(سوال نمبر 4551)
کیا جہیز وراثت کا بدل ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان کرام فرمائیں اس مسئلہ کے متعلق کہ
ہمارے ہاں بیٹیوں کو عموماً وراثت میں ان کا حق اور حصہ نہیں دیا جاتا اور اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہم نے ان کا جو حق بنتا تھا وہ جہیز کی صورت میں دے دیا تو اس طرح سے بیٹیوں کو ان کے شرعی حق سے محروم کرنا کیسا ہے اور ہمارا دین اس کے بارے میں کیا حکم دیتا ہے؟؟
سائلہ:- بنت عطا شہر کا نام کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جہیز وراثت کا بدل نہیں بلکہ وراثت لڑکی کی ملکیت ہے اس پر بھائی اور اس کے گھر والوں کا کوئی حق نہیں ہوتا ۔ لاکھوں کا جہیز بھی بیٹی کو حق وراثت سے محروم نہیں کر سکتا ہے
قرآن مجید میں ہے
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا (النساءآیۃ: 7)
مردوں کے لیے بھی حصہ ہے اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جاویں۔ اور عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جاویں خواہ وہ چیز قلیل ہو یا کثیر ہو حصہٴ قطعی
قرآن میں ہے
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ"
(النساء: 11)
اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے باب میں لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصہ کے برابر.
اللہ کا ارشاد ہے
وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ (النساء: 14)
اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہنا نہ مانے گا اور بالکل ہی اس کے ضابطوں سے نکل جاوے گا اسے آگ میں داخل کیا جائے گا اس طور سے کہ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ایسی سزا ہوگی جس میں ذلت بھی ہے۔
ابن ماجہ میں ہے
عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من فر من ميراث وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة
کیا جہیز وراثت کا بدل ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان کرام فرمائیں اس مسئلہ کے متعلق کہ
ہمارے ہاں بیٹیوں کو عموماً وراثت میں ان کا حق اور حصہ نہیں دیا جاتا اور اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہم نے ان کا جو حق بنتا تھا وہ جہیز کی صورت میں دے دیا تو اس طرح سے بیٹیوں کو ان کے شرعی حق سے محروم کرنا کیسا ہے اور ہمارا دین اس کے بارے میں کیا حکم دیتا ہے؟؟
سائلہ:- بنت عطا شہر کا نام کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جہیز وراثت کا بدل نہیں بلکہ وراثت لڑکی کی ملکیت ہے اس پر بھائی اور اس کے گھر والوں کا کوئی حق نہیں ہوتا ۔ لاکھوں کا جہیز بھی بیٹی کو حق وراثت سے محروم نہیں کر سکتا ہے
قرآن مجید میں ہے
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا (النساءآیۃ: 7)
مردوں کے لیے بھی حصہ ہے اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جاویں۔ اور عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جاویں خواہ وہ چیز قلیل ہو یا کثیر ہو حصہٴ قطعی
قرآن میں ہے
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ"
(النساء: 11)
اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے باب میں لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصہ کے برابر.
اللہ کا ارشاد ہے
وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ (النساء: 14)
اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہنا نہ مانے گا اور بالکل ہی اس کے ضابطوں سے نکل جاوے گا اسے آگ میں داخل کیا جائے گا اس طور سے کہ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ایسی سزا ہوگی جس میں ذلت بھی ہے۔
ابن ماجہ میں ہے
عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من فر من ميراث وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة
(کتاب الوصایا ج:2،ص:902ط:دار احیاء الکتب العربیہ)
جس نے كسى وارث كى ميراث كا حصہ روکا اللہ تعالی قیامت کے دن جنت سے اس کاحصہ روکیں گے۔
صحیح مسلم میں ہے
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من اقتطع أرضا ظالما، لقي الله وهو عليه غضبان
(کتاب الایمان ،باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرۃ بالنار ،ج:1،ص:124،ط:دار احیاء التراث العربی)
جس نے ظلم کرتے ہوئے زمین روک لی وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر غصہ ہونگے (اور اس سے ناراض ہوں گے )۔"
وفیہ ایضاً
عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من اقتطع شبرا من الأرض ظلما، طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين۔
جس نے كسى وارث كى ميراث كا حصہ روکا اللہ تعالی قیامت کے دن جنت سے اس کاحصہ روکیں گے۔
صحیح مسلم میں ہے
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من اقتطع أرضا ظالما، لقي الله وهو عليه غضبان
(کتاب الایمان ،باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرۃ بالنار ،ج:1،ص:124،ط:دار احیاء التراث العربی)
جس نے ظلم کرتے ہوئے زمین روک لی وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر غصہ ہونگے (اور اس سے ناراض ہوں گے )۔"
وفیہ ایضاً
عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من اقتطع شبرا من الأرض ظلما، طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين۔
(کتاب المساقات،باب تحریم الظلم و غصب الارضوغیرہا،ج:3،ص:1230،ط:دار احیاء التراث العربی)
جس کسی نے زمین کی ایک بالشت (بھی)ناحق روک لی ،قیامت کے دن اللہ تعالی اسے سات زمینوں سے اس کاطوق (بناکر)۔پہنائے گا
لہذا صورت مسئولہ میں بیٹوں کا بیٹیوں کو میراث دینے سے انکار کرنا شرعا ناجائز اور حرام ہے۔ کہ شادی میں جہیز وراثت کا بدل نہیں
والله ورسوله اعلم بالصواب
جس کسی نے زمین کی ایک بالشت (بھی)ناحق روک لی ،قیامت کے دن اللہ تعالی اسے سات زمینوں سے اس کاطوق (بناکر)۔پہنائے گا
لہذا صورت مسئولہ میں بیٹوں کا بیٹیوں کو میراث دینے سے انکار کرنا شرعا ناجائز اور حرام ہے۔ کہ شادی میں جہیز وراثت کا بدل نہیں
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
28/09/2023
28/09/2023