صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اورتعظیم رسول قسط دوم
••────────••⊰❤️⊱••───────••
عروہ بن مسعود کہتے ہیں کہ جب قریش نے انھیں صلح حدیبیہ کے سال نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم خدمت میں بھیجا ، انھوں نے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم بے پنا ہ تعظیم دیکھی ، انھوں نے دیکھا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم جب بھی وضو فرماتے تو صحابہ کرا م عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان وضو کا پانی حاصل کرنے کے لئے بے حد کوشش کرتے حتی کہ قریب تھا کہ وضو کا پانی نہ ملنے کے سبب لڑ پڑیں۔ انہوں نے دیکھا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم دہن مبارک یا بینی مبارک کا پا نی ڈالتے تو صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اسے ہاتھوں میں لیتے ، اپنے چہر ے اور جسم پرم لتے اور آبرو پاتے ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کوئی بال جسد اطہر سے جدا نہیں ہوتا تھا مگر اس کے حصول کے لئے جلدی کرتے ، جب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم انھیں کوئی حکم دیتے تو فوراََ تعمیل کرتے اور جب نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فرماتے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سامنے خاموش رہتے اور ازراہ تعظیم آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے۔
(الشفاء ، الباب الثالث ، ج۲ ، ص۶۹)
جب عروہ بن مسعود قریش کے پاس واپس گئے تو انھیں کہا اے قوم قریش!میں کسریٰ ، قیصر اور نجاشی یعنی شا ہ فارس ، شاہ روم اور شاہ حبشہ کے پاس ان کی حکومت میں گیا ہوں ، بخدا میں نے ہر گز کوئی بادشاہ اپنی قوم میں اتنا محترم نہیں دیکھا جس قدر محمد( صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم)اپنے اصحاب میں معزز ہیں ۔ ایک روایت میں ہے ’’میں نے کبھی ایسا بادشاہ نہیں دیکھاکہ اس کے رفیق اس کی اس قدر تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اصحاب عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان آپ کی تعظیم کرتے ہیں۔ تحقیق کہ میں نے ایسی قوم دیکھی ہے جو کبھی بھی نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نہیں چھوڑے گی اور ہمیشہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تعظیم کرتی رہے گی۔ ‘‘
حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں چاہتا تھا کہ کسی امر کے بارے میں رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سوال کروں لیکن آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہیبت کے سبب دو سال تک مؤخر کرتارہا۔
جب عروہ بن مسعود قریش کے پاس واپس گئے تو انھیں کہا اے قوم قریش!میں کسریٰ ، قیصر اور نجاشی یعنی شا ہ فارس ، شاہ روم اور شاہ حبشہ کے پاس ان کی حکومت میں گیا ہوں ، بخدا میں نے ہر گز کوئی بادشاہ اپنی قوم میں اتنا محترم نہیں دیکھا جس قدر محمد( صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم)اپنے اصحاب میں معزز ہیں ۔ ایک روایت میں ہے ’’میں نے کبھی ایسا بادشاہ نہیں دیکھاکہ اس کے رفیق اس کی اس قدر تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اصحاب عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان آپ کی تعظیم کرتے ہیں۔ تحقیق کہ میں نے ایسی قوم دیکھی ہے جو کبھی بھی نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نہیں چھوڑے گی اور ہمیشہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تعظیم کرتی رہے گی۔ ‘‘
حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں چاہتا تھا کہ کسی امر کے بارے میں رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سوال کروں لیکن آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہیبت کے سبب دو سال تک مؤخر کرتارہا۔
(الشفاء ، الباب الثالث ، ج۲ ، ص۷۱)
حضرت عمر وبن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم زیادہ نہ توکوئی محبوب تھا اور نہ میری نگاہ میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمسے زیادہ کوئی محترم تھا اس کے باوجود آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم احترام کے سبب میں آنکھ بھر کر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم جمال کی زیارت نہ کرسکتا تھا۔ اگر مجھ سے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم صفت پوچھی جائے تو میں بیان نہیں کرسکوں گا کیونکہ میں آنکھ بھر کر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم جمال سے بہرہ نہیں ہوسکتا تھا۔ ‘‘
(الشفاء ، الباب الثالث ، ج۲ ، ص۶۸)
حضرت عمر وبن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم زیادہ نہ توکوئی محبوب تھا اور نہ میری نگاہ میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمسے زیادہ کوئی محترم تھا اس کے باوجود آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم احترام کے سبب میں آنکھ بھر کر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم جمال کی زیارت نہ کرسکتا تھا۔ اگر مجھ سے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم صفت پوچھی جائے تو میں بیان نہیں کرسکوں گا کیونکہ میں آنکھ بھر کر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم جمال سے بہرہ نہیں ہوسکتا تھا۔ ‘‘
(الشفاء ، الباب الثالث ، ج۲ ، ص۶۸)
حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں بارگاہ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اس حال میں حاضر ہو ا کہ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم گرد اس طرح بیٹھے ہوئے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔
(الشفاء ، الباب الثالث ، ج۲ ، ص۶۹)
(یعنی وہ اپنے سروں کو حرکت نہیں دے رہے تھے کیونکہ پرندہ ا س جگہ بیٹھتا ہے جو ساکن ہو۔ )
حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اطلاع ملی کہ کابس بن ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم (صورۃً)مشابہ ہیں جب حضر ت کابس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر کے دروازے سے داخل ہوئے تو حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے تخت سے اٹھ کھڑے ہوئے ان کا استقبال کیا ، ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور انھیں مِرغَب( ایک مقام) عنایت فرمایا( یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ) ان کی صورت نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ملتی جلتی تھی۔
(الشفاء ، الباب الثالث ، ج۲ ، ص۸۸)
اگر اجلہ صحا بہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی تعظیم اور اس بابرکت بارگاہ کے احترام میں مبالغہ کرنے اور ہر باب میں آداب کی رعایت کرنے کی روایات کا احاطہ کیاجائے تو کلام طویل ہوجائیگا ۔ تمام صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اس ذات کریم کو بہترین القاب ، کمالِ تواضع اور مرتبہ و مقام کی انتہائی رعایت سے خطاب کرتے تھے اور ابتدا ء ِکلام میں صلوٰۃ کے بعد
(یعنی وہ اپنے سروں کو حرکت نہیں دے رہے تھے کیونکہ پرندہ ا س جگہ بیٹھتا ہے جو ساکن ہو۔ )
حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اطلاع ملی کہ کابس بن ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم (صورۃً)مشابہ ہیں جب حضر ت کابس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر کے دروازے سے داخل ہوئے تو حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے تخت سے اٹھ کھڑے ہوئے ان کا استقبال کیا ، ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور انھیں مِرغَب( ایک مقام) عنایت فرمایا( یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ) ان کی صورت نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ملتی جلتی تھی۔
(الشفاء ، الباب الثالث ، ج۲ ، ص۸۸)
اگر اجلہ صحا بہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی تعظیم اور اس بابرکت بارگاہ کے احترام میں مبالغہ کرنے اور ہر باب میں آداب کی رعایت کرنے کی روایات کا احاطہ کیاجائے تو کلام طویل ہوجائیگا ۔ تمام صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اس ذات کریم کو بہترین القاب ، کمالِ تواضع اور مرتبہ و مقام کی انتہائی رعایت سے خطاب کرتے تھے اور ابتدا ء ِکلام میں صلوٰۃ کے بعد
’’ فَدَیْتُکَ بِاَبِیْ وَ اُمِّیْ‘‘
میرے والدین بھی آپ پر فدا ہوں ، یا
’’ بِنَفْسِیْ اَنْتَ یَارَسُوْل! ‘‘
میری جان آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمپر نثار ہے ، جیسے کلمات استعمال کرتے تھے اور فیض صحبت کی فراوانی کے باوجود ، محبت کی شدت کے تقاضے کی بنا پر ، تعظیم و توقیر میں کوتا ہی اور تقصیر کے مرتکب نہیں ہوتے تھے بلکہ ہمیشہ حضور سید الانام صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تعظیم و اجلال میں اضافہ کرتے تھے۔
تابعین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور
تعظیم ِمصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
اسی طرح تابعین اور تبع تابعین بھی صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی تعظیم آثار کے معاملہ میں انھیں کے نقش قدم پر تھے۔ حضرت مصعب بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب امام مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ذکر کیا جاتا تو ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ان کی پشت جھک جاتی یہاں تک کہ یہ امران کے ہم نشینوں پر گراں گزرتا۔
ایک دن حاضرین نے امام مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ان کی اس کیفیت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا : جوکچھ میں نے دیکھاہے ، تم دیکھتے تو مجھ پر اعتراض نہ کرتے ۔ میں نے قاریوں کے سردار حضرت محمد بن منکدر کو دیکھا کہ میں نے جب بھی ان سے کوئی حدیث پوچھی تو وہ رو دیتے یہاں تک کہ مجھے ان کے حال پر رحم آتا تھا۔
(الشفاء ، الباب الثالث ، ج۲ ، ص۷۳)
واقعاتِ تعظیم
۵ ھ میں غزوہ بنی المصطلق سے واپسی کے وقت قافلہ قریب مدینہ ایک پڑاؤ پر ٹھہرا تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا ضرورت کے لئے کسی گوشہ میں تشریف لے گئیں ، وہاں آپ کا ہار ٹوٹ گیا اسکی تلاش میں مشغول ہوگئیں ادھر قافلہ نے کوچ کیااور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا محمل شریف اونٹ پر کس دیا اور انھیں یہی خیال رہا کہ ام المومنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا اس میں ہیں اور قافلہ چل دیا ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا آکر قافلہ کی جگہ بیٹھ گئیں اور آپ نے خیال کیا کہ میری تلاش میں قافلہ ضرور واپس ہوگا۔ قافلے کے پیچھے گری پڑی چیز اٹھانے کے لئے ایک صاحب رہا کرتے تھے۔ اس موقع پر حضرت صفوان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس کام پر تھے جب وہ آئے اور انھوں نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا کو دیکھا تو بلند آواز سے ’’ اِنَّاللہِ وَ اِنَّـآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ‘‘ پکارا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا نے کپڑے سے پردہ کرلیا انھوں نے اپنی اونٹنی بٹھائی ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا اس پر سوارہو کر لشکر میں پہنچیں ۔ منافقین سیاہ باطن نے اوہامِ فاسدہ پھیلائے اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی شان میں بدگوئی شروع کی بعض مسلمان بھی اُن کے فریب میں آگئے اور انکی زبان سے بھی کوئی کلمۂ بے جا سرزد ہوا۔ ام المومنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا بیمار ہوگئیں اور ایک ماہ تک بیمار رہیں اس زمانہ میں انھیں اطلاع نہ ہوئی کہ منافقین ان کی نسبت کیا بک رہے ہیں۔
ایک روز ام مسطح سے انھیں یہ خبر معلوم ہوئی اس سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا مرض اور بڑھ گیا اور اس صدمہ میں اس قدرروئیں کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا کے آنسو نہ تھمتے تھے اور نہ ایک لمحہ کیلئے نیند آتی تھی۔ اس حال میں سید عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمپر وحی نازل ہوئی اور حضرت ام المومنینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاکی طہارت میں آیات قرآنی نازل ہوئیں جن سے آپ کا شرف و مرتبہ بڑھایا گیا اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی طہارت و فضیلت ازحد بیان ہوئی۔
سیدِ عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم برسرِمنبر بقسم فرمادیا تھاکہ مجھے اپنے اہل کی پاکی و خوبی بالیقین معلوم ہے تو جس شخص نے ان کے حق میں بد گوئی کی ہے اس کی طرف سے میرے پاس کون معذرت پیش کرسکتا ہے۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا : منافقین بالیقین جھوٹے ہیں ام المومنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا بالیقین پاک ہیں ، اللہ تعالیٰ نے سید عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم جسم پاک کو مکھی کے بیٹھنے سے محفوظ رکھا کہ وہ نجاستوں پر بیٹھتی ہے ، کیسے ہوسکتاہے کہ وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم بدعورت کی صحبت سے محفوظ نہ رکھے۔
حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بھی اسی طرح آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی طہارت بیان کی اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سایہ زمین پر نہ پڑنے دیا تاکہ ا س سایہ پر کسی کا قدم نہ پڑے تو جو پروردگار عزوجل آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سایہ کو محفوظ رکھتا ہے کس طرح ممکن ہے کہ وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اہل کو محفوظ نہ فرمائے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے عرض کیا : کہ ایک جوں کا خون لگنے سے پروردگارِ عالم عزوجل نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نعلین اتار دینے کا حکم دیا ، جو پروردگار عزوجل آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نعلین کی اتنی سی بات رَوَا ، نہ فرمائے ممکن نہیں کہ وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے اہل کی آلودگی گوارا کرے۔ اسی طرح بہت سے صحابہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاناور صحابیات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ نے قسمیں کھائیں۔
(مدارج النبوت ، قسم سوئم ، باب پنجم ، ازہجرت آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ، ج۲ ، ص۱۵۹)
حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں روایت ہے کہ جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم حدیبیہ کے موقع پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو قریش کے پاس بھیجا توقریش نے حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو طواف کعبہ کی اجازت دے دی لیکن حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ :
مَاکُنْتُ لِاَفْعَلَ حَتّٰی یَطُوْفَ بِہِ رَسُوْلُ اللہِ صَلّٰی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میں اس وقت تک طواف نہیں کرسکتا جب تک کہ رسول اللہ عزوجل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم طواف نہیں کرتے۔
(الشفاء ، الباب الثالث ، ج۲ ، ص۷۰)
بے نظیر ضیافت
ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی ضیافت کی اور عرض کیا : یا رسول اللہعزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم! میرے غریب خانہ پر اپنے دوستوں سمیت تشریف لائیں اور ماحضر تناول فرمائیں۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم یہ دعوت قبول فرمالی اور وقت پر مع صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر تشریف لے چلے ، حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پیچھے چلنے لگے اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ایک ایک قدم مبارک جو ان کے گھر کی طرف چلتے ہوئے زمین پر پڑرہا تھا گننے لگے ، حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم دریافت فرمایا : اے عثمان! یہ میرے قدم کیوں گن رہے ہو؟ حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا : یا رسول اللہ عزوجل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، میں چاہتا ہوں کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ایک ایک قدم کے عوض میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی تعظیم و توقیر کی خاطر ایک ایک غلام آزاد کروں چنانچہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے گھر تک حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم جس قدر قدم پڑے اسی قدر غلام حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آزاد کئے۔ (جامع المجزات ، ص۲۵۷)
