Type Here to Get Search Results !

نابالغ بچوں سے گیارہویں شریف کے لنگر کے لیے چندہ کروانا کیسا ہے؟


(سوال نمبر 4829)
نابالغ بچوں سے گیارہویں شریف کے لنگر کے لیے چندہ کروانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ حضور ایک جگہ پہ عرفِ عام یہ ہے وہ گیارہویں شریف کے لنگر کے لیے نابالغ بچوں کو بھیجتے ہے چندہ کرنے کیلیے اور وہ بچے اپنی خوشی سے اور اپنے والدین کی اجازت سے جاتے ہیں اور پیسے دودھ وغیرہ لے آتے ہیں پھر تبرک کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پھر بڑے اسلامی بھائی اور بچے مِل بیٹھ کے کھاتے ہیں ایسا کرنا کیسا ہے؟
شرعی حوالے سے با حوالہ رہنمائی عطا فرما دیجیے
سائل:- حیدر علی قادری عطاری رضوی پنجاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

بھیجنے والے بالغ ہیں اور دینے والے بھی بالغ ہیں۔اگر دینے والے پیسے دودھ وغیرہ کو خاص صراحت کے ساتھ نابالغ بچے کو مالک بنا دے پھر کوئی بالغ اس میں سے نہیں کھا سکتے ہیں پر عموما ایسا نہیں ہوتا عرفا سب کو معلوم ہے بچے لائیں گے گیارہویں شریف کے نام پر ہھر سب تبرک بنا کر مل بیٹھ کر سب کھائیں گے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اسی طرح جو دینے والے ہوتے ہیں انہیں بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا کہ سب لوگ اس میں سے کھائے۔
 یعنی نابالغ بچے کو چیز دیتے ہوئے ملکیت وغیرہ کی صراحت نہ کی گئی تو اس کا دار و مدار عُرف پر ہوگا اور عُرف سے ثابت ہونے والے احکام کے متعلق اُصول بیان کرتے ہوئے شمس الاَئمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:483ھ/1090ء) لکھتے ہیں
والعادة تجعل حَكما إذا لم ‌يوجد ‌التصريح بخلافه
اور جب عُرف و عادت کے خلاف صراحت موجود نہ ہو تو اسے مختلف اقوال میں حَکَم و فَیْصل قرار دیا جائے گا۔(شرح السیر الکبیر ، باب الامان ، ج1، ص 208، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت )
علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں
 وفی شرح البیری عن المبسوط الثابت بالعرف کالثابت بالنص
علامہ بیری کی شرح اشباہ میں مبسوط کے حوالے سے ہے کہ عرف سے ثابت شدہ حکم نص ِ شرعی سے ثابت شدہ حکم کی طرح ہے۔
(شرح العقودرسم المفتی ص 75 ، مطبوعہ کراچی)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340 ھ/1921ء) لکھتے ہیں
والعرف قاض
 اور عُرف فیصلہ کر نے والا ہے۔
(فتاویٰ رضویہ، ج 3،ص 49،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
اور ہمارے عُرف میں والدین وغیرہ بچے کو جو چیز دیتے ہیں اس میں ملکیت کا تصور نہیں ہوتا لہٰذا اس میں اِباحت کا حکم ہو گا اور اگر بچہ اس کو چھوڑ دے تو دینے والا اس میں تصرف کرسکتا ہے کیونکہ مباح کی گئی چیز مالک کی ملک پر باقی رہتی ہے 
چنانچہ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں
ہبہ کہ تملیک بلاعوض ہے بخلاف اباحت کہ شَے مِلکِ مالک ہی پر رہتی ہے ،اُس کی اجازت سے صَرف کی جاتی ہے۔
(فتاویٰ رضویہ، ج 4،ص 76،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
مزيد ایک مقام پر امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں
یصرحون فی غیر ما موضع ان المباح لہ انما یتصرف علی ملک المُبیح، لاحظ لہ من الملک اصلا‘
یعنی بہت سے مقامات پر علمائے کرام تصریح فرماتے ہیں :جس شخص کے لیے کوئی چیز مباح کی جائے تو وہ اس کو مباح کرنے والے کی ملکیت پر ہی استعمال کرتا ہے، اس (مباح لہ )کا ملکیت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا‌۔
(فتاویٰ رضویہ، ج 20،ص 541،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
والله ورسوله أعلم بالصواب 
*كتبه محمد مجیب قادري لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال*
29/10/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area