کچھ باتیں بلیاوی صاحب اور اہل بہار سے
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
تحریر:- محمد زاہد علی مرکزی
تحریر:- محمد زاہد علی مرکزی
••────────••⊰❤️⊱••───────••
چئیرمین، تحریک علمائے بندیل کھنڈ رکن،روشن مستقبل دہلی
زمانہ جانتا ہے کہ دنیا میں بنا سیاسی قوت کے کسی قوم کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں، طاقت ور جب چاہتے ہیں ان کیڑے مکوڑوں کو مسل کر آگے نکل جاتے ہیں، اسی لیے سیاسی قوت کسی بھی قوم کی بقا کا لازمی حصہ ہوتی ہے، سیاسی قوت ہے تو زندگی ہے ورنہ موت، یوں سمجھ لیجیے کہ سیاست زندگی کی روح ہے، جب روح نہ رہے گی تو زندگی کا تصور بھی محال ہوگا -
غالباً ایک ڈیڑھ سال قبل مولانا غلام رسول بلیاوی صاحب نے "تحریک بیداری" مہم کا آغاز کیا تھا، ظاہر ہے بڑی غور و فکر کے بعد آپ نے یہ قدم اٹھایا ہوگا، بہار کے مختلف علاقوں کا دورہ اور پھر علمائے کرام کی مینٹگس کی رپورٹس ہم بھی سوشل میڈیا کے تحت دیکھتے رہے، آج یہ کارواں پورے عزم و استقلال کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بڑی تندہی سے گامزن ہے، اللہ رب العزت اسے کامیابیوں سے ہمکنار فرمائے آمین ثم آمین -
اب آئیے اصل مدعے کی طرف چلتے ہیں، ہماری قوم کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ یہ اپنے آدمی پر بھروسا کرتی نہیں اور اغیار پر بھروسا کرنا چھوڑتی نہیں، ویسے تو علمائے کرام کی سیاست میں انٹری ہماری عوام کو ہضم نہیں ہوتی، لیکن جو علمائے کرام اپنی صلاحیتوں کی بنا پر، اپنے بل بوتے کچھ مقام حاصل کر لیتے ہیں تو عوام خواہی نہ خواہی کسی حد تک پیچھے چل پڑتی ہے، اس سیاسی میدان میں اگر علمائے کرام خلوص کے ساتھ کوشش کریں تو یہ معرکہ بھی آسانی سر کیا جا سکتا ہے، آج بلیاوی صاحب جو کچھ ہیں اپنے دم پر ہیں اور جو خدمات وہ انجام دے رہے ہیں وہ لا جواب ہیں، ایسے میں ان کے ساتھ ہمارا ہر ممکن تعاون ہونا چاہیے - بہار میں ذاتی اعداد و شمار منظر عام پر آنے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سب سے زیادہ مسلم ہیں لیکن ان کو سب سے کم نمائندگی ملتی ہے، اگر ہم سب کوشش کریں تو مناسب نمائندگی پر پارٹیوں کو سوچنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے -
ہم یہاں چند تجاویز پیش کر رہے ہیں "خذ ماصفا و دع ماکدر" -
(1) سیاست میں الیکشن لڑنا ہی اہم نہیں ہوتا بل کہ لڑانا بھی اہم ہوتا ہے، لیکن اس کے لیے جس بندے کی لڑانے کی حیثیت بنی ہوئی ہے اسے مزید قوت دینا اس کی قوم کا کام ہوتا ہے، ایسا بندہ جب آواز دے تب کثیر تعداد میں اس کی آواز پر لبیک کہہ دیں یہ ضروری ہوتا ہے - ایسے بندے کو حکومت کی نظر میں کبھی بھی مشتبہ یا کمزور نہ دکھنے دیں، ووٹ آپ اپنے حساب کے امیدوار کو بھی دے سکتے ہیں لیکن بھیڑ میں کمی نہیں ہونا چاہیے -
(2) ایسی قوت رکھنے والے شخص کو کسی بھی پارٹی کے متعلق "وفا دار" نہیں ہونا چاہیے، ورنہ کبھی بھی اپنی حیثیت کا دس فیصد بھی فائدہ نہ اٹھا سکے گا، ہمیشہ پارٹی کو یہ لگنا چاہیے کہ ہمارے ایک غلط فیصلے سے فلاں بندہ ہم سے دور ہو سکتا ہے اور ساتھ ہی اس کی قوم کا ووٹ بینک بھی -
