ملک العلما ظفر الد ین بہاری رحمتہ اللہ علیہ کا عشق رسول
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
ازقلم:- محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدر افتا:- محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
آپ کی ذات و شخصیت محتاج بیان و تعارف نہیں کہ قلم کی زد میں لاکر آپ کی تعریف و توصیف کی جائے بفضلہ تعالیٰ آپ میدان در س و تدریس ہو یا میدان تالیف و تصنیف ، میدا ن حدیث ہو یا فقہ حنفی ، اصول فقہ ہو یا عقائد دینی ، علم توقیت ہو یا علم ہیئت ، علم مقابلہ ہو یا مناظرہ آپ ہر میدان کے راہی و رہنمائے زمانہ تھے ،آپ اپنے زمانے میں چند ممتاز علم وفن میں فرد فر ید ما نے جا تے تھے ۔ کسی مو قع سے اعلیٰ حضرت فاضل بریلو ی علیہ الرحمہ نے آپ کو علم ہیئت و توقیت کے خاص الفرد سے یاد فرمایا ہے ۔
آپ جب در س گا ہ میں تشریف لا تے تو حدیث رسول کے احترام میں یوں اہتمام کرتے ، غسل یا وضو ضرور کرتے ، سر پر عمامہ با ندھتے ، پلکوں کو سرمہ سے سجاتے پھر عطر و عنبر سے معطر ہوتے ، پھر نہایت مودب انداز میں کھڑے ہو کر درس حدیث دیتے ۔ دلنشیں اسلوب ، سنجیدہ لب و لہجہ ، شستہ و شگفتہ ترجمہ ، تشر یح و توضیح ایسی کہ ذہن لپک کر قبول کرلیتا ، بیان مسائل بد لا ئل فرماتے ، متعارض اقوال و احادیث میں تطبیق فرماتے ، اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کے موضوعات پر روشنی ڈالتے اور جب مابین الائمہ اختلاف اور مسلک حنیف کی بات آتی تو تیور دیدنی ہوتا ، درجنوں آیات و احادیث سے مؤقف بوحنیفہ کو ثابت کرتے، حد یث محبت کے مقام پر کہیں مسکراتے اور کہیں آنکھیں اشک سے وضو کرنے لگتیں ، گستاخان نبی کے نام آنے پر آپ کا طرز کلام دودھارا، اور دو آتشہ ہوجاتا ، منظر ہی بدل دیتے ۔
حیات ملک العلما کے جس پہلو پر نظر ڈالیے وہ ہشت پہلو ہیرے کی طرح نظر آتا ہے ، جدھر سے دیکھئے نہایت خوش رنگ چمکتا دکھائی دیتا ہے ، دل جھوم اٹھتا ہے امام احمد رضا نے انہیں علم ہیئت و توقیت اور ریاضی کا بے تاج بادشاہ قرار دیا ، فقہ وفتاویٰ میں وہ امام احمد رضا کے معتمد خاص تھے ، فن مناظرہ میں وہ یکتائے روز گار تھے ، علم مناظرہ کے موضوع پر ان کی آٹھ تصانیف اس پر برہان مبین ہیں ، باب حدیث میں وہ بلند پایہ محدث اور شارح حدیث تھے جس پر آپ کی تصنیف ’’صحیح البہاری ‘‘شاہد عدل ہے ۔
(ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی ، جنوری ۲۰۱۰، ص ۶۲، مضمون : مو لانا محمد شرافت حسین رضوی )
فاضل بریلوی اور ملک العلما کا عشق رسول
کشتۂ نگاہ مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم امام احمد رضا عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی لا فانی تحریک کے بے مثال سفیر تھے ، اس راہ میں آپ نے کسی قسم کی کوئی رکاوٹ بر داشت نہ کی بلکہ آپ نے دو ٹوک الفاظ میں اپنا منصفانہ فیصلہ یوں فرمایا :ایمان کے حقیقی و واقعی ہونے کو دو باتیں ضرور ہیں ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو تمام جہاں پر تقدیم تو اس کی آزمائش کا یہ صریح طریقہ ہے کہ تم کو جن لوگوں سے کیسی ہی تعظیم کتنے ہی عقیدت ، کتنے ہی دوستی، کیسی ہی محبت کا علاقہ ہو جیسے تمہارے باپ، تمہارے استاذ ، تمہارے پیر، تمہاری اولاد، تمہارے بھائی ، تمہارے احباب ، تمہارے بڑے ، تمہارے اصحاب ، تمہارے مولوی ، تمہارے حافظ ، تمہارے مفتی و غیرہ وغیرہ کسے باشد ، جب وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کریں ، اصلا تمہارے قلب میں ان کی عظمت ، ان کی محبت کا نام و نشان نہ رہے فوراً ان سے الگ ہوجاؤ ، ان کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو ، ان کی صورت ان کے نام سے نفرت کھاؤ ، پھر نہ تم اپنے رشتے ، علاقے ، دوسری الفت کا پاس کرو نہ اس کی مولویت ، مشخییت، بزرگ ، فضیلت کو خطرے میں لاؤ ۔ آخر یہ جو کچھ تھا ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی غلامی کی بنا پر تھا ۔ جب یہ شخص ان ہی کی شان میں گستا خ ہوا ، پھر ہمیں اس سے کیا علا قہ رہا ؟اس کے جبے و عمامے پر کیا جائیں ۔‘‘
