائز ، ہاں اگر کسی اور مَد(یعنی ضمن)میں دیں تو لینے میں حرج نہیں ۔(لیکن فی زمانہ شرعی عامل موجود نہیں ہیں )
(بہارشریعت ، حصہ ۵، ص۵۷)
رِقاب : سے مراد مکاتب غلام ہے۔مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس سے اس کے آقا نے اس کی آزادی کے لئے کچھ قیمت ادا کرنا طے کی ہو ۔ فی زمانہ رِقاب موجود
نہیں ۔(المرجع السابق)
غارِم : سے مراد مقروض ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد زکوٰۃ کا نصاب باقی نہ رہے اگر چہ اس کا دوسروں پر قرض باقی ہو مگر لینے پر قدرت نہ رکھتا ہو ۔
فی سبیل اللہ : یعنی راہِ خدا عزوجل میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں ۔
(۱)کو ئی شخص محتاج ہے اور یہ جہاد میں جانا چاہتا ہے اس کے پاس سواری اور زادِراہ نہیں ہیں تو اسے مالِ زکوۃ دے سکتے ہیں کہ یہ راہِ خدا عزوجل میں دینا ہے اگر چہ وہ کمانے پر قادر ہو ۔
(۲)کو ئی حج کے لئے جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس زادِراہ نہیں اس کو زکوۃ دے سکتے ہیں لیکن اسے حج کے لئے لوگوں سے سوال کرنا جائز نہیں ۔
(۳)طالب ِعلم ، علمِ دین پڑھتا ہے یا پڑھنا چاہتا ہے اس کو بھی دے سکتے ہیں کہ یہ راہِ خداعزوجل میں خرچ کرنا ہے بلکہ طالب ِعلم سوال کر کے بھی مال زکوۃ لے سکتا ہے اگرچہ وہ کمانے پر قدرت رکھتا ہو ۔
(۴)اسی طرح ہر نیک کام میں مالِ زکوۃ استعمال کرنا فی سبیل اللہ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ مال زکوۃ (اور عشر)میں دوسرے کو مالک کر دینا ضروری ہے، بغیر مالک کئے زکوۃ ادا نہیں ہو سکتی ۔
رِقاب : سے مراد مکاتب غلام ہے۔مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس سے اس کے آقا نے اس کی آزادی کے لئے کچھ قیمت ادا کرنا طے کی ہو ۔ فی زمانہ رِقاب موجود
نہیں ۔(المرجع السابق)
غارِم : سے مراد مقروض ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد زکوٰۃ کا نصاب باقی نہ رہے اگر چہ اس کا دوسروں پر قرض باقی ہو مگر لینے پر قدرت نہ رکھتا ہو ۔
فی سبیل اللہ : یعنی راہِ خدا عزوجل میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں ۔
(۱)کو ئی شخص محتاج ہے اور یہ جہاد میں جانا چاہتا ہے اس کے پاس سواری اور زادِراہ نہیں ہیں تو اسے مالِ زکوۃ دے سکتے ہیں کہ یہ راہِ خدا عزوجل میں دینا ہے اگر چہ وہ کمانے پر قادر ہو ۔
(۲)کو ئی حج کے لئے جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس زادِراہ نہیں اس کو زکوۃ دے سکتے ہیں لیکن اسے حج کے لئے لوگوں سے سوال کرنا جائز نہیں ۔
(۳)طالب ِعلم ، علمِ دین پڑھتا ہے یا پڑھنا چاہتا ہے اس کو بھی دے سکتے ہیں کہ یہ راہِ خداعزوجل میں خرچ کرنا ہے بلکہ طالب ِعلم سوال کر کے بھی مال زکوۃ لے سکتا ہے اگرچہ وہ کمانے پر قدرت رکھتا ہو ۔