شاہکار تعظیم
غزوہ خیبر سے واپسی میں منزل صہبا پر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے نماز عصر پڑھ کر مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے زانو پر سر مبارک رکھ کر آرام فرمایا : مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریمنے نماز عصر نہ پڑھی تھی ، آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ وقت جارہا ہے مگر اس خیال سے کہ زانو سرکاؤں تو شاید خواب مبارک میں خلل آئے زانو نہ ہٹایا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا۔ جب چشم اقدس کھلی مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنی نماز کا حال عرض کیا ، حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم دعا کی ، ڈوبا ہوا سورج پلٹ آیا ، مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے نماز عصر ادا کی ، پھر ڈوب گیا اس سے ثابت ہوا کہ افضل العبادات نماز ، وہ بھی نماز وسطیٰ یعنی عصرمولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نیند پر قربان کر دی کہ عبادتیں بھی ہمیں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم یہ کے صدقہ میں ملیں۔
(الشفاء ، ج۱ ، ص۵۹۴۔ شواہدالنبوۃ ، رکن سادس ، ص۲۲۰)
بوقت ہجرت غار ثور میں پہلے حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُگئے اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر اس کے سوراخ بند کئے ایک سوراخ باقی رہ گیا اس میں پاؤں کا انگو ٹھا رکھ دیا ، پھر حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکو بلایا تشریف لے گئے اور انکے زانو پر سر اقدس رکھ کر آرام فرمایا اس غار میں ایک سانپ مشتاقِ زیارت رہتا تھا ، اس نے اپنا سر صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاؤں پر ملا انھوں نے اس خیال سے کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی نیند میں فرق نہ آئے پاؤں نہ ہٹایا۔ آخر اس نے پاؤں میں کاٹ لیا جب صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے آنسو چہرہ انور پر گرے چشم مبارک کھلی ، عرض حال کیا۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے لعاب دہن لگادیا فوراََ آرام ہوگیا۔ ہر سال وہ زہر عود کرتا ، بارہ برس بعد اسی سے شہادت پائی۔ صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جان بھی سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نیند پر قربان کی۔
(مدارج النبوت ، ج۲ ، ص۵۸)
ان ہی نکات کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ نے اپنے ان اشعار میں بیان فرمایا ہے :
مولا علی نے واری تری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلی خطر کی ہے
صدیق بلکہ غار میں جاں اس پہ دے چکے
اور حفظ جاں توجان فروض غررکی ہے
ہاں تونے ان کو جان انھیں پھیر دی نماز
پر وہ تو کرچکے تھے جو کرنی بشر کی ہے
ثابت ہو ا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
(حدائق بخشش)
ادب ِسرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
صحیح بخاری میں سہل بن سعد ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ ایک روز رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے واسطے تشریف لے گئے۔ جب نماز کا وقت ہو ا مؤذن نے حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے تاکہ میں اقامت کہوں ، فرمایا : ہاں !اور انھوں نے امامت کی ، اس عرصہ میں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم بھی تشریف لے آئے اور صف میں قیام فرمایا ، جب نمازیوں نے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم دیکھا تو تصفیق کی(بائیں ہاتھ کی پشت پر دائیں ہاتھ کی انگلیاں اس طرح مارنا کہ آواز پیداہو ، تصفیق کہلاتا ہے۔ )اس غرض سے کہ صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُخبردار ہو جائیں کیونکہ ان کی
عادت تھی کہ نماز میں کسی طرف توجہ نہ کرتے تھے جب صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تصفیق کی آواز سنی تو گو شۂ چشم سے دیکھا کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمتشریف فرما ہیں ، لہذا پیچھے ہٹنے کا قصد کیا اس پر حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے اشارہ سے فرمایا کہ اپنی ہی جگہ پر قائم رہو ، صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اس نوازش پر کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے مجھے امامت کا حکم فرمایا ، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور پیچھے ہٹ کر صف میں کھڑے ہوگئے اور رسول اللہعزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمآگے بڑھے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ ابو بکر! جب میں خود تمھیں حکم کر چکا تھاتو تم کو اپنی جگہ پر کھڑے رہنے سے کون سی چیز مانع تھی عرض کیا : یا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم!ابو قحافہ کا بیٹا اس لائق نہیں کہ رسول اللہ عزوجل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمسے آگے بڑھ کر نماز پڑھا ئے۔
