(سوال نمبر 4447)
کیا صرف اعمال کی بنیاد پر لوگ جنت میں جاسکتے ہیں آقا علیہ السلام کی شفاعت کے بغیر؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
زید کا کہنا ہے کہ جب تک حضور ہماری شفاعت نہیں کریں گے ہم جنت میں نہیں جا سکتے اور بکر کا کہنا ہے کہ نہیں حضور کی شفاعت سے ہم نہیں جائیں گی حضور ہماری شفاعت نہیں کریں گے ہم اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں جائیں گے اگر ہمارا اعمال اچھا ہے تو ہم جنت میں جائیں گے اور اگر برا ہے تو ہم جہنم کے حقدار ہوں گے تو کیا قیامت کے دن حضور شفاعت فرمائیں گے تو ہی ہم جنت میں جائیں گے یا ہم اپنے اعمال کی وجہ سے اگر حضور شفاعت کریں گے تو عبادت کی کیا ضرورت اور اگر عبادت کی وجہ سے ہم جنت میں جائیں گے تو حضور ہماری شفاعت کیوں کریں گے؟ برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- حافظ محمد نوشاد چشتی سیتا مڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
شفاعت کے کئی معانی ہیں اور آقا علیہ السلام کئی قسم کی شفاعت فرمائیں گے۔ اعمال تو اولا ضروری ہے اعمال کے بعد بھی حضور کی شفاعت کی ضرورت ہوگئ بکر غلط ہے ۔کوئی امتی ایسی نہیں جن کے سارے اعمال اچھے ہوں
ہھر اعمال برے بھی ہوں آقا علیہ السلام جسے چاہیں گے جنت میں داخل فرمائیں گے جیسا کہ بہت سے عاصی۔۔۔ آقا کی شفاعت پر جنت میں جائیں گے یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
اس بات کا عقیدہ رکھنا واجب ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایسے شفاعت فرمانے والےہیں جن کی شفاعت قبول کی جائے گی
جو نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفاعت کا منکر ہو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں اس لئے کہ وہ کافر ہے۔
کیا صرف اعمال کی بنیاد پر لوگ جنت میں جاسکتے ہیں آقا علیہ السلام کی شفاعت کے بغیر؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
زید کا کہنا ہے کہ جب تک حضور ہماری شفاعت نہیں کریں گے ہم جنت میں نہیں جا سکتے اور بکر کا کہنا ہے کہ نہیں حضور کی شفاعت سے ہم نہیں جائیں گی حضور ہماری شفاعت نہیں کریں گے ہم اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں جائیں گے اگر ہمارا اعمال اچھا ہے تو ہم جنت میں جائیں گے اور اگر برا ہے تو ہم جہنم کے حقدار ہوں گے تو کیا قیامت کے دن حضور شفاعت فرمائیں گے تو ہی ہم جنت میں جائیں گے یا ہم اپنے اعمال کی وجہ سے اگر حضور شفاعت کریں گے تو عبادت کی کیا ضرورت اور اگر عبادت کی وجہ سے ہم جنت میں جائیں گے تو حضور ہماری شفاعت کیوں کریں گے؟ برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- حافظ محمد نوشاد چشتی سیتا مڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
شفاعت کے کئی معانی ہیں اور آقا علیہ السلام کئی قسم کی شفاعت فرمائیں گے۔ اعمال تو اولا ضروری ہے اعمال کے بعد بھی حضور کی شفاعت کی ضرورت ہوگئ بکر غلط ہے ۔کوئی امتی ایسی نہیں جن کے سارے اعمال اچھے ہوں
ہھر اعمال برے بھی ہوں آقا علیہ السلام جسے چاہیں گے جنت میں داخل فرمائیں گے جیسا کہ بہت سے عاصی۔۔۔ آقا کی شفاعت پر جنت میں جائیں گے یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
اس بات کا عقیدہ رکھنا واجب ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایسے شفاعت فرمانے والےہیں جن کی شفاعت قبول کی جائے گی
جو نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفاعت کا منکر ہو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں اس لئے کہ وہ کافر ہے۔
(بحرالرائق،ج 1،ص611 ملتقطاً)
جب تک ہمارے حضور پُر نور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم شفاعت کا دروازہ نہیں کھولیں گے کسی کو بھی شفاعت کی اجازت نہ ہوگی۔ (المعتقد المنتقد،ص240)
