(سوال نمبر 4878)
کیا سوینگ اکاؤنٹ میں اضافی رقم ٹیکس کے عوض ملتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے کہ زید کہتا ہے کہ حکومت ہر چیز سے ٹیکس لے رہی ہے مثلا بجلی سے ٹیکس گیس گاڑی ایزی لوڈ وغیرہ ہر چیز سے ٹیکس اب زید نے ایک بینک اکاؤنٹ کھلوایا ہے جس میں کچھ رقم رکھے تو اس رقم میں حکومت کی طرف سے بڑھوتری ہوتی ہے پیسے خود بخود بڑھتے ہیں زید کا کہنا ہے کہ یہ ان ٹیکس کے عوض ہے آیا کہ زید کا اس اکاؤنٹ سے استفادہ کا حصول درست ہے ؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد ثاقب پاکستان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
قول زہد غلط ہے ،
پہلی بات پاکستان میں اسلامی بینک کوئی بھی نہیں ہے جو اصول اسلام پر گامزن ہوں
در اصل اکائوٹ کھلانے والارقم بطور قرض بینک کو دیتا ہے ساتھ ہی اس رقم کی حفاظت بھی ہو اب دینے کے وقت میں اصل رقم واپسی کے ساتھ کوئی زیادتی رقم لینے کی شرط نہیں ہے اس لئے بینک جو اصل سے زائد رقم دے گی وہ سود نہیں ہے اب اس اصل اور زیادتی کو اپنے لئے یا کسی بھی مصرف مسجد و مدرسہ میں صرف کر سکتے ہیں۔ اب سود کی تعریف پیش خد مت ہے
سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پہ وہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔ ذیل میں اس کی وضاحت دی گئی ہے
لغت میں ربا کا معنی زیادتی بڑھوتری اور بلندی ہے
١/ امام اصفہانی کہتے ہیں
الربا الزیادة علی رأس المال لکن خصّ في الشرع بالزیادة علی وجه دُون وجه۔
اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں لیکن شریعت میں ہر زیادتی کو ربا نہیں کہتے بلکہ وہ زیادتی جو مشروط ہو، سود ہے، شرط کے بغیر اگر مقروض دائن کو خوشی سے کچھ زائد مال دے تو جائز ہے سود نہیں
(المفردات في غریب القرآن، 1: 187، دار المعرفة لبنان)
٢/ ابو منصور محمد بن احمد الازہری فرماتے ہیں
الرِّبا رَبَوان فالحرام کُلّ قَرْض یُؤْخذ به أکثر منه أو تجرُّ به مَنْفعة فحرام والذي لیس بحرام أن یَهبه الانسان یَسْتَدعي به ما هو أکثر أو یُهدي الهدِیَّة لِیُهدَی له ما هو أکثر منها۔
زیادتی دو قسم پر ہےحرام وہ قرض ہے جو زیادتی کے ساتھ وصول کیا جائے یا اس سے فائدہ بطور شرط حاصل کیا جائے، وہ حرام ہے اور جو حرام نہیں وہ یہ ہے کہ مقروض مدت مقررہ پر اصل رقم پر بطور ہبہ کچھ اضافی مال قرض خواہ کو غیر مشروط دیدے۔
کیا سوینگ اکاؤنٹ میں اضافی رقم ٹیکس کے عوض ملتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے کہ زید کہتا ہے کہ حکومت ہر چیز سے ٹیکس لے رہی ہے مثلا بجلی سے ٹیکس گیس گاڑی ایزی لوڈ وغیرہ ہر چیز سے ٹیکس اب زید نے ایک بینک اکاؤنٹ کھلوایا ہے جس میں کچھ رقم رکھے تو اس رقم میں حکومت کی طرف سے بڑھوتری ہوتی ہے پیسے خود بخود بڑھتے ہیں زید کا کہنا ہے کہ یہ ان ٹیکس کے عوض ہے آیا کہ زید کا اس اکاؤنٹ سے استفادہ کا حصول درست ہے ؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد ثاقب پاکستان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
قول زہد غلط ہے ،
پہلی بات پاکستان میں اسلامی بینک کوئی بھی نہیں ہے جو اصول اسلام پر گامزن ہوں
