•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
خطابات و القابات قسط دوم
کیا افضل کے ہوتے ہوئے کسی مفضول شخص کو القابات دینا جائز ہے یا نہیں؟
خطابات و القابات قسط دوم
کیا افضل کے ہوتے ہوئے کسی مفضول شخص کو القابات دینا جائز ہے یا نہیں؟
_________(❤️)_________
بفضل ربانی قسط اول میں کافی لکھ چکا ہوں
بفضل ربانی قسط اول میں کافی لکھ چکا ہوں
مزید ہر پہلو پر پھر ایک نظر
پیر طریقت رہبر راہ شریعت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری المعروف بہ مفتی اعظم بہار
ناشر: -تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی
باہتمام:- دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفی مرپا شریف، ضلع سیتا مڑھی بہار
پیر طریقت رہبر راہ شریعت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری المعروف بہ مفتی اعظم بہار
ناشر: -تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی
باہتمام:- دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفی مرپا شریف، ضلع سیتا مڑھی بہار
••────────••⊰❤️⊱••───────••
بقیہ
اقول:- عزت قبول کرنا ایک عقلمندی کی دلیل ہے اور انکار کرنا عقلمندی کی دلیل نہیں ہے۔
اگر کسی کو کوئی عزت عطاء کرے اور وہ اسے قبول نہ کرے تو وہ گدھا ہے۔
بقیہ
اقول:- عزت قبول کرنا ایک عقلمندی کی دلیل ہے اور انکار کرنا عقلمندی کی دلیل نہیں ہے۔
اگر کسی کو کوئی عزت عطاء کرے اور وہ اسے قبول نہ کرے تو وہ گدھا ہے۔
(یعنی عقلمند نہیں ہے) جیسا کہ سرکار امام اہل سنت عظیم البرکت اعلی حضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ " پھر جب اہل اسلام ان کے ساتھ امتیاز خاص کا برتاؤ کریں تو اس کو قبول ممنوع نہیں امیر المومنین سیدنا مولی علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہ الکریم کہیں تشریف فرما ہوئے صاحب خانہ نے حضرت کے لئے مسند حاضر کی امیر المومنین اس پر رونق افروز ہوئے اور فرمایا "' کوئی گدھا ہی عزت کی بات قبول نہ کرےگا سعید بن منصور فی سننہ عن سفیان بن عیینہ عن عمرو بن دینار عن محمد بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال القی لعلی کرم اللہ تعالیٰ وجھہ وسادۃ فقعد علیھا و قال لا یابی الکرامۃ الاحمار و رواہ الدیلمی عن ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فذکرہ، و اللہ تعالیٰ اعلم
یعنی سعید بن منصور نے اپنی سنن میں سفیان بن عینیہ سے انھوں نے محمد بن علی سے روایت کی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے وسادۃ ( یعنی بچھونا ) بچھا یا گیا اور آپ اس پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا "
عزت و توقیر کا انکار گدھا ہی کرسکتا ہے اور محدث دیلمی نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے حوالہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا "
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، پھر اس نے وہی حدیث بیان فرمائی۔
(فتاویٰ رضویہ ج 23 ص 720)
ان حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کو کسی کے گھر یا کوئی محفل میں عزت ملے اسے قبول کرنا عقلمندی ہے اور اسی طرح کسی کو کوئی خطاب یا لقب ملے اسے قبول کرنا ہی عقلمندی ہے اگرچہ وہ اس وقت اس کا اہل نہ ہو لیکن ان بزرگ کی برکت ودعا سے اللہ تعالیٰ اسے بعد میں یا اسی وقت اس کا اہل بنادے۔
رب قدیر ومنعم حقیقی کی عطا پر کسی کو روک نہیں ہے وہ قادر مطلق ہے وہ جس پر چاہتا ہے اس پر فضل فرماتا ہے اور کسی کو یہ لقب و خطاب ملنا خدا عزوجل کا فضل ہوتا ہے۔
سوال:- کیا امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی کسی نے مجدد کا خطاب دیا؟
الجواب:- جی ہمیشہ سے کبھی بڑوں کی طرف سے چھوٹے کو اور کبھی چھوٹوں کی طرف سے بڑوں کو خطاب و القاب دیا جاتا ہے یہ دستور شروع سے چلا آرہا ہے میں کچھ مثالیں پیش کر رہا ہوں!
