عورت حالت سجدہ میں دونوں پیروں کو داہنی طرف نکالیں یہی صحیح حکم شرع ہے
••────────••⊰❤️⊱••───────••
از قلم:- حضور مصباح ملت مفتی اعظم بہار
از قلم:- حضور مصباح ملت مفتی اعظم بہار
من جانب:-محمد محب اللہ خان۔صدر کمیٹی مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک سیتا مڑھی بہار
••────────••⊰❤️⊱••───────••
عزیزم حافظ توحید صاحب خواہ مخواہ آپ مجھے تنگ کررہے ہیں آپ اپنے موقف کہ عورت سجدہ میں دونوں پیروں کو داہنی جانب نہیں کرے اس قول کی تائید میں قانون شریعت اور طحاوی علی مراقی الفلاح سے دلیل لکھ کر گروپ میں ڈال دیا میں خاموش رہا کہ اب میں گروپ میں لکھنا کم کردیا ہوں لیکن آپ نے میرے پرسنل پر لکھا کہ یہ فقہ ہے انگریزی نہیں ۔ تو آپ کو نہیں معلوم ہے کہ ماشاءاللہ بحمدہ سبحانہ و تعالٰی دینی تعلیم کے علاؤہ دہلی یونیورسٹی سے بی ۔اے ۔ انرس کی ڈگری بھی حاصل کیا ہوں ۔ میں گروپ میں جواب دینا نہیں چا رہا تھا لیکن چونکہ اپ کی دلیل گروپ میں موجود ہے اسی لئے بمجبوری جواب لکھنا ہوا آپ نے اپنے موقف کی تائید میں قانون شریعت کی عبارت پیش کی ہے آپ قانون شریعت کے حوالہ سے مجھے دلیل دے رہے ہیں کیا یہ دلیل کافی نہیں ہے؟ حالانکہ وہ عبارت میری نگاہ میں بھی ہے کہ عورت سجدہ میں دونوں پاؤں پیچھے نکال دے اور قعدہ میں دونوں پاؤں داہنی جانب نکال دے اور بائیں سرین ہر بیٹھے اور ہاتھ بیچ ران پر رکھے (قانون شریعت جلد اول ص 100)
اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ عورت سجدہ میں پاؤں پیچھے نکال دے اس سے آپ نے یہ مراد لیا کہ حالت سجدہ میں عورتیں دونوں پیر داہنے نہیں نکالے نکالیں گی ۔تو آپ نے غلط سمجھا اب مجھے معلوم ہوا کہ آپ کی دلیل شرعی یہی عبارت ہے تو آپ سمجھنے میں بھول کرگئے ہیں برائے کرم بحث نہ کرکے دلائل پر غور فرمائیں اور کچھ الجھن ہو تو پرسنل پر بات کریں ۔گروپ میں نہ کریں اس سے گروپ کا ماحول خراب ہوجاتا ہے ۔
(دلیل نمبر اول)
ایک کتاب بنام اسلامی پردہ ہے اس میں ایک عنوان ہے کہ عورت کے لئے سجدہ کا درست طریقہ
سجدے کا درست طریقہ (1)سجدے میں اس طرح جائیں یعنی عورت ک دونوں گھٹنے ایک ساتھ زمین پر آہستہ سے رکھیں
(2)۔بائیں سرین ہر بیٹھیں دونوں قدم داہنی جانب نکال دیں۔
(3) پھر دونوں ہاتھوں کے درمیان میں سر اس طرح رکھیں کہ پہلے ناک پھر پیشانی لگے
(4) بحر الرائق میں ہے کہ عورتوں کے لئے سجدے میں انگلیاں لگانا ضروری نہیں عورتیں پاؤں کی انگلیاں کھڑی نہ رکھیں بلکہ داہنی جانب رکھیں۔
خوب سمٹ کر سجدہ کریں کہ بازو کروٹ سے کروٹ پیٹ پیٹ ران سے اور پنڈلیاں زمین سے ملادیں
سجدے میں تین پانچ یا سات مرتبہ سبحان ربی الاعلی پڑھیں۔
