Type Here to Get Search Results !

کیا میلاد مصطفے ادلہ اربعہ سے ثابت ہے؟


(سوال نمبر 4506)
کیا میلاد مصطفے ادلہ اربعہ سے ثابت ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
 میلاد مصطفے ادلہ اربعہ سے ثابت ہے اگر ہے تو ہر ایک کی دلیل کے ساتھ اسکا ثبوت پیش فرمائیں۔
سائل:-محبوب باشا آندھرا پردیش انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل
شریعت کے دلائل چار ہیں اور چاروں سے میلاد مصطفی ثابت ہے۔
(1) قرآن (2) حدیث (3) اجماع (4) قیاس 
پہلے آپ یہ جان لیں کہ مروجہ جشن عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ قرونِ اُوليٰ میں اِس شکل میں موجود نہیں تھا جس ہیئت میں آج موجود ہے لیکن چوں کہ قرآن حکیم کی تلاوت، ذِکرِ اِلٰہی، تذکارِ رسالت، ثنا خوانی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صدقہ و خیرات کرنا، فقراء و مساکین کو کھانا کھلانا جیسے اَعمال اِس جشن کے مشتملات ہیں، اور اِن میں سے کوئی اَمر بھی شریعت میں ممنوع نہیں، لہٰذا یہ ایک جائز، مشروع اور مستحسن عمل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سابقہ اَدوار کے لوگ اپنے رسوم و رواج اور ثقافت کے مطابق نعمتِ عظميٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملنے کے دن شکرِ اِلٰہی بجا لاتے تھے، جب کہ موجودہ دور میں جس طرح زندگی کے ہر گوشہ میں تبدیلی رُونما ہوئی ہے اُسی طرح جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے اَطوار بھی تبدیل ہوئے ہیں۔
میلاد کا جواز بکثرت آیات و احادیث اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہے اگرچہ جواز کے لئے یہ دلیل بھی کافی ہے کہ اس کی ممانعت شرع سے ثابت نہیں ہے اور جس کام سے اللّٰہ تَعَالٰی اور رسولِ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے منع نہیں فرمایا وہ کسی کے منع کرنے سے ممنوع نہیں ہوسکتا آیاتِ قرآنِ مجید آقائے نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
 وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کی آمد کے ذکرِ خیر سے مالامال ہیں چُنانچہ پارہ 11سورۂ یونس کی آیت 58 میں ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ- (پ۱۱،يونس:۵۸)
ترجمۂ کنزالایمان :
 تم فرماؤ اللّٰہ ہی کے فضل اوراسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ فضل و رحمت پر خوشی کرنا چاہیے لہٰذا مسلمان حضورِ انور، شافعِ محشر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کو فضل ورحمت جان کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کا ذکر کر کے خوشی مناتے ہیں اور یہ حکمِ الٰہی ہے۔
چُنانچہ اللّٰہ تَعَالٰی ارشاد فرماتا ہے
وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۠(۱۱)(پ٣٠،الضحٰى:۱۱)
ترجمۂ کنزالایمان :
اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔
نبی کریم ، رءوف رَّحیم،حلیم کریم عظیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم اللّٰہ تَعَالٰی کی عظیم ترین نعمت ہیں اور نعمتِ الٰہی کا چرچا کرنا حکمِ خداوندی ہے۔ لہٰذا مسلمان حبیبِ اکرم، نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کو نعمتِ الٰہی سمجھتے ہوئے محفلِ میلاد کی صورت میں اسکا چرچا کرتے ہیں۔
جشن میلاد النبی ﷺ کا احادیث سے استدلال
١/ اَحادیثِ یومِ عاشورہ سے جشنِ میلاد پر اِستدلال
حضور نبی اکرم ﷺ عالمِ انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا فضل، رحمت اور اِحسانِ عظیم ہیں۔ اُمتِ مسلمہ پر واجب ہے کہ وہ اس نعمتِ عظمیٰ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے کیوں کہ شکر اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اور کسی عطا پر اس کا شکر بجا لانا سنتِ انبیاء ہے جیسا کہ احادیثِ صومِ عاشورہ سے واضح ہے۔ اِظہارِ تشکر کے کئی طریقے ہیں: انفرادی طور پر بندہ رب کریم کا شکر ادا کرنے کے لیے نفلی عبادات اور خیرات و عطیات کو ذریعہ اظہار بناتا ہے مگر جو فضل و احسان امت پر اجتماعی سطح پر ہوا ہو اس کا اظہارِ تشکر بھی اجتماعی طریقے سے کیا جاتا ہے۔ چوں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت و بعثت پور ی کائناتِ انسانی پر اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم اور فضل عمیم ہے اس لیے اس نعمتِ عظمیٰ پر الله عزوجل کا شکر اجتماعی طور پر ادا کرنا واجب ہے۔ اور جو عمل اجتماعی نوعیت کا ہو اس کی ہیئت ترکیبی کی بنیاد معاشرتی تہذیب و ثقافت پر رکھی جاتی ہے۔ یومِ میلادالنبی ﷺ ثقافتی طور پر عید کی طرح جوش و جذبے سے جشن کے انداز میں منایا جاتا ہے۔ میلادالنبی ﷺ کے موقع پر جشن منانے کی تہذیبی تاریخ مختلف معاشروں کے طریقہ ہائے اظہارِ تشکر پر مبنی ہے اور اس کا اِستدلال سابقہ امتوں کے مماثل رویوں سے منسلک ہے۔ 
یوم عاشورہ وہ ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح عطا کی اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کر دیا۔ یوں بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات ملی۔ چناں چہ یہ دن حضرت موسی علیہ السلام کی فتح کا دن بھی تھا اور قوم بنی اسرائیل کی آزادی کاد ن بھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا۔