(1) امام احمد رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دینی و علمی و فقہی خدمات کو دیکھ کر یہ لقب ملا!
حضور مفتی محمد شریف الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو " مجدد کا لقب مکہ معظمہ کے جلیل القدر عالم غالباً شیخ محمد اسماعیل نے دیا۔
سوال:- کیا امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی کسی نے مجدد کا خطاب دیا؟
الجواب:- جی ہمیشہ سے کبھی بڑوں کی طرف سے چھوٹے کو اور کبھی چھوٹوں کی طرف سے بڑوں کو خطاب و القاب دیا جاتا ہے یہ دستور شروع سے چلا آرہا ہے میں کچھ مثالیں پیش کر رہا ہوں!
(1) امام احمد رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دینی و علمی و فقہی خدمات کو دیکھ کر یہ لقب ملا!
حضور مفتی محمد شریف الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو " مجدد کا لقب مکہ معظمہ کے جلیل القدر عالم غالباً شیخ محمد اسماعیل نے دیا۔
(فتاویٰ شارح بخاری ج3 ص346)
اب غور کا مقام ہے کہ امام اہل سنت کو بھی کسی بزرگ نے خطاب دیا اور آپ نے اس خطاب کو قبول فرمایا اور آپ کے مخلصین علمائے کرام نے اس خطاب سے آپ کو مشہور کیا اور ایسی کوئی روایت نہیں ملی کہ آپ نے اس لقب سے اعلان کرنے پر منع فرمایا بلکہ سب سے پہلے 1318 ھ جب ندوہ کے مقابلہ میں قاضی عبد الوحید صاحب رئیس پٹنہ نے اصلاح کے ندوہ عظیم الشان جلسہ کیا اس جلسہ میں خود مولانا قاضی عبد الوحید صاحب نے اعلی حضرت کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا جس کا ایک مصرعہ یہ ہے۔
مجدد عصر ہ آلفرد الفرید۔
مجدد عصر ہ آلفرد الفرید۔
یعنی یہ اپنے زمانہ کے مجددو یکتا و یگانہ ہیں۔
(فتاویٰ شارح بخاری جلد سوم ص 357)
اس جلسہ میں مجدد اعظم اعلی حضرت قدس سرہ نے جو واعظ فرمایا تھا وہ اس عنوان سے چھپا تھا
بیان ہدایت نشان مجدد مایۃ حاضرہ موید ملت طاہرہ امام اہل سنت حضرت مولانا حاجی محمد احمد رضا خان صاحب سنی ۔حنفی ۔قادری ۔برکاتی ۔بریلوی دام فیضہ القوی (المرجع سابق ص 357)
ان سب القابات کے باوجود سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت خاموشی جلسہ میں شرکت فرماکر اپنا پیغام لوگوں کو سنایا لیکن ان القابات کے اعلان کا خلاف نہیں فرمایا ۔
(2)حضور مفسر قرآن حضرت علامہ ابراہیم رضا عرف جیلانی میاں بریلی شریف رحمۃ اللہ علیہ کو لقب ملنے کا واقعہ
(2) مفتی اعظم ہالینڈ حضور سابق آمین شریعت ادارہ شرعیہ پٹنہ حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الواجد صاحب سابق امین تحریر فرماتے ہیں کہ حضور محدث اعظم ہند کچھوچھوی علیہ الرحمہ حضرت جیلانی میاں کی تفسیرانہ تقریر سے بے حد محظوظ ہوتے چند کانفرنسوں میں حضور محدث اعظم ہند نے آپ کے تعارف میں جہاں درجنوں القابات گنائے، وہیں آپ کو پورے انشراح صدر کے ساتھ "، مفسر اعظم ہند " فرمایا اور اب جو بھی اشتہار چھپتا اس میں جلی حرفوں میں آپ کے نام کے ساتھ " مفسر اعظم ہند " لکھا جاتا چند ہی مہینوں میں بلکہ ہفتوں میں آپ کا یہ لقب پورے ہندوستان میں مشہور ہوگیا اور ہرطرف آپ کو مفسر اعظم ہند کہا جانے لگا۔
اس جلسہ میں مجدد اعظم اعلی حضرت قدس سرہ نے جو واعظ فرمایا تھا وہ اس عنوان سے چھپا تھا
بیان ہدایت نشان مجدد مایۃ حاضرہ موید ملت طاہرہ امام اہل سنت حضرت مولانا حاجی محمد احمد رضا خان صاحب سنی ۔حنفی ۔قادری ۔برکاتی ۔بریلوی دام فیضہ القوی (المرجع سابق ص 357)
