قسط دوم
کیا معتکف غسل کرنے کے لئے مسجد سے باہر جاسکتا ہے؟
کیا معتکف غسل کرنے کے لئے مسجد سے باہر جاسکتا ہے؟
اور کس کس کام کے لئے باہر نکل سکتا ہے۔
••────────••⊰❤️⊱••───────••
السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ معتکف پر غسل فرض ہو گیا لیکن مسجد میں کہیں بھی غسل خانہ نہیں تو کیا معتکف غسل کرنے کے لئے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے جماعت خانہ میں جہاں غسل خانہ ہو علمائے کرام رہنمائی فرمائیں
السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ معتکف پر غسل فرض ہو گیا لیکن مسجد میں کہیں بھی غسل خانہ نہیں تو کیا معتکف غسل کرنے کے لئے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے جماعت خانہ میں جہاں غسل خانہ ہو علمائے کرام رہنمائی فرمائیں
سائل:- عبداللہ مصطفائی فیضی کچھ گجرات انڈیا
••────────••⊰❤️⊱••───────••
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
اعتکاف میں حاجت طبعی اور حاجت شرعیہ سے کیا مراد ہے ؟جس کی بناء پر مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے
الجواب :-
ثم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
معتکف کو مسجد سے نکلنے کے دو عذر ہیں انھیں عذر کی بناء پر وہ مسجد سے باہر جاسکتا ہے
1 :- عذر طبعی
2 :- عذر شرعی
1 :- (عذر طبعی)
درمختار میں ہے کہ
اعتکاف میں حاجت طبعی اور حاجت شرعیہ سے کیا مراد ہے ؟جس کی بناء پر مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے
الجواب :-
ثم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
معتکف کو مسجد سے نکلنے کے دو عذر ہیں انھیں عذر کی بناء پر وہ مسجد سے باہر جاسکتا ہے
1 :- عذر طبعی
2 :- عذر شرعی
1 :- (عذر طبعی)
درمختار میں ہے کہ
(الخروج الالحاجۃ الانسان )طبیعیۃ کبول و غائط و غسل لو احتلم ولا یمکنہ الاغتسال فی المسجد۔
(درمختار ۔کتاب الصوم۔باب الاعتکاف)
یعنی مگر معتکف انسان کی طبعی حاجت کے لئے نکل سکتا ہے جس طرح پیشاب کرنا ۔قضائے حاجت کرنا ۔اور غسل کرنا اگر اسے احتلام ہو جائے اور مسجد میں اس کے لئے غسل کرنا ممکن نہ ہو۔
اور اس کے تحت ردالمحتار میں ہے کہ
یعنی مگر معتکف انسان کی طبعی حاجت کے لئے نکل سکتا ہے جس طرح پیشاب کرنا ۔قضائے حاجت کرنا ۔اور غسل کرنا اگر اسے احتلام ہو جائے اور مسجد میں اس کے لئے غسل کرنا ممکن نہ ہو۔
اور اس کے تحت ردالمحتار میں ہے کہ
(الالحاجۃ الانسان الخ)ولا یمکث بعد فراغہ من الطہور ولا یلزم ان یاتی بیت صدیقہ القریب۔
یعنی اور طہارت حاصل کرنے کے بعد وہ نہ ٹھرے ۔اور اس پر یہ لازم نہیں کہ وہ اپنے دوست کے قریبی گھر کی طرف آئے (ردالمحتار،باب الاعتکاف جلد سوم ص 435)
اس سے معلوم ہوا کہ معتکف طبعی و شرعی عذر کی بنا پر تین کاموں کے لئے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے ورنہ نہیں اگر نکلا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا
(1) پیشاب کرنے کے لئے
(2) پاخانہ کرنے کے لئے
(3) غسل احتلام کے لئے
ان حالتوں میں (طبعی عذر)
اور مسجد سے معتکف کو نکلنے کی وجہ کیا ہے؟
