تعظیم و ادب قسط اول
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم محبت کے بغیر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ایمان لانا متصور نہیں ہے ، مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اپنی جان ، باپ ، بیٹے اور مخلوق سے زیادہ محبوب رکھے ، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے :
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم محبت کے بغیر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ایمان لانا متصور نہیں ہے ، مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اپنی جان ، باپ ، بیٹے اور مخلوق سے زیادہ محبوب رکھے ، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے :
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ (پ۲۱ ، الاحزاب : ۶)
ترجمہ کنزالایمان : یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے۔
اور سرکار دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہیں :
ترجمہ کنزالایمان : یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے۔
اور سرکار دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہیں :
تم میں سے کوئی ایک ہر گز (کامل) ایماندار نہیں ہوگا جب تک کہ میں اسے اسکی جان سے زیادہ محبوب نہ ہوں۔ ‘‘
(المسند لامام احمد بن حنبل ، حدیث عبداللہ بن ربیعۃ السلمی ، الحدیث۱۸۹۸۳ ، ج۷ ، ص۹)
یہ بھی فرمایا : ’’تم میں سے کوئی (کامل)ایماندار نہیں ہوگا جب تک میں اسے باپ ، بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں۔ ‘‘
(المسند لامام احمد بن حنبل ، حدیث عبداللہ بن ربیعۃ السلمی ، الحدیث۱۸۹۸۳ ، ج۷ ، ص۹)
یہ بھی فرمایا : ’’تم میں سے کوئی (کامل)ایماندار نہیں ہوگا جب تک میں اسے باپ ، بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں۔ ‘‘
(صحیح البخاری ، کتاب الایمان ، باب حب الرسول من الایمان ، الحدیث۱۵ ، ج۱ ، ص۱۷)
علاماتِ محبت
حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم محبت کی بہت سی علامتیں اور آثار ہیں جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی محبت کے امتحان کے لئے کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک علامت حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم بکثرت ذکر کرنا ہے۔ حدیث شریف میں ہے :
علاماتِ محبت
حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم محبت کی بہت سی علامتیں اور آثار ہیں جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی محبت کے امتحان کے لئے کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک علامت حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم بکثرت ذکر کرنا ہے۔ حدیث شریف میں ہے :
’’ مَنْ اَحَبَّ شَیْأً اَکْثَرَ ذِکْرَہُ ‘‘
جوشخص کسی سے محبت رکھتا ہے, ا س کا ذکر بکثرت کرتا ہے۔ (کنزالعمال ، کتاب الاذکار ، الباب الاول ، الحدیث۱۸۲۵ ، ج۱ ، ص۲۱۷)
تعظیم
تعظیم
کثرت ذکر کے ساتھ ساتھ ایک علامت یہ بھی ہے کہ تعظیم و تکریم کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے اور حضور سید الانام صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نام پاک کمال تعظیم وتکریم اور صلوٰۃ و سلام کے ساتھ لے اور نام پاک لیتے وقت خوف و خشیت عجزو انکساری اور خشوع و خضوع کا اظہار کرے۔
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ
(پ۱۸ ، النور : ۶۳)
ترجمہ کنزالایمان : رسول کے پکار نے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔
ترجمہ کنزالایمان : رسول کے پکار نے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔
تفسیر کبیر میں ہے :
لاتنادوہ کما ینادی بعضکم بعضا لا تقولوا یامحمد یا اباالقاسم ولکن قولوا یا رسول اللہ یا نبی اللہ۔
(التفسیرالکبیر ، ج۸ ، ص۴۲۵ ، پ ۱۸ ، النور : ۶۳)
’’ نبی اکر م صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اس طرح نہ پکارو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ یوں نہ کہو : یا محمد! یا ، ابا القاسم! بلکہ عرض کرو : یا رسول اللہ! ، یا نبی اللہ!‘‘ (یعنی نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نام یا کنیت سے نہ پکارو بلکہ اوصاف اور القاب سے یاد کرو)
اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
(التفسیرالکبیر ، ج۸ ، ص۴۲۵ ، پ ۱۸ ، النور : ۶۳)
’’ نبی اکر م صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اس طرح نہ پکارو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ یوں نہ کہو : یا محمد! یا ، ابا القاسم! بلکہ عرض کرو : یا رسول اللہ! ، یا نبی اللہ!‘‘ (یعنی نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نام یا کنیت سے نہ پکارو بلکہ اوصاف اور القاب سے یاد کرو)
اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ۲۶ ، الحجرات : ۲)
ترجمہ کنزالایمان : اے ایمان والو ! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہوکہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔
ابو محمد مکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ای لاتسابقوہ بالکلام ولاتغلظوالہ بالخطاب ولاتنادوہ باسمہ نداء بعضکم بعضا ولکن عظموہ ووقروہ ونادوہ باشرف مایحب ان ینادی بہ یارسول اللہ! یا نبی اللہ۔
(الشفاء ، الباب الثالث ، ج۲ ، ص۶۵)
’’یعنی کلام میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سبقت نہ کرو اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہم کلام ہوتے ہوئے سختی سے بات نہ کرو اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نام لیکر نہ پکار و جس طرح تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو بلکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تعظیم و توقیر کرو اور اشرف ترین اوصاف سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نداء کر و جن سے ند اء کئے جانے کو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فرمائیں اور یوں کہو یارسول اللہ! یانبی اللہ !۔ ‘‘(عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم)
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی بے ادبی کفر ہے
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم لیے آواز بلند کرنے اور تعظیم و توقیر کے بغیر بلانے سے منع فرمایا اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اس بے ادبی کورو انہیں رکھا اور اس عظیم جرم کے مرتکب کو اعمال کے برباد ہوجانے کی وعید سنائی ، معلوم ہوا کہ بارگاہ رسالت کی بے ادبی اعمال کے ضائع ہو جانے کا سبب ہے اور تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ کفر کے سواکوئی گناہ اعمال کے ضائع ہونے کا سبب نہیں ہے اور جو چیز اعمال کے ضیاع کا سبب ہو ، کفر ہے ۔
اب غور کرنا چاہیے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم بے ادبی اعمال کے ضائع ہو جانے کا سبب ہے اور جو ضیاع اعمال کاسبب ہو کفرہے ، نتیجہ یہ ہوا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم بے ادبی کفر ہے۔ یہ بھی پیش نظرر ہے کہ حیات ظاہری میں اور وصال کے بعد نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی شان تعظیم و تکریم کے سلسلے میں یکساں ہے۔
امام مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ابو جعفر منصور سے مکالمہ
ابو جعفر منصور بادشاہ مسجد نبوی علی صاحبہ الصلوۃوالسلام میں حضرت امام مالک عَلَیْہِ رَحْمَۃ سے ایک مسئلہ میں گفتگو کررہا تھا ، امام مالک عَلَیْہِ رَحْمَۃنے اس سے فرمایا :
یا امیرالمؤمنین لاترفع صوتک فی ھٰذا المسجد فان اللہ عزوجل ادب قوما فقال : لَا تَرْفَعُوۡۤا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ۔ ۔ ۔ الآیۃ و مدح قوما فقال : اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنۡدَ رَسُوْلِ اللہِ۔ ۔ ۔ الآیۃ وذم قوما فقال : اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ۔ ۔ ۔ الآیۃ وان حرمتہ میتاکحرمتہ حیا فاستکان لھا ابو جعفر وقال یا اباعبداللہ استقبل القبلۃ وادعو ام استقبل رسول اللہ؟ فقال ولم تصرف وجھک عنہ وھو وسیلتک ووسیلۃ ابیک آدم علیہ السلام الی اللہ تعالٰی یوم القیامۃ بل استقبلہ واستشفع بہ فیشفعہ اللہ
(شرح الشفاء ، الباب الثالث ، ج۲ ، ص۷۲)
’’اے مسلمانوں کے امیر! اس مسجد میں آواز بلند نہ کر کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک جماعت کو ادب سکھایا اور فرمایا :
لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (پ۲۶ ، الحجرات : ۲)
ترجمہ کنزالایمان : اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ایک جماعت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا :
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳)
(پ۲۶ ، الحجرات : ۳)
ترجمہ کنزالایمان : بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیز گاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔
اور ایک جماعت کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا :
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴)
(پ۲۶ ، الحجرات : ۴)
ترجمہ کنزالایمان : بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔
بے شک بعد از وصال حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم عزت ایسی ہے جیسی آپ کی حیات ظاہری میں تھی۔ (یہ سن کر) ابو جعفر نے فروتنی کا اظہار کیا اور کہا اے ابو عبداللہ (امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کنیت) قبلہ رو ہوکر دعا کروں ، یا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم طرف رخ کروں ؟ امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کیوں رخ پھیرتا ہے حالانکہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے دن بارگاہ الٰہی میں تیرے اور تیرے جدامجد آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے وسیلہ ہیں تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم طرف رخ کر اور شفاعت کی درخواست کر ، اللہ تعالیٰ تیرے لئے شفاعت قبول فرمائیگا۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
کتبہ:- محمد مفید عالم قادری صمدی