Type Here to Get Search Results !

رفع الیدین کرنا واجب ہے یا سنت ؟


(1) کیا رفع الیدین واجب ہے یا سنت؟
(2) کیا جب لوگ نئے نئے مسلمان ہورہے تھے تو جب نماز پڑھنے آتے تو بغل میں بت یعنی مورتی رکھ لیتے تھے اور بعد میں وہ پکے نمازی ہوگئے اس لئے رفع یدین کو ختم کردیا گیا کیا یہ صحیح ہے؟
••────────••⊰❤️⊱••───────••
 السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
 شروع اسلام کے وقت نماز میں رفع یدین واجب تھا بعد میں اس کو ختم کر دیا گیا اس کی حکمت کیا ہے۔ بعض لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس کی حکمت یہ ہے کہ جب لوگ نئے نئے مسلمان ہو رہے تھے تو جب نماز پڑھنے آتے تو بغل میں بت رکھ لیتے تھے اور بعد میں وہ پکے نمازی ہوگئے اس لیے رفع یدین کو ختم کر دیا گیا۔ آپ سے عرض گزار ہوں کہ اس کا تشفی بخش جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
سائل:- محمد فیضان رضا علیمی مدرس مدرسہ قادریہ سلیمیہ چھپرہ
••────────••⊰❤️⊱••───────•• 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
رفع یدین کا معنی :- دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا
ہم احناف کا نماز پڑھنے میں یہ طریقہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے لئے دونوں ہاتھوں کو دونوں کانوں تک اٹھاتے ہیں اور پھر دونوں ہاتھ ناف کے نیچے باندھتے ہیں اسی کا نام رفع یدین ہے 
اور شروع میں رکوع جانتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی رفع یدین کیا گیا لیکن حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بعد میں ترک فرمادیا اور صحابہ کرام کو منع فرمایا:
عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ عن النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم قال :
لا ترفع الایدی الا فی سبع مواطن : حین یفتتح
الصلوۃ وحین بدخل المسجد الحرام فینظر الی البیت (وحین یقوم علی الصفا) وحین یقوم علی المروۃ وحین یقف من الناس عشیہ
عرفۃ ویجمع والمسلمین حین یرمی الجمرہ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صل اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہاتھ صرف سات جگہ اٹھائے جائیں ۔
(١) نماز شروع کرتے وقت۔
(٢)جس وقت مسجد حرام میں داخل ہو اور بیت اللہ شریف پر نظر پڑے۔
(٣) جس وقت کوہ صفا پر کھڑا ہو ۔
(٤)جس وقت کوہ مروہ پر کھڑا ہو ۔
(٥)اور جب لوگ عرفات میں شام کے وقت وقوف کریں۔
(٦)مزدلفہ میں وقوف کے وقت۔
(٧) اور جمرات میں کنکری مارتے وقت دو جگہ۔
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانا سنت ہے اور اس کے بعد ہاتھ اٹھانا متروک ومنسوخ ہو گیا ۔ لہٰذا اس پر عمل نہ کیا جائے ۔ اور صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھایا جائے جو سنت ثابت ہے اسی پر ہم سنی حنفیوں کا عمل ہے
 حصور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے رفع و عدم رفع دونوں مروی ہے اور احناف کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت دونوں ہاتھ اٹھانا خلاف سنت اور ممنوع ہے۔
عینی شرح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن زبیر سے روایت کی۔
انہ راع رجلا یرفع یدیہ فی الصلاۃ عند الرکوع وعند رفع راسہ من الرکوع فقال لہ لاتفعل فانہ شئی فعلہ رسول آثم ترک۔
یعنی کہ آپ نے ایک شخص کو رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت ہاتھ اٹھاتے دیکھا تو اس سے فرمایا کہ ایسا نہ کیا کرو کیونکہ یہ کام ہے جو حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پہلے کیا تھا پھر چھوڑ دیا۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری باب رفع یدین فی التکبیر الاولی رقم الحدیث 735.جکد 5 پنجم ص 405)
اس حدیث سے صاف واضح ہے کہ شروع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے لیکن بعد ترک فرمادیا اس حدیث سے دوسری بات معلوم ہوئی کہ رکوع کے آگے پیچھے رفع یدین منسوخ ہے
شروع اسلام میں یا کبھی بھی رفع یدین واجب نہیں تھا