(۴)اسی طرح ہر نیک کام میں مالِ زکوۃ استعمال کرنا فی سبیل اللہ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ مال زکوۃ (اور عشر)میں دوسرے کو مالک کر دینا ضروری ہے، بغیر مالک کئے زکوۃ ادا نہیں ہو سکتی ۔
(الدرالمختار، کتاب الزکوۃ، باب المصرف ، ج۳، ص۳۳۵)
ابن سبیل : یعنی وہ مسافر (یہاں مسافر سے مراد شرعی مسافر ہے اور شرعی مسافر وہ ہے جو تقریباً 92کلو میٹر سفر کر نے کا ارادہ رکھتا ہو )جس کے پاس سفر کی حالت میں مال نہ رہا، یہ زکوٰۃ لے سکتا ہے اگر چہ اس کے گھر میں مال موجو دہو مگر اسی قدر لے جس سے اس کی ضرورت پوری ہو جائے ، زیادہ کی اجازت نہیں ۔
(الفتاوی الھندیہ ، کتاب الزکوۃ، الباب السابع فی المصارف ، ج۱، ص۱۸۸)
مدینہ (۱) : صدر الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بہار شریعت میں فرماتے ہیں کہ’’ جن لوگوں کی نسبت یہ بیان کیاگیا کہ انہیں زکوۃ دے سکتے ہیں ان سب کا فقیر ہونا شرط ہے سوائے عامل کے کہ اس کے لئے فقیر ہونا شرط نہیں اور ابن السبیل(مسافر) اگر چہ غنی ہو اس وقت فقیر کے حکم میں ہے باقی کسی کو جو فقیر نہ ہو زکوۃ نہیں دے سکتے۔ (بہارشریعت ، حصہ ۵، ص۶۳)
مدینہ(۲) : زکو ۃ دینے والے کو اختیار ہوتاہے کہ چاہے تو عشر کو ان تمام افراد میں تھوڑا تھوڑا تقسیم کردے اور اگر چاہے تو کسی ایک ہی کو دے دے ۔اگر مال ِزکوۃ اتنا ہے کہ بقدر ِنصاب نہیں ہے تو ایک ہی شخص کو دے دینا افضل ہے اوراگر بقدرِ نصاب ہے تو ایک ہی شخص کو دے دینا مکروہ ہے، لیکن زکو ۃ بہر حال ادا ہو جائے گی۔ ہاں اگر وہ شخص غارِم یعنی قرض دار ہے تو اس کو اتنا دے دینا کہ قرض نکال کر کچھ نہ بچے یا نصاب سے کم بچے ، بلاکراہت جائز ہے۔
ابن سبیل : یعنی وہ مسافر (یہاں مسافر سے مراد شرعی مسافر ہے اور شرعی مسافر وہ ہے جو تقریباً 92کلو میٹر سفر کر نے کا ارادہ رکھتا ہو )جس کے پاس سفر کی حالت میں مال نہ رہا، یہ زکوٰۃ لے سکتا ہے اگر چہ اس کے گھر میں مال موجو دہو مگر اسی قدر لے جس سے اس کی ضرورت پوری ہو جائے ، زیادہ کی اجازت نہیں ۔
(الفتاوی الھندیہ ، کتاب الزکوۃ، الباب السابع فی المصارف ، ج۱، ص۱۸۸)
مدینہ (۱) : صدر الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بہار شریعت میں فرماتے ہیں کہ’’ جن لوگوں کی نسبت یہ بیان کیاگیا کہ انہیں زکوۃ دے سکتے ہیں ان سب کا فقیر ہونا شرط ہے سوائے عامل کے کہ اس کے لئے فقیر ہونا شرط نہیں اور ابن السبیل(مسافر) اگر چہ غنی ہو اس وقت فقیر کے حکم میں ہے باقی کسی کو جو فقیر نہ ہو زکوۃ نہیں دے سکتے۔ (بہارشریعت ، حصہ ۵، ص۶۳)