(صحیح البخاری ، کتاب الاذان ، باب من دخل لیؤم الناس....الخ ، الحدیث۶۸۴ ، ج۱ ، ص۲۴۴)
عزتِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کیلئے مرمٹنے کا جذبہ
حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مشہور اور بڑے صحابہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُممیں سے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں بدر کی لڑائی میں میدان میں لڑنے والوں کی صف میں کھڑا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میرے دائیں اور بائیں جانب انصار کے دو کم عمر لڑکے ہیں۔ مجھے خیال ہوا کہ میں اگر قوی اور مضبوط لوگوں کے درمیان ہوتا تو اچھا تھا کہ ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مد د کرسکتے میرے دونوں جانب بچے ہیں یہ کیا مد د کرسکیں گے۔ اتنے میں ان دونوں لڑکوں میں سے ایک نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا ، چچا جان تم ابو جہل کو پہچانتے ہو میں نے کہا ہاں پہچانتا ہوں تمہاری کیا غرض ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے معلوم ہواہے کہ وہ رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی شان میں گالیاں بکتا ہے۔ اُس ذات پاک کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اسکو دیکھ لوں تو میں اس سے جدا نہیں ہوں گا یہاں تک کہ وہ مرجائے یا میں مرجاؤں مجھے اس کے سوال اور جواب پر تعجب ہوا۔ اتنے میں دوسرے نے یہی سوال کیا اور جو پہلے نے کہا تھا وہی اس نے بھی کہا اتفاقاً ابوجہل میدان میں مجھے دوڑتا ہوا نظر آگیامیں نے ان دونوں سے کہا کہ تمھار ا مطلوب جس کے بارے میں تم مجھ سے سوال کررہے تھے وہ جارہا ہے۔ دونوں یہ سنکر تلواریں ہاتھ میں لئے ہوئے ایک دم بھاگے چلے گئے اور جا کر اس پر تلوار چلانی شروع کردی یہاں تک کہ اس کوگرادیا۔
(صحیح البخاری ، کتاب المغازی ، باب ۱۰ ، الحدیث۳۹۸۸ ، ج۳ ، ص۱۴)
گستاخی کی سزا
حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی ایک بیٹی حضرت رقیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاتھیں جو اپنی بہن حضرت ز ینب رضی اللہ تعالیٰ عنھاسے تین برس بعد پید ا ہوئیں جبکہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی عمر شریف ۳۳ بر س تھی۔ اور بعض نے حضرت رقیہ کو حضرت زینب سے بڑی بتایاہے رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ وہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنھاسے چھوٹی تھیں۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے چچا ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے نکاح ہو اتھا۔ جب سورۂ تبت نازل ہوئی تو ابولہب نے اس سے اور اس کے دوسرے بھائی عتیبہ ، جس کے نکاح میں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی تیسری شہزادی حضرت ام کلثوم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاتھیں ، سے یہ کہاکہ میری ملاقات تم سے حرام ہے اگر تم محمد ( صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم) کی بیٹیوں کو طلاق نہ دیدو ، اس پر دونوں نے طلاق دیدی۔ یہ دونوں نکاح بچپن میں ہوئے تھے رخصتی کی نوبت بھی نہیں آئی تھی۔ اسکے بعد فتح مکہ پر حضرت رقیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے خاوند مسلمان ہوگئے تھے مگر بیوی کو پہلے ہی طلاق دے چکے تھے حضرت رقیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کا نکاح حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے عرصہ ہوا ہوچکا تھا اور حضرت رقیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے دونوں مرتبہ حبشہ کی ہجرت کی۔ (المواہب اللدنیۃ ، المقصد الثانی ، الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام ، ج۲ ، ص۶۱)
حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی تیسری شہزادی حضرت ام کلثوم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاتھیں اس میں اختلاف ہے کہ ان میں اور حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہما میں سے کون بڑی تھیں اکثر کی رائے یہ ہے ام کلثوم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا بڑی تھیں۔ اول عتیبہ بن ابی لہب سے نکاح ہو ا مگر رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ سورئہ تَبَّت کے نازل ہونے پر طلاق کی نوبت آئی جیسا کہ حضرت رقیہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے بیان میں گزرا لیکن ان کے خاوند تو مسلمان ہوگئے تھے جیسا کہ گزرچکا اور ان کے خاوند عتیبہ نے طلاق دی اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی خدمت اقدس میں آکر نہایت گستاخی و بے ادبی سے پیش آیا اور نا مناسب الفاظ بھی زبان سے نکالے۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے دعائے ضرر ، دی کہ یا اللہ! عزوجل اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس پر مسلط فرما ، ابو طالب اس وقت موجود تھا باوجود مسلمان نہ ہونے کے سہم گیا اور کہا کہ ا س دعائے ضرر سے تجھے خلاصی نہیں۔ چنانچہ عتیبہ ایک مرتبہ شام کے سفر میں جارہا تھا اس کا باپ ابو لہب باوجود ساری عداوت اور دشمنی کے کہنے لگا کہ محمد کی دعائے ضرر کی فکر ہے ، قافلے کے سب لوگ ہماری خبر رکھیں۔ ایک منزل پر پہنچے وہاں شیر زیادہ تھے ، رات کو تمام قافلے کا سامان ایک جگہ جمع کیا اور اس کا ٹیلا سا بنا کر اس پر عتیبہ کو سلایا اور قافلے کے تما م آدمی چاروں طرف سوئے۔ رات کو ایک شیر آیا اور سب کے منہ سونگھے اسکے بعد ایک جست لگائی اور اس ٹیلے پر پہنچ کر عتیبہ کا سر بدن سے جدا کر دیا ، اس نے ایک آواز دی مگر ساتھ ہی کام تمام ہوچکا تھا۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ مسلمان ہوچکا تھا اور یہ قصہ پہلے بھائی کے ساتھ پیش آیا۔ بہر حال حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما کے پہلے شوہروں میں سے ایک مسلمان ہوئے دوسرے کے ساتھ یہ عبرت کا واقعہ پیش آیا۔ (المرجع السابق ، ص۶۲)