(2) کیا جب لوگ نئے نئے مسلمان ہورہے تھے تو جب نماز پڑھنے اتے تو بغل میں بت یعنی مورتی رکھ لیتے تھے اور بعد میں وہ پکے نمازی ہوگئے اس لئے رفع یدین کو ختم کردیا گیا کیا یہ صحیح ہے؟
اور صورت مسئولہ میں جو حکمت رفع یدین کرنے یا نہ کرنے کی لکھی ہوئی ہے جہاں تک اس فقیر قادری کا مطالعہ ہے کسی مستند کتاب میں نہیں دیکھا ہاں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے شروع میں رفع یدین ثابت ہے مگر بعد میں آپ نے ترک فرمادیا 
اور صحابہ کرام کو رفع یدین کرنے سے منع فرمایا علماء فرماتے ہیں۔
شروع میں رفع یدین رکوع میں جاتے وقت اور اٹھتے وقت کیا جاتا تھا بعد میں حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ترک فرمادیا ۔یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ صحابہ کرام کو رفع یدین کرتے دیکھا تو ناراضگی کے لہجے میں انہیں رفع یدین ترک کرکے سکون کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم دیا 
جیسا کہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : 
مالی اراکم رافعی ایدیکم کانھا اذ ناب خیل شمس اسکنوا فی الصلاۃ۔
یعنی حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا ۔کیا ہوا کہ میں تمہیں رفع یدین کرتے دیکھتا ہوں گویا تمہارے ہاتھ چنچل گھوڑوں کی دمیں ہیں ( یعنی جیسے چنچل گھوڑا اپنی دم ہلاتا ہے اسی طرح تم لوگ اپنے ہاتھوں کو نماز میں ہلا رہے ہو) سکون سے رہو نماز میں ( یعنی سکون کے ساتھ نماز ادا کرو) 
(فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص 155 بحوالہ صحیح مسلم شریف باب الامر بالسکون فی الصلاۃ جلد اول ص 181)
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نماز میں رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کے مقابل سکون و قرار کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اسی لئے ہم احناف رفع یدین نہیں کرتے ہیں کہ رفع یدین والا فعل منسوخ ہوچکا ہے 
 اور دوسری وجہ یہ ہے کہ بغیر رفع یدین سے سکوں سے نماز ادا کرو یعنی رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین نہ کرنا نماز میں سکون ہے
علماء نے رفع یدین نہ کرنے کی علت کے متعلق وہ باتیں نقل نہیں فرمائیں جو صورت مسئولہ میں ہے
بلکہ علماء فرماتے ہیں کہ رفع یدین بوقت رکوع حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت صحابہ خصوصا خلفاء راشدین کے عمل کے خلاف ہے عقل شرعی کے بھی مخالف جن روایات میں رفع یدین ایا ہے وہ تمام منسوخ ہیں ۔یا وہ سب مرجوع اور ناقابل عمل ہیں ورنہ احادیث میں سخت تعارض واقع ہوگا ۔یہ بھی خیال رہے کہ ۔نماز میں سکون و اطمینان چایئے ۔بلا وجہ حرکت و جنبش مکروہ اور سنت کے خلاف ہے ۔اسی لئے نماز میں بلا ضرورت پاؤں ہلانا ۔انگلیوں کو جنبش دینا ممنوع ہے ۔
رفع یدین میں بلا ضرورت جنبش ہے ۔تو رفع یدین کی حدیثیں سکون نماز کے خلاف ہیں اور ترک رفع کی حدیثیں سکون نماز کے لیے موافق ۔(سعید الحق فی تخریج جاءالحق جلد دوم ص 849
اور شارح مسند امام اعظم ابوحنیفہ علامہ محمد یسین قصوری نقشبندی تحریر فرماتے ہیں کہ
ترک رفع یدین عقل و قیاس کے مطابق ہےکیونکہ رفع یدین سے خشوع و خضوع کی روح ختم ہوجاتی ہے۔
(شرح مسند امام اعظم ص 273)
ایک علت یہ بھی ہے کہ رفع یدین والی احادیث مبارکہ منسوخ جبکہ ترک رفع یدین والی احادیث ناسخ ہیں 
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے ہر گز کسی حدیث میں ثابت نہیں ہے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ رفع یدین فرمایا بلکہ رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے خلاف ثبوت ہے ۔نہ احادیث میں اس کی مدت مذکور ۔ہاں حدیثیں اس کے فعل و ترک دونوں میں وارد 
اور اصول کا قاعدہ متفق علیھا ہے کہ اعتبار عموم لفظ کا ہے نہ خصوصی سبب کا ۔اور حاظر مبیح پر مقدم ہے ۔ہمارے ائمہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے احادیث ترک پر عمل فرمایا حنفیہ کو ان کی تقلید چایئے ۔شافیعہ وغیرہم اپنے ائمہ رحمھم اللہ کی پیروی کریں کہ کوئی محل نزع نہیں ۔ مانا کہ احادیث رفع ہی مرجح ہوں تاہم آخر رفع یدین کسی کے نزدیک واجب نہیں۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید ششم ص 155)