اس بات پر ایمان رکھنا بھی واجب ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ انبیا و ملائکہ اور عُلَما و شُہدا، صالحین اور کثیر مؤمنین، قراٰنِ مجید روزے اور کعبۃُ اللہ وغیرہ سب شفاعت کریں گے۔ (المعتقد المنتقد،ص247)
لہذا صرف عمل کی بنیاد پر جنت میں جایا جا سکتا ہے پر اسے بھی اقا علیہ السلام کی ضروت ہوگی چونکہ جنت کا دروازہ اپ ہی کھیلیں گے پہلے جنت میں اپ ہی جائیں گے شفاعت کی حاجت ہر ایک کو ہوگی چاہئے جس قسم کی شفاعت کی جاجت ہو ۔
شفاعت کی دو بڑی قسمیں مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: شفاعت دو قسم کی ہے: شفاعتِ کُبریٰ اور شفاعتِ صُغریٰ۔ شفاعتِ کُّبریٰ صرف حضور (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کریں گے، اس شفاعت کا فائدہ ساری خلقت حتیّٰ کہ کفّارکو بھی پہنچے گا کہ اس شفاعت کی برکت سے حساب کتاب شُروع ہوجاۓ گا اور قِیامت کے میدان سے نَجات ملے گی، یہ شفاعت حضور ہی کریں گے، اس وقت کوئی نبی اس شفاعت کی جرأت نہ فرمائیں گے۔ شفاعتِ صُغریٰ ظہورِ فضل کے وقت ہو گی،یہ شفاعت بہت لوگ بلکہ قراٰن، رَمَضان، خانۂ کعبہ بھی کریں گے۔حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم رفع درجات کے لئے صالحین حتّٰی کہ نبیوں کی بھی شفاعت فرمائیں گے اور گُناہوں کی معافی کے لئے ہم گنہگاروں کی شفاعت کریں گے لہٰذا آپ کی شفاعت سے انبیاءِ کرام بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا شَفَاعَۃَ حَبِیْبِکَ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔حضور کی شفاعت ہم گنہگاروں کا سہارا ہے۔
جب تک ہمارے حضور پُر نور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم شفاعت کا دروازہ نہیں کھولیں گے کسی کو بھی شفاعت کی اجازت نہ ہوگی۔ (المعتقد المنتقد،ص240)
اس بات پر ایمان رکھنا بھی واجب ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ انبیا و ملائکہ اور عُلَما و شُہدا، صالحین اور کثیر مؤمنین، قراٰنِ مجید روزے اور کعبۃُ اللہ وغیرہ سب شفاعت کریں گے۔ (المعتقد المنتقد،ص247)
لہذا صرف عمل کی بنیاد پر جنت میں جایا جا سکتا ہے پر اسے بھی اقا علیہ السلام کی ضروت ہوگی چونکہ جنت کا دروازہ اپ ہی کھیلیں گے پہلے جنت میں اپ ہی جائیں گے شفاعت کی حاجت ہر ایک کو ہوگی چاہئے جس قسم کی شفاعت کی جاجت ہو ۔
شفاعت کی دو بڑی قسمیں مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: شفاعت دو قسم کی ہے: شفاعتِ کُبریٰ اور شفاعتِ صُغریٰ۔ شفاعتِ کُّبریٰ صرف حضور (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کریں گے، اس شفاعت کا فائدہ ساری خلقت حتیّٰ کہ کفّارکو بھی پہنچے گا کہ اس شفاعت کی برکت سے حساب کتاب شُروع ہوجاۓ گا اور قِیامت کے میدان سے نَجات ملے گی، یہ شفاعت حضور ہی کریں گے، اس وقت کوئی نبی اس شفاعت کی جرأت نہ فرمائیں گے۔ شفاعتِ صُغریٰ ظہورِ فضل کے وقت ہو گی،یہ شفاعت بہت لوگ بلکہ قراٰن، رَمَضان، خانۂ کعبہ بھی کریں گے۔حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم رفع درجات کے لئے صالحین حتّٰی کہ نبیوں کی بھی شفاعت فرمائیں گے اور گُناہوں کی معافی کے لئے ہم گنہگاروں کی شفاعت کریں گے لہٰذا آپ کی شفاعت سے انبیاءِ کرام بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا شَفَاعَۃَ حَبِیْبِکَ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔حضور کی شفاعت ہم گنہگاروں کا سہارا ہے۔
(مراٰۃُ المناجیح،ج7،ص403 ملتقطاً)