بھارتی سیاست میں مسلمانوں کو اگر سب سے زیادہ کسی چیز نے نقصان پہنچایا ہے تو وہ ہے سیاسی "وفاداری" آپ مولانا ابو الكلام آزاد سے غلام نبی آزاد، اعظم خان، شہاب الدین، مختار انصاری، نسیم الدین، احمد پٹیل تک کو دیکھ سکتے ہیں، ان کی وفاداری نہ ہوتی تو بھارتی سیاست میں آج ہماری بھی حصے داری ہوتی، اس معاملے میں بہار کے ہی مشہور لیڈر "رام ولاس پاسوان" کو دیکھا جا سکتا ہے جنھوں نے پوری زندگی پالا بدلا اور خوب کامیاب رہے، یہ فہرست بھی لمبی ہے اہل سیاست اس سے نا آشنا نہیں - ( اس سلسلے میں مزید معلومات کے لئے فقیر کا مضمون "سیاست صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے " پڑھا جا سکتا ہے -)
(3) قائد کے فیصلے پر اپنا دماغ لگانا بند کریں، شکوک و شبہات ہوں تو مل کر بات کریں، جب تک معاملات سورج کی روشنی کی طرح صاف غلط نہ لگیں قائد سے رشتہ نہ توڑیں، یہ ہمیشہ خیال رکھیں کہ غیر سے بہتر اپنا ہوگا ہی، نیز اغیار اپنے آدمی کی ساکھ بھی آپ سے ہی خراب کرانا چاہیں گے اس لیے شگوفوں سے بچیں اور کٹھ پتلیوں کی باتوں پر کان نہ دھریں -
(4) نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
ڈاکٹر اقبال کا یہ شعر قائد کو ہمیشہ دماغ میں رکھنا چاہیے، ذرا ذرا سی باتوں پر اپنوں سے ناراض نہ ہو، سکندر سے کسی نے پوچھا کہ تونے دنیا پر کیسے حکومت کی؟ اس نے جواب دیا " دشمنوں کو دوست بنایا اور دوستوں کو دشمن نہ بننے دیا" قائد کو چاہیے کہ ہمیشہ قومی مفاد پر نظر رکھے، ذاتی مفادات تو کسی سے بھی حاصل ہو سکتے ہیں اور سیاسی بازی گر اس کی اجازت بھی دیتے ہیں لیکن قومی مفاد کی اجازت نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ یوپی، بہار، بنگال میں خاصی تعداد میں ودھایک اور سانسد رہے لیکن قوم کا کوئی فائدہ نہ ہوا -
(5) جب سیاسی طور پر بندہ سیکڑوں کی بھیڑ میں اکیلا ہوتا ہے تو ایسے وقت میں کچھ ایسے کام ہو جاتے ہیں جو نہیں ہونا چاہیے، جیسے کہ ان کی موجودگی میں کوئی پوجا کا موقع آیا تو پوجا میں شریک ہونا، یا ایسے کاموں کی تائید کرنا جن سے کفر یا شرک کا شائبہ ہو، وغیرہ وغیرہ، عوام اہل سنت خصوصاً علمائے کرام کی طبیعت اس سے متنفر ہوجاتی ہے، کیوں کہ لے دے کے ہمارے پاس عقیدہ ہی بچتا ہے اگر وہ بھی سیاست یا مصلحت کی نذر ہوجائے تو پھر کیا رہا؟ اگر غور کیا جائے تو اس سے بچنے کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں، لہذا دیگر صورتوں پر عمل کیا جائے -
(6) جہاں بھی مسلم قیادت مضبوط حالت میں ہو وہاں ہمیں خاموش رہ کر قیادت کو مضبوط کرنا چاہیے، جیسا کہ اغیار کرتے ہیں، پہلے وہ قیادت دیکھتے ہیں پھر برادری، ہمیں بھی قیادت اور پھر بھائی کو دیکھنا چاہیے، اپنی قوت بھی مضبوط کریے اور قیادت کو بھی زندہ رکھیے، ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے لیے قیادت کو قربان کر دیں، پسماندہ غیر مسلم مختلف پارٹیاں بنائے ہوے ہیں اور ہر ایک کا مقصد زیادہ سے زیادہ قوم کو فائدہ پہنچانا ہے، لہذا ہمارے یہاں ایسا ہو تو اسے برا نہ سمجھیں، اندرون خانہ ایک دوسرے کی مدد کریں تاکہ ہر طرف سے قوم کا فائدہ ہو، جو بھی مسلم کسی پارٹی سے جڑا ہو اسے جڑا رہنے دیں، غلط نہ سمجھیں، بل کہ کام کا دباؤ بنائیں اور چوطرفہ فائدہ اٹھائیں -