 مسند امام اعظم ابوحنیفہ میں ایک باب بنام 
ماجاء فی اجتماع آبی حنیفۃ والاوزاعی ہے یعنی 
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام اوزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کا بیان ملاحظہ فرمائیں:
حضرت سفیان بن عینیہ رحمۃ اللہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ 
امام اوزاعی اور امام اعظم دارالحناطین مکہ معظمہ میں مجتمع ہوئے ۔ حضرت امام اعظم اور امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہما کی مکہ معظمہ کے دارالحناطین میں ملاقات ہوئی تو ان بزرگوں کی آپس میں حسب ذیل گفتگو ہوئی ۔
امام اوزاعی نے دریافت کیا 
مابالکم لا ترفعون ایدیکم فی الصلاۃ عند الرکوع و عندہ الرفع منہ۔ یعنی آپ لوگ ( اہل عراق ) رکوع کو جاتے وقت اور رکوع سے اٹھ کر رفع یدین کیوں نہیں کرتے تو 
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
لاجل انہ لم یصح عن رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فیہ شئی۔
یعنی اس لئے کہ اس رفع کے بارے میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی حدیث موجود نہیں یعنی کوئی حدیث درجہ صحت کو نہ پہنچی  
امام اوزاعی نے کہا:- کیف لا یصح وقد حدثنی الزھری۔
یعنی کیسے صحیح نہ ہوا ک مجھ سے زہری نے حدیث بیان کی وہی حدیث مذکور ابن عمر مع سند پڑھی یعنی میں آپ کو رفع یدین کی صحیح حدیث سناتا ہوں۔
و قدر حدثنی الزھری عن سالم عن ابیہ‌عن رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم انہ کان یرفع یدیہ اذا افتح الصلاۃ وعند الرکوع وعند الرفع منہ۔
یعنی مجھے زہری نے حدیث بیان کی انہوں نے سالم سے سالم اپنے والد سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کہ آپ ہاتھ اٹھاتے تھے جب نماز شروع فرماتے اور رکوع کے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت ( نوٹ فقیر ثناء اللہ کہتا ہے کہ یہی حدیث علماء شافعیہ کے لئے دلیل ہے) 
امام اعظم نے کہا میرے پاس اس سے قوی تر حدیث اس کے خلاف موجود ہے
امام اوزاعی نے کہا اچھا پیش فرمائے
امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
حدثنا حماد عن ابراھیم عن علقمہ والاسود عن عبد اللہ ابن مسعود ان رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کان لایرفع یدیہ الا عند افتتاح الصلاۃ و لا یعود لشئی من ذالک۔
یعنی ہم سے حضرت حماد نے حدیث بیان کی انہوں نے ابراہیم نخعی سے انہوں نے حضرت علقمہ اور اسود سے انہوں نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم صرف شروع نماز میں ہاتھ اٹھاتے تھے پھر کسی وقت نہ اٹھاتے تھے 
اس پر امام اوزاعی نے تعجب سے فرمایا
و احدثک عن الزھری عن سالم عن ابیہ و‌ تقول حدثنی حماد عن ابراھیم۔
یعنی میں تو آپ سے حدیث زہری عن سالم عن ابن عمر بیان کرتا ہوں اور آپ فرماتے ہیں مجھ سے حدیث بیان کی حماد نے ان سے ابراہیم نے ۔
اس پر امام اوزاعی نے کہا کہ آپ کی پیش کردہ حدیث کو میری پیش کردہ حدیث پر کیا فوقیت ہے جس کی وجہ سے آپ نے اسے قبول فرمایا اور میری حدیث کو چھوڑ دیا 
امام اعظم نے فرمایا: 
کان حماد افقہ من الزھری وکان ابراھیم افقہ من سالم وعلقمۃ لیس بدون ابن عمر فی الفقہ وان کانت لابن عمر صحبۃ ولہ فضل صحبۃ فالاسود لہ فضل کثیر و عبداللہ ھو عبداللہ فسکت الاوزاعی
 یعنی اس لئے کہ حماد زیری سے زیادہ عالم فقیہ تھے حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت عالم سے زیادہ افقہ تھے اور علقمہ فقہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر سے کم نہیں تھے ۔خواہ حضرت بن عمر کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی صحابیت کا درجہ حاصل تھا مگر حضرت اسود کو دوسرے کمالات حاصل تھے پھر حضرت عبد اللہ بن مسعود تو اپنی خصوصیات کے سبب اپنی مثال آپ ہیں
ان تمام کا مطلب یہ ہوا کہ چونکہ ہماری حدیث کے راوی تمہاری حدیث کے راویوں سے علم و فضل میں زیادہ ہیں ۔لہذا ہماری پیش کردہ حدیث بہت قوی اور قابل قبول ہے۔