شفاعتِ کبریٰ کی کیفیت صدرُالشریعہ حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:قِیامت کے دن مرتبَۂ شفاعتِ کُبریٰ حضور(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے خَصائص سے ہے۔ شفاعتِ کُبریٰ مومن، کافر، مُطِیع، عاصی سب کے لئے ہے کہ وہ انتِظارِ حساب جو سَخْت جانگزا ہوگا، جس کے لئے لوگ تمنّائیں کریں گے کہ کاش جہنّم میں پھینک دیئے جاتے اور اس اِنتِظار سے نَجات پاتے، اِس بلا سے چُھٹکارا کفّار کو بھی حضور (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی بدولت ملے گا، جس پر اَوّلین و آخرین، موافقین و مخالفین، مؤمنین و کافرین سب حضور (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی حمد کریں گے، اِسی کا نام مقامِ محمود ہے۔
شفاعتِ کبریٰ کی کیفیت صدرُالشریعہ حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:قِیامت کے دن مرتبَۂ شفاعتِ کُبریٰ حضور(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے خَصائص سے ہے۔ شفاعتِ کُبریٰ مومن، کافر، مُطِیع، عاصی سب کے لئے ہے کہ وہ انتِظارِ حساب جو سَخْت جانگزا ہوگا، جس کے لئے لوگ تمنّائیں کریں گے کہ کاش جہنّم میں پھینک دیئے جاتے اور اس اِنتِظار سے نَجات پاتے، اِس بلا سے چُھٹکارا کفّار کو بھی حضور (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی بدولت ملے گا، جس پر اَوّلین و آخرین، موافقین و مخالفین، مؤمنین و کافرین سب حضور (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی حمد کریں گے، اِسی کا نام مقامِ محمود ہے۔
(بہارِ شریعت،ج 1،ص70)
فتاوٰی رضویہ میں ہے
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! تُو جانتا ہے، بیشک تُو نے ہدایت عطا فرمائی ہے، تو ہم تیرے حبیب محمد ِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفاعت پر ایمان لائے ہیں۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمیں دُنیا و آخِرت میں لائقِ شفاعت بنادے۔
فتاوٰی رضویہ میں ہے
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! تُو جانتا ہے، بیشک تُو نے ہدایت عطا فرمائی ہے، تو ہم تیرے حبیب محمد ِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفاعت پر ایمان لائے ہیں۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمیں دُنیا و آخِرت میں لائقِ شفاعت بنادے۔
(فتاویٰ رضویہ،ج 29،ص 585)
شفاعت کئی طرح کی ہے ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفاعتیں کئی طرح کی ہوں گی چنانچہ حضرت علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلَوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی شفاعت کی قسمیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: شَفاعت کی پہلی قسم شَفاعَتِ عُظْمیٰ ہے۔ دوسری قسم کی شَفاعت ایک قوم کو بے حساب جنَّت میں داخِل کروانے کے لئے ہوگی اور یہ شَفاعت بھی ہمارے نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے ثابِت ہے اور بعض عُلَمائےکرام کے نزدیک یہ شَفاعت حُضُورِ انور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی کے ساتھ خاص ہے۔ تیسری قسم کی شَفاعت اُن لوگوں کے بارے میں ہوگی کہ جن کی نیکیاں اور بُرائیاں برابر برابر ہوں گی اور شَفاعت کی مدد سے جنَّت میں داخِل ہوں گے۔ چوتھی قسم کی شَفاعت اُن لوگوں کے لئے ہوگی جو کہ دوزخ کے حق دار ہوچکے ہوں گے تو حضورِ پُرنور، شافعِ یومُ النُّشور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم شَفاعَت فرما کر اُن کو جنَّت میں لائیں گے۔ پانچویں قسم کی شَفاعت مرتبے کی بُلندی اور بُزُرگی کے اضافے کے لئے ہوگی۔ چھٹی قسم کی شَفاعت اُن گنہگاروں کے بارے میں ہوگی جو کہ جہنَّم میں پہُنچ چکے ہوں گے اورشَفاعت کی وجہ سے نکل آئیں گے اور اِس طرح کی شَفَاعت دیگرانبیائےکرام علیہم الصلوٰۃ و السلام، فِرِشتے، عُلَما اور شُہَدابھی فرمائیں گے۔ ساتویں قسم کی شَفاعت جنَّت کا دروازہ کھولنے کے بارے میں ہوگی۔ آٹھویں قسم کی شَفاعت خاص کر مدینۂ منوّرہ زادھا اللہ شرفاً و تعظیماً والوں اور نبیِّ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے روضۂ انور کی زیارت کرنے والوں کیلئے خُصُوصی طریقے پر ہوگی۔ (اشعۃ اللمعات،ج 4،ص404 ملخصاً)