ملخصا (۴۴)
حضور ملک العلما فاضل بہاری علیہ الرحمہ بھی اپنے پیر و مرشد کے رنگ میں رنگے ہوئے اور عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں سر شار نظر آتے ہیں ۔ خود فرماتے ہیں :’’تو اصل ایمان حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہوئی ، بغیر حضور کی محبت کے خدا سے محبت کرنا بھی نجات کے لئے کافی نہیں ، بلکہ جوشخص ایسا دعویٰ کرے محض لاغی ہے اس لئے کہ محبوب ، محبوب ہو تا ہے جس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں خدا کی محبت بھی نہیں ۔ خد کی محبت اور اس کا راستہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے دکھایا ، بغیر حضور کے خدا تک رسائی نا ممکن ہے ۔ انعامات تو اس رحمتہ اللعالمین کے صد قے میں ملتے ہیں، بے وسیلہ وبغیر واسطہ کے کوئی شخص نعمت ایمان سے کیو نکر بہرور ہو سکتا ہے ۔ پس اے اللہ والو ! تم پرلازم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی محبت میں اپنے کو فناکر دو دیکھو ! خداوند عالم خود ان سے محبت کرتا ہے تو ضروری ہے تم بھی " تخلقوا باخلاق اللہ " کے ساتھ متصف ہوجاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ پیارا جانو ۔‘‘ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ طیبہ میں جا نے کی ضرور تڑپ ہوتی ہے لیکن امام اہل محبت امام احمد رضا فاضل بریلوی کو نہ صر ف جانے کی بلکہ وہیں خاتمہ بالخیر ہونے کی آرزو ہے جس کا اظہار مولانا عرفان علی علیہ الرحمہ کے نام ایک خط میں یوں فرماتے ہیں ۔ ’’وقت مرگ قریب ہے اور میرا دل ہند تو ہند مکہ معظمہ میں بھی مرنے کو نہیں چاہتا ، اپنی خواہش یہی ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایمان کے ساتھ موت اور بقیع مبارک میں خیر کے ساتھ دفن نصیب ہو اور وہ قادر ہے ، بہر حال اپنا خیال ہے ۔‘‘
آپ کے مرید صادق ملک العلماء فاضل بہاری بھی اسی کی خواہش رکھتے ہوئے دعا فرماتے ہیں :
’’جب مرنے کا وقت ہو ، مدینہ طیبہ کی حاضری نصیب ہو اور منبر و گنبد کو دیکھ کر قفس عنصری سے روح پرواز کرے ، جنت البقیع مدفن ہو ، قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور دیکھتے ہو ئے اٹھیں اور ان کے سایۂ دامن عاطفت کے نیچے ان کے غلاموں کے زمرے میں داخل جنت الماویٰ ہوں۔ ‘‘
برصغیر پاک وہند میں گستاخان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک طائفہ نے جب بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے تو کشتۂ نگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ حضرت فا ضل بر یلو ی نے اس کی گر فت کر تے ہو ئے خطوط بھیجے ، رسائل لکھے ، بڑا سمجھایا لیکن ان میں سے کوئی باز نہ آیا ، کا فی مدت کے بعد آپ نے ناموس مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاسبانی کا حق ادا کرتے ہوئے ان کفریہ عبارت کے بنا پر فتاویٰ کفر صادر فرمایا حرمین شریفین کے جلیل القدر علمائے کرام نے بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے فتوے کی تصدیق فرماتے ہوئے ان گستاخوں کو دائرۂ اسلام سے خا ر ج قرار دیا ۔