ان دونوں کی وجہ
ابن شلبی نے یہ بتائی کہ جس کے بغیر چارہ کار نہ ہو اور جسے مسجد میں پورا نہ کیا جاسکے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کوئی بھی انسان دس روز تک بغیر پیشاب و پاخانہ کے رہ نہیں سکتا ہے اگر اس کا گھر مسجد سے دور ہے اور کوئی گھر مسجد کے قریب ہے تو اختلاف کے باوجود وہ اپنے گھر میں قضائے حاجت کے لئے جاسکتا ہے جیسا کہ ردالمحتار میں اس کی تفسیر یہ ہے کہ
اس سے معلوم ہوا کہ معتکف طبعی و شرعی عذر کی بنا پر تین کاموں کے لئے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے ورنہ نہیں اگر نکلا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا
(1) پیشاب کرنے کے لئے
(2) پاخانہ کرنے کے لئے
(3) غسل احتلام کے لئے
ان حالتوں میں (طبعی عذر)
اور مسجد سے معتکف کو نکلنے کی وجہ کیا ہے؟
ان دونوں کی وجہ
ابن شلبی نے یہ بتائی کہ جس کے بغیر چارہ کار نہ ہو اور جسے مسجد میں پورا نہ کیا جاسکے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کوئی بھی انسان دس روز تک بغیر پیشاب و پاخانہ کے رہ نہیں سکتا ہے اگر اس کا گھر مسجد سے دور ہے اور کوئی گھر مسجد کے قریب ہے تو اختلاف کے باوجود وہ اپنے گھر میں قضائے حاجت کے لئے جاسکتا ہے جیسا کہ ردالمحتار میں اس کی تفسیر یہ ہے کہ
لان الانسان قد لا یقلد غیر بیتہ رحمتی : ای فاذا کان لا یعکف غیرہ بان لا یتیسیر لہ الا بیتہ فلا یبعد الجواز بلا خلاف 'ولیس کالمکث بعدھا۔
یعنی کیونکہ انسان بعض اوقات اپنے گھر کے علاؤہ سے مانوس نہیں ہوتا رحمتی یعنی جب وہ اپنے گھر کے علاؤہ سے مانوس نہیں ہوتا یعنی اسے اپنے گھر کے علاؤہ میں آسانی نہیں ہوتی تو بلا اختلاف جواز بعید نہیں ہوگا یعنی جائز ہوگا اور یہ مسئلہ قضائے حاجت کے بعد ٹھہرنے کی طرح نہیں ہوگا یعنی اپنے گھر جانے آنے میں وقت لگا تو یہ کوئی فساد نہیں ہوگا۔ لیکن کہیں رکے نہیں
3 غسل احتلام کے لئے مسجد سے باہر جاسکتا ہے اگر مسجد میں اس کے لئے غسل کرنا ممکن نہ ہو یعنی اگر مسجد کو آلودہ کئے بغیر غسل کرنا ممکن ہو تو غسل کے لئے مسجد سے باہر نہیں جاسکتا اور احتیاط کے ساتھ مسجد میں غسل کرنا کوئی حرج نہیں رکھتا ہے ۔:بدائع :یعنی اس کی صورت یہ ہے کہ مسجد میں پانی کا تالاب ہو (جیسے دہلی کی جامع مسجد وہاں بیچ میں وضو کے لئے حوض بنا ہوا ہے اگر اس میں غسل کی اجازت ہے تو اسی میں غسل کرے )یا ایسی جگہ جو طہارت کے لئے مختص کی گئی ہو ۔یا وہ برتن میں اس طرح غسل کرے کہ کچھ بھی مستعمل پانی مسجد تک نہ پہنچے اگر کوئی ایسی صورت ہو کہ مسجد مستعمل پانی سے آلودہ ہوتی ہو تو مسجد میں غسل سے منع کیا جائے گا ۔کیونکہ مسجد کی صفائی کا اہتمام کرنا واجب ہے اگر لیٹرنگ (یعنی استنجاء و پاخانہ گھر اور غسل خانہ مسجد میں بنا ہوا ہے تو یہ ضروریات یہیں پوری کرے )