ان سب القابات کے باوجود سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت خاموشی جلسہ میں شرکت فرماکر اپنا پیغام لوگوں کو سنایا لیکن ان القابات کے اعلان کا خلاف نہیں فرمایا ۔
(2)حضور مفسر قرآن حضرت علامہ ابراہیم رضا عرف جیلانی میاں بریلی شریف رحمۃ اللہ علیہ کو لقب ملنے کا واقعہ
(2) مفتی اعظم ہالینڈ حضور سابق آمین شریعت ادارہ شرعیہ پٹنہ حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الواجد صاحب سابق امین تحریر فرماتے ہیں کہ حضور محدث اعظم ہند کچھوچھوی علیہ الرحمہ حضرت جیلانی میاں کی تفسیرانہ تقریر سے بے حد محظوظ ہوتے چند کانفرنسوں میں حضور محدث اعظم ہند نے آپ کے تعارف میں جہاں درجنوں القابات گنائے، وہیں آپ کو پورے انشراح صدر کے ساتھ "، مفسر اعظم ہند " فرمایا اور اب جو بھی اشتہار چھپتا اس میں جلی حرفوں میں آپ کے نام کے ساتھ " مفسر اعظم ہند " لکھا جاتا چند ہی مہینوں میں بلکہ ہفتوں میں آپ کا یہ لقب پورے ہندوستان میں مشہور ہوگیا اور ہرطرف آپ کو مفسر اعظم ہند کہا جانے لگا۔
(حیات مفسر اعظم مصنف مفتی عبد الواجد صاحب رحمتہ اللہ علیہ ص 29)
نوٹ
خیال رہے کہ جب حضور جیلانی میاں رحمۃ اللہ علیہ کو اسٹیج پر یا کانفرنس میں یا اشتہار میں ہر جگہ مفسر اعظم ہند سے اعلان ہونے لگا لیکن آپ نے منع نہیں فرمایا کہ میں اس لائق نہیں ہوں بلکہ ہر جلسہ میں جاتے بھی تھے جہان اس لقب سے اعلان، کیا جاتا تھا
لیکن ہر دور میں
کام کرنے والے کے مخالفین ہوتے ہیں جن کو کسی کی عزت و شہرت سے حسد ہوتا ہے وہ یہاں بھی ہوا اور کیوں نہیں ہوتا ہے کہ ہونا ہی تھا جیسا کہ کسی نے کیا خوب کہا۔
(5) فان الحسد لا یکون الا لذوی الکمال المتصفین باکمل الخصال۔یعنی کیونکہ حسد صرف صاحب کمال لوگوں سے کیا جاتا ہے جو کامل خصال سے متصف ہوتے ہیں۔
نوٹ
خیال رہے کہ جب حضور جیلانی میاں رحمۃ اللہ علیہ کو اسٹیج پر یا کانفرنس میں یا اشتہار میں ہر جگہ مفسر اعظم ہند سے اعلان ہونے لگا لیکن آپ نے منع نہیں فرمایا کہ میں اس لائق نہیں ہوں بلکہ ہر جلسہ میں جاتے بھی تھے جہان اس لقب سے اعلان، کیا جاتا تھا
لیکن ہر دور میں
کام کرنے والے کے مخالفین ہوتے ہیں جن کو کسی کی عزت و شہرت سے حسد ہوتا ہے وہ یہاں بھی ہوا اور کیوں نہیں ہوتا ہے کہ ہونا ہی تھا جیسا کہ کسی نے کیا خوب کہا۔
(5) فان الحسد لا یکون الا لذوی الکمال المتصفین باکمل الخصال۔یعنی کیونکہ حسد صرف صاحب کمال لوگوں سے کیا جاتا ہے جو کامل خصال سے متصف ہوتے ہیں۔
(ردالمحتار جلد اول تقدیم المولف ص 100)
پھر اسی واقعہ میں مفتی عبد الواجد صاحب رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ " بعض ہم چشموں کو اس لقب سے سخت تکلیف ہوئی اور وہ طرح طرح سے اپنی بیزاری کا اظہار کرنے لگے کسی نے کہا کہ وہ تفسیر کی " تاء " سے واقف نہیں ہیں، کسی نے کہا کہ ساری عمر شکار میں گزار دی اور اب خود نوشت مفسر اعظم بن گئے، کسی نے کہا کہ تفسیر بالرائے کرتے ہیں اور مفسر اعظم کہلاتے ہیں یہ تمام شکایتیں آپ کے گوش گزار ہوتی رہیں سب کے جواب میں آپ، یہی فرماتے "
