Type Here to Get Search Results !

عورتیں سجدہ و قعدہ کس طور پر کریں۔ قسط سوم

قسط سوم
عورتیں سجدہ و قعدہ کس طور پر کریں۔
••────────••⊰❤️⊱••───────••
حالت سجدہ و قعدہ میں عورتیں اپنے دونوں پیروں کو داہنی طرف نکالیں ۔ اس موقف کے خلاف میں توحید صاحب ہٹنوی لکھتے ہیں کہ 
کیا اس قول پر کوئی عربی دلیل ہے کیونکہ میں عربی کے علاؤہ اردو دلیل کو نہیں مانتا ہوں؟
مولانا توحید صاحب تحریر فرمارہے ہیں کہ میں اردو کتاب کی دلیل نہیں مانتا ہوں عربی کتاب سے دلیل دیں 
اس پر پھر میں نے اپنے موقف کی تائید میں یہ تیسری قسط لکھا 
دلائل ملاحظہ فرمائیں ۔
حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے ایک سوال ہوا کہ حالت سجدہ میں کسی ایک انگلی کے پیٹ کا لگنا جو فرض بتلایا ہے ایا اس میں عورتیں داخل ہیں یا نہیں ؟
 اس سوال کے جواب میں حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں 
نہیں انہیں سجدہ میں حکم ہے کہ پست ہوکر اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے لگائیں
( یعنی عورتیں اس حکم میں داخل نہیں ہے) 
اور حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ اپنے اس موقف کی تائید میں تحریر فرماتے ہیں کہ۔
درمختار میں ہے
والمرآۃ تنخفض فلا تبدی عضدیھا و تلصق بطنھا بفخذ بھا لانہ الستار یعنی اور عورت پست ہو اور اپنے بازوں کو ظاہر نہ کرے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملائے ۔کیونکہ یہ اس کے لئے زیادہ پردہ کا باعث ہے ۔
پھر حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ اپنے اس موقف کی تائید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
اور اپنے دونوں پیر کو ایک جانب نکال دیں جس طرح قعدہ میں ایک پیر دوسرے پیر کی طرف نکال کر بیٹھتی ہیں۔
(یعنی عورتیں سجدہ میں اس طرح کریں جیسا کہ وہ قعدہ میں بیٹھتی ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ عورت قعدہ میں اپنے دونوں پیروں کو داہنی طرف نکال کر بیٹھتی ہیں) 
اور حضور تاج الشریعہ اپنے اس موقف کی تائید میں ردالمحتار سے عربی دلیل پیش کررہے ہیں ۔
آپ نقل فرماتے ہیں کہ 
قولہ ( متورکۃ)
 بان تخرج رجلھا الیسری من الجانب الایمن ولا تجلس علیھا بل علی الارض
یعنی عورت تورک کریگی اس کی کیفیت یہ ہے کہ بائیں قدم کو دائیں جانب نکالے اور اس پر نہ بیٹھے بلکہ زمین پر بیٹھے سرین زمین پر ہوگی۔ (ردالمحتار،ج۔2. ص 216)
اس ردالمحتار میں قولہ متورکۃ کے تحت یہ ہے اور مترکۃ یعنی تورک جیسا کہ نورالایضاح میں بھی ہے کہ 
والمرآۃ تورک یعنی عورت تورک کرے ۔اور تورک کی کیفیت یہ ہے کہ عورت دونوں التحیات میں دونوں پاؤں داہنی طرف نکال دے ہر مدرسہ کا طالب علم اپنے استاد سے نورالایضاح پڑھتے وقت سمجھا ہوگا ۔اسی لئے حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ردالمحتار کی عربی عبارت نقل فرماتے ہیں کہ 
قولہ متورکۃ بان تخرج رجلھا الیسری من الجانب الایمن ولا تجلس علیھا بل علی الارض
یعنی عورت تورک کریگی اس کی کیفیت یہ ہے کہ بائیں قدم کو دائیں جانب نکالے اور اس پر نہ بیٹھے بلکہ سرین زمین پر ہوگی۔
پھر فرماتے ہیں کہ اسی میں ہے
ذکر فی البحر انھا لاتنصب اصابع القدمین کما ذکرہ فی المجتبی
یعنی وہ اپنے قدموں کی انگلیوں کو کھڑا نہ کرے جیسا کہ المجتبی میں مذکور ہے (ردالمحتار ۔ج 2.ص 211.212) 
(فتویٰ تاج الشریعہ جلد سوم ۔کتاب الصلوۃ ص 188)