اہل بہار اور ہمارے علما کو چاہیے کہ جس طرح ممکن ہو دامے، درمے، قدمے، قلمے ،سخنے، غلام رسول بلیاوی صاحب کا ساتھ دیں، یہ تحریک بیداری، قومی بیداری کا جز ہے اور اسے کامیاب بنانا ہم سب کا کام ہے، افسوس کہ ہمارے یہاں ایسی صورت حال نہیں ورنہ ہم حتی المقدور ساتھ دینے کی کوشش کرتے، پھر بھی جتنا ہو سکے گا، جس طرز کا ہو سکے گا ساتھ دیا جائے گا - علمائے بہار کو چاہیے کہ وہ علاقائی سطح پر منظم انداز میں بلیاوی صاحب کی فکر کو آگے بڑھائیں، ائمہ کرام اس کام میں چار چاند لگا سکتے ہیں اور چند ہی مہینوں میں انقلاب لا سکتے ہیں، قوم کے لئے حسد اور ذاتی عناد و مفادات سے اوپر اٹھ کر اگر یہ کام کریں تو بہت جلد بنجر سیاسی زمین کو لالہ زار بنایا جا سکتا ہے -
بھیڑ بھاڑ کے ساتھ ساتھ کیڈر ٹائپ کام بھی ہونا چاہیے، سیاسی حضرات کیڈر کی اہمیت جانتے ہیں، جب کیڈر مضبوط ہوگا تو پھر بہت کچھ حاصل ہوگا، ضرورت پڑنے پر یہی کیڈر آئی ٹی سیل کا کام بھی کرے گا، خصوصاً علمائے بہار اور عموماً علمائے اہل سنت خواہ وہ کہیں رہتے ہوں، کسی صوبے سے تعلق رکھتے ہوں اگر اپنے بہتر مشوروں سے نواز سکتے ہوں تو ضرور نوازیں، بلیاوی صاحب کے قریبی لوگوں کو چاہیے کہ کہیں سے کوئی بہتر تجویز موصول ہو تو وہ ان تک پہنچائیں تاکہ کام مزید بہتر بنایا جا سکے، نیز عرض یہ بھی ہے کہ اگر مشورے بہتر ہوں تو انھیں قبول کرنے میں تأمل نہیں ہونا چاہیے -
18/12/2023
چئیرمین، تحریک علمائے بندیل کھنڈ رکن،روشن مستقبل دہلی
زمانہ جانتا ہے کہ دنیا میں بنا سیاسی قوت کے کسی قوم کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں، طاقت ور جب چاہتے ہیں ان کیڑے مکوڑوں کو مسل کر آگے نکل جاتے ہیں، اسی لیے سیاسی قوت کسی بھی قوم کی بقا کا لازمی حصہ ہوتی ہے، سیاسی قوت ہے تو زندگی ہے ورنہ موت، یوں سمجھ لیجیے کہ سیاست زندگی کی روح ہے، جب روح نہ رہے گی تو زندگی کا تصور بھی محال ہوگا -
غالباً ایک ڈیڑھ سال قبل مولانا غلام رسول بلیاوی صاحب نے "تحریک بیداری" مہم کا آغاز کیا تھا، ظاہر ہے بڑی غور و فکر کے بعد آپ نے یہ قدم اٹھایا ہوگا، بہار کے مختلف علاقوں کا دورہ اور پھر علمائے کرام کی مینٹگس کی رپورٹس ہم بھی سوشل میڈیا کے تحت دیکھتے رہے، آج یہ کارواں پورے عزم و استقلال کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بڑی تندہی سے گامزن ہے، اللہ رب العزت اسے کامیابیوں سے ہمکنار فرمائے آمین ثم آمین -
