(سوال نمبر 4802)
مرغی ذبح کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مرغی ذبح کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ اور نیت بھی بتا دیں مہربانی ہوگی
سائل:- محمد علی جوہر جھارکھنڈ انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مرغی ذبح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ حلق اور لبّہ کے درمیان چھڑی پھیری جائے اور چار رگوں میں سے کم ازکم تین رگیں ضرور کٹ جائیں اور گردن بالکل الگ نہ کی جائے۔
تنویر الأبصار مع الدر والرد میں ہے
وذکاة الاختیار ذبح بین الحلق واللبة وعروقہ الحلقوم والمرئ والودجان، وحل المذبوح بقطع أي ثلاث منہا (تنویر الأبصار مع الدر والرد ۹:۴۲۴، ۴۲۵)
وکرہ النخع (حوالہ بالا ص ۴۲۶، ۴۲۷)
یاد رہے مرغی یا کوئی بھی جانور دونوں ہاتھوں سے ذبح کرنا ضروری نہیں صرف ایک ہاتھ سے بھی بلاکراہت ذبح کرسکتے ہیں البتہ دوسرے ہاتھ سے اس کا سر پکڑ لینا چاہیے، تاکہ ذبح کرنے میں سہولت رہے۔
جانور کو ذبح کرنے کے لیے ذابح کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔بالغ ہونا ضروری نہیں، البتہ ناسمجھ بچہ نہ ہو،
فتاوی شامی میں ہے
ولو الذابح․․․ جیسا یعقل التسمیة والذبح ویقدر۔
مرغی ذبح کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مرغی ذبح کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ اور نیت بھی بتا دیں مہربانی ہوگی
سائل:- محمد علی جوہر جھارکھنڈ انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مرغی ذبح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ حلق اور لبّہ کے درمیان چھڑی پھیری جائے اور چار رگوں میں سے کم ازکم تین رگیں ضرور کٹ جائیں اور گردن بالکل الگ نہ کی جائے۔
تنویر الأبصار مع الدر والرد میں ہے
وذکاة الاختیار ذبح بین الحلق واللبة وعروقہ الحلقوم والمرئ والودجان، وحل المذبوح بقطع أي ثلاث منہا (تنویر الأبصار مع الدر والرد ۹:۴۲۴، ۴۲۵)
وکرہ النخع (حوالہ بالا ص ۴۲۶، ۴۲۷)
یاد رہے مرغی یا کوئی بھی جانور دونوں ہاتھوں سے ذبح کرنا ضروری نہیں صرف ایک ہاتھ سے بھی بلاکراہت ذبح کرسکتے ہیں البتہ دوسرے ہاتھ سے اس کا سر پکڑ لینا چاہیے، تاکہ ذبح کرنے میں سہولت رہے۔
جانور کو ذبح کرنے کے لیے ذابح کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔بالغ ہونا ضروری نہیں، البتہ ناسمجھ بچہ نہ ہو،
فتاوی شامی میں ہے
ولو الذابح․․․ جیسا یعقل التسمیة والذبح ویقدر۔
(درمختار مع الشام ۹: ۴۳۰)
ذبح کرنے وا لا بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر ذبح کرے اور اگر بسم اللہ واللہ اکبر کہے تو یہ بھی بلاکراہت درست ہے۔ مزید کوئی دعا نہیں اور جس نیت سے ذبح کر رہیں ہوں وہ نیت کرلے ۔
یاد رہے ذبح کرنے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ أللہ أکبر کہہ کر ذبح کرے، البتہ اگر ذبح کرنے والے نے بسم اللہ سبحان اللہ الحمدللہ یا اللّٰہ اکبر کہہ دیا، تو اس صورت میں بھی جائز ہے
الدر المختار میں ہے
لا تحل ذبیحة ....تارک تسمیة عمداً....فإن ترکھا ناسیاً حل .....والشرط فی التسمیة ھو الذکر الخالص عن شوب الدعاء وغیرہ.....والمستحب أن یقول: بسم اللہ أللہ أکبر ۔۔الخ
(الدر المختار: (کتاب الذبائح، 301/6،)
بہار شریعت میں ہے
جو رگیں ذبح میں کاٹی جاتی ہیں وہ چار ہیں۔حلقو م: یہ وہ ہے جس میں سانس آتی جاتی ہے۔ مری: اس سے کھانا پانی اُترتا ہے ان دونوں کے اغل بغل اور دو رگیں ہیں جن میں خون کی روانی ہے ان کو ود جین کہتے ہیں۔
ذبح کرنے وا لا بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر ذبح کرے اور اگر بسم اللہ واللہ اکبر کہے تو یہ بھی بلاکراہت درست ہے۔ مزید کوئی دعا نہیں اور جس نیت سے ذبح کر رہیں ہوں وہ نیت کرلے ۔
یاد رہے ذبح کرنے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ أللہ أکبر کہہ کر ذبح کرے، البتہ اگر ذبح کرنے والے نے بسم اللہ سبحان اللہ الحمدللہ یا اللّٰہ اکبر کہہ دیا، تو اس صورت میں بھی جائز ہے