عزیزم حافظ توحید صاحب خواہ مخواہ آپ مجھے تنگ کررہے ہیں آپ اپنے موقف کہ عورت سجدہ میں دونوں پیروں کو داہنی جانب نہیں کرے اس قول کی تائید میں قانون شریعت اور طحاوی علی مراقی الفلاح سے دلیل لکھ کر گروپ میں ڈال دیا میں خاموش رہا کہ اب میں گروپ میں لکھنا کم کردیا ہوں لیکن آپ نے میرے پرسنل پر لکھا کہ یہ فقہ ہے انگریزی نہیں ۔ تو آپ کو نہیں معلوم ہے کہ ماشاءاللہ بحمدہ سبحانہ و تعالٰی دینی تعلیم کے علاؤہ دہلی یونیورسٹی سے بی ۔اے ۔ انرس کی ڈگری بھی حاصل کیا ہوں ۔ میں گروپ میں جواب دینا نہیں چا رہا تھا لیکن چونکہ اپ کی دلیل گروپ میں موجود ہے اسی لئے بمجبوری جواب لکھنا ہوا آپ نے اپنے موقف کی تائید میں قانون شریعت کی عبارت پیش کی ہے آپ قانون شریعت کے حوالہ سے مجھے دلیل دے رہے ہیں کیا یہ دلیل کافی نہیں ہے؟ حالانکہ وہ عبارت میری نگاہ میں بھی ہے کہ عورت سجدہ میں دونوں پاؤں پیچھے نکال دے اور قعدہ میں دونوں پاؤں داہنی جانب نکال دے اور بائیں سرین ہر بیٹھے اور ہاتھ بیچ ران پر رکھے (قانون شریعت جلد اول ص 100)
اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ عورت سجدہ میں پاؤں پیچھے نکال دے اس سے آپ نے یہ مراد لیا کہ حالت سجدہ میں عورتیں دونوں پیر داہنے نہیں نکالے نکالیں گی ۔تو آپ نے غلط سمجھا اب مجھے معلوم ہوا کہ آپ کی دلیل شرعی یہی عبارت ہے تو آپ سمجھنے میں بھول کرگئے ہیں برائے کرم بحث نہ کرکے دلائل پر غور فرمائیں اور کچھ الجھن ہو تو پرسنل پر بات کریں ۔گروپ میں نہ کریں اس سے گروپ کا ماحول خراب ہوجاتا ہے ۔
(دلیل نمبر اول)
ایک کتاب بنام اسلامی پردہ ہے اس میں ایک عنوان ہے کہ عورت کے لئے سجدہ کا درست طریقہ
سجدے کا درست طریقہ (1)سجدے میں اس طرح جائیں یعنی عورت ک دونوں گھٹنے ایک ساتھ زمین پر آہستہ سے رکھیں
(2)۔بائیں سرین ہر بیٹھیں دونوں قدم داہنی جانب نکال دیں۔
(3) پھر دونوں ہاتھوں کے درمیان میں سر اس طرح رکھیں کہ پہلے ناک پھر پیشانی لگے
(4) بحر الرائق میں ہے کہ عورتوں کے لئے سجدے میں انگلیاں لگانا ضروری نہیں عورتیں پاؤں کی انگلیاں کھڑی نہ رکھیں بلکہ داہنی جانب رکھیں۔
خوب سمٹ کر سجدہ کریں کہ بازو کروٹ سے کروٹ پیٹ پیٹ ران سے اور پنڈلیاں زمین سے ملادیں
سجدے میں تین پانچ یا سات مرتبہ سبحان ربی الاعلی پڑھیں۔
(اسلامی پردہ ۔عورتوں کی نماز مع سائنسی تحقیقات ص 111.112)
اب آپ غور کریں کہ بحر الرایق ہماری جماعت میں مستند معتمد کتاب ہے اس کے حوالے سے ہے کہ عورتیں پاؤں کی انگلیاں کھڑی نہ رکھیں بلکہ داہنی جانب رکھیں یہی میری دلیل ہے بھلے آپ کے لئے یہ کافی نہ ہو
(دلیل نمبر 2)
عورت کو جلسے میں بیٹھنے کا طریقہ
اس میں بھی دونوں قدم سیدھی جانب نکال دیں
(دلیل نمبر 3 سیدھی جانب داہنے جانب کو کہتے ہیں
عورتوں کو قعدہ میں بیٹھنے کا طریقہ
