Type Here to Get Search Results !

جس کپڑے پر منی لگی ہو اسے پہن کر غسل کرنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 4580)
جس کپڑے پر منی لگی ہو اسے پہن کر غسل کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہجس کپڑے پر منی لگی ہو اسے پہن کر غسل کرنا کیسا ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں
۔
سائل:- محمد مفید عالم قادری صمدی
♦•••••••••••••••••••••••••♦
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

جس کپڑے پر منی لگی ہو اگر اسے پہن کر غسل کیا اور پانی اتنا بہایا کہ نجاست جسم و کپڑا سے زائل ہوگئی ساتھ ہی کلی کیا ناک میں پانی ڈالا اور پورے بدن پر پانی بہایا کہ جسم کا کوئی ظاہری حصہ خشک نہ رہا تو جسم و کپڑا دونوں پاک ہوگئے 
فتح القدیر میں ہے
قال ابو یوسف فی ازار الحمام اذا صب علیہ ما ء کثیر و ھو علیہ یطھر بلا عصر 
یعنی امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے حمام کے ازار کے متعلق فرمایا:جب اس پر کثیر پانی بہا دیا جائے اس حال میں کہ وہ ازار اس نے پہنا ہو، تو بغیر نچوڑے پاک ہوجائے گا۔(فتح القدیر، جل1،ص 210ط بیروت)
البحر الرائق میں ہے
 إذا صب الماء على الثوب النجس إن أكثر الصب بحيث يخرج ما أصاب الثوب من الماء وخلفه غيره ثلاثا فقد طهر
یعنی جب ناپاک کپڑے پر پانی بہا دیا گیا، تو اگر پانی کا بہنا کثیر ہو اس طرح سے کہ کپڑے کو جو ناپاک پانی لگا ہو تین بار اس کو نکال دے اور اس کی جگہ دوسرا پانی آجائے ، تو کپڑا پاک ہوجائے گا۔
(البحر الرائق، ج 1،ص 412 ط :کوئٹہ)
   البحر الرائق میں ہے
ولا يخفى أن الإزار المذكور إن كان متنجسا فقد جعلوا الصب الكثير بحيث يخرج ما أصاب الثوب من الماء ويخلفه غيره ثلاثا قائما مقام العصر كما قدمناه عن السراج فحينئذ لا فرق بين إزار الحمام وغيره یعنی مخفی نہیں کہ ازارِ مذکور اگر نجس ہو ، تو فقہاء نے کثیر پانی اس طرح کہ کپڑے کو جو ناپاک پانی لگا ہوتین باراس کو نکال دے اور اس کی جگہ دوسرا پانی آجائے ، بہانے کو نچوڑنے کے قائم مقام قرار دیا ہے جیسا کہ ہم نے ماقبل میں سراج سے بیان کیا ، تو اس مسئلے میں ازارِ حمام اور اس کے علاوہ میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔(البحر الرائق، ج 1،ص 413،مطبوعہ:کوئٹہ)
اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ بحر میں اور علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں فرماتے ہیں
لأن الجريان بمنزلة التكرار والعصر والمعتبر غلبة الظن هو الصحيح
یعنی اس وجہ سے کہ (کثیر)پانی کا بہنا تکرار اور نچوڑنے کے مرتبہ میں ہے اور اعتبار ظنِ غالب کا ہے ،یہ قول صحیح ہے۔ (البحر الرائق، ج 1ص 412، ط کوئٹہ )
ایسا ہی فتاوی اہل سنت میں ہے 
فتاوی فیض الرسول میں ہے 
نجس کپڑا پہن کر غسل کرنے کے بارے میں حضرت امام ابو یوسف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ اگر غسل کرنے والے نے اپنے کپڑے پر بہت پانی ڈالا تو وہ پاک ہوجائے گا اور جب کپڑا پاک ہوجائے ،تو وہ صحتِ غسل کو مانع نہ ہوگا ۔۔۔اس لئے غسل میں بہت زیادہ پانی ڈالنا یقیناً تین بار دھونے اوراور نچوڑنے کے قائم مقام ہوجائے گا“
(ملتقط ازفتاوی فیض الرسول، ج 1ص 166، شبیر برادرز، لاھور)
بہار شریعت میں ہے 
غسل میں تین فرض ہیں۔(1)کلی :کہ مونھ کے ہر پرزے ، گوشے، ہونٹ سے حلق کی جڑ تک ہر جگہ پانی بہہ جائے ۔۔۔(2)ناک میں پانی ڈالنا یعنی دونوں نتھنوں کا جہاں تک نرم جگہ ہے دھلنا کہ پانی سونگھ کر اوپر چڑھائے ، بال برابر جگہ بھی دھلنے سے رہ نہ جائے ورنہ غسل نہ ہوگا۔۔۔۔(3) تمام ظاہر بدن یعنی سر کے بالوں سے پاؤں کے تلوؤں تک جسم کے ہر پرزے ہر رونگٹے پر پانی بہ جانا۔
(بھارِ شریعت، ج 1،ح 2 ص 316۔317، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
فتاوی فیض الرسول میں ہے 
لوگ عموماً بہت زیادہ پانی نہیں ڈالتے، جس سے نجاست اور پھیل جاتی بلکہ ہاتھ میں نجاست لگ جاتی ہے، پھر بے احتیاطی سے سارابدن یہاں تک برتن بھی نجس ہوجاتا ، اس لئے پاک ہی کپڑا پہن کر غسل کرنا چاہئے۔
(فتاوی فیض الرسول، ج 1،ص 166، شبیر برادرز، لاھور)
فتاوی مصطفویہ میں ہے
(تہبند باندھ کر غسل کرنے کی صورت میں) احتیاط کریں سارے جسم پر پانی بہہ جائے ، اس طرح تہبند جسم سے علیحدہ کر کے پانی ڈالیں۔
(فتاوی مصطفویہ ص 137،شبیر برادرز، لاھور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
30/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area