(سوال نمبر 4513)
نماز میں خلاف ترتیب قرآن پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے علما دین مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
سنتِ مؤکدہ اور غیر مؤکدہ میں کیا فرق ہوتا ہے اور ان کو کس طرح پڑھتے ہیں اور اس میں سورت کب میلانی ہے اور کیا سورت میں ترتیب ضروری ہے یا نہیں؟
سائل:- محمد مزمل پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
سیدھا قرآن پڑھنا واجب ہے یعنی پہلے پہلا پارہ پھر دوسرا پھر تیسرا اس کے بر عکس نہیں اسی طرح نماز میں پہلے الم تر پھر قریش پہلے قل ہو اللہ پھر سورہ کوثر نہیں۔۔ نماز میں برخلاف کرنے سے اگرچہ نماز ہوجائے گی پر گناہ ہے ۔
یعنی نماز میں جان بوجھ کر خلاف ترتیب قران ہو یا بھول کر ،بہر صورت سجدہ سہو واجب نہیں ہے کیونکہ سجدہ سہو اس وقت واجب ہوتا ہے جب نماز کے واجبات میں سے کوئی واجب بھولے سے رہ جائے اور قرآن پاک ترتیب کے ساتھ پڑھنا تلاوت کے واجبات میں سے ہے نماز کے واجبات میں سے نہیں،اسی لیےتو نماز کے علاوہ بھی قصدا ًالٹا قرآن پڑھنا گناہ ہےاور تلاوت کے واجبات میں سے کوئی واجب رہ جائے تو سجدہ سہو یا نماز کا اعادہ واجب نہیں ہوتا۔
سنتیں مؤکدہ ہوں یا غیرمؤکدہ دو ہوں یا چار ان کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت یا کم از کم تین مختصر آیات یا ایک طویل آیت ملانا واجب ہے البتہ چار رکعات سنتِ مؤکدہ میں جیسے ظہر اور جمعے سے پہلے کی چار رکعات اور جمعے کے بعد کی چار رکعات میں پہلے قعدہ میں صرف تشہد پڑھ کے تیسری رکعت کے لیے اٹھ جانا واجب ہے درود اور دعا کا پڑھنا جائزنہیں اور سنتِ غیر مؤکدہ جیسے عصر اور عشاء سے پہلے کی چار رکعات میں افضل یہ ہے کے پہلے قعدہ میں بھی درود شریف اور دعا پڑھ کر تیسری رکعت کے لیے اٹھا جائے اور پھر تیسری رکعت کا آغاز بھی ثنا اور تعوذ و تسمیہ سے کیاجائے تاہم اگر کسی نے ایسے نہ کیا تو بھی سنتِ غیر مؤکدہ ادا ہوجائیں گی۔
حاصل کلام یہ ہے سنت موکدہ میں دو رکعت کے بعد قعدہ میں صرف تشہد پڑھنا ہے درود شریف نہیں پڑھ سکتے بلکہ تشہد کے بعد کھڑا ہونا ہے اگر درود شریف پڑھا تو سجدہ سہو لازم آئے گا جبکہ سنت غیر موکدہ میں مستحب یہ ہے کہ دو رکعت کے بعد تشہد اور درود شریف وغیرہ پڑھ کر پھر تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو تو ثناء یعنی سبحانک پوری اور تعوذ یعنی اعوذ پورا پڑھے
درمختار میں ہے کہ
ولا یصلی علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی القعدۃ الاولٰی فی الاربع قبل الظہر والجمعۃ وبعدھا) ولو صلی نا سیافعلیہ السھو ........ (ولایستفتح اذاقام الی الثالثۃ منھا) لا نھا لتا کدھا اشبھت الفریضۃ (وفی البواقی من ذوات الاربع یصلی علی النبی) صلی اللہ علیہ وسلم
نماز میں خلاف ترتیب قرآن پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے علما دین مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
سنتِ مؤکدہ اور غیر مؤکدہ میں کیا فرق ہوتا ہے اور ان کو کس طرح پڑھتے ہیں اور اس میں سورت کب میلانی ہے اور کیا سورت میں ترتیب ضروری ہے یا نہیں؟
سائل:- محمد مزمل پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
سیدھا قرآن پڑھنا واجب ہے یعنی پہلے پہلا پارہ پھر دوسرا پھر تیسرا اس کے بر عکس نہیں اسی طرح نماز میں پہلے الم تر پھر قریش پہلے قل ہو اللہ پھر سورہ کوثر نہیں۔۔ نماز میں برخلاف کرنے سے اگرچہ نماز ہوجائے گی پر گناہ ہے ۔
یعنی نماز میں جان بوجھ کر خلاف ترتیب قران ہو یا بھول کر ،بہر صورت سجدہ سہو واجب نہیں ہے کیونکہ سجدہ سہو اس وقت واجب ہوتا ہے جب نماز کے واجبات میں سے کوئی واجب بھولے سے رہ جائے اور قرآن پاک ترتیب کے ساتھ پڑھنا تلاوت کے واجبات میں سے ہے نماز کے واجبات میں سے نہیں،اسی لیےتو نماز کے علاوہ بھی قصدا ًالٹا قرآن پڑھنا گناہ ہےاور تلاوت کے واجبات میں سے کوئی واجب رہ جائے تو سجدہ سہو یا نماز کا اعادہ واجب نہیں ہوتا۔
سنتیں مؤکدہ ہوں یا غیرمؤکدہ دو ہوں یا چار ان کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت یا کم از کم تین مختصر آیات یا ایک طویل آیت ملانا واجب ہے البتہ چار رکعات سنتِ مؤکدہ میں جیسے ظہر اور جمعے سے پہلے کی چار رکعات اور جمعے کے بعد کی چار رکعات میں پہلے قعدہ میں صرف تشہد پڑھ کے تیسری رکعت کے لیے اٹھ جانا واجب ہے درود اور دعا کا پڑھنا جائزنہیں اور سنتِ غیر مؤکدہ جیسے عصر اور عشاء سے پہلے کی چار رکعات میں افضل یہ ہے کے پہلے قعدہ میں بھی درود شریف اور دعا پڑھ کر تیسری رکعت کے لیے اٹھا جائے اور پھر تیسری رکعت کا آغاز بھی ثنا اور تعوذ و تسمیہ سے کیاجائے تاہم اگر کسی نے ایسے نہ کیا تو بھی سنتِ غیر مؤکدہ ادا ہوجائیں گی۔
حاصل کلام یہ ہے سنت موکدہ میں دو رکعت کے بعد قعدہ میں صرف تشہد پڑھنا ہے درود شریف نہیں پڑھ سکتے بلکہ تشہد کے بعد کھڑا ہونا ہے اگر درود شریف پڑھا تو سجدہ سہو لازم آئے گا جبکہ سنت غیر موکدہ میں مستحب یہ ہے کہ دو رکعت کے بعد تشہد اور درود شریف وغیرہ پڑھ کر پھر تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو تو ثناء یعنی سبحانک پوری اور تعوذ یعنی اعوذ پورا پڑھے
درمختار میں ہے کہ
ولا یصلی علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی القعدۃ الاولٰی فی الاربع قبل الظہر والجمعۃ وبعدھا) ولو صلی نا سیافعلیہ السھو ........ (ولایستفتح اذاقام الی الثالثۃ منھا) لا نھا لتا کدھا اشبھت الفریضۃ (وفی البواقی من ذوات الاربع یصلی علی النبی) صلی اللہ علیہ وسلم
(ویستفتح ویتعوذ) (الدرالمختار ج 2 ص 16)
(اور ایسا ہی فتاوی رضویہ ج 3 ص 469 اور بہار شریعت ج 1 ص 667 میں ہے)
یاد رہے کہ فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورۂ فاتحہ پر اکتفا کرنا مسنون ہے لیکن اگر کوئی بھولے سے سورت بھی پڑھ لیتا ہے تو اس سے سجدۂ سہو واجب نہ ہو گا۔
اور سننِ مؤکدہ سننِ غیرمؤکدہ اور نوافل کی تمام رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانا واجب ہے لہٰذا اگر سنتِ مؤکدہ یا کسی بھی نفل کی تیسری یا چوتھی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورت پڑھنا بھول گیا تو سجدہ سہو واجب ہوگا۔
وفي الفتاوى الهندية:
ولو قرأ في الأخريين الفاتحة والسورة لايلزمه السهو، وهو الأصح۔
(1/ 126ط:دار الفكر)
وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين
(واكتفى) المفترض (فيما بعد الأوليين بالفاتحة) فإنها سنة على الظاهر، ولو زاد لا بأس به.
(قوله: ولو زاد لا بأس) أي لو ضم إليها سورةً لا بأس به؛ لأنّ القراءة في الأخريين مشروعة من غير تقدير۔
(اور ایسا ہی فتاوی رضویہ ج 3 ص 469 اور بہار شریعت ج 1 ص 667 میں ہے)
یاد رہے کہ فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورۂ فاتحہ پر اکتفا کرنا مسنون ہے لیکن اگر کوئی بھولے سے سورت بھی پڑھ لیتا ہے تو اس سے سجدۂ سہو واجب نہ ہو گا۔
اور سننِ مؤکدہ سننِ غیرمؤکدہ اور نوافل کی تمام رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانا واجب ہے لہٰذا اگر سنتِ مؤکدہ یا کسی بھی نفل کی تیسری یا چوتھی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورت پڑھنا بھول گیا تو سجدہ سہو واجب ہوگا۔
وفي الفتاوى الهندية:
ولو قرأ في الأخريين الفاتحة والسورة لايلزمه السهو، وهو الأصح۔
(1/ 126ط:دار الفكر)
وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين
(واكتفى) المفترض (فيما بعد الأوليين بالفاتحة) فإنها سنة على الظاهر، ولو زاد لا بأس به.
(قوله: ولو زاد لا بأس) أي لو ضم إليها سورةً لا بأس به؛ لأنّ القراءة في الأخريين مشروعة من غير تقدير۔
(رد المحتار1/ 511ط:سعيد)
وفي الفتاوى الهندية
وتجب قراءة الفاتحة وضم السورة أو ما يقوم مقامها من ثلاث آيات قصار أو آية طويلة في الأوليين بعد الفاتحة كذا في النهر الفائق وفي جميع ركعات النفل والوتر. هكذا في البحر الرائ
وفي الفتاوى الهندية
وتجب قراءة الفاتحة وضم السورة أو ما يقوم مقامها من ثلاث آيات قصار أو آية طويلة في الأوليين بعد الفاتحة كذا في النهر الفائق وفي جميع ركعات النفل والوتر. هكذا في البحر الرائ
.(1/ 71ط:دار الفكر)
وفيه أيضًا
ولا يجب السجود إلا بترك واجب أو تأخيره أو تأخير ركن أو تقديمه أو تكراره أو تغيير واجب بأن يجهر فيما يخافت وفي الحقيقة وجوبه بشيء واحد وهو ترك الواجب، كذا في الكافي."
(1/ 126ط:دار الفكر)
وفيه أيضًا
وإن تركها في الأخريين لايجب إن كان في الفرض وإن كان في النفل أو الوتر وجب عليه۔
(1/ 126ط:دار الفكر)
والله ورسوله اعلم بالصواب
وفيه أيضًا
ولا يجب السجود إلا بترك واجب أو تأخيره أو تأخير ركن أو تقديمه أو تكراره أو تغيير واجب بأن يجهر فيما يخافت وفي الحقيقة وجوبه بشيء واحد وهو ترك الواجب، كذا في الكافي."
(1/ 126ط:دار الفكر)
وفيه أيضًا
وإن تركها في الأخريين لايجب إن كان في الفرض وإن كان في النفل أو الوتر وجب عليه۔
(1/ 126ط:دار الفكر)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
23/09/2023
23/09/2023