قعدہ کرنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ دونوں قدموں کو سیدھی جانب نکال کر بائیں سرین ہر بیٹھیں۔ (عورتوں کی نماز ص 114.115)
دلیل نمبر 5) ۔فتاوی تاج الشریعہ میں ایک عنوان بنام
عورتیں سجدہ و قعدہ کس طور پر کریں کے تحت ایک سوال ہے
حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا ک
حالت سجدہ میں کسی ایک انگلی کے پیٹ کا لگنا جو فرض بتلایا ہے آیا اس میں عورتیں بھی داخل ہیں کہ نہیں؟
اس سوال کہ جواب میں حضور تاج الشریعہ درمختار اور ردالمحتار کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ
نہیں انہیں سجدہ میں حکم ہے کہ پست ہوکر اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے لگائیں ۔اور اپنے دونوں پیر کو ایک جانب نکال دیں جس طرح قعدہ میں ایک پیر دوسرے پیر کی طرف نکال کر بیٹھتی ہیں عورت تو رک کریگی اس کی کیفیت یہ ہے کہ بائیں قدم کو دائیں جانب نکالے اور اس پر نہ بیٹھے بلکہ زمین پر بیٹھے سرین زمین پر ہوگی
اب آپ غور کریں کہ بحر الرایق ہماری جماعت میں مستند معتمد کتاب ہے اس کے حوالے سے ہے کہ عورتیں پاؤں کی انگلیاں کھڑی نہ رکھیں بلکہ داہنی جانب رکھیں یہی میری دلیل ہے بھلے آپ کے لئے یہ کافی نہ ہو
(دلیل نمبر 2)
عورت کو جلسے میں بیٹھنے کا طریقہ
اس میں بھی دونوں قدم سیدھی جانب نکال دیں
(دلیل نمبر 3 سیدھی جانب داہنے جانب کو کہتے ہیں
عورتوں کو قعدہ میں بیٹھنے کا طریقہ
قعدہ کرنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ دونوں قدموں کو سیدھی جانب نکال کر بائیں سرین ہر بیٹھیں۔ (عورتوں کی نماز ص 114.115)
دلیل نمبر 5) ۔فتاوی تاج الشریعہ میں ایک عنوان بنام
عورتیں سجدہ و قعدہ کس طور پر کریں کے تحت ایک سوال ہے
حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا ک
حالت سجدہ میں کسی ایک انگلی کے پیٹ کا لگنا جو فرض بتلایا ہے آیا اس میں عورتیں بھی داخل ہیں کہ نہیں؟
اس سوال کہ جواب میں حضور تاج الشریعہ درمختار اور ردالمحتار کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ
نہیں انہیں سجدہ میں حکم ہے کہ پست ہوکر اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے لگائیں ۔اور اپنے دونوں پیر کو ایک جانب نکال دیں جس طرح قعدہ میں ایک پیر دوسرے پیر کی طرف نکال کر بیٹھتی ہیں عورت تو رک کریگی اس کی کیفیت یہ ہے کہ بائیں قدم کو دائیں جانب نکالے اور اس پر نہ بیٹھے بلکہ زمین پر بیٹھے سرین زمین پر ہوگی
(فتاوی تاج الشریعہ جلد اول ص 187.188)
(دلیکل نمبر 6)
در مختار میں ہے
والمراۃ تنخفض فلا تبدی عضد وتلصق بطنھا بفخذ یھا لانہ آستر یعنی اور عورت پست ہو اور اپنے بازوں کو ظاہر نہ کرے اور اپنے یٹ کو اپنی رانوں سے ملائے ۔کیونکہ یہ اس کے لئے زیادہ پردہ کا باعث ہے۔
(دلیکل نمبر 6)
