(سوال نمبر 4793)
خواتین کو ان لائن جاب کرنا کیسا ہے جبکہ کمپنی اور دیگر کام کرنے والے غیر مسلم ہو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں جیسے آج (forever living ) کے نام سے کمپنی ہے جس میں دنیا کے کئی جگہ سے لوگ کام کرتے ہے گھر بیٹھے جس میں مرد عورت کافر مسلمان دیگر فرقے باطل کام کرتے ہیں اور کئی دفع نہی معلوم رہتا کی یہ مسلمان تو ہے نام سے لیکن اسکا عقیدہ پتا نہیں ہوتا اور اکثر اس بزنس میں سبھی مل کر کام کرتے ہیں لیکن پردے میں رہ کر اور ہمارے سینئرز بن جاتے ہیں تو انسے صلاح لیکر کام کرنا ہوتا ہے۔میں نے اس میں کام کرنا چاہا تو میں نے کیا 5 دن لیکن جیسے مجھے پتا چلا کہ جو میری سینئر ہے وہ تو عقیدہ درست نہیں رکھتے تو میں نے چھوڑ دیا لیکن کہیں نہ کہیں کام کرنا پڑھتا ہے تو ایسی کنڈیشن میں کیا کریں ایسا کرنا کیسا ہوگا اور بھی بہت لڑکیا کام کرتی ہیں اس میں تو کیا یہ کر سکتے ہیں
اور آج کے دور میں سبھی عورتیں کام کر رہی ہیں باہر جاکر گھر میں رہ کر اور سب سے ملاقات ہوتی ہے تو ایسی صورت میں کیا حکم ہوگا
میرا دوسرا سوال یہ ہے کی لڑکیا میڈیکل کالج میں پڑھتی ہیں وہا بھی مجبورا ملاقات کرنی پڑھتی ہے تو کیا حکم ہوگا
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
جزاک اللہ خیرا کثیرا
سائلہ :- صالحہ حیدرآباد الہند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
1/ مذکورہ صورت میں بلا ضرورت خواتین کو جاب نہیں کرنی چاہیے
2/ اگر سخت ضرورت ہو تو باپردہ شرعی حدود میں رہ کر جاب کرنے کی گنجائش ہے
3/کافر غیر مسلم کے ہاں جاب کرنا شرعی قیود و شروط کے ساتھ جائز ہے البتہ مرتد کے یہاں جاب نہیں کرنی چاہیے۔
4/ بوقت ضرورت زمینی سطح پر افس میں یا آن لائن شرعی دائرے میں رہ کر خواتین جاب کر سکتی ہے
5/ لڑکیاں میڈیکل کی پڑھائی کر سکتی ہے نیت مسلم خواتین کی خدمت ہو ۔
کالج میں شرعی پردہ کے ساتھ بوقت ضرورت بات بھی کرنا جائز یے البتہ گرل کالج میں تعلیم لی جائے ۔
اب تفصیلات ملاحظہ کریں۔
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں عورت کو پردہ میں رہنے کی بہت تاکید کی ہوئی ہے اور اس کا اپنے گھر سے نکلنے کو سخت نا پسند کیا گیا ہے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے معاملہ میں بھی یہ پسند فرمایا کہ عورتیں اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھیں اور اسی کی ترغیب دی، چنانچہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں آپ کے پیچھے مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں مجھے معلوم ہے، لیکن تمہارا اپنے گھر میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے
نیز کمانے کی غرض سے بھی عورت کا نکلنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اُس کا نفقہ اس کے والد یا شوہر پر لازم کیا گیا تا کہ گھر سے باہر نکلنے کی حاجت پیش نہ آئے شادی سے پہلے اگر اُس کا اپنا مال نہ ہو تو اس کا نفقہ اس کے باپ پر لازم ہے اور شادی کے بعد اس کا نفقہ اس کے شوہر پر لازم کیا ہے، لہذا کمانے کے لیے بھی عورت کا اپنے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ عورت چھپانے کی چیز ہے، جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے دوسروں کی نظروں میں اچھا کر کے دکھاتا ہے۔
سنن الترمذي میں ہے
عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان».هذا حديث حسن صحيح غريب'
خواتین کو ان لائن جاب کرنا کیسا ہے جبکہ کمپنی اور دیگر کام کرنے والے غیر مسلم ہو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں جیسے آج (forever living ) کے نام سے کمپنی ہے جس میں دنیا کے کئی جگہ سے لوگ کام کرتے ہے گھر بیٹھے جس میں مرد عورت کافر مسلمان دیگر فرقے باطل کام کرتے ہیں اور کئی دفع نہی معلوم رہتا کی یہ مسلمان تو ہے نام سے لیکن اسکا عقیدہ پتا نہیں ہوتا اور اکثر اس بزنس میں سبھی مل کر کام کرتے ہیں لیکن پردے میں رہ کر اور ہمارے سینئرز بن جاتے ہیں تو انسے صلاح لیکر کام کرنا ہوتا ہے۔میں نے اس میں کام کرنا چاہا تو میں نے کیا 5 دن لیکن جیسے مجھے پتا چلا کہ جو میری سینئر ہے وہ تو عقیدہ درست نہیں رکھتے تو میں نے چھوڑ دیا لیکن کہیں نہ کہیں کام کرنا پڑھتا ہے تو ایسی کنڈیشن میں کیا کریں ایسا کرنا کیسا ہوگا اور بھی بہت لڑکیا کام کرتی ہیں اس میں تو کیا یہ کر سکتے ہیں
اور آج کے دور میں سبھی عورتیں کام کر رہی ہیں باہر جاکر گھر میں رہ کر اور سب سے ملاقات ہوتی ہے تو ایسی صورت میں کیا حکم ہوگا
میرا دوسرا سوال یہ ہے کی لڑکیا میڈیکل کالج میں پڑھتی ہیں وہا بھی مجبورا ملاقات کرنی پڑھتی ہے تو کیا حکم ہوگا
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
جزاک اللہ خیرا کثیرا
سائلہ :- صالحہ حیدرآباد الہند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
1/ مذکورہ صورت میں بلا ضرورت خواتین کو جاب نہیں کرنی چاہیے
2/ اگر سخت ضرورت ہو تو باپردہ شرعی حدود میں رہ کر جاب کرنے کی گنجائش ہے
3/کافر غیر مسلم کے ہاں جاب کرنا شرعی قیود و شروط کے ساتھ جائز ہے البتہ مرتد کے یہاں جاب نہیں کرنی چاہیے۔
4/ بوقت ضرورت زمینی سطح پر افس میں یا آن لائن شرعی دائرے میں رہ کر خواتین جاب کر سکتی ہے
5/ لڑکیاں میڈیکل کی پڑھائی کر سکتی ہے نیت مسلم خواتین کی خدمت ہو ۔
کالج میں شرعی پردہ کے ساتھ بوقت ضرورت بات بھی کرنا جائز یے البتہ گرل کالج میں تعلیم لی جائے ۔
اب تفصیلات ملاحظہ کریں۔
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں عورت کو پردہ میں رہنے کی بہت تاکید کی ہوئی ہے اور اس کا اپنے گھر سے نکلنے کو سخت نا پسند کیا گیا ہے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے معاملہ میں بھی یہ پسند فرمایا کہ عورتیں اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھیں اور اسی کی ترغیب دی، چنانچہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں آپ کے پیچھے مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں مجھے معلوم ہے، لیکن تمہارا اپنے گھر میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے
نیز کمانے کی غرض سے بھی عورت کا نکلنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اُس کا نفقہ اس کے والد یا شوہر پر لازم کیا گیا تا کہ گھر سے باہر نکلنے کی حاجت پیش نہ آئے شادی سے پہلے اگر اُس کا اپنا مال نہ ہو تو اس کا نفقہ اس کے باپ پر لازم ہے اور شادی کے بعد اس کا نفقہ اس کے شوہر پر لازم کیا ہے، لہذا کمانے کے لیے بھی عورت کا اپنے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ عورت چھپانے کی چیز ہے، جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے دوسروں کی نظروں میں اچھا کر کے دکھاتا ہے۔
سنن الترمذي میں ہے
عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان».هذا حديث حسن صحيح غريب'
(سنن الترمذي ت بشار (2/ 467)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے
(استشرفها الشيطان) أي زيّنها في نظر الرجال۔ وقيل: أي نظر إليها ليغويها ويغوي بها''
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2054)
البتہ اگر کسی خاتون کی شدید مجبوری ہو اور کوئی دوسرا کمانے والا نہ ہوتو ایسی صورت میں عورت کے گھر سے نکلنے کی گنجائش ہو گی، لیکن اس میں بھی یہ ضروری ہے کہ عورت مکمل پردے کے ساتھ گھر سے نکلے، کسی نا محرم سے بات چیت نہ ہو ایسی ملازمت اختیار نہ کرے جس میں کسی کے ساتھ تنہائی حاصل ہوتی ہو۔
اگر شدید مجبوری ہے اور کوئی دوسرا کمانے والا نہ ہو تو مندرجہ بالا حدود و قیود کی رعایت کرتے ہوئے ملازمت کی گنجائش ہو گی۔ اسی طرح اگر خاتون ڈاکٹرگھر سے نہ نکلے، بلکہ اپنی رہائش گاہ میں ہی کلینک / دواخانہ کھول لے، جہاں صرف خواتین مریضوں کا علاج معالجہ کرے تو اس کی اجازت ہوگی۔
اگر طبابت کی خدمت سے مراد ملازمت اور کمانا مقصود نہیں ہے، بلکہ خواتین مریضوں کی خدمت اور باپردہ ماحول میں ان کے لیے علاج کی سہولت میسر کرنا مقصود ہو، تاکہ اجنبی مرد ڈاکٹروں کے سامنے انہیں بے پردہ نہ ہونا پڑے، اور اس کے لیے پردے وغیرہ کے شرعی احکام کا لحاظ رکھ کر اپنے گھر یا علاقے کے اندرخواتین کی خدمت کی جائے یا کسی محرم کے ساتھ آمد و رفت اختیار کرکے باپردہ ماحول میں صرف خواتین مریضوں کی خدمت کی جائے تو اس کی اجازت ہوگی۔
ہاد رہے مذکورہ تمام صورتوں میں دیگر شرعی فرائض وحقوق میں کوتاہی ہرگز نہیں آنی چاہیے، مثلاً شوہر کے حقوق اور اولاد کی تربیت اور ان کے حقوق میں اس خدمت سے خلل نہ پیدا ہو۔ اگر اس کی وجہ سے دیگرواجب حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہو تو طبابت کا مشغلہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
الجامع لأحكام القرآن میں ہے
وإنما خصه بذكر الشقاء ولم يقل فتشقيان : يعلمنا أن نفقة الزوجة على الزوج ؛ فمن يومئذٍ جرت نفقة النساء على الأزواج ، فلما كانت نفقة حواء على آدم، كذلك نفقات بناتها على بني آدم بحق الزوجية''
(الجامع لأحكام القرآن (11/ 253)
الفتاوى الهندية میں ہے
'وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهنّ في عمل، أو خدمة۔ كذا في الخلاصة ... ونفقة الإناث واجبة مطلقاً على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهنّ مال، كذا في الخلاصة''.
(الفتاوى الهندية (1/ 563،562)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں نے
(وأما) النوع السادس: وهو الأجنبيات الحرائر، فلا يحل النظر للأجنبي من الأجنبية الحرة إلى سائر بدنها إلا الوجه والكفين ؛ لقوله تبارك وتعالى: ﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ﴾ [النور: 30] إلا أن النظر إلى مواضع الزينة الظاهرة وهي الوجه والكفان''۔
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 121)
شامی میں ہے
ویکره حضورهن الجماعة ولو لجمعة وعید و وعظ مطلقاً ولو عجوزاً لیلاً علی المذهب المفتی به لفساد الزمان … کما تکره إمامة الرجل لهنّ في بیت لیس معهنّ رجل غیره ولا محرم منه، کأخته أو زوجته أو أمته، أما إذا کان معهنّ واحد ممن ذکر أو أ مهنّ في المساجد لا۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے
(استشرفها الشيطان) أي زيّنها في نظر الرجال۔ وقيل: أي نظر إليها ليغويها ويغوي بها''
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2054)
البتہ اگر کسی خاتون کی شدید مجبوری ہو اور کوئی دوسرا کمانے والا نہ ہوتو ایسی صورت میں عورت کے گھر سے نکلنے کی گنجائش ہو گی، لیکن اس میں بھی یہ ضروری ہے کہ عورت مکمل پردے کے ساتھ گھر سے نکلے، کسی نا محرم سے بات چیت نہ ہو ایسی ملازمت اختیار نہ کرے جس میں کسی کے ساتھ تنہائی حاصل ہوتی ہو۔
اگر شدید مجبوری ہے اور کوئی دوسرا کمانے والا نہ ہو تو مندرجہ بالا حدود و قیود کی رعایت کرتے ہوئے ملازمت کی گنجائش ہو گی۔ اسی طرح اگر خاتون ڈاکٹرگھر سے نہ نکلے، بلکہ اپنی رہائش گاہ میں ہی کلینک / دواخانہ کھول لے، جہاں صرف خواتین مریضوں کا علاج معالجہ کرے تو اس کی اجازت ہوگی۔
اگر طبابت کی خدمت سے مراد ملازمت اور کمانا مقصود نہیں ہے، بلکہ خواتین مریضوں کی خدمت اور باپردہ ماحول میں ان کے لیے علاج کی سہولت میسر کرنا مقصود ہو، تاکہ اجنبی مرد ڈاکٹروں کے سامنے انہیں بے پردہ نہ ہونا پڑے، اور اس کے لیے پردے وغیرہ کے شرعی احکام کا لحاظ رکھ کر اپنے گھر یا علاقے کے اندرخواتین کی خدمت کی جائے یا کسی محرم کے ساتھ آمد و رفت اختیار کرکے باپردہ ماحول میں صرف خواتین مریضوں کی خدمت کی جائے تو اس کی اجازت ہوگی۔
ہاد رہے مذکورہ تمام صورتوں میں دیگر شرعی فرائض وحقوق میں کوتاہی ہرگز نہیں آنی چاہیے، مثلاً شوہر کے حقوق اور اولاد کی تربیت اور ان کے حقوق میں اس خدمت سے خلل نہ پیدا ہو۔ اگر اس کی وجہ سے دیگرواجب حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہو تو طبابت کا مشغلہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
الجامع لأحكام القرآن میں ہے
وإنما خصه بذكر الشقاء ولم يقل فتشقيان : يعلمنا أن نفقة الزوجة على الزوج ؛ فمن يومئذٍ جرت نفقة النساء على الأزواج ، فلما كانت نفقة حواء على آدم، كذلك نفقات بناتها على بني آدم بحق الزوجية''
(الجامع لأحكام القرآن (11/ 253)
الفتاوى الهندية میں ہے
'وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهنّ في عمل، أو خدمة۔ كذا في الخلاصة ... ونفقة الإناث واجبة مطلقاً على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهنّ مال، كذا في الخلاصة''.
(الفتاوى الهندية (1/ 563،562)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں نے
(وأما) النوع السادس: وهو الأجنبيات الحرائر، فلا يحل النظر للأجنبي من الأجنبية الحرة إلى سائر بدنها إلا الوجه والكفين ؛ لقوله تبارك وتعالى: ﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ﴾ [النور: 30] إلا أن النظر إلى مواضع الزينة الظاهرة وهي الوجه والكفان''۔
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 121)
شامی میں ہے
ویکره حضورهن الجماعة ولو لجمعة وعید و وعظ مطلقاً ولو عجوزاً لیلاً علی المذهب المفتی به لفساد الزمان … کما تکره إمامة الرجل لهنّ في بیت لیس معهنّ رجل غیره ولا محرم منه، کأخته أو زوجته أو أمته، أما إذا کان معهنّ واحد ممن ذکر أو أ مهنّ في المساجد لا۔
(شامی، باب الإ مامة ج۱ص۵۳۹)
فتح الباري لابن حجر میں ہے
