Type Here to Get Search Results !

کیا مسجد کی زمین میں نل گاڑ کر اہل محلہ پانی استعمال کر سکتے ہیں جبکہ سارا خرچ اہل محلہ کا ہو؟

 (سوال نمبر 4872)
کیا مسجد کی زمین میں نل گاڑ کر اہل محلہ پانی استعمال کر سکتے ہیں جبکہ سارا خرچ اہل محلہ کا ہو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اہل محلہ مشترکہ طور پہ یہ فیصلہ کیا ہے کہ مسجد کی جگہ میں پانی پینے والا پائپ یا بود نگ گارا جائے جس سے اہل محلہ استفادہ کریں گے یعنی پانی استعمال کریں گے پائپ دھنسانے میں جو خرچ ہوگا وہ اہل محلہ دیں گے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
واضح رہے مستقبل میں بھی جو خرچ ہوگا وہ اہل محلہ دیں گے یعنی بجلی بل پائپ مرمت ودیگر اخراجات اہل محلہ برداشت کریں گے برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل ومفصل جواب عنایت فرمائیں 
سائل:- عبد القدیر انصاری عرف لاڈلے پر یہار انصاری چوک ضلع سیتا مڑھی بہار الہند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
وقف شدہ زمین کا مسئلہ ہہ ہے کہ جس کام کے لیے وقف ہو اس کے سوا کوئی دوسرا کام شرعا جائز نہیں ہے سوال میں ظاہر ہے کہ مسجد کی زمین ہے پھر مفاد مسجد کے علاوہ میں استعمال کرنا کیوں کر جائز ہوگا ؟
اہل محلہ بورینگ کرکے خود بھی پانی استعمال کرے اور مسجد کو بھی دے اس میں تغییر وقف ہے اور تغییر وقف ناجائز ہے
فتاوی عالم گیری میں ہے لایجوز تغییر الوقف عن ھئتہ۔
ردالمحتار میں ہے 
 الواجب ابقاء الوقف علی ماکان علیہ ،
اس لیے مسجد کی جگہ کو مسجد ومصالح مسجد (وضوخانہ،طہارت خانہ، امام کا حجرہ وغیرہ) ہی میں استعمال کر سکتے ہیں اس کے علاوہ کسی دوسرے کام میں استعمال نہیں کر سکتے
فتاوہ امجدیہ میں ہے تغییر وقف حرام (ج ۳ ص ۲۰)
یاد رہے اگر وہ زمین مسجد کی آمدنی سے خریدی گئی ہے یا کسی نے وقف کی ہے مگر کوئی شرط نہیں رکھی ہے تواس جگہ کو اہل محلہ کرایہ پر لے لیں پھر کرایہ معقول مسجد کو دے پھر یہ صورت جائز ہے جب مسجد کو ضرورت ہوگی سب بند کرنا ہوگا ۔
اور اگر واقف نے یہ شرط رکھی ہے کہ زمین کرایہ پر نہیں کر سکتے توایسی صورت میں کرایہ پر دینا جائز نہیں کہ شرط الواقف کنص الشارع
وفي فتح القدیر 
وإنما یملك الإجارة المتولي أو القاضي
(فتح القدیر / کتاب الوقف ۶؍۲۲۴ بیروت)
حاصل کلام یہ ہے کہ 
بہ غرض نفع مسجد کرایہ پر دینے کی گنجائش ہے۔ جبکہ اس زمین کو فی الحال مسجد کو حاجت نہ ہو۔ اور نہ واقف نے اجارہ پر دینے سے منع کئے ہوں۔
البحر الرائق میں ہے
قیم یبیح فناء المسجد لیتجر فیہ القوم أو یضع فیہ سررا لیتجر فیھا الناس فلابأس اذا کان لصلاح المسجد( البحر الرائق:۴۱۸/۵، کتاب الوقف، فصل فی أحکام المسجد،)
 وکذا یفتی بکل ما ھو أنفع للوقف ( الدر المختار مع رد المحتار:۴۶۲/۶، کتاب الوقف ، ط: دار الکتاب،) 
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
03/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area