اس سے معلوم ہوا کہ عورت سجدہ اور قعدہ میں اپنے قدموں کی انگلیوں کو کھڑا نہ کرے بلکہ دائیں جانب نکالیں گی اور علامہ شامی نے اس قول کو مجتبی سے لیا ۔
ایک اخری سوال اور اس کا حل
حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ اپنے موقف کی تائید میں ردالمحتار کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
و ذکر فی البحر انھا لا تنصب اصابع القدمین کما ذکرہ فی المجتبی
یعنی وہ (عورت ) اپنے قدموں کی انگلیوں کو کھڑا نہ کرے جیسا کہ المجتبی میں مذکور ہے ۔
اس عبارت سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ عورت اپنے قدموں کی انگلیوں کو کھڑا نہ کرے مگر سجدہ میں یا قعدہ میں قدموں کو کس جانب نکالیں اس کا ذکر منقول نہیں ہے  
الجواب۔ جی تنویر الابصار کی شرح درمختار ہے اور درمختار کی شرح ردالمحتار اور ردالمحتار کی شرح جدالممتار جس کے مصنف حضور مجدداعظم امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز ہیں اپ اسی عبارت کے تحت اپنی شرح جدالممتار میں فرماتے ہیں کہ
وذکرہ فی البحر انھا لاتنصب اصابع القدمین کما ذکرہ فی المجتبی اس کے تحت جدالممتار میں ہے 
ای فی السجود یعنی سجدے میں۔
(جدالممتار،الجز،الثالث فصل اذا اراد الشروع ص 211) 
اب تو کوئی اشکال باقی نہیں رہا کہ امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سجدے میں دونوں پاؤں کی انگلیاں کھڑی نہ رکھیں بلکہ داہنے طرف نکالیں 
کیا اس سوال کے جواب میں حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ کا قول اور درمختار اور ردالمحتار اور جد المنتار کی دلیل کافی نہیں ہے ۔؟
جبکہ درمختار کے متعلق سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
درمختار بحر علم کی وہ درمختار ہے کہ جب سے تصنیف ہوئی مشارق و مغارب ارض میں فتوائے مذہب حنفی کا گویا مدار اس کی تحقیقات عالیہ و تدقیقات پر ہوگا۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید ہفتم ص 210)
 کیا اس میں عربی عبارتیں نہیں ہے ؟ خلاصہ یہ ہوا کہ عورت سجدہ میں پاؤں اس طرح رکھیں جس طرح قعدہ میں دونوں پاؤں کو داہنی جانب نکال کر بیٹھتی ہیں۔ یہی ہے صحیح حکم شرع ہے اور ہندوستان میں عورتوں کا اس پر عمل ہے تعامل الناس بھی ہے 
سوال ۔مرد و عورت کے درمیان نماز میں فرق ہے اس پر کوئی حدیث ہے یا نہیں ؟
الجواب ۔جی ہے 
نماز میں عورتون کے سجدے اور بیٹھنے کا طریقہ مردوں سے مختلف ہے جیسا کہ حسب ذیل احادیث سے ظاہر ہے 
عن یزید ابی حبیب ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مر علی امرآتین تصلیان فقال اذا سجدتما فضما بعض اللحم الی الارض فان المرآۃ لیس فی ذلک کالرجل
یعنی یزید بن ابی حبیب بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں ۔اپ نے فرمایا جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کے بعض حصے کو زمین سے لگایا کرو کیونکہ اس میں عورتیں مردوں کی طرح نہیں ہیں (شرح مسلم شریف جلد دوم ص 92 بحوالہ امام ابی داؤد متوفی 275 ھ مراسیل ابو داؤد ص 8)
(2) عن ابن عمر اذا جلست المرآۃ فی الصلاۃ وضعت فخذھا الاخری فاذا اسجدت الصوقت بطنھا فی فخذیھا کالستر مایکون لھا یعنی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھ لے اور جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ چمٹا لیں یہ اس کے لئے زیادہ ستر کی مثل ہے۔
( کنز العمال ج 7 ص 547)
اب اگر عربی کی یہ دلیلیں کسی کے لئے کافی نہیں ہے تو اس کا کوئی علاج میرے پاس نہیں ہے 
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area