Type Here to Get Search Results !

کیا ایمازون Amazon کے ذریعے سے پیسہ کمانا جائز ہے؟


(سوال نمبر 4426)
کیا ایمازون Amazon کے ذریعے سے پیسہ کمانا جائز ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا ایمازون Amazon کے ذریعے سے پیسہ کمانا جائز ہے؟ اس میں اس طرح 50 کی چیزیں خریدیں کمپنی سے اور 70 کی فروخت کی 20 روپے خود رکھتے ہیں اور 50 واپس کمپنی کو دیتے ہیں ۔برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
 سائلہ:- فاطمہ بھیرہ شریف پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

جب آپ نے کمپنی سے خرید لی تو وہ اپ کی ملکیت ہے 70 میں اپ بیچ سکتے ہیں اور اگر اپ نے خریدی نہیں پھر اپ کسٹمر کو یوں کہیں یہ... چیزوں کی اشتہار ہے یہ فلاں چیز اتنے میں اپ کو ہم دلوا سکتے ہیں پھر جائز یے چونکہ کوئی بھی چیز اپنی ملکیت میں ہونے سے قبل بیچنا جائز نہیں ہے مثلا ایمازون Amazon پر موجود کسی جائز پروڈکٹ کی تشہیر یوں کریں کہ اس میں جھوٹ دھوکا اور غلط بیانی وغیرہ نہ ہو تو آپ کا تشہیر کرنا اور خریداری ہونے پر کمیشن لینا جائز ہے جبکہ ایمازون سے خریداری کا طریقہ غیر شرعی طریقے پر مبنی نہ ہو پھر چاہے خریدار وہی پروڈکٹ Product خریدے جس کا آپ نے اشتہار لگایا تھا یا ایمازون پر موجود کوئی اور پروڈکٹ Product خریدے دونوں صورتوں میں آپ کمیشن کے مستحق ہیں یاد رہے اپ مالک نہیں مشتہر ہیں یہ کسٹمر کو معلوم ہونی چاہیے۔
یاد رہے کہ شرعی اصول کے مطابق اگر ایک شخص نے دوسرے کی چیز بکوانے کے لیے محنت و کوشش کی اپنا وقت صرف کیا اور یوں دوسرے کی چیز بکوا دی تو اس کوشش و محنت کی وجہ سے چیز بکوانے پر عرف میں جتنی مزدوری و کمیشن رائج ہے وہ لینا جائز ہے۔
کسی چیز کو بکوانے میں آپ بھی پروڈکٹس کے متعلق ترغیبی اور معلوماتی مواد Content لکھ کر لوگوں کے ریویوز جمع کرکے اور مارکیٹنگ وتشہیر کے ذریعے محنت و کوشش کرتے ہیں اور آن لائن پروڈکٹس بکوانے میں اس طرح کی محنت کرنا اور ٹائم صرف کرنا ہمارے ہاں قابل معاوضہ کام سمجھا جاتا ہےاور اس پر کمیشن لینے دینے کا تعامل رواج بھی ہے لہذا آپ اس محنت و کوشش کی وجہ سے چیز بکنے پر رائج کمیشن کے مستحق بنتے ہیں ۔
رد المحتار میں ہے
 الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه: إن دللتني على كذا فلك كذا إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة
محض بتانا اور اشارہ کرنا ايسا عمل نہيں ہے، جس پر وہ اجرت کا مستحق ہو۔اوراگر کسی نے ايک خاص شخص کو کہا اگر تو مجھے فلاں چيز پر رہنمائی کرے ،تو اتنی اجرت دوں گا، اگر وہ شخص چل کر رہنمائی کرے ،تووہ اس چل کر جانے کی وجہ سے اجرت مثل کا مستحق ہوگا کيونکہ چلنا ايسا عمل ہے، جس پر عقد اجارہ ميں اُجرت کا استحقاق ہوتاہے۔(رد المحتار، کتاب الاجارہ، ج 6 ص 95،دارالفکر، بيروت)
 (ایسا فتاوی اہل سنت میں ہے)
فتاوی رضویہ میں ہے 
اگر بائع کی طرف سے محنت وکوشش ودوادوش میں اپنا زمانہ صرف کیا،تو صرف اجر مثل کا مستحق ہوگا، یعنی ایسے کام اتنی سعی پر جو مزدوری ہوتی ہے، اس سے زائد نہ پائے گا، اگر چہ بائع سے قرارداد کتنے ہی زیادہ کا ہو، اور اگر قرارداد اجر مثل سے کم کا ہو، تو کم ہی دلائیں گے کہ سقوط زیادت پر خود راضی ہوچکا،خانیہ میں ہے
إن كان الدلال الأول عرض تعنى وذهب في ذلك روزگاره كان له أجر مثله بقدر عنائه وعمله
اگر پہلے دلال کو اس میں مشقت ہوئی اور اس کا وقت اس کام میں صرف ہوا، تواس کو اس کی محنت اور عمل کے مطابق مثلی اجرت ملے گی
اشباہ میں ہے
بعہ لی بکذا ولک کذا فباع فلہ اجر المثل‘
 اگر دوسرے کو کہا :تو میرے لیے اتنے میں اس کو فروخت کر تمہیں اتنی اجرت دوں گا تو اس نے وہ چیز فروخت کردی ،تووہ اجرت مثل کا مستحق ہے۔
(فتاویٰ رضويہ،ج19، ص 453، رضا فاؤنڈيشن، لاھور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
15/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area