شفاعت کی اقسام کے متعلق مراٰۃ المناجیح میں ہے : ”حُضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت نو قسم کی ہے:(1) حساب شروع کرانے کے لیے جس کا فائدہ سب کو ہوگا(2)بے حساب جنتیوں کو جنت میں پہنچانے کے لیے(3)جن کی نیکیاں بدیاں برابر ہوں ان کی نیکی کا پلہ وزنی کرانے کے لیے(4)ہم جیسے دوزخ کے لائق لوگوں کو چھڑانے کے لیے(5)صالحین کے درجے بلند کرانے کے لیے(6)دوزخ میں گرے ہوئے گنہگاروں کو وہاں سے نکلوانے کے لیے(7)جنت کا دروازہ کھلوانے کے لیے(8)اہل مدینہ اور زائرین روضۂ رسول کو اپنا قرب دلوانے کے لیے۔ (9) بعض کفار کا عذاب ہلکا کرانے کے لیے۔“
شفاعت کئی طرح کی ہے ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفاعتیں کئی طرح کی ہوں گی چنانچہ حضرت علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلَوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی شفاعت کی قسمیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: شَفاعت کی پہلی قسم شَفاعَتِ عُظْمیٰ ہے۔ دوسری قسم کی شَفاعت ایک قوم کو بے حساب جنَّت میں داخِل کروانے کے لئے ہوگی اور یہ شَفاعت بھی ہمارے نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے ثابِت ہے اور بعض عُلَمائےکرام کے نزدیک یہ شَفاعت حُضُورِ انور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی کے ساتھ خاص ہے۔ تیسری قسم کی شَفاعت اُن لوگوں کے بارے میں ہوگی کہ جن کی نیکیاں اور بُرائیاں برابر برابر ہوں گی اور شَفاعت کی مدد سے جنَّت میں داخِل ہوں گے۔ چوتھی قسم کی شَفاعت اُن لوگوں کے لئے ہوگی جو کہ دوزخ کے حق دار ہوچکے ہوں گے تو حضورِ پُرنور، شافعِ یومُ النُّشور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم شَفاعَت فرما کر اُن کو جنَّت میں لائیں گے۔ پانچویں قسم کی شَفاعت مرتبے کی بُلندی اور بُزُرگی کے اضافے کے لئے ہوگی۔ چھٹی قسم کی شَفاعت اُن گنہگاروں کے بارے میں ہوگی جو کہ جہنَّم میں پہُنچ چکے ہوں گے اورشَفاعت کی وجہ سے نکل آئیں گے اور اِس طرح کی شَفَاعت دیگرانبیائےکرام علیہم الصلوٰۃ و السلام، فِرِشتے، عُلَما اور شُہَدابھی فرمائیں گے۔ ساتویں قسم کی شَفاعت جنَّت کا دروازہ کھولنے کے بارے میں ہوگی۔ آٹھویں قسم کی شَفاعت خاص کر مدینۂ منوّرہ زادھا اللہ شرفاً و تعظیماً والوں اور نبیِّ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے روضۂ انور کی زیارت کرنے والوں کیلئے خُصُوصی طریقے پر ہوگی۔ (اشعۃ اللمعات،ج 4،ص404 ملخصاً)
شفاعت کی اقسام کے متعلق مراٰۃ المناجیح میں ہے : ”حُضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت نو قسم کی ہے:(1) حساب شروع کرانے کے لیے جس کا فائدہ سب کو ہوگا(2)بے حساب جنتیوں کو جنت میں پہنچانے کے لیے(3)جن کی نیکیاں بدیاں برابر ہوں ان کی نیکی کا پلہ وزنی کرانے کے لیے(4)ہم جیسے دوزخ کے لائق لوگوں کو چھڑانے کے لیے(5)صالحین کے درجے بلند کرانے کے لیے(6)دوزخ میں گرے ہوئے گنہگاروں کو وہاں سے نکلوانے کے لیے(7)جنت کا دروازہ کھلوانے کے لیے(8)اہل مدینہ اور زائرین روضۂ رسول کو اپنا قرب دلوانے کے لیے۔ (9) بعض کفار کا عذاب ہلکا کرانے کے لیے۔“
(مراٰۃ المناجیح ، ج7 ، ص404 ، ضیاء القراٰن پبلی کیشنز ، لاھور)
شفاعت اور لوگوں کے درمیان جنت و دوزخ کا فیصلہ ہو جانے کے بعد جنت کا دروازہ کھلوانے اور جنت میں داخلے سے متعلق صحیح مسلم کی حدیث میں ہے