پھر اسی واقعہ میں مفتی عبد الواجد صاحب رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ " بعض ہم چشموں کو اس لقب سے سخت تکلیف ہوئی اور وہ طرح طرح سے اپنی بیزاری کا اظہار کرنے لگے کسی نے کہا کہ وہ تفسیر کی " تاء " سے واقف نہیں ہیں، کسی نے کہا کہ ساری عمر شکار میں گزار دی اور اب خود نوشت مفسر اعظم بن گئے، کسی نے کہا کہ تفسیر بالرائے کرتے ہیں اور مفسر اعظم کہلاتے ہیں یہ تمام شکایتیں آپ کے گوش گزار ہوتی رہیں سب کے جواب میں آپ، یہی فرماتے "
ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء"
یہ سب درود اسم اعظم کی برکت ہے۔
(حیات مفسر اعظم،ص 29 و ص 30 مصنف سابق امین شریعت مفتی عبد الواجد)
برادران اسلام ؛ جب حضور ابراہیم رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ کو حضور مفسر اعظم ہند کے لقب ملنے سے یا اس کا اعلان ہونے پر مخالفین نے کیا کیا کہنا شروع کیا آپ نے حضور مفتی عبد الواجد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب سے تبصرہ پڑھا اور مخالفین کی طعنہ زنی کو سننے کے بعد حضور مفسر اعظم ہند کیا کہتے تھے وہ بھی آپ نے پڑھا خیر ملاحظہ فرمائیں
(نوٹ:- حضرت مفتی عبد الواجد صاحب کے اس تحریر سے چند باتیں معلوم ہوئیں)
(1) حضور محدث اعظم ہند نے جب جیلانی میاں رحمتہ اللہ علیہ کو تفسیری خدمات دیکھ کر مفسر اعظم ہند کا خطاب دیا تو پورے ہندوستان کا سروے نہیں کیا گیا کہ اس دور میں ان سے بڑا کوئی اور مفسر ہیں یا نہیں؟ پورے ہند کے علماء فقہاء مفسران کو ایک جگہ جمع کرکے مشورہ نہیں لیا گیا کیونکہ یہ لقب دینے والے محدث اعظم ہند تھے اس اعزازی لقب دینے کے لئے وہی واحد ذات کافی تھی اس لئے سروے نہیں کیا گیا کہ لقب دینے میں سروے کرنے کی شرط ہے ہی نہیں
(2) اور جب اس لقب سے ان کے معتقدین و مریدین بلانے لگے اور چاہنے والے اشتہار میں اس لقب کو لکھنا شروع کیا تو حضرت کے ہم چشموں کو کافی تکلیف ہونے لگی اور کہنا شروع کردیا کہ تفسیر کے تا سے واقف نہیں اور مفسر اعظم کہلانے لگے۔
(3) اور ان لوگوں نے افواہ اٹھایا کہ حضرت کو تفسیر کیا اس کے 'تا" سے واقفیت نہیں ہے۔
4-- کسی نے ہنگامہ کیا کہ وہ شکاری تھے شکار کرتے تھے ہمیشہ بندوق سے. شکار کرتے تھے۔
,(5) اس سے واضح ہوا کہ ہر دور میں مخالفت ہوئی ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ
ان یحسدونی فانی غیر لاثمھم قبلی من الناس اھل الفصل قد حسدوا
برادران اسلام ؛ جب حضور ابراہیم رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ کو حضور مفسر اعظم ہند کے لقب ملنے سے یا اس کا اعلان ہونے پر مخالفین نے کیا کیا کہنا شروع کیا آپ نے حضور مفتی عبد الواجد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب سے تبصرہ پڑھا اور مخالفین کی طعنہ زنی کو سننے کے بعد حضور مفسر اعظم ہند کیا کہتے تھے وہ بھی آپ نے پڑھا خیر ملاحظہ فرمائیں
(نوٹ:- حضرت مفتی عبد الواجد صاحب کے اس تحریر سے چند باتیں معلوم ہوئیں)
(1) حضور محدث اعظم ہند نے جب جیلانی میاں رحمتہ اللہ علیہ کو تفسیری خدمات دیکھ کر مفسر اعظم ہند کا خطاب دیا تو پورے ہندوستان کا سروے نہیں کیا گیا کہ اس دور میں ان سے بڑا کوئی اور مفسر ہیں یا نہیں؟ پورے ہند کے علماء فقہاء مفسران کو ایک جگہ جمع کرکے مشورہ نہیں لیا گیا کیونکہ یہ لقب دینے والے محدث اعظم ہند تھے اس اعزازی لقب دینے کے لئے وہی واحد ذات کافی تھی اس لئے سروے نہیں کیا گیا کہ لقب دینے میں سروے کرنے کی شرط ہے ہی نہیں