غسل میں خیال رہے کہ معتکف کو صرف غسل واجب کے لئے باہر جانا جائز ہے غسل نفل یا مستحب یا ٹھنڈک حاصل کرنے یا جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے غسل کے لئے مسجد سے باہر نہیں نکل سکتا ہے مگر شرح ابن ماجہ میں علامہ محمد لیاقت علی رضوی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ حاجت یا ضرورت کی دو قسمیں ہیں اول طبعی جیسے پاخانہ پیشاب اور غسل جنابت یعنی احتلام ہوجانے کی صورت میں غسل کرنا البتہ جمعہ کے غسل کے بارے میں کوئی صریح روایت منقول نہیں ہے مگر شرح اوراد میں لکھا ہے کہ غسل کے معتکف سے باہر نکلنا جائز ہے غسل خواہ واجب ہو (جیسے غسل جنابت )یا نفل (جیسے غسل جمعہ وغیرہ۔
غسل میں خیال رہے کہ معتکف کو صرف غسل واجب کے لئے باہر جانا جائز ہے غسل نفل یا مستحب یا ٹھنڈک حاصل کرنے یا جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے غسل کے لئے مسجد سے باہر نہیں نکل سکتا ہے مگر شرح ابن ماجہ میں علامہ محمد لیاقت علی رضوی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ حاجت یا ضرورت کی دو قسمیں ہیں اول طبعی جیسے پاخانہ پیشاب اور غسل جنابت یعنی احتلام ہوجانے کی صورت میں غسل کرنا البتہ جمعہ کے غسل کے بارے میں کوئی صریح روایت منقول نہیں ہے مگر شرح اوراد میں لکھا ہے کہ غسل کے معتکف سے باہر نکلنا جائز ہے غسل خواہ واجب ہو (جیسے غسل جنابت )یا نفل (جیسے غسل جمعہ وغیرہ۔
(شرح ابن ماجہ جلد سوم ص 165)
اس تحریر سے غسل جمعہ کے لئے باہر نکلنے کا جواز ملتا ہے
اقول (راقم الحروف) شرح اوراد کی یہ عبارت قابل اعتراض ہے کیونکہ ہمارے احناف کے یہاں غسل جمعہ مستحب ہے اور معتکف کو صرف غسل احتلام کے لئے غسل کی اجازت ہے جیسا کہ درمختار میں ہے کہ وغسل لو احتلم۔
اس تحریر سے غسل جمعہ کے لئے باہر نکلنے کا جواز ملتا ہے
اقول (راقم الحروف) شرح اوراد کی یہ عبارت قابل اعتراض ہے کیونکہ ہمارے احناف کے یہاں غسل جمعہ مستحب ہے اور معتکف کو صرف غسل احتلام کے لئے غسل کی اجازت ہے جیسا کہ درمختار میں ہے کہ وغسل لو احتلم۔
یعنی غسل کرنا اگر اسے احتلام ہو جائے اور نزہۃ القاری میں بھی یہی ہے کہ غسل واجب ہو جائے تو باہر جائے گا۔
(نزہۃ القاری،جلد جہارم ص 147)
غسل جمعہ ہمارے یہاں مستحب ہے واجب نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ شرح اوراد کے مصنف نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول نکل فرمایا ہو کہ امام مالک کے یہاں غسل جمعہ واجب ہے ان کی دلیل اس حدیث سے ہے کہ
عن ابی سعید ان رسولِ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم قال غسل الجمعۃ واجب کل محتلم۔
یعنی حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
غسل جمعہ ہر بالغ پر واجب ہے (رواہ البخاری )
وعن ابن عمر من جاء منکم الجمعۃ فلیغتسل یعنی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جو جمعہ پڑھنے آئے وہ غسل کرے
عن جابر قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم علی کل رجل مسلم فی سبعۃ ایام غسل یوم وھو یوم الجمعۃ
وعن ابن عمر من جاء منکم الجمعۃ فلیغتسل یعنی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جو جمعہ پڑھنے آئے وہ غسل کرے
عن جابر قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم علی کل رجل مسلم فی سبعۃ ایام غسل یوم وھو یوم الجمعۃ