در مختار میں ہے
والمراۃ تنخفض فلا تبدی عضد وتلصق بطنھا بفخذ یھا لانہ آستر یعنی اور عورت پست ہو اور اپنے بازوں کو ظاہر نہ کرے اور اپنے یٹ کو اپنی رانوں سے ملائے ۔کیونکہ یہ اس کے لئے زیادہ پردہ کا باعث ہے۔
(درمختار ۔ج 2 ص211.کتاب الصلوۃ ۔باب صفۃ الصلوۃ)
(دلیل نمبر ۔7)
رد المحتار میں ہے (قولہ متورکۃ) بان تخرج رجلھا الیسری من الجانب الایمن ولا تجلس علیھا بل علی الارض۔
(دلیل نمبر ۔7)
رد المحتار میں ہے (قولہ متورکۃ) بان تخرج رجلھا الیسری من الجانب الایمن ولا تجلس علیھا بل علی الارض۔
یعنی علامہ شامی اس کے تحت فرماتے ہیں کہ عورت اپنے بائیں پاؤں کو دائیں جانب سے باہر نکالے اور اس کے اوپر نہ بیٹھے بلکہ زمین پر بیٹھیں۔
(دلیل نمبر 8)
(دلیل نمبر 8)
پھر ردالمحتار میں ہے ذکر فی البحر انھا لا تنصب اصابع القدمین کما ذکرہ فی المجتبی
(ردالمحتار ج دوم ص 211.212)
(دلیل نمبر 9)
پھر ایک کتاب بنام فتاوی علیمیہ ہے
اب ذرا اس کو آپ پڑھیں
تاج الفقہ مفتی اختر حسین قادری لکھتے ہیں کہ
عورتوں کو سجدہ کرنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے اس کے پیش نظر حالت سجدہ میں ان کا پنجوں کا کھڑا رکھنا ممکن نہیں اس لئے وہ سجدہ کی حالت میں میں پیروں کو داہنی طرف نکالیں گی عورت مردوں کی طرح پنجہ کھڑا نہیں رکھے گی بلکہ داہنی سمت نکال کر سجدہ کرے گی۔
(ردالمحتار ج دوم ص 211.212)
(دلیل نمبر 9)
پھر ایک کتاب بنام فتاوی علیمیہ ہے
اب ذرا اس کو آپ پڑھیں
تاج الفقہ مفتی اختر حسین قادری لکھتے ہیں کہ
عورتوں کو سجدہ کرنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے اس کے پیش نظر حالت سجدہ میں ان کا پنجوں کا کھڑا رکھنا ممکن نہیں اس لئے وہ سجدہ کی حالت میں میں پیروں کو داہنی طرف نکالیں گی عورت مردوں کی طرح پنجہ کھڑا نہیں رکھے گی بلکہ داہنی سمت نکال کر سجدہ کرے گی۔
(فتاوی علیمیہ جلد اول ص 139.140)
صوت مسئولہ میں اس سے زیادہ دلیل کی کیا ضرورت ہے۔
اب آپ خود اور گروپ کے باقی مفتیان کرام فیصلہ کریں حق بجانب کون ہیں آپ یا میں
خیال رہے کہ یہ مختصر جواب ہے اور بھی دلائل ہیں لیکن صورت مسئولہ میں اتنا ہی کافی اور کتاب قانون شریعت ہماری جماعت کی مستند کتاںب ہے ۔ لیکن یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ایک کتاب میں تمام باتیں ہوں ہر لفظ ۔ہر جملہ کی وضاحت ہو ۔فتویٰ کے لئے بہت علم و عقل کی ضرورت ہے
جب حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ کی تحقیق انیق ہے کہ عورتیں حالت سجدہ میں پاؤں انگلیاں کھڑی نہ رکھیں بلکہ داہنی جانب رکھیں۔ پھر دوسرے کی تحقیق میرے جواب کے لئے ضروری نہیں ہے ۔
(دلیل نمبر دس )
