(سوال نمبر 4818)
کیا قوالی سننا آڈیو میں جائز ہے جبکہ مزامیر کی ساتھ ہوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید گانے سننے کو شدید برا جانتا ھے اور گانے نہیں سنتا مگر بکثرت اولیاء اللہ رحمہ اللہ کے لکھے ھوۓ کلام سنتا ہے جو کہ آڈیو قوالی کی صورت میں ھوتے ھیں جس سے اُس کے دل میں سرکار ﷺ کی محبت میں جوش آتا ھے اور وہ دیگر گناہوں کی طرف نہیں بڑتا تو کیا زید کا اس طرح کی قوالیاں سننا آڈیو میں جائز ھے جبکہ مزامیر کی ساتھ ھی ھوتی ھے مگر کلامِ فحش نہیں ھوتا بلکہ اولیاء اللہ کے لکھے ھوۓ کلام ھوتے ھیں؟؟؟؟
نوٹ : واضح رھے زید قوالیوں کی محافل میں کبھی نہیں جاتا بس آڈیو میں فون پر سنتا ھے۔۔۔
سائل:- محمد عمر عبدالمصطفیٰ از پاکستان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
سادہ نعت منقبت سنا کریں۔
مع المزامیر نعت و حمد سے پرہیز کریں
البتہ موجودہ دور فتنہ و فحاشی کا دور ہر گھر میں ٹی وی موجود ہے الا ماشاء اللہ شرعا جو چیز حرام ہے وہ حرام ہے نفس کے لیے اس کے جواز کی کوئی سبیل نہیں پر قوالی مع المزامیر کے بابت علماء فقہ میں اختلاف ہے زمانہ کے پیش نظر نوجوان نسل کو اگر قوالی سننے سے منع کریں گے تو لامحالہ وہ میوزک سانگ سنے گا اس لئے جس شرعی قوالی مع المزامیر کے بابت جواز کا قول ہے اسے سننے میں حرج نہیں ہے۔
انما الاعمال بالنیات بعض نوجوان نسل اس لئے بھی قوالی سننے ہیں کہ اس کی جگہ فحش گانا نہیں سنتے اور اگر نیت فحاشی گانا سننے سے بچنے کی ہے تو سننے میں اجر و ثواب ہے ۔
واضح رہے کہ بدون مزامیر قوالی جائز ہے جبکہ اشعار خالص حمد و نعت پر مشتمل ہو اور مجلس اختلاط مرد و زن سے بری ہو
پر کچھ قیود و شروط کے ساتھ سماع مع المزامیر بھی جائز ہے کہ اشعار فقط حمد و نعت ہو مرد و زن کا اختلاط نہ ہو اور بھی دیگر غیر شرعی امور نہ ہو پھر قوالی مع المزامیر جائز ہے جیساکہ استاذ العلماء مولانا حافظ عطا محمد چشتی دامت برکاتھم اور حضرت غزالی زماں امام اہل سنت سید احمد سعید کا ظمی قدس سرہ نے اس کو جائز لکھا ہے۔
(تفسير تبیان القرآن - سورۃ ٤ النساء آیت ٥٩)
مجتهد في المسائل الشاه أمام أحمد رضا خان رضي الله عنه فرماتے ہیں
یہ بات فائدہ دیتی ہے کہ آلہ لہو بعینہ (بالذات) حرام نہیں بلکہ ارادہ وعمل لہو کی وجہ سے حرام ہے خواہ یہ سامع کی طرف سے ہو یا اس سے مشغول ہونے والے کی طرف سے ہو ،"اضافت "سے یہی معلوم ہوتا ہے،کیا تم دیکھتے نہیں کہ کبھی اس آلہ لہو کو بعینہ بجانا اور استعمال کرنا حلال ہو تا ہے اور کبھی حرام ، اور اس کی وجہ اختلاف نیت ہے پس کاموں کے جائز اور ناجائز ہونے کا دارو مدار ان کے مقاصد پر مبنی ہوتا ہے ،اس میں ہمارے سادات صوفیہ کی دلیل موجو د ہے کہ وہ سماع سے ایسے رموز کا ارادہ رکھتے ہیں کہ جن کو وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں لہذا اعتراض کرنے والا انکار کرنے میں جلدی نہ کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی برکت سے محروم ہو جائے ، کیونکہ وہ پسندیدہ سادات ہیں پس ان کی امداد سے اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے ،اور ان کی نیک دعاؤں اور برکات کا ہم پر اعادہ فرمائے یعنی انھیں ہم پر لوٹا دے ۔
(فتاویٰ رضویہ ج ٢٤ ص ١ مكتبة المدينة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
26/10/2023
26/10/2023