(2) اور جب اس لقب سے ان کے معتقدین و مریدین بلانے لگے اور چاہنے والے اشتہار میں اس لقب کو لکھنا شروع کیا تو حضرت کے ہم چشموں کو کافی تکلیف ہونے لگی اور کہنا شروع کردیا کہ تفسیر کے تا سے واقف نہیں اور مفسر اعظم کہلانے لگے۔
(3) اور ان لوگوں نے افواہ اٹھایا کہ حضرت کو تفسیر کیا اس کے 'تا" سے واقفیت نہیں ہے۔
4-- کسی نے ہنگامہ کیا کہ وہ شکاری تھے شکار کرتے تھے ہمیشہ بندوق سے. شکار کرتے تھے۔
,(5) اس سے واضح ہوا کہ ہر دور میں مخالفت ہوئی ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ
ان یحسدونی فانی غیر لاثمھم قبلی من الناس اھل الفصل قد حسدوا
یعنی اگر وہ مجھ سے حسد کرتے ہیں تو میں ان کو ملامت کرنے والا نہیں مجھ سے پہلے اہل فضل لوگوں سے حسد کیا گیا۔(رد المحتار) اس لئے مخالفت سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ شہرت پانے کے لئے مخالفت کا ہونا ضروری شئ ہے
لیکن ان تمام کے باوجود آپ نے یہ نہ فرمایا کہ اشتہار میں میرا یہ لقب مت لکھو کہ کچھ لوگ اس کے مخالف ہیں بلکہ آپ جب مخالف کی بات سنتے تو فرماتے ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء بے شک یہ اللہ کا فضل ہے جس کو عطا کرئے
( 3) علامہ ارشد القادری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مفتی شریف الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو " فقیہ النفس نائب مفتی اعظم ہند " لکھ کر سوال کرتے ہیں جیسا کہ فتاویٰ شارح بخاری میں ہے ک فقیہ النفس نائب مفتی اعظم ہند حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم۔
لیکن مفتی شریف الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے منع نہیں کئے (فتاویٰ شارح بخاری ج 3 ص 390)
لیکن ان تمام کے باوجود آپ نے یہ نہ فرمایا کہ اشتہار میں میرا یہ لقب مت لکھو کہ کچھ لوگ اس کے مخالف ہیں بلکہ آپ جب مخالف کی بات سنتے تو فرماتے ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء بے شک یہ اللہ کا فضل ہے جس کو عطا کرئے
( 3) علامہ ارشد القادری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مفتی شریف الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو " فقیہ النفس نائب مفتی اعظم ہند " لکھ کر سوال کرتے ہیں جیسا کہ فتاویٰ شارح بخاری میں ہے ک فقیہ النفس نائب مفتی اعظم ہند حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم۔
لیکن مفتی شریف الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے منع نہیں کئے (فتاویٰ شارح بخاری ج 3 ص 390)
جب کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے قاضی خان کو فقیہ النفس کہا اس کے باوجود بھی مفتی شریف الحق صاحب قبلہ یہ نہیں فرمایا کہ میں اس لقب کے لائق نہیں ہوں اس سے پتہ چلا کہ کوئی عقیدت مند کسی لقب سے کسی کو یاد کریں تو اس کو منع کرنا واجب نہیں ہے بلکہ دعا کریں کہ اللہ پاک اس لائق بنادے اس۔ کے گمان و حسن ظن کی لاج رکھے آمین اور کہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا فضل عظیم
(3) ذاکر حسین صاحب ضلع بریلی شریف حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان صاحب بریلوی قدس سرہ سے سوال اس طرح کرتے ہیں کہ
بخدمت جناب قبلہ مفتی اعظم ہند صاحب سوداگران محلہ بریلی شریف۔
(3) ذاکر حسین صاحب ضلع بریلی شریف حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان صاحب بریلوی قدس سرہ سے سوال اس طرح کرتے ہیں کہ