کسی مصنف کا اپنی کتاب میں کسی مسئلہ کی مکمل وضاحت نہ فرمانا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ جائز نہیں ہے یا منع نہیں ہے یا جائز ہے یا منع ہے
کیون اصول فقہ ہے کہ
عدم النقل لاینفی الوجود یعنی عدم نقل نفی وجود کو مستلزم نہیں
دوسرا اصول ہے کہ
عدم الثبوت لایلزم منہ اثبات العدم یعنی عدم ثبوت سے اثبات عدم نہیں آتا
تیسرا اصول ہے کہ
نکردن چیزے دیگر ست و منع فرمودن چیزے دیگر
صوت مسئولہ میں اس سے زیادہ دلیل کی کیا ضرورت ہے۔
اب آپ خود اور گروپ کے باقی مفتیان کرام فیصلہ کریں حق بجانب کون ہیں آپ یا میں
خیال رہے کہ یہ مختصر جواب ہے اور بھی دلائل ہیں لیکن صورت مسئولہ میں اتنا ہی کافی اور کتاب قانون شریعت ہماری جماعت کی مستند کتاںب ہے ۔ لیکن یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ایک کتاب میں تمام باتیں ہوں ہر لفظ ۔ہر جملہ کی وضاحت ہو ۔فتویٰ کے لئے بہت علم و عقل کی ضرورت ہے
جب حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ کی تحقیق انیق ہے کہ عورتیں حالت سجدہ میں پاؤں انگلیاں کھڑی نہ رکھیں بلکہ داہنی جانب رکھیں۔ پھر دوسرے کی تحقیق میرے جواب کے لئے ضروری نہیں ہے ۔
(دلیل نمبر دس )
کسی مصنف کا اپنی کتاب میں کسی مسئلہ کی مکمل وضاحت نہ فرمانا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ جائز نہیں ہے یا منع نہیں ہے یا جائز ہے یا منع ہے
کیون اصول فقہ ہے کہ
عدم النقل لاینفی الوجود یعنی عدم نقل نفی وجود کو مستلزم نہیں
دوسرا اصول ہے کہ
عدم الثبوت لایلزم منہ اثبات العدم یعنی عدم ثبوت سے اثبات عدم نہیں آتا
تیسرا اصول ہے کہ
نکردن چیزے دیگر ست و منع فرمودن چیزے دیگر
یعنی کسی چیز کا نہ کرنا اور شئی ہے اور منع کرنا اور شئے ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید ہشتم ص 551)
اب حافظ توحید صاحب کوئی ایسی دلیل لائے جس میں یہ وضاحت ہو کہ عورتیں حالت سجدہ میں دونوں پیروں کو داہنی طرف نہ نکالیں بلکہ بائیں طرف نکالیں کیونکہ جس امر سے شرع نے منع نہ فرمایا ہو وہ ہرگز ممنوع نہیں ہوسکتا اور جس کو منع فرما دیا وہ کبھی جائز نہیں ہوسکتی ۔بارہا کوئی عالم کسی بات کی وضاحت صاف طور پر لکھنا چھوڑ جاتے ہیں مگر وہ ترک دلیل عدم نہیں ہوتا جس کو بعد میں کوئی عالم وضاحت کرتے ہیں اور صورت مسئولہ میں ہمارے علماء صاف لکھتے ہیں کہ حالت سجدہ میں عورتیں دونوں پیروں کو داہنی طرف نکالیں اور اسی پر فتویٰ ہے اور یہی صحیح حکم ہے
(دلیل نمبر 12)