الدر المختار میں ہے
لا تحل ذبیحة ....تارک تسمیة عمداً....فإن ترکھا ناسیاً حل .....والشرط فی التسمیة ھو الذکر الخالص عن شوب الدعاء وغیرہ.....والمستحب أن یقول: بسم اللہ أللہ أکبر ۔۔الخ
(الدر المختار: (کتاب الذبائح، 301/6،)
بہار شریعت میں ہے
جو رگیں ذبح میں کاٹی جاتی ہیں وہ چار ہیں۔حلقو م: یہ وہ ہے جس میں سانس آتی جاتی ہے۔ مری: اس سے کھانا پانی اُترتا ہے ان دونوں کے اغل بغل اور دو رگیں ہیں جن میں خون کی روانی ہے ان کو ود جین کہتے ہیں۔
(بہار شریعت، ح:۱۵، ج:۲،۶۷۱،فریدبُک ڈپو، دہلی)
ذبح کی چار رگوں میں سے کم از کم تین کا کٹنا ضروری ہے، اسی طرح اگر چاروں رگوں میں سے ہر ایک کا اکثر حصہ کٹ جائے تب بھی جانور ذبح ہو جائے گا لیکن اگر صرف دو یا اُس سے کم ہی رگیں کٹیں یا چاروں رگوں میں سے ہرایک کا کم حصہ ہی کٹا تو ایسی صورت میں جانور حلال نہ ہوگا۔
فتاوی عالم گیری میں ہے:
فإن قطع کل الأربعۃ حلت الذبیحۃ، وإن قطع أکثرہافکذلک عند أبی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الذبح، ج:۵، ص:۲۸۷،دارالفکر، بیروت)
اگر چاروں رگیں کٹ گئیں تو ذبیحہ حلال ہے اور اگر ان میں سے اکثر کٹ گئیں تب بھی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک یہی حکم ہے۔
فتاوی رضویہ میں ہے
چاروں رگوں میں سے تین کٹ جانے پر مدار ہے، اگر ایک یا دو رگ کٹی حلال نہ ہوگا‘‘۔(فتاوی رضویہ، قدیم، ج:۸، ص:۳۱۸، رضا اکیڈمی، ممبئی)
ذبح کی چار رگوں میں سے کم از کم تین کا کٹنا ضروری ہے، اسی طرح اگر چاروں رگوں میں سے ہر ایک کا اکثر حصہ کٹ جائے تب بھی جانور ذبح ہو جائے گا لیکن اگر صرف دو یا اُس سے کم ہی رگیں کٹیں یا چاروں رگوں میں سے ہرایک کا کم حصہ ہی کٹا تو ایسی صورت میں جانور حلال نہ ہوگا۔
فتاوی عالم گیری میں ہے:
فإن قطع کل الأربعۃ حلت الذبیحۃ، وإن قطع أکثرہافکذلک عند أبی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الذبح، ج:۵، ص:۲۸۷،دارالفکر، بیروت)
اگر چاروں رگیں کٹ گئیں تو ذبیحہ حلال ہے اور اگر ان میں سے اکثر کٹ گئیں تب بھی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک یہی حکم ہے۔
فتاوی رضویہ میں ہے
چاروں رگوں میں سے تین کٹ جانے پر مدار ہے، اگر ایک یا دو رگ کٹی حلال نہ ہوگا‘‘۔(فتاوی رضویہ، قدیم، ج:۸، ص:۳۱۸، رضا اکیڈمی، ممبئی)
اسی میں ہے
اجماعِ ائمہ ماست کہ اگر سہ رگ بریدہ شود ذبیحہ حلال ست
اجماعِ ائمہ ماست کہ اگر سہ رگ بریدہ شود ذبیحہ حلال ست
(فتاوی رضویہ، قدیم، ج:۸، ص:۳۱۹، رضا اکیڈمی، ممبئی،۱۴۱۵ھ)
ہمارے ائمہ کرام کا اجماع ہے کہ اگر تین رگیں کٹ گئی ہوں تو ذبیحہ حلال ہے۔
اسی میں ہے
کم از کم تین رگیں کٹنا لازم ہے، اور اگر تین سے کم رگیں کٹیں مردار ہوگیا
ہمارے ائمہ کرام کا اجماع ہے کہ اگر تین رگیں کٹ گئی ہوں تو ذبیحہ حلال ہے۔
اسی میں ہے
کم از کم تین رگیں کٹنا لازم ہے، اور اگر تین سے کم رگیں کٹیں مردار ہوگیا
(ملخصاً، فتاویٰ رضویہ، قدیم، ج:۸، ص:۳۱۹، رضا اکیڈمی، ممبئی،۱۴۱۵ھ)
بہار شریعت میں ہے
’ذبح کی چار رگوں میں سے تین کا کٹ جانا کافی ہے یعنی اس صورت میں بھی جانور حلال ہو جائے گا کہ اکثر کے لیے وہی حکم ہے جو کل کے لیے ہے اور اگر چاروں میں سے ہر ایک کا اکثر حصہ کٹ جائے گا جب بھی حلال ہو جائے گا اور اگر آدھی آدھی ہر رگ کٹ گئی اور آدھی باقی ہے تو حلال نہیں‘‘۔
بہار شریعت میں ہے
’ذبح کی چار رگوں میں سے تین کا کٹ جانا کافی ہے یعنی اس صورت میں بھی جانور حلال ہو جائے گا کہ اکثر کے لیے وہی حکم ہے جو کل کے لیے ہے اور اگر چاروں میں سے ہر ایک کا اکثر حصہ کٹ جائے گا جب بھی حلال ہو جائے گا اور اگر آدھی آدھی ہر رگ کٹ گئی اور آدھی باقی ہے تو حلال نہیں‘‘۔
(بہار شریعت، ح:۱۵، ج:۲،۶۷۱،فریدبُک ڈپو، دہلی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
25/10/2023
25/10/2023