Type Here to Get Search Results !

جاوید احمد غامدی صاحب اور سنت کی تعریف :-


﴿﷽ﷻ۝ﷺ﴾
جاوید احمد غامدی صاحب اور سنت کی تعریف :-
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
غامدی صاحب نے اپنی مشہور تصنیف "میزان" میں اصول و مبادی کے تحت جو گھریلو خودساختہ اصول بیان کیے ہیں ان پر علمی تعاقب کی یہ دوسری قسط ہے۔ پہلی قسط غامدی صاحب کے "اصول فطرت" پر میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں۔
درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے
غامدی صاحب میزان صفحہ نمبر 14 پر سنت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
"سنت سے مراد دین ابراھیمی کی وہ روایات ہیں جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے" : 
قرآن میں آپکو دین ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے۔
ثُـمَّ اَوْحَيْنَـآ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِــعْ مِلَّـةَ اِبْـرَاهِيْـمَ حَنِيْفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (النحل : 123)
پھر ہم نے تمہیں وحی کی کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہی تھا۔
✅الجواب :- غامدی صاحب نے سنت کی ابتدا سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے کی ہے جبکہ سنت کی ابتدا تمام علمائے امت کے نزدیک سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے، اسی لیے اسے "سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" کہا جاتا ہے نہ کہ دین ابراہیمی کی روایت۔ اور یہ تعریف اجماع امت و تواتر سے ثابت ہے۔
اہل علم جانتے ہیں کہ سنت سے مراد :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال، تقریرات (خاموشی؍ تائیدات) اورصفات ہیں :
أما السنة: فهي أقوال النبي ﷺ وأفعاله وتقریراته وصفاته.
اصول الفقہ الاسلامی از ڈاکٹر وہبہ ز حیلی: ۱؍ 449، طبع دمشق
❗مجھے حیرت ہے کہ غامدی صاحب نے اسی صفحہ نمبر 14 کے آخر میں صحابہ کرام کے اجماع و عملی تواتر کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔۔
❗کیا غامدی صاحب یا انکا کوئی حواری مجھے صحابہ کرام کے اجماع یا عملی تواتر یا کم از کم کسی ایک مستند صحیح حوالہ سے سنت کی یہ تعریف پیش کرسکتا ہے جو غامدی صاحب نے بیان کی ہے ؟؟؟ 
✅ غامدی صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ "سنت" ایک اسلامی شرعی اصطلاح ہے جو اپنا ایک مسلمہ و متعین مفہوم رکھتی ہے۔ یہ دینی اصطلاح کسی کی ذاتی جاگیر نہی ہے کہ کوئی شخص بھی اٹھ کر اپنے جی سے جو چاہے اس سے کچھ بھی مراد لیتا پھرے۔ غامدی صاحب کے اس گھریلو تعریف سے تو کوئی بھی سر پھرا شخص یہ دعوی کرسکتا ہے کہ۔
1) خلیفہ سے ہماری مراد لکھنؤ کا حجام ہے۔
2) نماز سے ہماری مراد دین موسوی کی وہ روایت ہے۔
3) مفتی سے ہماری مراد وہ آدمی ہے جو سرکاری خرچ پر مفت حج کرکے آئے۔
کیا ایسے سر پھرے شخص کے ان دعوں کو کوئی معقول آدمی تسلیم کر سکتا ہے؟؟ کیا دین اسلام میں شرعی اصطلاحات سے اس طرح کھیل مذاق کی اجازت دی جا سکتی ہے؟؟؟ 
✅✅ جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے دینی اصطلاحات کے مطالب بدلنے کو منکرین حدیث کی جسارت قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"امت کے جس تواتر نے قرآن کریم کو ہم تک منتقل کیا ہے اسی تواتر نے دین کی تمام اصطلاحات کا عملی مفہوم بھی ہم تک منتقل کیا ہے۔۔۔۔الخ۔۔۔مزید فرماتے ہیں : اس وجہ سے اگر قرآن مجید کو ماننا ہم پر واجب ہے تو ان ساری اصطلاحات کی اس عملی صورت کو ماننا بھی واجب ہے جو 📗سلف سے خلف تک بالتواتر منتقل ہوئی ہیں۔
(تدبر قرآن: 1؍29، طبع 1983ء ، لاہور)
''منکر ین حدیث کی یہ جسارت کہ وہ صوم وصلوٰة ، حج وزکوٰة اور عمرہ وقربانی کا مفہوم بھی اپنے جی سے بیان کرتے ہیں اور اُمت کے تواتر نے ان کی جو شکل ہم تک منتقل کی ہے، اس میں اپنی ہواے نفس کے مطابق ترمیم و تغیر کرنا چاہتے ہیں ، صریحاً خود قرآنِ مجید کے انکار کے مترادف ہے اس لیے کہ جس تواتر نے ہم تک قرآن منتقل کیا ہے، اسی تواتر نے ا ن کی اصطلاحات کی عملی صورتوں کو بھی ہم تک منتقل کیا ہے۔اگر وہ ان کو نہیں مانتے تو پھر خود قرآن کو ماننے کے لئے بھی کو ئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی ۔'' 
