Type Here to Get Search Results !

کیا باپ مرنے سے قبل ساری جائداد بیٹیوں کو چھوڑ کر صرف بیٹے میں تقسیم کر سکتے ہیں؟

 (سوال نمبر 4492)
کیا باپ مرنے سے قبل ساری جائداد بیٹیوں کو چھوڑ کر صرف بیٹے میں تقسیم کر سکتے ہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ والد نے اپنی وفات سے پہلے اپنی تمام جائیداد کو بیٹیوں سے پوچھے بغیر اپنے تمام بیٹوں میں تقسیم کردی۔ اب والد کی وفات کے بعد ایک بیٹا چاہتا ہے کہ وہ اپنی بہنوں کا جو حصہ شریعت میں ہے وہ اپنی بہنوں میں تقسیم کردے مگر بہنیں کہتی ہیں کہ ہم نے معاف کردیا ہے۔تو اس ساری صورتحال میں والد کے بغیر بیٹیوں سے پوچھے بیٹوں میں تقسیم کرنا اورہر بھائی کا تقسیم کرنے کا ارادہ کرنا اور پھر بہنوں کا یہ کہنا کہ ہم نے قبل از تقسیم معاف کردیا ہے۔برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- عبد السلیم صادق آباد پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

حالت حیات میں باپ کی ساری جائداد اس کی ملکیت ہے جسے چاہے دے پر باپ کو بیٹے بیٹیوں میں برابر تقسیم کرنی چاہئے چونکہ زندگی میں والد یا والدہ جو کچھ اپنی اولاد کو دیتے ہیں اس کی حیثیت وراثت کی نہیں ہوتی اس لیے کہ وراثت کی تقسیم مورث کی موت پر موقوف ہوتی ہے اور حیاتی میں دینا اس کی شرعی حیثیت ہبہ کی ہوتی ہے اور ہبہ کے حوالے سے شریعتِ مطہرہ نے والد ین کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنی اولاد میں برابری کریں کسی معقول شرعی عذر کے بغیر کسی کو کم اور کسی کو زیادہ یا کسی کو دینے اور کسی کو محروم رکھنے کا اختیار نہیں دیا ہے۔
مذکورہ صورت میں باپ نے جو صرف بیٹوں میں تقسیم کردیا ہے اگرچہ
پراپرٹی بیٹوں کے نام کردیا ہے یعنی والد کا تقسیم صرف کاغذی کاروائی کی حد تک ہے اس لئے غیر منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر اگرچہ بیٹوں کو قبضہ دے کر مالک بنادیا گیا ہے لیکن ازروئے حدیث شریف اس تقسیم کو منسوخ کرکے منصفانہ طور پر تقسیم کرنی ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے أَقُولُ: حَاصِلُ مَا ذَكَرَهُ فِي الرِّسَالَةِ الْمَذْكُورَةِ أَنَّهُ وَرَدَ فِي الْحَدِيثِ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَوُّوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ فِي الْعَطِيَّةِ، وَلَوْ كُنْت مُؤْثِرًا أَحَدًا لَآثَرْت النِّسَاءَ عَلَى الرِّجَالِ». رَوَاهُ سَعِيدٌ فِي سُنَنِهِ. وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ مِنْ حَدِيثِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ: «اتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِكُمْ». فَالْعَدْلُ مِنْ حُقُوقِ الْأَوْلَادِ فِي الْعَطَايَا، وَالْوَقْفُ عَطِيَّةٌ، فَيُسَوِّي بَيْنَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى؛ لِأَنَّهُمْ فَسَّرُوا الْعَدْلَ فِي الْأَوْلَادِ بِالتَّسْوِيَةِ فِي الْعَطَايَا حَالَ الْحَيَاةِ. وَفِي الْخَانِيَّةِ: وَلَوْ وَهَبَ شَيْئًا لِأَوْلَادِهِ فِي الصِّحَّةِ، وَأَرَادَ تَفْضِيلَ الْبَعْضِ عَلَى الْبَعْضِ رُوِيَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ لَا بَأْسَ بِهِ إذَا كَانَ التَّفْضِيلُ لِزِيَادَةِ فَضْلٍ فِي الدِّينِ، وَإِنْ كَانُوا سَوَاءً يُكْرَهُ. وَرَوَى الْمُعَلَّى عَنْ أَبِي يُوسُفَ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ إذَا لَمْ يَقْصِدْ الْإِضْرَارَ، وَإِلَّا سَوَّى بَيْنَهُمْ، وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى. وَقَالَ مُحَمَّدٌ: وَيُعْطِي لِلذَّكَرِ ضِعْفَ الْأُنْثَى، وَفِي التَّتَارْخَانِيَّة مَعْزِيًّا إلَى تَتِمَّةِ الْفَتَاوَى قَالَ: ذَكَرَ فِي الِاسْتِحْسَانِ فِي كِتَابِ الْوَقْفِ: وَيَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْدِلَ بَيْنَ أَوْلَادِهِ فِي الْعَطَايَا. وَالْعَدْلُ فِي ذَلِكَ التَّسْوِيَةُ بَيْنَهُمْ فِي قَوْلِ أَبِي يُوسُفَ، وَقَدْ أَخَذَ أَبُو يُوسُفَ حُكْمَ وُجُوبِ التَّسْوِيَةِ مِنْ الْحَدِيثِ، وَتَبِعَهُ أَعْيَانُ الْمُجْتَهِدِينَ، وَأَوْجَبُوا التَّسْوِيَةَ بَيْنَهُمْ وَقَالُوا: يَكُونُ آثِمًا فِي التَّخْصِيصِ وَفِي التَّفْضِيلِ، وَلَيْسَ عِنْدَ الْمُحَقِّقِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَذْهَبِ فَرِيضَةٌ شَرْعِيَّةٌ فِي بَابِ الْوَقْفِ إلَّا هَذِهِ بِمُوجِبِ الْحَدِيثِ الْمَذْكُورِ، وَالظَّاهِرُ مِنْ حَالِ الْمُسْلِمِ اجْتِنَابُ الْمَكْرُوهِ، فَلَاتَنْصَرِفُ الْفَرِيضَةُ الشَّرْعِيَّةُ فِي بَابِ الْوَقْفِ إلَّا إلَى التَّسْوِيَةِ، وَالْعُرْفُ لَايُعَارِضُ النَّصَّ. هَذَا خُلَاصَةُ مَا فِي هَذِهِ الرِّسَالَةِ، وَذَكَرَ فِيهَا أَنَّهُ أَفْتَى بِذَلِكَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ مُحَمَّدُ الْحِجَازِيُّ الشَّافِعِيُّ وَالشَّيْخُ سَالِمُ السَّنْهُورِيُّ الْمَالِكِيُّ وَالْقَاضِي تَاجُ الدِّينِ الْحَنَفِيُّ وَغَيْرُهُمْ اهـ ( مَطْلَبٌ مَتَى ذَكَرَ الْوَاقِفُ شَرْطَيْنِ مُتَعَارِضَيْنِ يُعْمَلُ بِالْمُتَأَخِّرِ، ٤ / ٤٤٤)
بہنوں کے کہنے سے کہ ہم اپنا حصہ معاف کرتے ہیں ان کا حصہ ساقط نہیں ہوگا۔
لہٰذا بہنوں کو انکا حصہ دے کر قبضہ دلادیں پھر اگر وہ اپنی خوشی سے اپنا حصہ چھوڑدیں تو یہ درست ہے
فتاوٰی شامی میں ہے 
 لو قال ترکت حقي من المیراث أو برئت منہا ومن حصتي لا یصح وہو علی حقہ لأن الإرث جبري لا یصح ترکہ (تکملہ رد المحتار: ۱۲/ ۱۱۶، کتاب الدعوی باب دعوة النسب)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
21/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area