(رواہ مالک )
یعنی حضرت جابر رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا؛ ہر مسلمان پر سات دنوں میں ایک دن غسل کرنا ضروری ہے اور وہ دن جمعہ مبارک کا ہے
مندرجہ بالا احادیث اس بات پر دلالت ہے کہ جمعہ کے دن غسل واجب ہے مگر یہ امام مالک کا مذہب ہے
ہمارے احناف کے یہاں جمعہ کے دن غسل کرنا مستحب ہے ہماری دلیل اس حدیث سے ہے کہ
مندرجہ بالا احادیث اس بات پر دلالت ہے کہ جمعہ کے دن غسل واجب ہے مگر یہ امام مالک کا مذہب ہے
ہمارے احناف کے یہاں جمعہ کے دن غسل کرنا مستحب ہے ہماری دلیل اس حدیث سے ہے کہ
عن سمرۃ بن جندب ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم قال من اغتسل یوم الجمعۃ فبھا و نعمت ومن اغتسل فالغسل افضل یعنی حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جس نے جمعہ کے دن وضو کیا تو بہت اچھا ۔یہ عمل بہتر ہے اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے۔
(رواہ الترمذی، و ابوداؤد، والنسائی)
اس سے معلوم ہوا کہ غسل جمعہ واجب نہیں ہے صرف بہتر و افضل ہے
اشکال اور اس کا حل:-
آخر بخاری و مسلم شریف کی احادیث کی بنا پر غسل جمعہ واجب ہے تو پھر علمائے احناف کے نزدیک مستحب کیوں کہاں گیا ہے ؟ اس کا جواب کیا ہوگا ؟
الجواب ۔جو حضرات مذکورہ احادیث سے استدلال کرتے ہوئے غسل جمعہ کو واجب کہتے ہیں اس کے متعلق ہمارے علماء کا یہ کہنا ہے
کہ اول یہ کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے دوسرا یہ کہ حکم علت کے ختم ہونے کی وجہ سے ختم ہوگیا ہے ۔حکم علت کے ختم ہوجانے کے بعد وہ حکم نہیں ہوتا ہے جیسے قرآن شریف کی آیت میں تالیف قلوب کو صدقہ کا استحقاق بتایا گیا ہے ۔لیکن علت کے نہ پائے جانے کی وجہ سے اب تالیف قلوب کے لئے صدقہ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس دور میں تالیف قلوب کا مستحق نہیں ہے
سوال:- جمعہ کے دن غسل کرنے کی وہ کون سی علت تھی جو اب منسوخ ہے اس پر کوئی دلیل ہے یا نہیں ؟
الجواب:- حضرت ابن عباس کی روایت اس رائے کی تائید کرتی ہے وہ علت یہ ہے کہ : عراق کے کچھ لوگ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے پاس آئے اور انہوں نے پوچھا جیسا کہ روایت میں ہے :
اشکال اور اس کا حل:-
آخر بخاری و مسلم شریف کی احادیث کی بنا پر غسل جمعہ واجب ہے تو پھر علمائے احناف کے نزدیک مستحب کیوں کہاں گیا ہے ؟ اس کا جواب کیا ہوگا ؟
الجواب ۔جو حضرات مذکورہ احادیث سے استدلال کرتے ہوئے غسل جمعہ کو واجب کہتے ہیں اس کے متعلق ہمارے علماء کا یہ کہنا ہے
کہ اول یہ کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے دوسرا یہ کہ حکم علت کے ختم ہونے کی وجہ سے ختم ہوگیا ہے ۔حکم علت کے ختم ہوجانے کے بعد وہ حکم نہیں ہوتا ہے جیسے قرآن شریف کی آیت میں تالیف قلوب کو صدقہ کا استحقاق بتایا گیا ہے ۔لیکن علت کے نہ پائے جانے کی وجہ سے اب تالیف قلوب کے لئے صدقہ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس دور میں تالیف قلوب کا مستحق نہیں ہے
سوال:- جمعہ کے دن غسل کرنے کی وہ کون سی علت تھی جو اب منسوخ ہے اس پر کوئی دلیل ہے یا نہیں ؟