تعظیمِ ارشادِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
{۱} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ رسول اللہ عزوجل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے اس کو نکال کرپھینک دیا اور فرمایا : کیا تم میں کوئی چاہتا ہے کہ آگ کا انگارا اپنے ہاتھ میں ڈالے۔ رسول اللہ عزوجل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے تشریف لے جانے کے بعد کسی نے اس شخص سے کہا تو اپنی انگوٹھی اٹھااور بیچ کر اس سے فائدہ اٹھا ، اس نے جواب دیا نہیں اللہ عزوجل کی قسم میں اسے کبھی نہیں لونگا جب رسول خداعزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم نے اسے پھینک دیا ہے تو میں اسے کیسے لے سکتاہوں ؟
(مشکوٰۃ ، کتاب اللباس ، باب الخاتم ، الفصل الاول ، الحدیث۴۳۸۵ ، ج۲ ، ص۴۸۱)
{۲} حضرت عمر وبن شعیب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سفر میں ہم لوگ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے ساتھ تھے ۔ میں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرے اوپر ایک چادر تھی جوکسم کے رنگ میں ہلکی سی رنگی ہوئی تھی۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے دیکھ کر فرمایا : یہ کیا اوڑھ رکھا ہے؟ مجھے اس سوال سے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی ناگواری کے آثار معلوم ہوئے۔ گھر والوں کے پاس واپس ہوا تو انہوں نے چولھا جلا رکھا تھا میں نے وہ چادر اس میں ڈال دی۔ دوسرے روز جب حاضرہوا تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ وہ چادر کیا ہوئی۔ میں نے قصہ سنادیا ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا : عورتوں میں سے کسی کو کیوں نہ پہنادی عورتوں کے پہننے میں تو کوئی مضایقہ نہ تھا۔
(سنن ابی داود ، کتاب اللباس ، باب فی الحمرۃ ، الحدیث۴۰۶۶ ، ج۴ ، ص۷۳)
{۳}حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمایک مرتبہ دولت کدے سے باہر تشریف لے جارہے تھے راستے میں ایک قبہ (گنبد دار حجرہ) دیکھا جو اوپر بنا ہوا تھا۔ صحابہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمسے دریافت کیا ، یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا : فلاں انصاری نے قبہ بنایا ہے۔ حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمسن کر خاموش رہے کسی دوسرے وقت وہ انصاری حاضر خدمت ہوئے۔ سلام عرض کیا ، حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے اعراض فرمایا ، سلام کا جواب بھی نہ دیا انہوں نے اس خیال سے کہ شاید خیال نہ ہوا ہو دوبارہ سلام عرض کیا حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے پھر اعراض فرمایا اور جواب نہیں دیا وہ اس کے کیسے متحمل ہوسکتے تھے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے جو وہاں موجود تھے کہا : خدا عزوجل کی قسم! سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمتومجھے ناپسند فرمارہے ہیں۔ انھوں نے کہا حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمباہر تشریف لے گئے تھے راستہ میں تمہاراقبہ دیکھا تھا اور دریافت فرمایا تھا کہ کس کا ہے ؟
یہ سن کر و ہ صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فوراً گئے اور اس کو توڑ کر ایسا زمین کے برابر کردیا کہ نام و نشان بھی نہ رہا اور پھر آکر عرض بھی نہیں کیا ۔ اتفاقاً حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمہی کا اس جگہ کسی دوسرے موقع پر گزر ہوا تو دیکھا کہ وہ قبہ وہاں نہیں ہے ، دریافت فرمایا صحابہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کیا انصاری نے آنحضرت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے اعراض کو ، کئی روز ہوئے ذکر کیا تھا ، تو ہم نے کہہ دیا تھا تمھار اقبہ دیکھا ہے انھوں نے آکر اس کو بالکل توڑدیا ۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا کہ ہر تعمیر آدمی پر وبال ہے مگر و ہ تعمیر جو سخت ضرورت اور مجبوری کی ہو۔
(سنن ابی داود ، کتاب الادب ، باب ماجاء فی البنائ ، الحدیث۵۲۳۷ ، ج۴ ، ص۴۶۰)
{۴}حضرت رافع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکہتے ہیں ایک مرتبہ ہم لوگ ایک سفر میں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے ہم ر کاب تھے اور ہمارے اونٹوں پرچادریں پڑی ہوئی تھیں جن میں سرخ ڈورے تھے ۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ یہ سرخی تم پرغالب ہوتی جاتی ہے۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکا یہ ارشاد فرمانا تھا کہ ہم لوگ ایک دم ایسے گھبرا کے اٹھے کہ ہمارے بھاگنے سے اونٹ بھی ادھر ادھر بھاگنے لگے اور ہم نے فوراََ سب چادریں اونٹوں سے اتارلیں۔
(سنن ابی داود ، کتاب اللباس ، باب فی الحمرۃ ، الحدیث۴۰۷۰ ، ج۴ ، ص۷۴)