(تدبر قرآن: 1؍29، طبع 1983ء ، لاہور)
مولانا اصلاحی صاحب نے اسی طرح کا قول اپنے شیخ مولانا حمیدالدین فراہی صاحب سے بھی اسی صفحہ پر نقل فرمایا ہے۔
📗میں نے مولانا اصلاحی و مولانا فراہی کا حوالہ اس لیے دیا کہ غامدی صاحب ان دو علماء کو آسمان کا درجہ دیتے ہیں۔
غالب نکتہ دان سے کیا نسبت 
خاک کو آسمان سے کیا نسبت
(مقامات 57،58 جاوید احمد غامدی)
📗✅✅ غامدی صاحب کی دلیل پر تعاقب :-
سنت کا خود ساختہ مفہوم لینے کے لیے غامدی صاحب نے سورہ النحل کی درج ذیل آیت سے استدلال کیا ہے۔
ثُـمَّ اَوْحَيْنَـآ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِــعْ مِلَّـةَ اِبْـرَاهِيْـمَ حَنِيْفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (النحل : 123)
پھر ہم نے تمہیں وحی کی کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہی تھا۔
اس آیت سے غامدی صاحب نے جو استدلال کیا ہے وہ قرآن کی معنوی تحریف کے زمرے میں آتا ہے۔
📕❗مذکورہ آیت میں بلاشبہ "مِلَّـةَ اِبْـرَاهِيْـمَ" یعنی دین ابراہیم کا ذکر آیا ہے کیونکہ مِلَّـةَ کے معنی دین کے ہیں۔ مگر اس آیت سے "دین ابراہیم کی روایت کیسے برآمد ہوگئی؟؟؟ 
❗بلا شبہ اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دین ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے مگر اس آیت میں یہ بات کہاں ہے کہ اس کی پیروی کرتے ہوئے نبی اس دین ابراہیم کی تجدید و اصلاح بھی فرمائیں؟؟؟ 
یہ ساری تحریف غامدی صاحب کے اپنے ذہن کی اپج ہے۔جسے انہوں سے اس آیت کی طرف منسوب کردیا۔
آیت میں مِلَّـةَ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی دین و مذہب کے ہیں۔عربی کی مشہور لغت "لسان العرب ابن منظور افریقی میں ہے۔
الملة : الدين كلمة الاسلام و النصرانية، و اليهودية"
ملت کے معنی دین کے ہیں جیسے دین اسلام، نصرانیت کا دین ،یہودیت کا دین۔
(لسان العرب زیر مادہ ملل)
✅ قرآن مجید میں بھی مِلَّـةَ کا لفظ دین و مذہب کے معنوں میں آیا ہے۔مثال کے طور پر
1) وَ لَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْیَهُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ (البقرۃ 120)
اور تم سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی یہاں تک کہ ان کے مذہب کی پیروی اختیار کرلو۔
2) قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِیْنَ۫ قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِكُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰىنَا اللّٰهُ مِنْهَا۔۔۔ (سورہ الاعراف 88،89)
تو ان کی قوم میں جو لوگ سردار اور بڑے آدمی تھے وہ کہنے لگے کہ شعیب ! یا تو تم کو اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائیں ہیں ان کو اپنے شہر سے نکال دیں گے یا تم ہمارے مذہب میں آجاؤ انہوں نے کہا خواہ ہم تمہارے دین سے بیزار ہی ہوں ! اگر ہم اس کے بعد کہ خدا ہمیں اس سے نجات بخش چکا ہے تمہارے مذہب میں لوٹ جائیں۔۔۔الخ
3) ایک مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ اپنے بارے میں یہ کہیں :
قُلْ اِنَّنِیْ هَدٰىنِیْ رَبِّیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ١ۚ۬ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ۚ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ (سورہ الانعام 161)
کہہ دو کہ میرے پروردگار نے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے۔ (یعنی) دین صحیح مذہب ابراہیم کا جو ایک (خدا) ہی کی طرف کے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔
4) وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ 
(سورہ البقرۃ 130)
اور ابراہیم کے دین سے کون روگردانی کرسکتا ہے بجز اس کے جو نہایت نادان (احمق) ہو ؟ 
قرآن مجید کی مذکورہ آیات سے آفتاب نصنف النہار کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں مِّلَّةِ سے مراد دین و مذہب ہے مگر غامدی صاحب نے اس سے مراد "دین ابراہیمی کی روایت" لے کر مغالطہ دیا ہے اور قرآن کی معنوی تحریف کی ہے۔