الجواب:- حضرت ابن عباس کی روایت اس رائے کی تائید کرتی ہے وہ علت یہ ہے کہ : عراق کے کچھ لوگ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے پاس آئے اور انہوں نے پوچھا جیسا کہ روایت میں ہے :
فقالوا یا ابن عباس اتسری الغسل یوم الجمعۃ واجبات فقال :لا
یعنی انہوں نے پوچھا اے ابن عباس کہ کیا آپ جمعہ کے دن غسل کو فرض سمجھتے ہیں۔آپ نے فرمایا نہیں (کبھی فرض کو واجب اور واجب کو فرض کہا جاتا ہے )لیکن جمعہ کے دن غسل کرنا بڑی طہارت ہے جس نے غسل کیا اس کے لئے بہت بھلائی ہے ومن یغتسل فلیس علیہ بواجب اور جس نے غسل نہ کیا تو اس پر غسل فرض نہیں ہے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ غسل کی ابتداء کیسے ہوئی۔ ؟لوگ محنت مشقت کرتے تھے ۔صوف یعنی (اونی کپڑے) پہنتے تھے اور اپنی پیٹھوں پر بوجھ اٹھاتے تھے ۔مسجد (نبوی)تنگ تھی چھت بہت نیچے تھی ۔پس وہ ایک چھپر تھا ۔سخت گرمی کا دن تھا حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو ان صفوں میں موجود لوگ پسینہ سے شرابور تھے اور بدبو آرہی تھی ۔جب رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے پسینہ کی بو محسوس کی تو فرمایا ۔:اے لوگوں !جب جمعہ کا دن ہو تو غسل کیا کرو اور خوشبو اور تیل کی طرح (خوشبودار)کوئی چیز موجود ہوتو استعمال کرلیا کرو پھر اللہ تعالیٰ نے بھلائی عطا فرمائی :
(ولبسوا غیر الصوف وکفوا العمل ووسع مسجد ھم وذھب بعض الذی کان یرذی بعضھم بعضا العراق )
اور لوگوں نے صوف کے علاؤہ دوسرے کپڑے پہنے ۔محنت و مشقت بھی نہ رہی مسجد وسیع ہوگئی اور اب کسی کو کسی کے پسینے کی وجہ سے تکلیف نہیں ہوتی تھی (رواہ ابوداؤد)
اس کے تحت حضرت بحرالعلوم ملک العلماء
اس کے تحت حضرت بحرالعلوم ملک العلماء
مفتی محمد علی فرنگی محلی تحریر فرماتے ہیں کہ :
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا مطلب یا تو یہ ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے کہ غسل کا حکم خاص حالات میں تھا وہ حالات نہیں رہے تو علت کے اٹھ جانے سے حکم اٹھ گیا اور یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ یا مقصود یہ ہے کہ غسل کرنا فرض نہیں بلکہ مستحب ہے تاکہ پسینے سے تکلیف نہ ہو ۔بہر تقدیر غسل واجب نہیں رہا بلکہ مستحب ہے ۔سنت مؤکدہ بھی نہیں ہے ۔
امام یوسف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک غسل نماز کے لئے مستحب ہے ۔جمعہ کے روز کے لئے۔امام یوسف کے قول کو علماء نے اختیار فرمایا اور اسی پر فتویٰ ہے۔
امام یوسف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک غسل نماز کے لئے مستحب ہے ۔جمعہ کے روز کے لئے۔امام یوسف کے قول کو علماء نے اختیار فرمایا اور اسی پر فتویٰ ہے۔
(اراکین اسلام نماز جمعہ کا بیان)
اور آج کل تو مسجد میں بجلی کا پنکھا لگا ہوتا ہے۔ کہیں ایئر کنڈیشن اے ۔سی لگا ہوتا ہے تو مسجد میں پسینہ سے بدبو آنے کی کوئی علت نہیں باقی رہتی ہے اور مسجد بھی خوب وسیع بنتا ہے ۔بہترین اقسام کے سنگ مرمر ۔ٹائلس لگایا جاتا ہے جس سے قدم میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے
سوال ۔ردالمحتار میں لکھا ہے کہ ۔طہارت حاصل کرنے کے بعد نہ ٹھہرے یعنی فورا آجائے اس کی وجہ کیا ہے ؟
الجواب ۔اس کی وجہ یہ قاعدہ ہے کہ :جو چیز ضرورت کے ثابت ہو وہ بقدر ضرورت ہی مباح ہوتی ہے جیسا کہ :
اور آج کل تو مسجد میں بجلی کا پنکھا لگا ہوتا ہے۔ کہیں ایئر کنڈیشن اے ۔سی لگا ہوتا ہے تو مسجد میں پسینہ سے بدبو آنے کی کوئی علت نہیں باقی رہتی ہے اور مسجد بھی خوب وسیع بنتا ہے ۔بہترین اقسام کے سنگ مرمر ۔ٹائلس لگایا جاتا ہے جس سے قدم میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے
سوال ۔ردالمحتار میں لکھا ہے کہ ۔طہارت حاصل کرنے کے بعد نہ ٹھہرے یعنی فورا آجائے اس کی وجہ کیا ہے ؟
الجواب ۔اس کی وجہ یہ قاعدہ ہے کہ :جو چیز ضرورت کے ثابت ہو وہ بقدر ضرورت ہی مباح ہوتی ہے جیسا کہ :
ما ابیح للضرورۃ بقدر یقدرھا۔
یعنی کہ جو چیز ضرورت کے تحت مباح ہوتی ہے وہ بقدر ضرورت ہی مباح ہوتی ہے۔
(الاشباہ والنظائر،ص 43)
اور جب حاجت پوری ہوگئی تو پھر ٹھہرنے کا سوال ہی نہیں رہا چونکہ طبعی حاجت کی وجہ سے مسجد سے باہر نکلا تھا وہ ضرورت پوری ہوگئی
(2) حاجت شرعیہ سے مراد جیسے نماز جمعہ کے لئے مسجد سے نکلنا جائز ہے اس کی مکمل تفصیل قسط اول میں تحریر ہوچکا ہے
اذان کے لئے مسجد کے منارہ پر جاسکتے ہیں اگرچہ مینارہ کا راستہ مسجد سے باہر سے ہو
درمختار میں ہے کہ و اذان لم موذنا و باب المنارۃ خارج المسجد یعنی اگر وہ معتکف مؤذن ہو اور مسجد کا دروازہ مسجد سے باہر ہو (یہ حاجت شرعیہ میں داخل ہے )اس کے تحت ردالمحتار میں ہے کہ :و باب المنارۃ خارج المسجد )اما اذا کان داخلہ فکذلک ۔بالاولی ۔قال فی البحر یعنی جب دروازہ مسجد کے اندر ہوتو بدرجہ اولی حکم اسی طرح ہوگا (درمختار ) بحر میں کہا:مینارہ پر چڑھنا اعتکاف کو فاسد نہیں کرےگا ۔اگر اس کا دروازہ مسجد میں ہو ۔ورنہ حکم ظاہر روایت میں اسی طرح ہوگا
قلت : بل ظاہر البدائع ان الاذان ایضا۔غیر شرط فانہ قال:ولو صعد المنارۃ لم یفسد بلا خلاف وان کان بابھا خارج المسجد لانھا منہ لانہ یمنع فیھا کل مایمنع فیہ من البول ونحوہ فائشبہ زاویۃ من زوایا المسجد۔
(2) حاجت شرعیہ سے مراد جیسے نماز جمعہ کے لئے مسجد سے نکلنا جائز ہے اس کی مکمل تفصیل قسط اول میں تحریر ہوچکا ہے
اذان کے لئے مسجد کے منارہ پر جاسکتے ہیں اگرچہ مینارہ کا راستہ مسجد سے باہر سے ہو
درمختار میں ہے کہ و اذان لم موذنا و باب المنارۃ خارج المسجد یعنی اگر وہ معتکف مؤذن ہو اور مسجد کا دروازہ مسجد سے باہر ہو (یہ حاجت شرعیہ میں داخل ہے )اس کے تحت ردالمحتار میں ہے کہ :و باب المنارۃ خارج المسجد )اما اذا کان داخلہ فکذلک ۔بالاولی ۔قال فی البحر یعنی جب دروازہ مسجد کے اندر ہوتو بدرجہ اولی حکم اسی طرح ہوگا (درمختار ) بحر میں کہا:مینارہ پر چڑھنا اعتکاف کو فاسد نہیں کرےگا ۔اگر اس کا دروازہ مسجد میں ہو ۔ورنہ حکم ظاہر روایت میں اسی طرح ہوگا