بعد ازاں ہندو پاک کے جلیل القدر علما ئے کرام نے بھی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے فتوے پر اپنی مہر تصدیق ثبت کردی ۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے روحانی فرزند ملک العلما فاضل بہاری نے بھی ناموس مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاسبانی کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی آپ نے بھی اپنے پیر و مرشد کے اس تاریخ ساز فتوےٰ کی ان الفاظ میں تصدیق فرمائی :
’’فتاویٰ حر مین طیبین ضرور حق ہیں جن کی حقیقت میں اصلاً شبہہ نہیں ، اس کی حقیقت پر آفتاب سے بھی روشن تر دلیل یہ ہے کہ ان اقوال کے قائلوں نے اس کے مقابل نہ صرف سکوت ہی کیا ، بلکہ حکم میں اتفاق کیا ، جس کا مجموعہ ایک مستقل رسالہ بنام ’’الختم علی لسان الخصم ‘‘دیوبند میں چھپ چکا ہے جس میں انہیں لوگوں نے تصریح کی ، کہ بے شک ایسے اعتقاد و خیال و اقوال والے کافر ہیں ۔ رہی یہ بات کہ ایسے اقوال کن لوگوں کے ہیں جن پر بااتفاق علمائے بریلی کا وہابی ، دیوبندی پر کفر کا فتویٰ ہے ان مطبوعہ کتابوں کو دیکھنے سے معلوم ہوسکتا ہے جن کا حوالہ حسام الحرمین میں ہے جسے چھپے ہوئے بیس سال ہوگئے ۔ کیا قادیانیوں کے ارتداد اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والوں کے کفر جیسے اتفاقی مسئلے میں بھی استفسار و سوال کی ضرورت ہے ۔؟‘‘
(جہان ملک العلما ، ص ۳۳۷، مضمون حضرت سید صابر حسین شاہ بخاری ، پاکستان ، بحوالہ: جان ہے عشق مصطفیٰ ، ص 429/432 مکتبہ ، رضوی کتاب گھر دہلی )
ازقلم:- محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدر افتا:- محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
آپ کی ذات و شخصیت محتاج بیان و تعارف نہیں کہ قلم کی زد میں لاکر آپ کی تعریف و توصیف کی جائے بفضلہ تعالیٰ آپ میدان در س و تدریس ہو یا میدان تالیف و تصنیف ، میدا ن حدیث ہو یا فقہ حنفی ، اصول فقہ ہو یا عقائد دینی ، علم توقیت ہو یا علم ہیئت ، علم مقابلہ ہو یا مناظرہ آپ ہر میدان کے راہی و رہنمائے زمانہ تھے ،آپ اپنے زمانے میں چند ممتاز علم وفن میں فرد فر ید ما نے جا تے تھے ۔ کسی مو قع سے اعلیٰ حضرت فاضل بریلو ی علیہ الرحمہ نے آپ کو علم ہیئت و توقیت کے خاص الفرد سے یاد فرمایا ہے ۔
آپ جب در س گا ہ میں تشریف لا تے تو حدیث رسول کے احترام میں یوں اہتمام کرتے ، غسل یا وضو ضرور کرتے ، سر پر عمامہ با ندھتے ، پلکوں کو سرمہ سے سجاتے پھر عطر و عنبر سے معطر ہوتے ، پھر نہایت مودب انداز میں کھڑے ہو کر درس حدیث دیتے ۔ دلنشیں اسلوب ، سنجیدہ لب و لہجہ ، شستہ و شگفتہ ترجمہ ، تشر یح و توضیح ایسی کہ ذہن لپک کر قبول کرلیتا ، بیان مسائل بد لا ئل فرماتے ، متعارض اقوال و احادیث میں تطبیق فرماتے ، اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کے موضوعات پر روشنی ڈالتے اور جب مابین الائمہ اختلاف اور مسلک حنیف کی بات آتی تو تیور دیدنی ہوتا ، درجنوں آیات و احادیث سے مؤقف بوحنیفہ کو ثابت کرتے، حد یث محبت کے مقام پر کہیں مسکراتے اور کہیں آنکھیں اشک سے وضو کرنے لگتیں ، گستاخان نبی کے نام آنے پر آپ کا طرز کلام دودھارا، اور دو آتشہ ہوجاتا ، منظر ہی بدل دیتے ۔
حیات ملک العلما کے جس پہلو پر نظر ڈالیے وہ ہشت پہلو ہیرے کی طرح نظر آتا ہے ، جدھر سے دیکھئے نہایت خوش رنگ چمکتا دکھائی دیتا ہے ، دل جھوم اٹھتا ہے امام احمد رضا نے انہیں علم ہیئت و توقیت اور ریاضی کا بے تاج بادشاہ قرار دیا ، فقہ وفتاویٰ میں وہ امام احمد رضا کے معتمد خاص تھے ، فن مناظرہ میں وہ یکتائے روز گار تھے ، علم مناظرہ کے موضوع پر ان کی آٹھ تصانیف اس پر برہان مبین ہیں ، باب حدیث میں وہ بلند پایہ محدث اور شارح حدیث تھے جس پر آپ کی تصنیف ’’صحیح البہاری ‘‘شاہد عدل ہے ۔
(ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی ، جنوری ۲۰۱۰، ص ۶۲، مضمون : مو لانا محمد شرافت حسین رضوی )
فاضل بریلوی اور ملک العلما کا عشق رسول
کشتۂ نگاہ مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم امام احمد رضا عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی لا فانی تحریک کے بے مثال سفیر تھے ، اس راہ میں آپ نے کسی قسم کی کوئی رکاوٹ بر داشت نہ کی بلکہ آپ نے دو ٹوک الفاظ میں اپنا منصفانہ فیصلہ یوں فرمایا :ایمان کے حقیقی و واقعی ہونے کو دو باتیں ضرور ہیں ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو تمام جہاں پر تقدیم تو اس کی آزمائش کا یہ صریح طریقہ ہے کہ تم کو جن لوگوں سے کیسی ہی تعظیم کتنے ہی عقیدت ، کتنے ہی دوستی، کیسی ہی محبت کا علاقہ ہو جیسے تمہارے باپ، تمہارے استاذ ، تمہارے پیر، تمہاری اولاد، تمہارے بھائی ، تمہارے احباب ، تمہارے بڑے ، تمہارے اصحاب ، تمہارے مولوی ، تمہارے حافظ ، تمہارے مفتی و غیرہ وغیرہ کسے باشد ، جب وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کریں ، اصلا تمہارے قلب میں ان کی عظمت ، ان کی محبت کا نام و نشان نہ رہے فوراً ان سے الگ ہوجاؤ ، ان کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو ، ان کی صورت ان کے نام سے نفرت کھاؤ ، پھر نہ تم اپنے رشتے ، علاقے ، دوسری الفت کا پاس کرو نہ اس کی مولویت ، مشخییت، بزرگ ، فضیلت کو خطرے میں لاؤ ۔ آخر یہ جو کچھ تھا ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی غلامی کی بنا پر تھا ۔ جب یہ شخص ان ہی کی شان میں گستا خ ہوا ، پھر ہمیں اس سے کیا علا قہ رہا ؟اس کے جبے و عمامے پر کیا جائیں ۔‘‘
ملخصا (۴۴)
حضور ملک العلما فاضل بہاری علیہ الرحمہ بھی اپنے پیر و مرشد کے رنگ میں رنگے ہوئے اور عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں سر شار نظر آتے ہیں ۔ خود فرماتے ہیں :’’تو اصل ایمان حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہوئی ، بغیر حضور کی محبت کے خدا سے محبت کرنا بھی نجات کے لئے کافی نہیں ، بلکہ جوشخص ایسا دعویٰ کرے محض لاغی ہے اس لئے کہ محبوب ، محبوب ہو تا ہے جس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں خدا کی محبت بھی نہیں ۔ خد کی محبت اور اس کا راستہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے دکھایا ، بغیر حضور کے خدا تک رسائی نا ممکن ہے ۔ انعامات تو اس رحمتہ اللعالمین کے صد قے میں ملتے ہیں، بے وسیلہ وبغیر واسطہ کے کوئی شخص نعمت ایمان سے کیو نکر بہرور ہو سکتا ہے ۔ پس اے اللہ والو ! تم پرلازم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی محبت میں اپنے کو فناکر دو دیکھو ! خداوند عالم خود ان سے محبت کرتا ہے تو ضروری ہے تم بھی " تخلقوا باخلاق اللہ " کے ساتھ متصف ہوجاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ پیارا جانو ۔‘‘ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ طیبہ میں جا نے کی ضرور تڑپ ہوتی ہے لیکن امام اہل محبت امام احمد رضا فاضل بریلوی کو نہ صر ف جانے کی بلکہ وہیں خاتمہ بالخیر ہونے کی آرزو ہے جس کا اظہار مولانا عرفان علی علیہ الرحمہ کے نام ایک خط میں یوں فرماتے ہیں ۔ ’’وقت مرگ قریب ہے اور میرا دل ہند تو ہند مکہ معظمہ میں بھی مرنے کو نہیں چاہتا ، اپنی خواہش یہی ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایمان کے ساتھ موت اور بقیع مبارک میں خیر کے ساتھ دفن نصیب ہو اور وہ قادر ہے ، بہر حال اپنا خیال ہے ۔‘‘