{۵}وائل بن حجر کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حاضر خدمت ہوا میرے سر کے بال بہت بڑھے ہوئے تھے میں سامنے آیا تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا : ’’ ذباب ، ذباب‘‘ میں یہ سمجھا کہ میرے بالوں کو ارشاد فرمایا واپس گیا ، اور ان کو کٹوادیا۔ جب دوسرے دن خدمت میں حاضر ہوا تو ارشاد فرمایا : میں نے تجھے نہیں کہا تھا لیکن یہ اچھا کیا۔
(سنن ابی داود ، کتاب الترجل ، باب فی تطویل الجمۃ ، الحدیث ۴۱۹۰ ، ج۴ ، ص۱۱۲)
{۶} عبداللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا ایک نو عمر بھتیجا خذف سے کھیل رہا تھا انھوں نے دیکھا اور فرمایا برادر زادہ ایسا نہ کروحضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا کہ اس سے فائدہ کچھ نہیں نہ شکا ر ہوسکتا ہے نہ دشمن کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے اور اتفاقاً کسی کو لگ جائے تو آنکھ پھوٹ جائے ، دانت ٹوٹ جائے ۔ بھتیجا کم عمر تھا اس لئے جب چچا کو غافل دیکھا تو پھر کھیلنے لگا۔ انھوں نے دیکھ لیا فرمایا کہ میں تجھے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکا ارشاد سناتا ہوں کہ اس سے انہوں نے منع فرمایا ہے اور تو پھر اس کام کو کرتا ہے خدا عزوجل کی قسم تجھ سے کبھی بات نہیں کروں گا۔ ایک دوسرے قصہ میں اس کے بعد ہے کہ خدا عزوجل کی قسم! تیرے جنازے کی نماز میں شریک نہ ہوں گا اور نہ تیری عیادت کروں گا۔
(سنن ابن ماجہ ، کتاب السنۃ ، باب تعظیم حدیث رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ...الخ ، الحدیث۱۷ ، ج۱ ، ص۱۹)
نوٹ : خذف یہ ہے کہ انگوٹھے پر چھوٹی سی کنکری رکھ کر انگلی سے پھینکی جائے یہ بچوں کا ایک بیکار اور اندیشہ ناک کھیل ہے۔ حضرت عبداللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بھتیجے نے ارشادِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم لینے کے بعد بھی پابندی نہ کی جسے صحابی رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ برداشت نہ کر سکے اور ترک کلام کی قسم کھالی۔ آج مسلمان اپنے حالات پر غور کریں کہ احادیث رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اور ارشادات سرور کائنات علیہ الصلوات والتحیات کی پابندی ہم میں کتنی ہے؟
{۷}حکیم بن حزام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک صحابی ہیں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں حاضر ہوئے کچھ طلب کیا حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے عطا فرمایا ، پھر کسی موقع پر کچھ مانگا ، حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے پھر مرحمت فرمایا ، تیسری دفعہ پھر سوال کیا حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے عطا فرمایا اور ارشاد فرمایا : کہ اے حکیم !یہ مال سبز باغ ہے ظاہر میں بڑی میٹھی چیز ہے مگر اس کا دستوریہ ہے کہ اگر دل کے استغناء سے ملے تو اس میں برکت ہوتی ہے اور اگر طمع اور لالچ سے حاصل ہو تو اس میں برکت نہیں ہوتی ایسا ہوجاتا ہے(جیسے جوع البقر کی بیماری ہو) کہ ہروقت کھاتے جائے اور پیٹ نہ بھرے۔ حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا : یا رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم!آپ کے بعد اب کسی سے کچھ قبول نہیں کروں گا حتی کے دنیا سے رخصت ہو جاؤں۔ اسکے بعدحضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اپنے زمانہ خلافت میں حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بیت المال سے کچھ عطا کرنے کا ارادہ فرمایا انھوں نے انکار کردیا اسکے بعد حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے زمانہ خلافت میں باربار اصرار کیا مگر انھوں نے انکار ہی کیا۔
(صحیح البخاری ، کتاب الزکاۃ ، باب الاستعفاف عن المسألۃ ، الحدیث۱۴۷۲ ، ج۱ ، ص۴۹۷)
{۸} حضرت اسما ء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بڑی سخی تھیں۔ اول جو کچھ خرچ کرتی تھیں اندازہ سے ناپ تول کرخرچ کرتی تھیں مگر جب حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ باندھ باندھ کر نہ رکھا کرو اور حساب نہ لگایا کرو جتنا بھی قدرت میں ہو خرچ کیا کرو تو پھر خوب خرچ کرنے لگیں۔ اپنی بیٹیوں اور گھر کی عورتوں کو نصیحت کیا کرتی تھیں کہ اللہ عزوجل کے راستے میں خرچ کرنے اور صدقہ کرنے میں ضرورت سے زیادہ ہونے اور بچنے کا انتظار نہ کیا کروکہ اگر ضرورت سے زیادتی کا انتظار کرتی رہو گی تو ہونے کا ہی نہیں (کہ ضرورت خود بڑھتی رہتی ہے ) اور اگر صدقہ کرتی رہوگی تو صدقہ میں خرچ کردینے سے نقصان میں نہ رہوگی۔
(الطبقات الکبریٰ ، ج۸ ، ص۱۹۸)