بخدمت جناب قبلہ مفتی اعظم ہند صاحب سوداگران محلہ بریلی شریف۔
(فتاوی تاج الشریعہ جلد چہارم کتاب الصلاۃ ص 89)
دیکھا جائے کہ حضور تاج الشریعہ قدس سرہ کو مفتی اعظم ہند کے خطاب سے سوال کیا جارہا ہے جبکہ یہ لقب آپ کے نانا جان حضور مصطفی رضا قادری بریلی شریف قدس سرہ کا ہے لیکن آپ سائل کو اس لقب سے یاد کرنے پر منع نہیں فرمایا
اور اسی فتاوی تاج الشریعہ میں ایک جگہ اس طرح سائل لکھتا ہے کہ بخدمت حضرت علامہ مفتی اختر رضا خان قائم مقام مرشدی حضور مفتی اعظم ہند۔
دیکھا جائے کہ یہاں قائم مقام مفتی اعظم ہند سے یاد کیا جارہا ہے آپ منع نہیں فرمارہے ہیں کہ نائب مفتی اعظم ہند سے مخاطب نہیں کیا گیا۔
دیکھا جائے کہ حضور تاج الشریعہ قدس سرہ کو مفتی اعظم ہند کے خطاب سے سوال کیا جارہا ہے جبکہ یہ لقب آپ کے نانا جان حضور مصطفی رضا قادری بریلی شریف قدس سرہ کا ہے لیکن آپ سائل کو اس لقب سے یاد کرنے پر منع نہیں فرمایا
اور اسی فتاوی تاج الشریعہ میں ایک جگہ اس طرح سائل لکھتا ہے کہ بخدمت حضرت علامہ مفتی اختر رضا خان قائم مقام مرشدی حضور مفتی اعظم ہند۔
دیکھا جائے کہ یہاں قائم مقام مفتی اعظم ہند سے یاد کیا جارہا ہے آپ منع نہیں فرمارہے ہیں کہ نائب مفتی اعظم ہند سے مخاطب نہیں کیا گیا۔
(فتاویٰ تاج الشریعہ جلد سوم ص 62)
اور اسی جلد کے صفہ 66 پر حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ سے حبیب الاولیاء کے لقب سے سوال پوچھا گیا آپ نے منع نہیں فرمایا ہر حال میں یہ خیال رکھا جائے کہ کسی کی مقبولیت و شہرت و عزت و خطاب اور القاب یہ سب اللہ کا خاص فضل ہے جس کو چاہے عطا کرے بلکہ ہر ایک کو اس بارگاہِ الہی سے وہی دیا عطا ہوتا ہے جس کا وہ مستحق ہوتا ہے حمد ہے اس ذات باپ کے لئے عالم دین کی فضیلت ان کے اوصاف اور علم شرعیہ,اور تفقہ فی الدین یعنی علم تفسیر ،علم حدیث ،وعلم فقہ اور علم توحید کی وجہ سے ہوتی ہے وہ خوب حاصل ہو اور اہم علم فقہ ہے جس میں مہارت رکھتا ہو کیونکہ مسلمانوں کو علم فقہ سے کسی حالت ميں استغنا نہیں ہے۔ اس لئے جو علم فقہ خوب رکھتا ہو اس کے اکثر فتاویٰ صحیح ہوتے ہوں گےاور وہ مرجع خلائق ہوں گے اسے یہ لقب دیا جاسکتا ہے۔
اقول
لیکن اس جگہ ایک بات قابل غور ہونا چاہئیے کہ اتنا بڑا لقب نا اہل کو نہیں دیا جائے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذا وسد الامر الی غیر اھلہ فانتظر الساعة۔
اور اسی جلد کے صفہ 66 پر حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ سے حبیب الاولیاء کے لقب سے سوال پوچھا گیا آپ نے منع نہیں فرمایا ہر حال میں یہ خیال رکھا جائے کہ کسی کی مقبولیت و شہرت و عزت و خطاب اور القاب یہ سب اللہ کا خاص فضل ہے جس کو چاہے عطا کرے بلکہ ہر ایک کو اس بارگاہِ الہی سے وہی دیا عطا ہوتا ہے جس کا وہ مستحق ہوتا ہے حمد ہے اس ذات باپ کے لئے عالم دین کی فضیلت ان کے اوصاف اور علم شرعیہ,اور تفقہ فی الدین یعنی علم تفسیر ،علم حدیث ،وعلم فقہ اور علم توحید کی وجہ سے ہوتی ہے وہ خوب حاصل ہو اور اہم علم فقہ ہے جس میں مہارت رکھتا ہو کیونکہ مسلمانوں کو علم فقہ سے کسی حالت ميں استغنا نہیں ہے۔ اس لئے جو علم فقہ خوب رکھتا ہو اس کے اکثر فتاویٰ صحیح ہوتے ہوں گےاور وہ مرجع خلائق ہوں گے اسے یہ لقب دیا جاسکتا ہے۔