اب آئیے اصل مدعے کی طرف چلتے ہیں، ہماری قوم کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ یہ اپنے آدمی پر بھروسا کرتی نہیں اور اغیار پر بھروسا کرنا چھوڑتی نہیں، ویسے تو علمائے کرام کی سیاست میں انٹری ہماری عوام کو ہضم نہیں ہوتی، لیکن جو علمائے کرام اپنی صلاحیتوں کی بنا پر، اپنے بل بوتے کچھ مقام حاصل کر لیتے ہیں تو عوام خواہی نہ خواہی کسی حد تک پیچھے چل پڑتی ہے، اس سیاسی میدان میں اگر علمائے کرام خلوص کے ساتھ کوشش کریں تو یہ معرکہ بھی آسانی سر کیا جا سکتا ہے، آج بلیاوی صاحب جو کچھ ہیں اپنے دم پر ہیں اور جو خدمات وہ انجام دے رہے ہیں وہ لا جواب ہیں، ایسے میں ان کے ساتھ ہمارا ہر ممکن تعاون ہونا چاہیے - بہار میں ذاتی اعداد و شمار منظر عام پر آنے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سب سے زیادہ مسلم ہیں لیکن ان کو سب سے کم نمائندگی ملتی ہے، اگر ہم سب کوشش کریں تو مناسب نمائندگی پر پارٹیوں کو سوچنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے -
ہم یہاں چند تجاویز پیش کر رہے ہیں "خذ ماصفا و دع ماکدر" -
(1) سیاست میں الیکشن لڑنا ہی اہم نہیں ہوتا بل کہ لڑانا بھی اہم ہوتا ہے، لیکن اس کے لیے جس بندے کی لڑانے کی حیثیت بنی ہوئی ہے اسے مزید قوت دینا اس کی قوم کا کام ہوتا ہے، ایسا بندہ جب آواز دے تب کثیر تعداد میں اس کی آواز پر لبیک کہہ دیں یہ ضروری ہوتا ہے - ایسے بندے کو حکومت کی نظر میں کبھی بھی مشتبہ یا کمزور نہ دکھنے دیں، ووٹ آپ اپنے حساب کے امیدوار کو بھی دے سکتے ہیں لیکن بھیڑ میں کمی نہیں ہونا چاہیے -
(2) ایسی قوت رکھنے والے شخص کو کسی بھی پارٹی کے متعلق "وفا دار" نہیں ہونا چاہیے، ورنہ کبھی بھی اپنی حیثیت کا دس فیصد بھی فائدہ نہ اٹھا سکے گا، ہمیشہ پارٹی کو یہ لگنا چاہیے کہ ہمارے ایک غلط فیصلے سے فلاں بندہ ہم سے دور ہو سکتا ہے اور ساتھ ہی اس کی قوم کا ووٹ بینک بھی -
بھارتی سیاست میں مسلمانوں کو اگر سب سے زیادہ کسی چیز نے نقصان پہنچایا ہے تو وہ ہے سیاسی "وفاداری" آپ مولانا ابو الكلام آزاد سے غلام نبی آزاد، اعظم خان، شہاب الدین، مختار انصاری، نسیم الدین، احمد پٹیل تک کو دیکھ سکتے ہیں، ان کی وفاداری نہ ہوتی تو بھارتی سیاست میں آج ہماری بھی حصے داری ہوتی، اس معاملے میں بہار کے ہی مشہور لیڈر "رام ولاس پاسوان" کو دیکھا جا سکتا ہے جنھوں نے پوری زندگی پالا بدلا اور خوب کامیاب رہے، یہ فہرست بھی لمبی ہے اہل سیاست اس سے نا آشنا نہیں - ( اس سلسلے میں مزید معلومات کے لئے فقیر کا مضمون "سیاست صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے " پڑھا جا سکتا ہے -)
(3) قائد کے فیصلے پر اپنا دماغ لگانا بند کریں، شکوک و شبہات ہوں تو مل کر بات کریں، جب تک معاملات سورج کی روشنی کی طرح صاف غلط نہ لگیں قائد سے رشتہ نہ توڑیں، یہ ہمیشہ خیال رکھیں کہ غیر سے بہتر اپنا ہوگا ہی، نیز اغیار اپنے آدمی کی ساکھ بھی آپ سے ہی خراب کرانا چاہیں گے اس لیے شگوفوں سے بچیں اور کٹھ پتلیوں کی باتوں پر کان نہ دھریں -
(4) نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
ڈاکٹر اقبال کا یہ شعر قائد کو ہمیشہ دماغ میں رکھنا چاہیے، ذرا ذرا سی باتوں پر اپنوں سے ناراض نہ ہو، سکندر سے کسی نے پوچھا کہ تونے دنیا پر کیسے حکومت کی؟ اس نے جواب دیا " دشمنوں کو دوست بنایا اور دوستوں کو دشمن نہ بننے دیا" قائد کو چاہیے کہ ہمیشہ قومی مفاد پر نظر رکھے، ذاتی مفادات تو کسی سے بھی حاصل ہو سکتے ہیں اور سیاسی بازی گر اس کی اجازت بھی دیتے ہیں لیکن قومی مفاد کی اجازت نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ یوپی، بہار، بنگال میں خاصی تعداد میں ودھایک اور سانسد رہے لیکن قوم کا کوئی فائدہ نہ ہوا -