آپ کی خود قانون شریعت کی عبارت اس بات کی صاحب بحر الرائق ۔صاحب درمختار ۔صاحب رد المحتار ۔صاحب فتاوی تاج الشریعہ کی توثیق راجح ہے۔اب مزید دلیل کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ تمام حضرات کو مقبولیت حاصل ہے ۔اور تمام ہند کی عورتیں اسی طرح نمازیں پڑھا کرتی ہیں اور جس مسئلہ ہر تمام بلاد میں عام مسلمین کے تعامل و افعال شاہد عدل ہوں وہ محتاج دلیل نہیں ۔اب جو دعویٰ تعامل کرے اپنے دعویٰ پر دلیل لائے ۔۔جو دعویٰ کیا گیا وہ عبارت کو سمجھنے میں ان کی خطا ہے ہاں آپ کا دعویٰ صحیح ہے تو ایسی عبارت پیش کریں کہ عورت حالت سجدہ میں دونوں پاؤں کو داہنی طرف نہ نکالے بلکہ کھڑا رکھے یا بائیں طرف نکالے اس بات کی دلیل آپ کے ذمہ ہے
دلیل شرعی کسے کہتے ہیں۔
دلیل شرعی مجتہد کے لئے اصول اربعہ ہیں اور ہمارے لئے قول مجتہد ہے۔
اب حافظ توحید صاحب کوئی ایسی دلیل لائے جس میں یہ وضاحت ہو کہ عورتیں حالت سجدہ میں دونوں پیروں کو داہنی طرف نہ نکالیں بلکہ بائیں طرف نکالیں کیونکہ جس امر سے شرع نے منع نہ فرمایا ہو وہ ہرگز ممنوع نہیں ہوسکتا اور جس کو منع فرما دیا وہ کبھی جائز نہیں ہوسکتی ۔بارہا کوئی عالم کسی بات کی وضاحت صاف طور پر لکھنا چھوڑ جاتے ہیں مگر وہ ترک دلیل عدم نہیں ہوتا جس کو بعد میں کوئی عالم وضاحت کرتے ہیں اور صورت مسئولہ میں ہمارے علماء صاف لکھتے ہیں کہ حالت سجدہ میں عورتیں دونوں پیروں کو داہنی طرف نکالیں اور اسی پر فتویٰ ہے اور یہی صحیح حکم ہے
(دلیل نمبر 12)
آپ کی خود قانون شریعت کی عبارت اس بات کی صاحب بحر الرائق ۔صاحب درمختار ۔صاحب رد المحتار ۔صاحب فتاوی تاج الشریعہ کی توثیق راجح ہے۔اب مزید دلیل کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ تمام حضرات کو مقبولیت حاصل ہے ۔اور تمام ہند کی عورتیں اسی طرح نمازیں پڑھا کرتی ہیں اور جس مسئلہ ہر تمام بلاد میں عام مسلمین کے تعامل و افعال شاہد عدل ہوں وہ محتاج دلیل نہیں ۔اب جو دعویٰ تعامل کرے اپنے دعویٰ پر دلیل لائے ۔۔جو دعویٰ کیا گیا وہ عبارت کو سمجھنے میں ان کی خطا ہے ہاں آپ کا دعویٰ صحیح ہے تو ایسی عبارت پیش کریں کہ عورت حالت سجدہ میں دونوں پاؤں کو داہنی طرف نہ نکالے بلکہ کھڑا رکھے یا بائیں طرف نکالے اس بات کی دلیل آپ کے ذمہ ہے
دلیل شرعی کسے کہتے ہیں۔
دلیل شرعی مجتہد کے لئے اصول اربعہ ہیں اور ہمارے لئے قول مجتہد ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید ہشتم ص 417)
صورت مسئولہ میں علمائے احناف کے نزدیک یہی صحیح حکم ہے کہ عورتیں حالت سجدہ میں دونوں پاؤں داہنی جانب نکالیں اور ہمارے لئے یہی دلیل شرعی ہے کہ اپنے ائمہ کے اقوال پر عمل کریں اور صاحب بحر الرائق تو اہل بحث میں سے ہیں میں تو صرف ناقل ہوں اپنے علمائے معتمدین کے اقوال کو نقل کردیا ہوں
صورت مسئولہ میں علمائے احناف کے نزدیک یہی صحیح حکم ہے کہ عورتیں حالت سجدہ میں دونوں پاؤں داہنی جانب نکالیں اور ہمارے لئے یہی دلیل شرعی ہے کہ اپنے ائمہ کے اقوال پر عمل کریں اور صاحب بحر الرائق تو اہل بحث میں سے ہیں میں تو صرف ناقل ہوں اپنے علمائے معتمدین کے اقوال کو نقل کردیا ہوں
