(سوال نمبر 4819)
غیر محرم رشتہ داروں سے حسن سلوک کیسے کریں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں اسلام ہمیں رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے رشتے داروں میں محرم کے علاوہ غیر محرم جیسے پھوپھی کی لڑکی۔ خالہ کی لڑکی۔ ماموں کی لڑکی۔ چاچا کی لڑکی۔ تو ان سب کے ساتھ حسن سلوک کا کیا طریقہ ہونا چاہئے موجود دور کے اعتبار سے شرعی رہنمائی فرمائیں۔
جواب عنایت فرما کر شکریہ موقع دیں ۔۔
سائل:- محمد ناصر حسین بہواروا ضلع دھنوشا نیپال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
حسن سلوک تو اپنا پرایا سب سے کیا جا سکتا ہے پر صلہ رحمی خاص سے کئے جاتے ہیں۔ کتاب و سنت میں قطع رحمی پر سخت عتاب وارد ہے
غیر محرم رشتہ داروں سے حسن سلوک کیسے کریں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں اسلام ہمیں رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے رشتے داروں میں محرم کے علاوہ غیر محرم جیسے پھوپھی کی لڑکی۔ خالہ کی لڑکی۔ ماموں کی لڑکی۔ چاچا کی لڑکی۔ تو ان سب کے ساتھ حسن سلوک کا کیا طریقہ ہونا چاہئے موجود دور کے اعتبار سے شرعی رہنمائی فرمائیں۔
جواب عنایت فرما کر شکریہ موقع دیں ۔۔
سائل:- محمد ناصر حسین بہواروا ضلع دھنوشا نیپال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
حسن سلوک تو اپنا پرایا سب سے کیا جا سکتا ہے پر صلہ رحمی خاص سے کئے جاتے ہیں۔ کتاب و سنت میں قطع رحمی پر سخت عتاب وارد ہے
مذکورہ تمام غیر محرم رشتے دار سے شرعی پردہ میں رہ کر قولی مالی امداد کریں۔بس شرعا جو باتیں منع یے وہ نہ کریں۔
رشتہ داری کے کئی مراتب ہیں:
1/ پہلا یہ کہ آپس میں ایسی رشتہ داری ہو جس سے باہمی نکاح حرام ہو جاتا ہے،
یعنی ان دونوں میں سے ایک مرد اور ایک عورت ہو تو ان کا نکاح نہ ہو سکتا ہو، مثلاً چچا، پھوپھی اور ان کا بھتیجا، ماموں، خالہ اور ان کا بھانجا یہ ایسی قرابت ہے کہ اگر ان دونوں رشتہ داروں کوعورت فرض کیا جائے تو انہیں ایک مرد کے نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں، اس کی مثال یہ ہے کہ عورت اور اس کی پھوپھی کو او رعورت اور اس کی خالہ کو دو بہنوں کی طرح ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے، کیونکہ اس سے ان کے درمیان قطع رحم کا خطرہ ہے ، جن رشتہ داروں کا باہمی نکاح ہو سکتا ہے مثلا آدمی اور اس چچا، پھوپھی ، ماموں اور خالہ کی اولاد، ان کے درمیان وہ رحم (رشتہ) نہیں جو سب سے نازک ہے اور جو ایک نکاح میں جمع کرنے سے اور طلاق یا خلع کی صورت میں ٹوٹ جاتا ہے۔
2/ دوسرا یہ کہ وہ ایک دوسرے کے وارث بنتے ہوں صاف ظاہر ہے کہ جو قرابت وارث کو حاصل ہوتی ہے غیر وارث کو حاصل نہیں ہوتی ورنہ اللہ تعالی اسے بھی وارث بنا دیتا۔
3/ تیسرا یہ کہ ان دونوں کے علاوہ کسی وجہ سے بھی قرابت حاصل ہو، ان میں سے سب سے زیادہ حق ماں کا پھر باپ کا اور پھر حسب مراتب دوسرے اقارب کا ہے کہ ان سے صلہ رحمی کی جائے اور اگرچہ صلہ رحمی تمام اقارب کا حق ہے مگر درجہ بدرجہ حق بڑھتا چلا جاتا ہے۔
صلہ رحمی کا کم ازکم درجہ یہ ہے کہ آپس میں سلام و کلام کا سلسلہ قائم رہے اگر یہ بھی باقی نہ رہا تو صلہ رحمی کیسی؟ اس کے بعد اقارب کے احوال کی خبر گیری، مال و جان سے ان کی مدد اور غلطیوں سے در گزر ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
رشتہ داری کے کئی مراتب ہیں:
1/ پہلا یہ کہ آپس میں ایسی رشتہ داری ہو جس سے باہمی نکاح حرام ہو جاتا ہے،
یعنی ان دونوں میں سے ایک مرد اور ایک عورت ہو تو ان کا نکاح نہ ہو سکتا ہو، مثلاً چچا، پھوپھی اور ان کا بھتیجا، ماموں، خالہ اور ان کا بھانجا یہ ایسی قرابت ہے کہ اگر ان دونوں رشتہ داروں کوعورت فرض کیا جائے تو انہیں ایک مرد کے نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں، اس کی مثال یہ ہے کہ عورت اور اس کی پھوپھی کو او رعورت اور اس کی خالہ کو دو بہنوں کی طرح ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے، کیونکہ اس سے ان کے درمیان قطع رحم کا خطرہ ہے ، جن رشتہ داروں کا باہمی نکاح ہو سکتا ہے مثلا آدمی اور اس چچا، پھوپھی ، ماموں اور خالہ کی اولاد، ان کے درمیان وہ رحم (رشتہ) نہیں جو سب سے نازک ہے اور جو ایک نکاح میں جمع کرنے سے اور طلاق یا خلع کی صورت میں ٹوٹ جاتا ہے۔
2/ دوسرا یہ کہ وہ ایک دوسرے کے وارث بنتے ہوں صاف ظاہر ہے کہ جو قرابت وارث کو حاصل ہوتی ہے غیر وارث کو حاصل نہیں ہوتی ورنہ اللہ تعالی اسے بھی وارث بنا دیتا۔
3/ تیسرا یہ کہ ان دونوں کے علاوہ کسی وجہ سے بھی قرابت حاصل ہو، ان میں سے سب سے زیادہ حق ماں کا پھر باپ کا اور پھر حسب مراتب دوسرے اقارب کا ہے کہ ان سے صلہ رحمی کی جائے اور اگرچہ صلہ رحمی تمام اقارب کا حق ہے مگر درجہ بدرجہ حق بڑھتا چلا جاتا ہے۔
صلہ رحمی کا کم ازکم درجہ یہ ہے کہ آپس میں سلام و کلام کا سلسلہ قائم رہے اگر یہ بھی باقی نہ رہا تو صلہ رحمی کیسی؟ اس کے بعد اقارب کے احوال کی خبر گیری، مال و جان سے ان کی مدد اور غلطیوں سے در گزر ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
26/10/2023
26/10/2023