اقول
لیکن اس جگہ ایک بات قابل غور ہونا چاہئیے کہ اتنا بڑا لقب نا اہل کو نہیں دیا جائے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذا وسد الامر الی غیر اھلہ فانتظر الساعة۔
یعنی جب نا اہل کو کام سپرد کیا جائے تو قیامت کا انتطار کرو۔
(بخاری شریف کتاب العلم)
دوسری بات جس کو فتویٰ دینے کی لیاقت و مشق نہ ہو وہ فتویٰ بھی نہ دے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ من افتی بغیر علم لعنتہ ملائکۃ السماء والارض۔
دوسری بات جس کو فتویٰ دینے کی لیاقت و مشق نہ ہو وہ فتویٰ بھی نہ دے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ من افتی بغیر علم لعنتہ ملائکۃ السماء والارض۔
یعنی جو بے علم فتویٰ دے اس پر آسمان و زمین کے فرشتوں کی لعنت ہے۔
( کنز العمال حدیث 29018)
سوال:- زید ایک عالم دین ہے اور انہیں کسی مشائخ یا کسی عالم یا ان کے اپنے مرشد سے یا کسی مستند شخصیت سے کوئی خطاب عطا تو کیا زید سے بکر جو ان سے بڑے عالم ہیں ان کی توہین ہوگی یا نہیں؟ جیسا کہ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے؟
الجواب:-
یہ اصول بالکل صحیح نہیں ہے جیسا کہ مفتی شریف الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا اور فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ مفضول کا لقب ایسا رکھا. جائے جو افضل کا نہ ہو پھر فرمایا کہ یہ بہت بڑا مغالطہ ہے کہ جو خطاب افضل کا نہ ہو وہ مفضول کا نہیں ہو سکتا۔
سوال:- زید ایک عالم دین ہے اور انہیں کسی مشائخ یا کسی عالم یا ان کے اپنے مرشد سے یا کسی مستند شخصیت سے کوئی خطاب عطا تو کیا زید سے بکر جو ان سے بڑے عالم ہیں ان کی توہین ہوگی یا نہیں؟ جیسا کہ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے؟
الجواب:-
یہ اصول بالکل صحیح نہیں ہے جیسا کہ مفتی شریف الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا اور فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ مفضول کا لقب ایسا رکھا. جائے جو افضل کا نہ ہو پھر فرمایا کہ یہ بہت بڑا مغالطہ ہے کہ جو خطاب افضل کا نہ ہو وہ مفضول کا نہیں ہو سکتا۔
(فتاوی شرح. بخاری ج 3. ص 476)
(2) مفضول کو اپنے سے افضل کا امام بننا جائز ہے جیسا کہ کتب فقہ میں نقل ہے. اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایام مرض وفات اقدس میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ امامت مسلمین پر قائم رکھنا۔
(2) مفضول کو اپنے سے افضل کا امام بننا جائز ہے جیسا کہ کتب فقہ میں نقل ہے. اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایام مرض وفات اقدس میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ امامت مسلمین پر قائم رکھنا۔
(فتاوٰی رضویہ ج 28 ص 476)
(3) ایک اصول یاد رکھنا چاہئیے کہ فضل جزئی مفضول کو بھی افضل پر مل سکتا ہے سرکار اعلی حضرت امام اہلسنت رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ فضل جزئی جو مفضول کو بھی افضل پر مل سکتا ہے۔
(3) ایک اصول یاد رکھنا چاہئیے کہ فضل جزئی مفضول کو بھی افضل پر مل سکتا ہے سرکار اعلی حضرت امام اہلسنت رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ فضل جزئی جو مفضول کو بھی افضل پر مل سکتا ہے۔
(فتاویٰ رضویہ ج. 28 ص 464)
تو پھر مفضول کو خطاب کیوں نہیں مل سکتا ہے؟