اب کوئی مانے یا نہ مانے
کیا کسی معتبر کتاب کے ترجمعہ سے مسئلہ بیان کرسکتے ہیں یا نہیں؟
الجواب ۔اگر وہ ترجمعہ معتبر ہے تو کرسکتے ہیں ۔سرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ درمختار ہدایہ وغیرہ کے معتبر اردو ترجمعے دیکھ لئے جائیں جو بات سمجھ میں نہ آئے وہ دریافت کرلی جائے۔
الجواب ۔اگر وہ ترجمعہ معتبر ہے تو کرسکتے ہیں ۔سرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ درمختار ہدایہ وغیرہ کے معتبر اردو ترجمعے دیکھ لئے جائیں جو بات سمجھ میں نہ آئے وہ دریافت کرلی جائے۔
(فتاوی مصظفویہ ص 196)
اس عبارت سے واضح ہوا کہ درمختار اور ہدایہ وغیرہ کے معتبر اردو ترجمعے دیکھ سکتے ہیں اور اس پر عمل کرسکتے ہیں آج فتاویٰ رضویہ اردو ہی میں ہے کیا اس سے فتویٰ دینا جائز نہ ہوگا ؟بلکہ مفتیان اسی سے جواب دیتے ہیں
کچھ احباب اردو کتاب نہیں مانتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ آج اردو ہی میں فتویٰ کی کتاب لکھی جارہی ہے اس فتویٰ میں عربی عبارت بھی موجود ہے ردالمحتار میں ہے کہ
بان تخرج رجلھا الیسری من الجانب الایمن ولا تجلس علیھا بل علی الارض
اس عبارت سے واضح ہوا کہ درمختار اور ہدایہ وغیرہ کے معتبر اردو ترجمعے دیکھ سکتے ہیں اور اس پر عمل کرسکتے ہیں آج فتاویٰ رضویہ اردو ہی میں ہے کیا اس سے فتویٰ دینا جائز نہ ہوگا ؟بلکہ مفتیان اسی سے جواب دیتے ہیں
کچھ احباب اردو کتاب نہیں مانتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ آج اردو ہی میں فتویٰ کی کتاب لکھی جارہی ہے اس فتویٰ میں عربی عبارت بھی موجود ہے ردالمحتار میں ہے کہ
بان تخرج رجلھا الیسری من الجانب الایمن ولا تجلس علیھا بل علی الارض
یعنی عورت اپنے بائیں پاؤں کو دائیں جانب سے باہر نکالے اور اس کے اوپر نہ بیٹھے بلکہ زمین پر بیٹھیں ۔
(ردالمحتار جلد دوم کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلوۃ ص 216)
کیا یہ دلیل کافی نہیں ہے ؟ کیا فتاوی تاج الشریعہ کی عبارت کافی نہیں ہے؟ ۔کیا فتویٰ علیمیہ کی عبارت کافی نہیں ہے؟ ۔
میں تو مولانا محمد عثمان صاحب اور مفتی اہل سنت قابل قدر و اعزاز عزیزم مفتی محمد مجیب صاحب لہان نیپال کے مشورہ کی وجہ سے خاموش ہوگیا تھا
میں تو مولانا محمد عثمان صاحب اور مفتی اہل سنت قابل قدر و اعزاز عزیزم مفتی محمد مجیب صاحب لہان نیپال کے مشورہ کی وجہ سے خاموش ہوگیا تھا
یعنی جواب نہیں دے رہا تھا لیکن آپ کے سوال پر سوال کی وجہ سے قسط دوم لکھا
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری
مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
28 جمادی الاول 1444
مطابق 23 دسمبر 2022
28 جمادی الاول 1444
مطابق 23 دسمبر 2022