يقوم المؤمنون حتى تُزلَفَ لهم الجنة، فيأتون آدم، فيقولون: يا أبانا، استفتح لنا الجنة ۔۔۔ فيأتون محمدا صلى الله عليه وسلم، فيقوم فيؤذن له، ملخصا “ یعنی جب مسلمانوں کا حساب کتاب اور ان کا فیصلہ ہو چکے گا ، جنت ان سے نزدیک کی جائے گی ۔ مسلمان حضرت آدم علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ اے ہمارے والدِ کریم ، آپ حق سبحانہ سے عرض کر کے ہمارے لیے جنت کا دروازہ کھلوا دیجیے ۔۔۔ پھر مسلمان نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے ، تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کھڑے ہوں گے ، پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اجازت دی جائے گی ۔
شفاعت اور لوگوں کے درمیان جنت و دوزخ کا فیصلہ ہو جانے کے بعد جنت کا دروازہ کھلوانے اور جنت میں داخلے سے متعلق صحیح مسلم کی حدیث میں ہے
يقوم المؤمنون حتى تُزلَفَ لهم الجنة، فيأتون آدم، فيقولون: يا أبانا، استفتح لنا الجنة ۔۔۔ فيأتون محمدا صلى الله عليه وسلم، فيقوم فيؤذن له، ملخصا “ یعنی جب مسلمانوں کا حساب کتاب اور ان کا فیصلہ ہو چکے گا ، جنت ان سے نزدیک کی جائے گی ۔ مسلمان حضرت آدم علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ اے ہمارے والدِ کریم ، آپ حق سبحانہ سے عرض کر کے ہمارے لیے جنت کا دروازہ کھلوا دیجیے ۔۔۔ پھر مسلمان نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے ، تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کھڑے ہوں گے ، پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اجازت دی جائے گی ۔
(الصحیح لمسلم ، ج1 ، ص186 ، الحدیث329 - (195) ، دار احياء التراث العربی ، بيروت)
صحیح مسلم کی حدیث اَنا اوّلُ مَن یَّقرَعُ بَابَ الجَنۃ (میں پہلا وہ ہوں ، جو جنت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا) کی شرح میں مراٰۃ المناجیح میں ہے یعنی دروازۂ جنت ہم ہی کھلوائیں گے ۔ حُضورِ انور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے پہلے دروازۂ جنت پر نبیوں اور امتوں کا میلہ لگ چکا ہو گا ۔ حُضورِ انور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ابھی محشر میں ہوں گے ، گرتوں کو سنبھالنے، گنہگاروں کو بخشوانے، فریادیوں کی فریاد رسی میں مشغول ہوں گے ۔ اُدھر دروازۂ جنت بند ہو گا ، حُضور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی آمد کا انتظار ہو گا ، آپ کے آنے پر دھوم مچ جاوے گی ، آپ کے کھلوانے پر دروازۂ جنت کھلے گا ، پہلے حُضور تشریف لے جائیں گے ، پھر دوسرے نبی ، پھر حُضور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی امت ، پھر دوسری امتیں ۔ اللہ تعالٰی جنت کھلنے کا یہ نظارہ ہم کو بھی نصیب کرے ۔ (آمین) “
صحیح مسلم کی حدیث اَنا اوّلُ مَن یَّقرَعُ بَابَ الجَنۃ (میں پہلا وہ ہوں ، جو جنت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا) کی شرح میں مراٰۃ المناجیح میں ہے یعنی دروازۂ جنت ہم ہی کھلوائیں گے ۔ حُضورِ انور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے پہلے دروازۂ جنت پر نبیوں اور امتوں کا میلہ لگ چکا ہو گا ۔ حُضورِ انور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ابھی محشر میں ہوں گے ، گرتوں کو سنبھالنے، گنہگاروں کو بخشوانے، فریادیوں کی فریاد رسی میں مشغول ہوں گے ۔ اُدھر دروازۂ جنت بند ہو گا ، حُضور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی آمد کا انتظار ہو گا ، آپ کے آنے پر دھوم مچ جاوے گی ، آپ کے کھلوانے پر دروازۂ جنت کھلے گا ، پہلے حُضور تشریف لے جائیں گے ، پھر دوسرے نبی ، پھر حُضور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی امت ، پھر دوسری امتیں ۔ اللہ تعالٰی جنت کھلنے کا یہ نظارہ ہم کو بھی نصیب کرے ۔ (آمین) “