مدینہ(۲) : زکو ۃ دینے والے کو اختیار ہوتاہے کہ چاہے تو عشر کو ان تمام افراد میں تھوڑا تھوڑا تقسیم کردے اور اگر چاہے تو کسی ایک ہی کو دے دے ۔اگر مال ِزکوۃ اتنا ہے کہ بقدر ِنصاب نہیں ہے تو ایک ہی شخص کو دے دینا افضل ہے اوراگر بقدرِ نصاب ہے تو ایک ہی شخص کو دے دینا مکروہ ہے، لیکن زکو ۃ بہر حال ادا ہو جائے گی۔ ہاں اگر وہ شخص غارِم یعنی قرض دار ہے تو اس کو اتنا دے دینا کہ قرض نکال کر کچھ نہ بچے یا نصاب سے کم بچے ، بلاکراہت جائز ہے۔
(بہارشریعت ، حصہ ۵، ص۵۹)
جن کو عشر نہیں دے سکتے
سوال:- وہ کون سے لوگ ہیں جن کو عشر نہیں دے سکتے؟
جواب : عشر چونکہ کھیت کی پیداوار کی زکوۃ کا نام ہے اس لئے جن کو زکوۃ نہیں دے سکتے ان کو عشر بھی نہیں دے سکتے۔مثلاً (۱)بنی ہاشم کو زکوۃ نہیں دے سکتے چاہے دینے والا ہاشمی ہو یا غیرِ ہاشمی ۔بنی ہاشم سے مراد حضرت علی وجعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبد المطلب کی اولاد ہیں۔
جن کو عشر نہیں دے سکتے
سوال:- وہ کون سے لوگ ہیں جن کو عشر نہیں دے سکتے؟
جواب : عشر چونکہ کھیت کی پیداوار کی زکوۃ کا نام ہے اس لئے جن کو زکوۃ نہیں دے سکتے ان کو عشر بھی نہیں دے سکتے۔مثلاً (۱)بنی ہاشم کو زکوۃ نہیں دے سکتے چاہے دینے والا ہاشمی ہو یا غیرِ ہاشمی ۔بنی ہاشم سے مراد حضرت علی وجعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبد المطلب کی اولاد ہیں۔
(بہار شریعت ،حصہ ۵،ص٦٣)
(۲)اپنی اصل یعنی ماں ، باپ ، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ جن کی اولاد میں یہ(یعنی زکوٰۃ دینے والا) ہے اور اپنی اولاد مثلاً، بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی وغیرہ کو زکوۃ نہیں دے سکتے۔
(۲)اپنی اصل یعنی ماں ، باپ ، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ جن کی اولاد میں یہ(یعنی زکوٰۃ دینے والا) ہے اور اپنی اولاد مثلاً، بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی وغیرہ کو زکوۃ نہیں دے سکتے۔
(رد المحتار، کتاب الزکوۃ، باب المصرف، ج۳، ص۳۴۴)
(۳)میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوۃ نہیں دے سکتے ۔اسی طرح اگر شوہر طلاق دے چکا ہو اور عورت عدت میں ہوتو شوہر اسے زکوٰۃ نہیں دے سکتا اور اگر عدت گزر چکی ہو تو زکوۃ دے سکتا ہے ۔
(۳)میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوۃ نہیں دے سکتے ۔اسی طرح اگر شوہر طلاق دے چکا ہو اور عورت عدت میں ہوتو شوہر اسے زکوٰۃ نہیں دے سکتا اور اگر عدت گزر چکی ہو تو زکوۃ دے سکتا ہے ۔
(الدرالمختار وردالمحتار، کتاب الزکاۃ، باب المصرف، ج۳، ص۳۴۵)
امام مسجد کو عشر دینا
سوال:- کیا اما م مسجد کو عشر دیا جاسکتا ہے؟