{۹} حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اپنے شاگرد سے فرمایا کہ میں تمھیں اپنا اور فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا کا جو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سب سے زیادہ لاڈلی بیٹی تھیں ، قصہ سناؤں ! شاگرد نے عرض کیا ضرور ، فرمایا کہ وہ اپنے ہاتھ سے چکی پیستی تھیں جس کی وجہ سے ہاتھوں میں نشان پڑگئے تھے اور خود پانی کی مشک بھر کر لاتی تھیں جس کی وجہ سے سینہ پر مشک کی رسی کے نشان پڑگئے تھے اور گھر میں جھاڑو وغیرہ خود ہی دیتی تھیں جسکی وجہ سے تمام کپڑے میلے ہو جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پاس کچھ غلام باندیاں آئیں میں نے فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا سے کہا تم بھی جاکر حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے ایک خدمت گا ر مانگ لوتا کہ تم کو کچھ مددمل جائے۔ و ہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم خدمت میں حاضر ہوئیں وہاں مجمع تھا اور حیاء مزاج میں بہت زیادہ تھی اس لئے حیاء کی وجہ سے سب کے سامنے باپ سے بھی مانگتے ہوئے شرم آئی ، واپس آگئیں۔ دوسرے روز حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم خود تشریف لائے ، ارشاد فرمایاکہ فاطمہ!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا کل تم کس کا م کے لئے گئی تھیں وہ حیاء کی وجہ سے چپ ہوگئیں ۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ عزوجل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی یہ حالت ہے کہ چکی کی وجہ سے ہاتھوں میں گٹھے پڑگئے اور مشک کی وجہ سے سینہ پر رسی کے نشان ہوگئے ، ہروقت کے کام کاج کی وجہ سے کپڑے میلے رہتے ہیں۔ میں نے کل ان سے کہا تھا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پاس خادم آئے ہوئے ہیں ایک یہ بھی مانگ لیں اس لئے گئی تھیں۔
بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا نے عرض کیا کہ یارسول اللہ عزوجل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم! میرے اور علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس ایک ہی بستر ہے اور وہ بھی مینڈھے کی ایک کھال ہے رات کو اسکو بچھاکر سوجاتے ہیں صبح کو اسی پر گھاس دانہ ڈال کر اونٹ کو کھلاتے ہیں۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ارشاد فرمایا کہ بیٹی صبر کرو! حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کی بیوی کے پاس دس برس تک ایک ہی بچھونا تھا وہ بھی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا چوغہ تھا رات کو بچھاکر اسی پر سوجاتے تھے ، تو تقویٰ حاصل کرواور اللہ عزوجل سے ڈرو اور اپنے پروردگار عزوجل کا فریضہ ادا کرتی رہو اور گھر کے کام کاج کو انجام دیتی رہو اور جب سونے کے واسطے لیٹا کروتو سبحان اللہ ۳۳ مرتبہ اور الحمدللّٰہ ۳۳ مرتبہ اور اللہ اکبر ۳۴ مرتبہ پڑھ لیا کر ویہ خادم سے زیادہ اچھی چیز ہے۔ حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا نے عرض کیا میں اللہ عزوجل سے اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے راضی ہوں۔
(سنن ابی داود ، کتاب الادب ، باب فی التسبیح عند النوم ، الحدیث۵۰۶۳ ، ج۴ ، ص۴۰۹)
{۱۰} حضرت عبداللہ بن زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا کے بھانجے تھے اور وہ ان سے بہت محبت فرماتی تھیں۔ انھوں نے ہی گویا بھانجے کو پالا تھا۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا کی ا س فیاضی سے پریشان ہو کر کہ خود تکلیفیں اٹھاتیں اور جو آئے فوراََ خرچ کردیتیں ایک مرتبہ کہہ دیا کہ خالہ کا ہاتھ کس طرح روکنا چاہئے؟ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا کو بھی یہ فقرہ پہنچ گیا۔ اس پر ناراض ہوگئیں کہ میرا ہاتھ روکنا چاہتا ہے اور ان سے نہ بولنے کی نذر کے طور پر قسم کھائی۔ حضرت عبداللہ بن زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو خالہ کی ناراضگی سے بہت صدمہ ہوا ، بہت لوگوں سے سفارش کرائی مگر انھوں نے اپنی قسم کا عذر فرمادیا۔
آخر جب عبداللہ بن زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بہت ہی پریشان ہوئے تو حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے ننھیال کے دو حضرات کو سفارشی بنا کر ساتھ لے گئے وہ
دونوں حضرات اجازت لیکر اندر گئے یہ بھی چھپ کر ساتھ ہولئے جب وہ دونوں سے پردہ کے اندر بیٹھ کر بات چیت فرمانے لگیں تو یہ جلدی سے پردہ میں چلے گئے او ر جاکر خالہ سے لپٹ گئے اور بہت روئے اور خوشامد کی وہ دونوں حضرات بھی سفارش کرتے رہے اور مسلمان سے بولنا چھوڑنے کے متعلق حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ارشادات یاد دلاتے رہے اور احادیث میں جو ممانعت اس کی آئی ہے وہ سناتے رہے جس کی وجہ سے حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا ان کی تاب نہ لاسکیں اور رونے لگیں آخر معاف فرمادیا اور بولنے لگیں ، لیکن اپنی قسم کے کفارہ میں باربار غلام آزاد کرتی تھیں ، حتی کہ چالیس غلام آزاد کئے اور جب بھی اس قسم کے توڑنے کا خیال آجاتا اتنا روتیں کہ دوپٹا تک آنسوؤں سے بھیگ جاتا۔
(صحیح البخاری ، کتاب الادب ، باب الہجرۃ ، الحدیث۶۰۷۳ ، ج۳ ، ص۱۱۹)
شوقِ موافقت
حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اپنی وفات سے چند گھنٹے پیشتر اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ عزوجل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کفن میں کتنے کپڑے تھے ، حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم وفات شریف کس دن ہوئی ، ا س سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آرزو تھی کہ کفن و یوم وفات میں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم موافقت ہو۔ حیات میں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اتباع تھا ہی وہ ممات میں بھی آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم یہ کی اتباع چاہتے تھے۔ (صحیح البخاری ، کتاب الجنائز ، باب موت یوم الاثنین ، الحدیث۱۳۸۷ ، ج۱ ، ص۴۶۸)
اللہ اللہ یہ شوق اتباع کیوں نہ ہو صدیق اکبر تھے
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــ
ــــــــــ
کتبہ:- محمد مفید عالم قادری صمدی