(مراٰۃ المناجیح ، ج8 ، ص6 ، ضیاء القراٰن پبلی کیشنز ، لاھور)
سنن ترمذی اور سنن دارِمی کی حدیث ” اَنا اوّلُ مَن یُّحَرِّکُ حِلَقَ الجَنۃ فَیَفْتَحُ اللہُ فَیُدْخِلْنِیْھا (میں پہلا وہ شخص ہوں ، جو جنت کی زنجیر ہلائے گا ، تب الله کھولے گا ، پھر اس میں مجھے داخل کرے گا) کی شرح میں مراٰۃ المناجیح میں ہے : ”ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ سارے نبی اور ان کی امتیں جنت کے دروازہ پر حُضورِ انور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے پہلے پہنچ جائیں گے، حُضورِ انور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اپنے گنہگاروں کو بخشوانے ، نیکیوں کے ہلکے پلے بھاری کرانے ، صراط پر گرتوں کو سنبھالنے میں مصروف ہوں گے ، مگر دروازۂ جنت بند ہو گا ، داروغۂ جنت دروازے کے اندر ہو گا ، کسی کو زنجیر ہلانے بجانے کی جرأت نہ ہو گی ، ہمت و جرأت والے نبی کا انتظار ہو گا ، حُضور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پہنچ کر دروازہ کھلوائیں گے۔
سنن ترمذی اور سنن دارِمی کی حدیث ” اَنا اوّلُ مَن یُّحَرِّکُ حِلَقَ الجَنۃ فَیَفْتَحُ اللہُ فَیُدْخِلْنِیْھا (میں پہلا وہ شخص ہوں ، جو جنت کی زنجیر ہلائے گا ، تب الله کھولے گا ، پھر اس میں مجھے داخل کرے گا) کی شرح میں مراٰۃ المناجیح میں ہے : ”ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ سارے نبی اور ان کی امتیں جنت کے دروازہ پر حُضورِ انور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے پہلے پہنچ جائیں گے، حُضورِ انور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اپنے گنہگاروں کو بخشوانے ، نیکیوں کے ہلکے پلے بھاری کرانے ، صراط پر گرتوں کو سنبھالنے میں مصروف ہوں گے ، مگر دروازۂ جنت بند ہو گا ، داروغۂ جنت دروازے کے اندر ہو گا ، کسی کو زنجیر ہلانے بجانے کی جرأت نہ ہو گی ، ہمت و جرأت والے نبی کا انتظار ہو گا ، حُضور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پہنچ کر دروازہ کھلوائیں گے۔
(مراٰۃ المناجیح ، ج8 ، ص27 ، ضیاء القراٰن پبلی کیشنز ، لاھور)
علامہ محمد یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب جواہر البحار میں علامہ عبد الرؤوف مَناوی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں : ”قد ثبت فی الخبر ان دخول المصطفٰی یتعدد ، فدخول لا یتقدمہ و لا یشارکہ فیہ احد “ یعنی احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جنت میں تشریف لے جانا بار بار ہو گا ۔ ایک بار جانا تو وہ ہو گا ، جس میں کوئی دوسرا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پہلے یا آپ کے ساتھ داخل نہیں ہو گا ، (بلکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی سب سے پہلے جنت میں جائیں گے ) ۔(جواھر البحار (عربی) ، ص494 ، دار الکتب ، المصریۃ)
(ایسا ہی فتاوی اہل سنت میں ہے)
والله ورسوله اعلم بالصواب
علامہ محمد یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب جواہر البحار میں علامہ عبد الرؤوف مَناوی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں : ”قد ثبت فی الخبر ان دخول المصطفٰی یتعدد ، فدخول لا یتقدمہ و لا یشارکہ فیہ احد “ یعنی احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جنت میں تشریف لے جانا بار بار ہو گا ۔ ایک بار جانا تو وہ ہو گا ، جس میں کوئی دوسرا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پہلے یا آپ کے ساتھ داخل نہیں ہو گا ، (بلکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی سب سے پہلے جنت میں جائیں گے ) ۔(جواھر البحار (عربی) ، ص494 ، دار الکتب ، المصریۃ)
(ایسا ہی فتاوی اہل سنت میں ہے)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
17/09/2023
17/09/2023