در اصل اکائوٹ کھلانے والارقم بطور قرض بینک کو دیتا ہے ساتھ ہی اس رقم کی حفاظت بھی ہو اب دینے کے وقت میں اصل رقم واپسی کے ساتھ کوئی زیادتی رقم لینے کی شرط نہیں ہے اس لئے بینک جو اصل سے زائد رقم دے گی وہ سود نہیں ہے اب اس اصل اور زیادتی کو اپنے لئے یا کسی بھی مصرف مسجد و مدرسہ میں صرف کر سکتے ہیں۔ اب سود کی تعریف پیش خد مت ہے
سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پہ وہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔ ذیل میں اس کی وضاحت دی گئی ہے
لغت میں ربا کا معنی زیادتی بڑھوتری اور بلندی ہے
١/ امام اصفہانی کہتے ہیں
الربا الزیادة علی رأس المال لکن خصّ في الشرع بالزیادة علی وجه دُون وجه۔
اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں لیکن شریعت میں ہر زیادتی کو ربا نہیں کہتے بلکہ وہ زیادتی جو مشروط ہو، سود ہے، شرط کے بغیر اگر مقروض دائن کو خوشی سے کچھ زائد مال دے تو جائز ہے سود نہیں
(المفردات في غریب القرآن، 1: 187، دار المعرفة لبنان)
٢/ ابو منصور محمد بن احمد الازہری فرماتے ہیں
الرِّبا رَبَوان فالحرام کُلّ قَرْض یُؤْخذ به أکثر منه أو تجرُّ به مَنْفعة فحرام والذي لیس بحرام أن یَهبه الانسان یَسْتَدعي به ما هو أکثر أو یُهدي الهدِیَّة لِیُهدَی له ما هو أکثر منها۔
زیادتی دو قسم پر ہےحرام وہ قرض ہے جو زیادتی کے ساتھ وصول کیا جائے یا اس سے فائدہ بطور شرط حاصل کیا جائے، وہ حرام ہے اور جو حرام نہیں وہ یہ ہے کہ مقروض مدت مقررہ پر اصل رقم پر بطور ہبہ کچھ اضافی مال قرض خواہ کو غیر مشروط دیدے۔
(تہذیب اللغة، 15: 196، دار احیاء التراث العربي بیروت)
٣/ امام الجزری لکھتے ہیں
هو في الشرع الزیادة علی أصل المال من غیر عقد تبایع۔
شریعت میں رباء کا مطلب تجارتی سودے کے بغیر اصل مال پر اضافی منافع وصول کرنا۔
٣/ امام الجزری لکھتے ہیں
هو في الشرع الزیادة علی أصل المال من غیر عقد تبایع۔
شریعت میں رباء کا مطلب تجارتی سودے کے بغیر اصل مال پر اضافی منافع وصول کرنا۔
(ابن الأثیر الجزري، النهایة، 2 192، المکتبة العلمیة بیروت)
٤/ احمد بن علی الرازی الجصاص ابو بکر فرماتے ہیں
هو القرض المشروط فیه الأجل و زیادة مال علی المستقرض
جس قرض میں مدت متعین کے ساتھ قرض لینے والے کو اضافی رقم دینا مشروط ہو۔
٤/ احمد بن علی الرازی الجصاص ابو بکر فرماتے ہیں
هو القرض المشروط فیه الأجل و زیادة مال علی المستقرض
جس قرض میں مدت متعین کے ساتھ قرض لینے والے کو اضافی رقم دینا مشروط ہو۔
(جصاص، أحکام القرآن، 2 189، دار احیاء التراث العربي بیروت)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ بینک اگر خود اصل کے علاوہ اپنی مرضی سے دے اور رقم جمع کرانے والے کوئی شرط نہ لگائے تو وہ ہبہ ہے اور اسے لینا جائز ہے ۔
البتہ اگر رقم رکھنے کے وقت شرط لگائی کہ اتنے زیادہ اصل رقم کے علاوہ دینے ہوں گے پھر ناجائز ہے ۔پھر اس رقم کو مسجد یا اپنے لئے صرف کرنا جائز نہیں ہے۔
مزید وضاحت:-
مسلم بینک میں ملنے والا اضافہ نفع و نقصان کی شراکت کے ساتھ ملتا ہے تو وہ سود نہیں ہے۔ اس پر تو کسی کا کلام ہی نہیں ہے
اس کے برعکس اگر مذکورہ رقم سودی کھاتے میں رکھوائی گئی ہے جس پے طے شدہ شرح کے ساتھ اضافی رقم ملتی ہے تو یہ سود اور ناجائز ہے۔ لہٰذا اس اضافی رقم کی حلت و حرمت کا فیصلہ کھاتے (ACCOUNT) کی قسم سے ہوگا۔