(5) جب سیاسی طور پر بندہ سیکڑوں کی بھیڑ میں اکیلا ہوتا ہے تو ایسے وقت میں کچھ ایسے کام ہو جاتے ہیں جو نہیں ہونا چاہیے، جیسے کہ ان کی موجودگی میں کوئی پوجا کا موقع آیا تو پوجا میں شریک ہونا، یا ایسے کاموں کی تائید کرنا جن سے کفر یا شرک کا شائبہ ہو، وغیرہ وغیرہ، عوام اہل سنت خصوصاً علمائے کرام کی طبیعت اس سے متنفر ہوجاتی ہے، کیوں کہ لے دے کے ہمارے پاس عقیدہ ہی بچتا ہے اگر وہ بھی سیاست یا مصلحت کی نذر ہوجائے تو پھر کیا رہا؟ اگر غور کیا جائے تو اس سے بچنے کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں، لہذا دیگر صورتوں پر عمل کیا جائے -
(6) جہاں بھی مسلم قیادت مضبوط حالت میں ہو وہاں ہمیں خاموش رہ کر قیادت کو مضبوط کرنا چاہیے، جیسا کہ اغیار کرتے ہیں، پہلے وہ قیادت دیکھتے ہیں پھر برادری، ہمیں بھی قیادت اور پھر بھائی کو دیکھنا چاہیے، اپنی قوت بھی مضبوط کریے اور قیادت کو بھی زندہ رکھیے، ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے لیے قیادت کو قربان کر دیں، پسماندہ غیر مسلم مختلف پارٹیاں بنائے ہوے ہیں اور ہر ایک کا مقصد زیادہ سے زیادہ قوم کو فائدہ پہنچانا ہے، لہذا ہمارے یہاں ایسا ہو تو اسے برا نہ سمجھیں، اندرون خانہ ایک دوسرے کی مدد کریں تاکہ ہر طرف سے قوم کا فائدہ ہو، جو بھی مسلم کسی پارٹی سے جڑا ہو اسے جڑا رہنے دیں، غلط نہ سمجھیں، بل کہ کام کا دباؤ بنائیں اور چوطرفہ فائدہ اٹھائیں -
اہل بہار اور ہمارے علما کو چاہیے کہ جس طرح ممکن ہو دامے، درمے، قدمے، قلمے ،سخنے، غلام رسول بلیاوی صاحب کا ساتھ دیں، یہ تحریک بیداری، قومی بیداری کا جز ہے اور اسے کامیاب بنانا ہم سب کا کام ہے، افسوس کہ ہمارے یہاں ایسی صورت حال نہیں ورنہ ہم حتی المقدور ساتھ دینے کی کوشش کرتے، پھر بھی جتنا ہو سکے گا، جس طرز کا ہو سکے گا ساتھ دیا جائے گا - علمائے بہار کو چاہیے کہ وہ علاقائی سطح پر منظم انداز میں بلیاوی صاحب کی فکر کو آگے بڑھائیں، ائمہ کرام اس کام میں چار چاند لگا سکتے ہیں اور چند ہی مہینوں میں انقلاب لا سکتے ہیں، قوم کے لئے حسد اور ذاتی عناد و مفادات سے اوپر اٹھ کر اگر یہ کام کریں تو بہت جلد بنجر سیاسی زمین کو لالہ زار بنایا جا سکتا ہے -
بھیڑ بھاڑ کے ساتھ ساتھ کیڈر ٹائپ کام بھی ہونا چاہیے، سیاسی حضرات کیڈر کی اہمیت جانتے ہیں، جب کیڈر مضبوط ہوگا تو پھر بہت کچھ حاصل ہوگا، ضرورت پڑنے پر یہی کیڈر آئی ٹی سیل کا کام بھی کرے گا، خصوصاً علمائے بہار اور عموماً علمائے اہل سنت خواہ وہ کہیں رہتے ہوں، کسی صوبے سے تعلق رکھتے ہوں اگر اپنے بہتر مشوروں سے نواز سکتے ہوں تو ضرور نوازیں، بلیاوی صاحب کے قریبی لوگوں کو چاہیے کہ کہیں سے کوئی بہتر تجویز موصول ہو تو وہ ان تک پہنچائیں تاکہ کام مزید بہتر بنایا جا سکے، نیز عرض یہ بھی ہے کہ اگر مشورے بہتر ہوں تو انھیں قبول کرنے میں تأمل نہیں ہونا چاہیے -
18/12/2023