اس پر امام اوزاعی خاموش ہوگئے۔
(مسند امام اعظم ابوحنیفہ باب ماجاء فی اجتماع آبی حنیفۃ والاوزاعی۔ اور فتاویٰ مصطفویہ ص 162 اور سعید الحق فی تخریج جاءالحق جلد دوم ص 848)
الحاصل جن صحابہ سے یا حصور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے رفع یدین ثابت ہے وہ پہلا فعل ہے بعد میں منسوخ ہوگیا اور رفع یدین ترک کرکے سکون کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم صادر فرمایا اور یہی صحیح ہے اسی پر ہمارا عمل ہے اور بت یعنی مورتی والا قول ابھی اس فقیر کے علم میں نہیں ہے تلاش جاری ہے 
جیسے
(1) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل
عن عاصم بن کلیب عن ابیہ ان علیا کان یرفع یدیہ اذا افتح الصلواۃ ثم لا یعود۔
یعنی عاصم بن کلیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم صرف نماز شروع کرتے وقت رفع یدین کرتے تھے پھر دوبارہ کہیں نہیں کرتے تھے۔
(مصنف ابن شبیہ جلد اول ص 236)
حضرت اسود و علقمہ کا عمل
(2) حدثنا وکیع دن شریک دن جابر عن الاسود و علقمۃ انھما کانا یرفعان ایدیھما اذا افتحا ثم لایعودان۔
یعنی ہمیں وکیع نے شریک سے انہوں نے جابر سے روایت کی کہ جناب اسود اور علقمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھما صرف تکبیر کہتے وقت ہاتھوں کو اٹھاتے تھے اس کے بعد اس عمل کا اعادہ نہیں کرتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول ص 237)
(3) حضرت عمر فاروق اعظم بن خطاب کا عمل
عن ابراھیم عن الاسود قال رایت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لا یعود قال ورایت ابراھیم و شعبی یفعلان ذالک
یعنی ابراہیم اسود سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نماز شروع کرتے ہاتھ اٹھاتے دیکھا پھر اعادہ نہیں کرتے تھے ۔کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم اور شعبی کو یہی عمل کرتے دیکھا
(طحاوی جلد اول ص 227)
(4) عشرہ مبشرہ کا عمل
روی ابن عباس انہ قال العشرۃ الذین شھد لھم رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بالجنہ وما کانوا یرفعون ایدیھم الا فی افتاح الصلواۃ۔
یعنی ابن عباس سے مروی ہے کہ دسوں جنتی صحابہ کہ جن کے جنتی ہونے کی گواہی رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دی وہ نماز شروع کرتے وقت ہی ہاتھ اٹھاتے کرتے تھے۔
(عمدۃ القاری جلد 5 ص 272 باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی)
(5) سنن ابو داؤد میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت بایں الفاظ ہے ۔
الا اصلی لکم صلوه رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قال فصلی فلم یرفع یدیہ الامرۃ
یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں تمہارے سامنے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جیسی نماز پڑھتا ہوں ۔انہوں نے نماز ادا کی لیکن ایک دفعہ کے علاؤہ رفع یدین نہیں کیا تھا ۔صحابہ کرام اور تابعین کرام نے اس قول کو قبول کی ہے ۔خلفائے راشدین کا عمل بھی حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت کے مطابق تھا ۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے : 
صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم و ابی بکر و عمر فلم یرفعوا ایدیھم الا عند افتتاح الصلواۃ
 یعنی میں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ۔حضرت ابوبکر ۔اور حضرت عمر فاروق کی اقتداء میں نماز ادا کی انہوں نے شروع نماز کے علاؤہ رفع یدین نہیں کیا تھا ۔
پس حاصل ہوا کہ اہل شافعیہ جو رکوع کے قبل اور بعد رکوع رفع یدین کرتے ہیں وہ سنت رسول صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں ہے اور نہ خلفائے راشدین ۔اور نہ صحابہ کرام اور نہ تبع تابعین کے عمل کے مطابق ہے بلکہ خلاف سنت ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مورخہ ایک ذی الحجہ 1444
مطابق 20 جون 2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area