جب حضور ﷺ نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ ﷺ نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ ﷺ نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرما ئی تو انہوں نے مذکورہ بالا وجہ بیان کی۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ 
یہاں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر یہود اپنے پیغمبر کی فتح اور اپنی آزادی و نجات کا دن قابلِ تعظیم سمجھ کر اسے منانے کا حق رکھتے ہیں تو مسلمان اپنے نبی ﷺ کا یومِ میلاد قابلِ تعظیم سمجھ کر اُسے منانے کا بہ درجہ اَتم حق رکھتے ہیں
حضور ﷺ کا خود نسبتِ موسیٰ علیہ السلام کے سبب سے دن منانا
مذکورہ بالا اَحادیث سے حضور ﷺ کا میلاد منانے کی ایک اور دلیل بھی اَخذ ہوتی ہے۔ حضور ﷺ نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اِس دن کو منایا اور روزہ رکھا۔ اس سے کسی عظیم دن کو منانے کا جواز خود سنتِ مصطفیٰ ﷺ سے مل رہا ہے۔ اور اہلِ ایمان کے لیے یومِ میلادِ مصطفیٰ ﷺ سے بڑھ کر اور کون سا دن عظیم ہوسکتا ہے! لہٰذا یومِ میلادالنبی ﷺ منانا بھی اِتباعِ سنتِ مصطفیٰ ﷺ کے زمرے میں آتا ہے۔
 حافظ اِبن حجر عسقلانی کا اِستدلال نقل کرتے ہوئے اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) لکھتے ہیں
وقد سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبوالفضل ابن حجر عن عمل المولد، فأجاب بما نصه: قال
وقد ظهر لي تخريجها علي أصل ثابت، وهو ما ثبت في الصحيحين من: ’’أن النبي ﷺ قدم المدينة، فوجد اليهود يصومون يوم عاشوراء، فسألهم، فقالوا: هو يوم أغرق الله فيه فرعون، ونجّي موسي، فنحن نصومه شکرًا ﷲ تعالي.
فيستفاد منه فعل الشکر ﷲ تعالي علي ما منَّ به في يوم معيّن من إسداء نعمة، أو دفع نقمة، ويعاد ذلک في نظير ذلک اليوم من کل سنة.
والشکر ﷲ تعالي يحصل بأنواع العبادات کالسجود والصيام والصدقة والتلاوة، وأيّ نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبي ﷺ الذي هو نبي الرحمة في ذلک اليوم.
(1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد: 63)
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي: 205، 206
3. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد ﷺ ، 1: 366
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 263
5. احمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1: 54
6. نبهاني، حجة الله علي العالمين في معجزات سيد المرسلين ﷺ: 237)
شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد شریف کے عمل کے حوالہ سے پوچھا گیا تو آپ نے اس کا جواب کچھ یوں دیا
مجھے میلاد شریف کے بارے میں اصل تخریج کا پتہ چلا ہے۔ ’’صحیحین‘‘ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن الله تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، سو ہم الله تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کے لیے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ الله تعالیٰ کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں الله تعالیٰ کا شکر بجا لانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے۔
الله تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ اور تلاوتِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت ﷺ کی ولادت سے بڑھ کر الله کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے؟ اس لیے اس دن ضرور شکرانہ بجا لانا چاہیے۔
جشنِ میلاد کی بابت پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے حافظ عسقلانی (773۔ 852ھ) نے میلادالنبی ﷺ منانے کی بنیاد ان اَحادیث کو بنایا ہے جو ’’صحیحین‘‘ میں متفقہ طور پر روایت ہوئیں۔ ان احادیث میں حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو ملنے والی عظیم نعمت اور فتح پر اِظہارِ تشکر کرنے اور اس دن کو عید کے طور پر منانے کی تائید و توثیق فرماتے ہوئے اس عمل کو اپنی سنت کا درجہ دے دیا۔ جب رسولِ معظم حضور نبی اکرم ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے، کیا اس دن سے زیادہ کوئی اور بڑی نعمت ہوسکتی ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ یومِ میلادِ مصطفیٰ ﷺ کو عید کے طور پر نہ منایا جائے! 
حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) کے موقف کی تائید اِمام سیوطی (849۔ 911ھ) نے ’’الحاوی للفتاوی (ص: 205، 206)‘‘ میں کی ہے۔ حافظ عسقلانی نے صومِ عاشورہ سے جو اِستدلال کیا ہے اس میں باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کامیابی گزشتہ زمانہ کے معین یومِ عاشورہ کو ہوئی تھی مگر پورے سال میں صرف اسی روز کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس نعمت کا شکر ہر سال اسی روز ادا کیا جائے۔ اس سے ثابت ہے کہ گو یہ واقعہ کا اعادہ نہیں مگر اس کی برکت کا اِعادہ ضرور ہوتا ہے جس پر دلیل یہ ہے کہ ہر پیر کے روز ابو لہب کے لیے میلاد کی برکت کا اعادہ ہوتا ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
22/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area