ولأحمد والطبراني من حديث أم حميد الساعدية: «أنها جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله إني أحب الصلاة معك! قال: قد علمت، وصلاتك في بيتك خير لك من صلاتك في حجرتك، وصلاتك في حجرتك خير من صلاتك في دارك، وصلاتك في دارك خير من صلاتك في مسجد قومك، وصلاتك في مسجد قومك خير من صلاتك في مسجد الجماعة». وإسناد أحمد حسن، وله شاهد من حديث بن مسعود عند أبي داود'
(فتح الباري لابن حجر (2/ 349)
کافر کے پاس نوکری کرنا کیسا ؟
فتاوٰی رضویہ میں ہے
کافر کی نوکری مسلمان کے لیے وہی جائز ہے جس میں اسلام اور مسلم کی ذلت نہ ہو ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۱ص ۱۲۱)
بَہرحال کافِر کے یہاں ذلت کی نوکری جیسے اُس کے پاؤں دبانا، اُس کے یہاں گند (کچرا) اٹھانا ، گندی نالیاں صاف کرنا وغیرہ جائز نہیں۔
مُرتَد کے یہاں نوکری نہیں کر سکتے مگر نوکری کرنے والا اِس سے کافِر نہیں ہو جاتا ۔
فتاوٰی رضویہ میں ہے
کافِر اصلی غیرِمُرتَد کی وہ نوکری جس میں کوئی اَمر ناجائزِ شرعی کرنا نہ پڑے جائز ہے اور کسی دُنیوی مُعامَلہ کی بات چیت اُس سے کرنا اور اس کے لئے کچھ دیر اُس کے پاس بیٹھنا بھی منع نہیں اِتنی بات پر(کسی مسلمان کو) کافِر بلکہ فاسق بھی نہیں کہا جا سکتا ۔ ہاں مُرتَد کے ساتھ یہ سب باتیں مُطلَقاً منع ہیں اور کافِر اُس وقت بھی (یعنی مُرتد کے پاس نوکری کی وجہ سے بھی) نہ ہوگامگر یہ کہ اُس کے مذہب وعقیدہ ٔ کُفر پر مُطَّلَع ہو کر اُس کے کفر میں شک کرے تو البتّہ کافر ہو جائے گا بِغیرثُبُوتِ وجہِ کُفر کے مسلمان کو کافر کہنا سخت عظیم گناہ ہے بلکہ حدیث میں فرمایا کہ وہ کہنا اُسی کہنے والے پر پلٹ آتا ہے ۔ وَالعِیاذ بِاللّٰہ تَعالٰی ۔
ولأحمد والطبراني من حديث أم حميد الساعدية: «أنها جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله إني أحب الصلاة معك! قال: قد علمت، وصلاتك في بيتك خير لك من صلاتك في حجرتك، وصلاتك في حجرتك خير من صلاتك في دارك، وصلاتك في دارك خير من صلاتك في مسجد قومك، وصلاتك في مسجد قومك خير من صلاتك في مسجد الجماعة». وإسناد أحمد حسن، وله شاهد من حديث بن مسعود عند أبي داود'
(فتح الباري لابن حجر (2/ 349)
کافر کے پاس نوکری کرنا کیسا ؟
فتاوٰی رضویہ میں ہے
کافر کی نوکری مسلمان کے لیے وہی جائز ہے جس میں اسلام اور مسلم کی ذلت نہ ہو ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۱ص ۱۲۱)
بَہرحال کافِر کے یہاں ذلت کی نوکری جیسے اُس کے پاؤں دبانا، اُس کے یہاں گند (کچرا) اٹھانا ، گندی نالیاں صاف کرنا وغیرہ جائز نہیں۔
مُرتَد کے یہاں نوکری نہیں کر سکتے مگر نوکری کرنے والا اِس سے کافِر نہیں ہو جاتا ۔
فتاوٰی رضویہ میں ہے
کافِر اصلی غیرِمُرتَد کی وہ نوکری جس میں کوئی اَمر ناجائزِ شرعی کرنا نہ پڑے جائز ہے اور کسی دُنیوی مُعامَلہ کی بات چیت اُس سے کرنا اور اس کے لئے کچھ دیر اُس کے پاس بیٹھنا بھی منع نہیں اِتنی بات پر(کسی مسلمان کو) کافِر بلکہ فاسق بھی نہیں کہا جا سکتا ۔ ہاں مُرتَد کے ساتھ یہ سب باتیں مُطلَقاً منع ہیں اور کافِر اُس وقت بھی (یعنی مُرتد کے پاس نوکری کی وجہ سے بھی) نہ ہوگامگر یہ کہ اُس کے مذہب وعقیدہ ٔ کُفر پر مُطَّلَع ہو کر اُس کے کفر میں شک کرے تو البتّہ کافر ہو جائے گا بِغیرثُبُوتِ وجہِ کُفر کے مسلمان کو کافر کہنا سخت عظیم گناہ ہے بلکہ حدیث میں فرمایا کہ وہ کہنا اُسی کہنے والے پر پلٹ آتا ہے ۔ وَالعِیاذ بِاللّٰہ تَعالٰی ۔
(فتاوٰی رضویہ ج۲۳ص ۵۹۱، ۵۹۲)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
24/19/2023
24/19/2023