بلکہ اس صوبہ میں یا شہر میں یا ضلع میں کسی فن کو یا علوم شرعیہ کے مختلف فنون تازہ کرے تقریر سے یا تحریر سے جو اسے میسر ہو اور یہ اس فن کی بقا اور نہ مٹنے کا سبب ہو اسے اعزازی خطاب دینا جائز ہے پھر سنت کی حمایت ونصرت اور بدعت کا استیصال اور اسکی بیچ کنی میں مشہور ہو ۔حفاظت دن کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرے اسے دینے میں کوئی قابل اعتراض یانہ ماننے کی کوئی دلیل نہیں سوائے حسد بالکل جائز ہے اور اس کے لئے برکت و بلندی درجات ہے۔
(نوٹ) اب جو حضور فقیہ الہند شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ سے زیادہ علم و ذہن و فکر رکھتا ہو وہ اس مغالطہ والے قول پرعمل کریں ہم تو فقیہ الہند کے قول پر عمل کرنے والے ہیں چونکہ وہ صحیح رہنمائی فرما رہے ہیں۔
(4) دوسری بات چلو اس قول کو مان لیا جائے تو زید کی وجہ سے بکر کی توہین ہوئی تو اب زید سےاس لقب کو منسوخ کرکے بکر کو فقیہ اعظم کا لقب دیا جا ئے کہ بکر زید سے زیادہ علم والا ہے اب خالد بھی ایک عالم ہے انکے ماننے والے کہیں گے کہ یہ لقب بکر کو ملنا نہ چاہئیے کیونکہ اب خالد ان سے زیادہ علم والا ہے اگر خالد کو یہ خطاب نہ ملا تو اب خالد کی توہین ہوگی کیونکہ خالد بکر سے علم میں زیادہ ہے۔
بلکہ اس صوبہ میں یا شہر میں یا ضلع میں کسی فن کو یا علوم شرعیہ کے مختلف فنون تازہ کرے تقریر سے یا تحریر سے جو اسے میسر ہو اور یہ اس فن کی بقا اور نہ مٹنے کا سبب ہو اسے اعزازی خطاب دینا جائز ہے پھر سنت کی حمایت ونصرت اور بدعت کا استیصال اور اسکی بیچ کنی میں مشہور ہو ۔حفاظت دن کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرے اسے دینے میں کوئی قابل اعتراض یانہ ماننے کی کوئی دلیل نہیں سوائے حسد بالکل جائز ہے اور اس کے لئے برکت و بلندی درجات ہے۔
(نوٹ) اب جو حضور فقیہ الہند شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ سے زیادہ علم و ذہن و فکر رکھتا ہو وہ اس مغالطہ والے قول پرعمل کریں ہم تو فقیہ الہند کے قول پر عمل کرنے والے ہیں چونکہ وہ صحیح رہنمائی فرما رہے ہیں۔
(4) دوسری بات چلو اس قول کو مان لیا جائے تو زید کی وجہ سے بکر کی توہین ہوئی تو اب زید سےاس لقب کو منسوخ کرکے بکر کو فقیہ اعظم کا لقب دیا جا ئے کہ بکر زید سے زیادہ علم والا ہے اب خالد بھی ایک عالم ہے انکے ماننے والے کہیں گے کہ یہ لقب بکر کو ملنا نہ چاہئیے کیونکہ اب خالد ان سے زیادہ علم والا ہے اگر خالد کو یہ خطاب نہ ملا تو اب خالد کی توہین ہوگی کیونکہ خالد بکر سے علم میں زیادہ ہے۔
جیسا کہ نقل ہے کہ مخلوق الہی میں
فوق کل ذی علم علیم
فوق کل ذی علم علیم
یعنی ہر علم والے کے اوپر ایک عالم ہے۔
(شان حبیب الرحمن ص 17)
لھذا اس لحاظ سے کسی کو کوئی لقب یا خطاب نہیں مل سکتا کہ ہر علم والے پر علم والا ہے اور پورے بہار میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے اسکا معلوم کرنا یقیناً ایک مشکل ہی نہیں نا ممکن سا لگتا ہے۔!
قارئین! بہت جلد اگلی یعنی تیسری اور آخری نہایت مدلل مفصل قسط ملاحظہ فرمائیں گے (ان شاءاللہ)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
قارئین! بہت جلد اگلی یعنی تیسری اور آخری نہایت مدلل مفصل قسط ملاحظہ فرمائیں گے (ان شاءاللہ)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی