(سوال نمبر 4491)
مسجد کا امام اگر ضرورت مند ہو تو مسجد کی رقم سے اسکا علاج کرایا جاسکتا ہے؟
................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
(١) کیا مسجد میں اگر کسی شخص نے اذان پڑھنے کے لئے مائک دیا ہے تو اس سے دوسرے اعلان کیا جاسکتا ہیں یانہیں اور اگر کیا جاسکتا ہے تو اسکی کیا صورت ہے
(٢) کہ کیا مسجد مدرسہ کے مینیجر یا ذمیدارجس کے پاس رقم مسجد مدرسے کی جمع ہے اپنی یا کسی دوسرے کی ضرورت کے لیے استعمال کرسکتا ہے بطور قرض اور اگر کر سکتا ہے تو کیا یہ خیانت نہیں ہے
(٣) مسجد مدرسہ کا جو سامان ہے کیا منیجر یا جو ذمیدار ہے اپنے ذاتی کام میں استعمال کرسکتا ہیں
(٤) مسجد کا امام اگر ضرورت مند ہے تو مسجد کی رقم سے اسکا علاج کرایا جاسکتا ہے؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- عبدالرحمن قادری جامعی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ اگر مائک دینے والے نے خاص مسجد کے لئے دیا ہے تو کوئی اعلان وغیرہ کرنا جائز نہیں اگر خاص نہیں کیا ہے تو اعلان کر سکتے ہیں متولی مسجد سے اجازت لے کر۔ورنہ نہیں
٢/ مسجد و مدرسہ کی رقم جس متولی یا منتظمین کے پاس جمع ہے وہ امانت ہے وہ صرف امین ہے مالک نہیں لہذا نہ خود استعمال کر سکتا ہے نہ کسی کو دے سکتا ہے بطور قرض بھی نہیں۔
٣/مسجد و مدرسہ کا سامان کوئی یوز نہیں کر سکتا یے کہ یہ جائز نہیں ہے گناہ ہے
٤/امام کو جب تنخواہ دی جاتی ہے ہھر فری آف مسجد و مدرسہ کی رقم دینا جائز نہیں ہے البتہ بوقت ضرورت صرف امام کو بطور قرض مسجد و مدرسہ کی رقم دی جا سکتی ہے
حاصل کلام یہ ہے کہ
مسجد یا مدرسہ کا پیسہ دوسروں کو بطور قرض دینا جائز نہیں ہے البتہ امام مؤذن معلمین وملازمین کو حسبِ ضابطہ قرض دینے کی گنجائش ہے اِس لئے کہ دوسروں کو قرض دینے سے اس مال کے ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہے جب کہ ملازمین کو دینے سے ایسا اندیشہ نہیں ہے بلکہ اس قرض کی واپسی کی اُمید زیادہ ہے دوسرے یہ کہ غیر متعلق لوگوں کو قرض دینا مسجد ومدرسہ کے مصارف میں شامل نہیں۔ جب کہ ملازمین کو ضابطہ کے مطابق قرض دینا اُن کے مصرف میں شامل ہے
البحر الرائق میں ہے
مع أن القیم لیس لہ إقراض مال المسجد، قال في جامع الفصولین: لیس للمتولي إیداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عیالہ ولا إقراضہ، فلو أقرضہ ضمن، وکذا المستقرض۔
مسجد کا امام اگر ضرورت مند ہو تو مسجد کی رقم سے اسکا علاج کرایا جاسکتا ہے؟
................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
(١) کیا مسجد میں اگر کسی شخص نے اذان پڑھنے کے لئے مائک دیا ہے تو اس سے دوسرے اعلان کیا جاسکتا ہیں یانہیں اور اگر کیا جاسکتا ہے تو اسکی کیا صورت ہے
(٢) کہ کیا مسجد مدرسہ کے مینیجر یا ذمیدارجس کے پاس رقم مسجد مدرسے کی جمع ہے اپنی یا کسی دوسرے کی ضرورت کے لیے استعمال کرسکتا ہے بطور قرض اور اگر کر سکتا ہے تو کیا یہ خیانت نہیں ہے
(٣) مسجد مدرسہ کا جو سامان ہے کیا منیجر یا جو ذمیدار ہے اپنے ذاتی کام میں استعمال کرسکتا ہیں
(٤) مسجد کا امام اگر ضرورت مند ہے تو مسجد کی رقم سے اسکا علاج کرایا جاسکتا ہے؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- عبدالرحمن قادری جامعی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ اگر مائک دینے والے نے خاص مسجد کے لئے دیا ہے تو کوئی اعلان وغیرہ کرنا جائز نہیں اگر خاص نہیں کیا ہے تو اعلان کر سکتے ہیں متولی مسجد سے اجازت لے کر۔ورنہ نہیں
٢/ مسجد و مدرسہ کی رقم جس متولی یا منتظمین کے پاس جمع ہے وہ امانت ہے وہ صرف امین ہے مالک نہیں لہذا نہ خود استعمال کر سکتا ہے نہ کسی کو دے سکتا ہے بطور قرض بھی نہیں۔
٣/مسجد و مدرسہ کا سامان کوئی یوز نہیں کر سکتا یے کہ یہ جائز نہیں ہے گناہ ہے
٤/امام کو جب تنخواہ دی جاتی ہے ہھر فری آف مسجد و مدرسہ کی رقم دینا جائز نہیں ہے البتہ بوقت ضرورت صرف امام کو بطور قرض مسجد و مدرسہ کی رقم دی جا سکتی ہے
حاصل کلام یہ ہے کہ
مسجد یا مدرسہ کا پیسہ دوسروں کو بطور قرض دینا جائز نہیں ہے البتہ امام مؤذن معلمین وملازمین کو حسبِ ضابطہ قرض دینے کی گنجائش ہے اِس لئے کہ دوسروں کو قرض دینے سے اس مال کے ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہے جب کہ ملازمین کو دینے سے ایسا اندیشہ نہیں ہے بلکہ اس قرض کی واپسی کی اُمید زیادہ ہے دوسرے یہ کہ غیر متعلق لوگوں کو قرض دینا مسجد ومدرسہ کے مصارف میں شامل نہیں۔ جب کہ ملازمین کو ضابطہ کے مطابق قرض دینا اُن کے مصرف میں شامل ہے
البحر الرائق میں ہے
مع أن القیم لیس لہ إقراض مال المسجد، قال في جامع الفصولین: لیس للمتولي إیداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عیالہ ولا إقراضہ، فلو أقرضہ ضمن، وکذا المستقرض۔
(البحر الرائق / کتاب الوقف ۵؍۴۰۱)
الفتاوى الهندية میں ہے
الوديعة لاتودع ولاتعار ولاتؤاجر ولاترهن، وإن فعل شيئًا منها ضمن، كذا في البحر الرائق. (الفتاوى الهندية (4/ 338)
والله ورسوله اعلم بالصواب
الفتاوى الهندية میں ہے
الوديعة لاتودع ولاتعار ولاتؤاجر ولاترهن، وإن فعل شيئًا منها ضمن، كذا في البحر الرائق. (الفتاوى الهندية (4/ 338)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
21/09/2023
21/09/2023