غیر مسلم بینک جیسے انڈیا تو یہاں کے کافر حربی ہیں عقود فاسدہ کے ذریعہ ان کا مال لینا جائز ہے ـ مثلاً ـ ایک روپیہ کے بدلے ان سے دو روپیہ خرید لے یا انکے ہاتھ مردار کو بیچ ڈالے کہ اس طریقہ پر مسلمان سے روپیہ حاصل کرنا شرع کے خلاف اور حرام ہے اور یہاں کے کافر سے حاصل کر سکتے ہیں؛ اور کافر حربی و مسلمانوں کے درمیان سود نہیں؛
جیساکہ حدیث شریف میں ہے
لاربا بین المسلم والحربی فی دارالحرب؛ اس حدیث میں فی دارالحرب کی قید اتفاقی ہے احترازی نہیں؛
لیکن یہاں کے کافروں سے نفع لینا جائز ہے (دیــنــا مــنـــع هے)
ردالمختار ج 4 ص 188میں ہے
ان مرادھم من حل الربا والقمار ما اذا حصلت الزیادة للمسلم ۔
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا (اگر زید عمرو کو دس روپے کا نوٹ قرض دے اور اس وقت یا کچھ دنوں کے بعد عمر و بارہ روپے نقد ادا کرے تو اس پر سود کا اطلاق ہوسکتا ہے یا نہیں اور زید و عمر و گنہگارہوئے یانہیں؟ ) اس کے جواب میں فرماتے ہیں
اگر قرض دینے میں یہ شرط ہوئی تھی تو بے شک سود و حرام قطعی و گنا ہ ِ کبیر ہ ہے ایسا قرض دینے والا ملعون اور لینے والا بھی اسی کی مثل ملعون ہے۔
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ بینک اگر خود اصل کے علاوہ اپنی مرضی سے دے اور رقم جمع کرانے والے کوئی شرط نہ لگائے تو وہ ہبہ ہے اور اسے لینا جائز ہے ۔
البتہ اگر رقم رکھنے کے وقت شرط لگائی کہ اتنے زیادہ اصل رقم کے علاوہ دینے ہوں گے پھر ناجائز ہے ۔پھر اس رقم کو مسجد یا اپنے لئے صرف کرنا جائز نہیں ہے۔
مزید وضاحت:-
مسلم بینک میں ملنے والا اضافہ نفع و نقصان کی شراکت کے ساتھ ملتا ہے تو وہ سود نہیں ہے۔ اس پر تو کسی کا کلام ہی نہیں ہے
اس کے برعکس اگر مذکورہ رقم سودی کھاتے میں رکھوائی گئی ہے جس پے طے شدہ شرح کے ساتھ اضافی رقم ملتی ہے تو یہ سود اور ناجائز ہے۔ لہٰذا اس اضافی رقم کی حلت و حرمت کا فیصلہ کھاتے (ACCOUNT) کی قسم سے ہوگا۔
غیر مسلم بینک جیسے انڈیا تو یہاں کے کافر حربی ہیں عقود فاسدہ کے ذریعہ ان کا مال لینا جائز ہے ـ مثلاً ـ ایک روپیہ کے بدلے ان سے دو روپیہ خرید لے یا انکے ہاتھ مردار کو بیچ ڈالے کہ اس طریقہ پر مسلمان سے روپیہ حاصل کرنا شرع کے خلاف اور حرام ہے اور یہاں کے کافر سے حاصل کر سکتے ہیں؛ اور کافر حربی و مسلمانوں کے درمیان سود نہیں؛
جیساکہ حدیث شریف میں ہے
لاربا بین المسلم والحربی فی دارالحرب؛ اس حدیث میں فی دارالحرب کی قید اتفاقی ہے احترازی نہیں؛
لیکن یہاں کے کافروں سے نفع لینا جائز ہے (دیــنــا مــنـــع هے)
ردالمختار ج 4 ص 188میں ہے
ان مرادھم من حل الربا والقمار ما اذا حصلت الزیادة للمسلم ۔
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا (اگر زید عمرو کو دس روپے کا نوٹ قرض دے اور اس وقت یا کچھ دنوں کے بعد عمر و بارہ روپے نقد ادا کرے تو اس پر سود کا اطلاق ہوسکتا ہے یا نہیں اور زید و عمر و گنہگارہوئے یانہیں؟ ) اس کے جواب میں فرماتے ہیں
اگر قرض دینے میں یہ شرط ہوئی تھی تو بے شک سود و حرام قطعی و گنا ہ ِ کبیر ہ ہے ایسا قرض دینے والا ملعون اور لینے والا بھی اسی کی مثل ملعون ہے۔
(فتاویٰ رضویہ ج17 ص 278 رضا فاؤنڈیشن لاھور)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
04/11/2023