سوال نمبر 4861)
قبر پکی کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان اسلام مسئلہ ذیل میں کہ
کیا قبر پکی کرنی چاہیے اگر شریعت اجازت دیتی ہے تو
شریعت میں کیا طریقہ ہے قبر پکی بنانے کا برائے کرم رہنمائی فرمائیں
سائل:- سفیان رضا ملتان پنجاب ،پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
عام قبر کو پکی کرنا باہر سے بھی جائز نہیں البتہ علماء مشائخ و اولیاء کی قبریں باہر سے پکی کرنا جائز ہے۔
صاحب مرآة رحمة الله عليه فرماتے ہیں
قبر میں تین چیزیں ہیں
١/ ایک اس کا اندرونی حصہ جو میت کے جسم سے ملا ہوا ہوتاہے اسے پختہ کرنا،وہاں لکڑی یا پکی اینٹ لگانا مطلقًا ممنوع ہے خواہ ولی کی قبر ہو یا عام مسلمان کی،جسم میت مٹی میں رہناچاہئیے حتی کہ اگر کسی وقت مجبورًا میت کو تابوت یا صندوق میں دفن کرنا پڑے تب بھی اس کے اندرونی حصے میں مٹی سے کہگل کردی جائے۔
٢/ دوسرا قبر کا بیرونی حصہ جولوگوں کو نظر آتا ہے اس کا پختہ کرناعوام کی قبروں میں منع،اولیاء و مشائخ و علماء کی قبور کا جائز کیونکہ عوام کے لیے یہ بیکار ہے،
اورخاص قبروں کی حرمت وتعظیم کاباعث اسی پر ہمیشہ مسلمانوں کا عمل رہا اور ہے،خودحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان ابن مظعون کی قبر کے سرہانے پتھر لگایا۔
٣/ تیسرے یہ کہ قبر کے آس پاس چبوترہ پختہ ہو اورتعویذ قبر کچا یہ مطلقًا جائزہے۔لہذا یہاں قبر سے مراد قبر کا ا ندرونی حصہ ہے،
اس طرح کہ قبر کے آس پاس عمارت یاقبہ بنایا جائے یہ عوام کی قبروں پر ناجائز ہے کیونکہ بے فائدہ ہے علماء ومشائخ کی قبروں پر جہاں زائرین کا ہجوم رہتا ہے جائز ہے تاکہ لوگ اس کے سایہ میں آسانی سے فاتحہ پڑھ سکیں۔چنانچہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور پر عمارت اول ہی سےتھی اور جب ولید ابن الملک کے زمانہ میں اس کی دیوار گرگئی
١/ تو صحابہ نے بنائی،
٢/ نیز حضرت عمر نے زینب بنت جحش کی قبر پر،
٣/ حضرت عائشہ نے اپنے بھائی عبدالرحمن کی قبر پر،
٤/ محمد ابن حنیفہ نے حضرت عبدﷲ ابن عباس کی قبر پر قبے بنائے، (خلاصۃ الوفاء اورمنتقی شرح مؤطا،)
مرقات نے اس مقام پر اور شامی نے دفن میت کی بحث میں فرمایا کہ مشہور علماء ومشائخ کی قبر پر قبے بنانا جائز ہیں۔ (المرأة ج ٢ ص ٩٢٠ مكتبة المدينة)
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
قبر چوکھونٹی نہ بنائیں بلکہ اس میں ڈھال رکھیں جیسے اونٹ کا کوہان اور اس پر پانی چھڑکنے میں حرج نہیں ، بلکہ بہتر ہے اور قبر ایک بالشت اونچی ہو یا کچھ خفیف زیادہ۔
علما و سادات کی قبور پر قبہ وغیرہ بنانے میں حرج نہیں اورقبر کو پختہ نہ کیا جائے۔
یعنی اندر سے پختہ نہ کی جائے اور اگر اندر خام ہو، اوپر سے پختہ تو حرج نہیں ۔
اگر ضرورت ہو تو قبر پر نشان کے لیے کچھ لکھ سکتے ہیں ، مگر ایسی جگہ نہ لکھیں کہ بے ادبی ہو، ایسے مقبرہ میں دفن کرنا بہتر ہے جہاں صالحین کی قبریں ہوں ۔(بہار شریعت ح ٤ص ٨٥١ مكتبة المدينة)
(الفتاوی الھندیۃ کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج ۱ ، ص ۱۶۶)
(و ردالمحتار کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت، ج ۳ ص ۱۶۸)
(ردالمحتار المرجع السابق، ص ۱۶۵ و غنیۃ المتملي فصل في الجنائز، ص ۶۰۷۔)
(الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت، ج ۳ ، ص ۱۶۹)
والله ورسوله اعلم بالصواب