آپ کے مرید صادق ملک العلماء فاضل بہاری بھی اسی کی خواہش رکھتے ہوئے دعا فرماتے ہیں :
’’جب مرنے کا وقت ہو ، مدینہ طیبہ کی حاضری نصیب ہو اور منبر و گنبد کو دیکھ کر قفس عنصری سے روح پرواز کرے ، جنت البقیع مدفن ہو ، قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور دیکھتے ہو ئے اٹھیں اور ان کے سایۂ دامن عاطفت کے نیچے ان کے غلاموں کے زمرے میں داخل جنت الماویٰ ہوں۔ ‘‘
برصغیر پاک وہند میں گستاخان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک طائفہ نے جب بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے تو کشتۂ نگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ حضرت فا ضل بر یلو ی نے اس کی گر فت کر تے ہو ئے خطوط بھیجے ، رسائل لکھے ، بڑا سمجھایا لیکن ان میں سے کوئی باز نہ آیا ، کا فی مدت کے بعد آپ نے ناموس مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاسبانی کا حق ادا کرتے ہوئے ان کفریہ عبارت کے بنا پر فتاویٰ کفر صادر فرمایا حرمین شریفین کے جلیل القدر علمائے کرام نے بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے فتوے کی تصدیق فرماتے ہوئے ان گستاخوں کو دائرۂ اسلام سے خا ر ج قرار دیا ۔
بعد ازاں ہندو پاک کے جلیل القدر علما ئے کرام نے بھی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے فتوے پر اپنی مہر تصدیق ثبت کردی ۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے روحانی فرزند ملک العلما فاضل بہاری نے بھی ناموس مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاسبانی کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی آپ نے بھی اپنے پیر و مرشد کے اس تاریخ ساز فتوےٰ کی ان الفاظ میں تصدیق فرمائی :
’’فتاویٰ حر مین طیبین ضرور حق ہیں جن کی حقیقت میں اصلاً شبہہ نہیں ، اس کی حقیقت پر آفتاب سے بھی روشن تر دلیل یہ ہے کہ ان اقوال کے قائلوں نے اس کے مقابل نہ صرف سکوت ہی کیا ، بلکہ حکم میں اتفاق کیا ، جس کا مجموعہ ایک مستقل رسالہ بنام ’’الختم علی لسان الخصم ‘‘دیوبند میں چھپ چکا ہے جس میں انہیں لوگوں نے تصریح کی ، کہ بے شک ایسے اعتقاد و خیال و اقوال والے کافر ہیں ۔ رہی یہ بات کہ ایسے اقوال کن لوگوں کے ہیں جن پر بااتفاق علمائے بریلی کا وہابی ، دیوبندی پر کفر کا فتویٰ ہے ان مطبوعہ کتابوں کو دیکھنے سے معلوم ہوسکتا ہے جن کا حوالہ حسام الحرمین میں ہے جسے چھپے ہوئے بیس سال ہوگئے ۔ کیا قادیانیوں کے ارتداد اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والوں کے کفر جیسے اتفاقی مسئلے میں بھی استفسار و سوال کی ضرورت ہے ۔؟‘‘
(جہان ملک العلما ، ص ۳۳۷، مضمون حضرت سید صابر حسین شاہ بخاری ، پاکستان ، بحوالہ: جان ہے عشق مصطفیٰ ، ص 429/432 مکتبہ ، رضوی کتاب گھر دہلی )
ــــــــــــــــــــــ❣⚜❣ـــــــــــــــــــــ
ازقلم:- محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدر افتا:- محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
ترسیل :- صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی پپرادادنوی
رکن اعلیٰ:- افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی
20/ جمادی الاول 1444ھ
15/ دسمبر 2022ء
ترسیل :- صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی پپرادادنوی
رکن اعلیٰ:- افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی
20/ جمادی الاول 1444ھ
15/ دسمبر 2022ء