قلت : بل ظاہر البدائع ان الاذان ایضا۔غیر شرط فانہ قال:ولو صعد المنارۃ لم یفسد بلا خلاف وان کان بابھا خارج المسجد لانھا منہ لانہ یمنع فیھا کل مایمنع فیہ من البول ونحوہ فائشبہ زاویۃ من زوایا المسجد۔
یعنی علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں :بلکہ بدائع:کا ظاہر معنی یہ ہے کہ اذان بھی شرط نہیں ہے ۔کیونکہ انہوں نے کہا :مینارہ پر چڑھا تو بغیر اختلاف کے اعتکاف فاسد نہیں ہوگا اگرچہ اس کا دروازہ مسجد سے باہر ہو کیونکہ مینارہ مسجد میں سے ہوتا ہے ۔کیونکہ مینارہ میں ہر اس عمل سے منع کیا جاتا ہے جس سے مسجد میں منع کیاجاتا ہے جیسے بول وغیرہ ۔پس وہ مسجد کے کونوں میں سے ایک کونہ کے مشابہ ہے۔
(ردالمحتار،جلد 3ص 436)
جب مینارہ کا دروازہ مسجد سے باہر ہوتو چایئے کہ اس کے ساتھ اس کو مقید کیا جائے کہ جب وہ اذان کے لئے نکلے اور مسجد کے اس مینارہ پر بغیر اذان دینے کے لیے چڑھا جس کا دروازہ باہر سے ہوتو یہ عذر کے بغیر نکلنا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مورخہ ۔23 رمضان المبارک 1443ھ
25 اپریل 2022
پیش کردہ:- محب اللہ خاں
ناظم :- مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ اذاد چوک مہسول سیتا مڑھی بہار
از قلم:- مفتی اعظم بہار مصباح ملت حضور مفتی محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
بواسطہ:- تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفے مرپا شریف
سربراہ اعلی:- حضور تاج السنہ خطیب عرب و ایشیاء حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان بریلوی شریف
نائب گدی نشین خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ بریلی شریف
صدر رکن:- شیر مہاراشٹر مفسر قران قاضی شہر ممبئی حضرت مفتی محمد علاؤالدین رضوی صاحب قبلہ
رکن :- ماہر درس و تدریس خطیب باکمال حضرت مفتی محمد نعمت اللہ رضوی بریلی شریف
حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الغفار خان نوری صاحب قبلہ مرپا شریفرکن :- ماہر علم وسخن ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت علامہ مولانا محمد جنید عالم شارقؔ مصباحی بیتاہی مقیم حال ناسک
ناظم :- مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ اذاد چوک مہسول سیتا مڑھی بہار
از قلم:- مفتی اعظم بہار مصباح ملت حضور مفتی محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
بواسطہ:- تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفے مرپا شریف
سربراہ اعلی:- حضور تاج السنہ خطیب عرب و ایشیاء حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان بریلوی شریف
نائب گدی نشین خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ بریلی شریف
صدر رکن:- شیر مہاراشٹر مفسر قران قاضی شہر ممبئی حضرت مفتی محمد علاؤالدین رضوی صاحب قبلہ
رکن :- ماہر درس و تدریس خطیب باکمال حضرت مفتی محمد نعمت اللہ رضوی بریلی شریف
حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الغفار خان نوری صاحب قبلہ مرپا شریفرکن :- ماہر علم وسخن ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت علامہ مولانا محمد جنید عالم شارقؔ مصباحی بیتاہی مقیم حال ناسک