Type Here to Get Search Results !

مسجد و مدرسہ کا پیسہ اپنے تجارت میں لگانا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 4888)
مسجد و مدرسہ کا پیسہ اپنے تجارت میں لگانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر مدرسے کے پیسے زید کے پاس جمع ہوں اور مدرسے کو فی الحال ان پیسوں کی ضرورت نہ ہو تو کیا ذید ان پیسوں سے اس صورت میں تجار کر سکتا ہے کہ جو نفع ہو گا اس کا آدھا مدرسے کو دیا جائے گا اور آدھا تجارت کرنے والا اپنی محنت کے عوض میں خود رکھے ؟ شرعی رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیرا۔
سائلہ:-  بنت غلام شہر ملتان پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں مسجد و مدرسہ کا پیسہ کسی بطور قرض دینا یا تجارت کے لئے دینا ہو متولی کو خو اپنے ذاتی استعمال میں لگانا مسجد و مدرسہ کو فی الحال ضرورت ہو یا نہ ہو استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔دینے والا عاصی و گنہگار ہوگا ۔اگرچہ منافع مدرسہ کو دے پھر بھی استعمال کرنا جائز نہیں ہے 
فتاویٰ امجدیہ میں ہے
جب عطیہ و چندہ پر آمدنی کا دارومدار ہے تو دینے والے جس مقصد کے لیے چندہ دیں یا کوئی اہلِ خیر جس مقصد کے متعلق اپنی جائیداد وقف کرے اُسی مقصد میں وہ رقم یا آمدنی صَرف کی جاسکتی ہے ، دوسرے میں صرف کرنا ،جائز نہیں ، مثلاً اگر مدرسہ کے لیے ہو، تو مدرسہ پر صَرف کی جائے اور مسجد کے لیے ہو، تو مسجد پر (خرچ کرنا ضروری ہے)
(فتاویٰ امجدیہ ج 3 ص 42، مکتبہ رضویہ کراچی)
بحر الرائق میں ہے 
 أن القيم ليس له إقراض مال المسجد 
متولی مسجد کا مسجد کے مال کو بطورِ قرض دینا جائز نہیں ہے۔
(بحر الرائق،کتاب الوقف ج 5 ص401 مطبوعہ کوئٹہ)
مسجد کا چندہ بطورِ قرض دینا ناجائز اور دیا تو اس کا تاوان لازم ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے 
 فی جامع الفصولین ليس ‌للمتولي إيداع ‌مال ‌الوقف والمسجد إلا ممن في عياله، ولا إقراضه ، فلو أقرض ضمن و كذا المستقرض۔
جامع الفصولین میں ہےکہ متولی کو جائز نہیں کہ اپنے عیال کے سوا کسی اور کے پاس وقف اور مسجد کے مال کو امانت کے طور پر رکھے اور نہ اس کا قرض دینا جائز ہے، پس اگر اس (وقف یا مسجد کے مال کو) کو قرض دے گا ،تو تاوان دے گااور ایسے ہی قرض لینے والا ہے (کہ اس کے لیے بھی مالِ وقف اور مسجد کے مال سے قرض لینا جائز نہیں ہے۔)
(العقود الدرية في تنقيح الفتاوی الحامدیۃ، ج 1 ص 412 مطبوعہ کراچی)
متولی کا مال ِوقف بطورِ قرض اپنے صرف میں لانا یا مالِ وقف سے کسی مسلمان کو قرضہ دینا جائز نہیں ہے۔
فتاویٰ رضویہ میں
حرام حرام ۔ لانہ تعدی علی الوقف والقیم اقیم حافظ لامتلف (کیونکہ یہ وقف پر زیادتی ہے حالانکہ متولی کو بطورِ محافظ مقرر کیا جاتا ہے نہ کہ ضائع کرنے والا۔اورکسی دوسرے کو قرض دینے کے متعلق فرمایا) نہ (یعنی جائز نہیں) لانہ صرف فی غیر المصرف (کیونکہ یہ مال وقف کو غیرِ مصرف میں استعمال کرنا ہے )(فتاویٰ رضویہ ج 16،ص 570۔مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
متولی مسجد کا چندہ ذاتی استعمال میں لائے تو مسجد کو تاوان ادا کرنا ضروری ہے 
فتاویٰ رضویہ میں ہے 
اس پر توبہ فرض ہے اور تاوان ادا کرنا فرض ہے جتنے دام اپنےصَرف (ذاتی استِعمال) میں لایا تھا، اگر یہ اس مسجد کا مُتَوَلّی تھا تو اُسی مسجد کے تیل بتّی میں صَرف کرے دوسری مسجد میں صَرف کردینے سے بھی بَرِیُّ الذِّمَّہ نہ ہو گا
(فتاوٰی رضویہ کتاب الوقف ج 16 ص 461 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
05/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area