جواب : امام صاحب اگر شرعی فقیر نہ ہوں یا سید صاحب ہوں تو ان کو عشر نہیں دیا جاسکتا اور اگر وہ شرعی فقیر ہوں اور سید زادے نہ ہوں تو اس کو عشر دیا جاسکتا ہے بلکہ اگر وہ عالم ہوں تو انہی کو دینا افضل ہے ۔ مگر عالم کو دیتے وقت اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ اس کا احترام پیش ِنظر ہو اور دینے والا ادب کے ساتھ دے جیسے چھوٹے بڑوں کو کو ئی چیز نذر کرتے ہیں اور معاذ اللہ عَزَّ وَجَلَّ عالم دین کو دیتے وقت اگر حقارت دل میں آئی تو یہ ہلاکت بلکہ بہت بڑی ہلاکت ہے۔
امام مسجد کو عشر دینا
سوال:- کیا اما م مسجد کو عشر دیا جاسکتا ہے؟
جواب : امام صاحب اگر شرعی فقیر نہ ہوں یا سید صاحب ہوں تو ان کو عشر نہیں دیا جاسکتا اور اگر وہ شرعی فقیر ہوں اور سید زادے نہ ہوں تو اس کو عشر دیا جاسکتا ہے بلکہ اگر وہ عالم ہوں تو انہی کو دینا افضل ہے ۔ مگر عالم کو دیتے وقت اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ اس کا احترام پیش ِنظر ہو اور دینے والا ادب کے ساتھ دے جیسے چھوٹے بڑوں کو کو ئی چیز نذر کرتے ہیں اور معاذ اللہ عَزَّ وَجَلَّ عالم دین کو دیتے وقت اگر حقارت دل میں آئی تو یہ ہلاکت بلکہ بہت بڑی ہلاکت ہے۔
(بہارِ شریعت، حصہ ۵، ص۶۳)
فتاوی عالمگیری میں ہے کہ’’فقیر عالم پر صدقہ کر نا جاہل فقیر پر صدقہ کرنے سے افضل ہے ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے کہ’’فقیر عالم پر صدقہ کر نا جاہل فقیر پر صدقہ کرنے سے افضل ہے ۔
(الفتاوی الھندیہ ، کتاب الزکوۃ، الباب السابع فی المصارف، ج۱، ص۱۸۷)
سوال:- امام مسجد کو بطور اجرت عشر دینا کیسا؟
جواب : امام مسجد کو (حیلۂ شرعی کے بغیر)بطور اجرت عشر دینا جائز نہیں کیونکہ مسجد مصارف ِزکوۃ میں سے نہیں ہے اور عشر کے احکام وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں ۔
مدینہ : فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالی زکوٰۃ (وعشر)کا شرعی حِیلہ کرنے کا طریقہ یوں ارشاد فرماتے ہیں ، کہ فقیر کو ( زکوٰۃ کی رقم کا ) مالِک کردیں اور وہ ( تعمیرِ مسجِد وغیرہ میں ) صَرف کرے، اس طرح ثو اب دونوں کو ہو گا ۔
سوال:- امام مسجد کو بطور اجرت عشر دینا کیسا؟
جواب : امام مسجد کو (حیلۂ شرعی کے بغیر)بطور اجرت عشر دینا جائز نہیں کیونکہ مسجد مصارف ِزکوۃ میں سے نہیں ہے اور عشر کے احکام وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں ۔
مدینہ : فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالی زکوٰۃ (وعشر)کا شرعی حِیلہ کرنے کا طریقہ یوں ارشاد فرماتے ہیں ، کہ فقیر کو ( زکوٰۃ کی رقم کا ) مالِک کردیں اور وہ ( تعمیرِ مسجِد وغیرہ میں ) صَرف کرے، اس طرح ثو اب دونوں کو ہو گا ۔
(ردالمحتارج۳ص۳۴۳)
نوٹ:- عشر کے احکام متعلق سوال و جواب جاری ہے
قسط دوم کا انتظار کریں۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
محمد مفید عالم قادری صمدی