✅✅✅ حقیقت یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہ السلام کا دین و مذہب تو ایک ہی تھا مگر شریعت الگ الگ تھی۔
لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً (سورہ المائدہ 48)
ہم نے تم میں سے ہر ایک (فرقے) کے لیے ایک دستور اور طریقہ مقرر کردیا ہے اور اگر خدا چاہتا تو سب کو ایک ہی شریعت پر کردیتا۔
غامدی صاحب کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی صاحط بھی اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ تمام نبیوں اور انکی امتوں کے لیے ایک ہی دین تھا لیکن سب کی شریعت الگ الگ تھی۔
مولانا اصلاحی صاحب ہیڈنگ لگاتے ہیں :-
✅ مختلف امتوں کی شریعت کے اختلاف کی حکمت : 
جہاں تک دین کے حقائق کا تعلق ہے وہ ہمیشہ سے غیر متغیر ہیں اور غیر متغیر ہی رہیں گے لیکن شریعت کے ظواہر و رسوم ہر امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے الگ الگ مقرر فرمائے تاکہ یہ چیز امتوں کے امتحان کا ذریعہ بنے۔
(تدبر قرآن جلد 2 صفحہ 535 / سورہ مائدہ آیت نمبر 48 کی تفسیر)
قرن کریم نے کئی مقامات پر واضح کیا ہے کہ تمام انبیائے کرام کا دین ایک ہی تھا۔
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّـٰى بِهٖ نُـوْحًا وَّالَّـذِىٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٓ ٖ اِبْـرَاهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيسٰٓى ۖ اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ۚ (الشوری 13)
تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کا نوح کو حکم دیا تھا اور اسی راستہ کی ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے اور اسی کا ہم نے ابراھیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا، کہ اسی دین پر قائم رہو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔
ایک مقام پر 18 انبیائے سابقین ( نوح، اطراہیم، اسحق، اسمعیل، یعقوب، یوسف، موسی، ہارون، داؤد، سلیمان، ایوب، زکریا، یحیی، الیاس، الیسع، یونس، لوط اور عیسی علیہ السلام) کا ذکر کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ انکی ہدایت یعنی دین کی پیروی کریں۔
اُولٰٓئِكَ الَّـذِيْنَ اٰتَيْنَاهُـمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّـبُوَّةَ ۚ فَاِنْ يَّكْـفُرْ بِـهَا هٰٓؤُلَآءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِـهَا قَوْمًا لَّيْسُوْا بِـهَا بِكَافِـرِيْنَ ! اُولٰٓئِكَ الَّـذِيْنَ هَدَى اللّـٰهُ ۖ فَبِـهُدَاهُـمُ اقْتَدِهْ ۗ
(سورہ الانعام 89،90 )
یہی لوگ تھے جنہیں ہم نے کتاب اور شریعت اور نبوت دی تھی، پھر اگر یہ لوگ (مکہ والے) ان باتوں کو نہ مانیں تو ہم نے ان باتوں کے ماننے کے لیے ایسے لوگ مقرر کر دیے ہیں جو ان کے منکر نہیں ہیں۔وہ لوگ تھے جنہیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کے طریقہ (دین ) کی پیروی کریں۔
📕📕 نوٹ : 18: انبیاء کرام کے اسم کی تفصیل کے لیے 88،89 سے پہلے کی تمام آیات کا مطالعہ کریں۔
اس سے معلوم ہوا کہ صرف دین ابراہیم کی پیروی کا حکم نہی دیا گیا بلکہ تمام انبیاء کرام کی ہدایت اور دین کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ کیونکہ سب کا دین ایک ہی تھا۔۔۔دین اسلام۔
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّـٰهِ الْاِسْلَامُ (سورہ آل عمران 19)
بے شک اللہ کے نزدیک ( سچا ) دین صرف اسلام ہوگا۔
وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْـرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُۚ وَهُوَ فِى الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ
(سورہ آل عمران 85) 
اور جو کوئی اسلام کے سوا اور کوئی دین چاہے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
ان دلائل سے واضح و بین ہوگیا کہ غامدی صاحب نے قرآن مجید کی آیت کے معنی بیان کرنے میں صریح تحریف کا ارتکاب کیا ہے۔
وَمَا عَلَيْنَآ اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِيْنُ ( سورہ یس 17) 
اور ہمارے ذمے کھلم کھلا پہنچا دینا ہی ہے

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area