قبر پکی کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان اسلام مسئلہ ذیل میں کہ
کیا قبر پکی کرنی چاہیے اگر شریعت اجازت دیتی ہے تو
شریعت میں کیا طریقہ ہے قبر پکی بنانے کا برائے کرم رہنمائی فرمائیں
سائل:- سفیان رضا ملتان پنجاب ،پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
عام قبر کو پکی کرنا باہر سے بھی جائز نہیں البتہ علماء مشائخ و اولیاء کی قبریں باہر سے پکی کرنا جائز ہے۔
صاحب مرآة رحمة الله عليه فرماتے ہیں
قبر میں تین چیزیں ہیں
١/ ایک اس کا اندرونی حصہ جو میت کے جسم سے ملا ہوا ہوتاہے اسے پختہ کرنا،وہاں لکڑی یا پکی اینٹ لگانا مطلقًا ممنوع ہے خواہ ولی کی قبر ہو یا عام مسلمان کی،جسم میت مٹی میں رہناچاہئیے حتی کہ اگر کسی وقت مجبورًا میت کو تابوت یا صندوق میں دفن کرنا پڑے تب بھی اس کے اندرونی حصے میں مٹی سے کہگل کردی جائے۔
٢/ دوسرا قبر کا بیرونی حصہ جولوگوں کو نظر آتا ہے اس کا پختہ کرناعوام کی قبروں میں منع،اولیاء و مشائخ و علماء کی قبور کا جائز کیونکہ عوام کے لیے یہ بیکار ہے،
اورخاص قبروں کی حرمت وتعظیم کاباعث اسی پر ہمیشہ مسلمانوں کا عمل رہا اور ہے،خودحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان ابن مظعون کی قبر کے سرہانے پتھر لگایا۔
٣/ تیسرے یہ کہ قبر کے آس پاس چبوترہ پختہ ہو اورتعویذ قبر کچا یہ مطلقًا جائزہے۔لہذا یہاں قبر سے مراد قبر کا ا ندرونی حصہ ہے،
اس طرح کہ قبر کے آس پاس عمارت یاقبہ بنایا جائے یہ عوام کی قبروں پر ناجائز ہے کیونکہ بے فائدہ ہے علماء ومشائخ کی قبروں پر جہاں زائرین کا ہجوم رہتا ہے جائز ہے تاکہ لوگ اس کے سایہ میں آسانی سے فاتحہ پڑھ سکیں۔چنانچہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور پر عمارت اول ہی سےتھی اور جب ولید ابن الملک کے زمانہ میں اس کی دیوار گرگئی
١/ تو صحابہ نے بنائی،
٢/ نیز حضرت عمر نے زینب بنت جحش کی قبر پر،
٣/ حضرت عائشہ نے اپنے بھائی عبدالرحمن کی قبر پر،
٤/ محمد ابن حنیفہ نے حضرت عبدﷲ ابن عباس کی قبر پر قبے بنائے، (خلاصۃ الوفاء اورمنتقی شرح مؤطا،)
مرقات نے اس مقام پر اور شامی نے دفن میت کی بحث میں فرمایا کہ مشہور علماء ومشائخ کی قبر پر قبے بنانا جائز ہیں۔ (المرأة ج ٢ ص ٩٢٠ مكتبة المدينة)
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
قبر چوکھونٹی نہ بنائیں بلکہ اس میں ڈھال رکھیں جیسے اونٹ کا کوہان اور اس پر پانی چھڑکنے میں حرج نہیں ، بلکہ بہتر ہے اور قبر ایک بالشت اونچی ہو یا کچھ خفیف زیادہ۔
علما و سادات کی قبور پر قبہ وغیرہ بنانے میں حرج نہیں اورقبر کو پختہ نہ کیا جائے۔
یعنی اندر سے پختہ نہ کی جائے اور اگر اندر خام ہو، اوپر سے پختہ تو حرج نہیں ۔
اگر ضرورت ہو تو قبر پر نشان کے لیے کچھ لکھ سکتے ہیں ، مگر ایسی جگہ نہ لکھیں کہ بے ادبی ہو، ایسے مقبرہ میں دفن کرنا بہتر ہے جہاں صالحین کی قبریں ہوں ۔(بہار شریعت ح ٤ص ٨٥١ مكتبة المدينة)
(الفتاوی الھندیۃ کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج ۱ ، ص ۱۶۶)
(و ردالمحتار کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت، ج ۳ ص ۱۶۸)
(ردالمحتار المرجع السابق، ص ۱۶۵ و غنیۃ المتملي فصل في الجنائز، ص ۶۰۷۔)
(الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت، ج ۳ ، ص ۱۶۹)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
02/11/2023
02/11/2023