(سوال نمبر 4581)
مغرب سے دو منٹ پہلے عصر کی نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمته اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
مغرب سے دو منٹ پہلے عصر کی نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمته اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
آج کی نماز عصر مغرب کی آذان هونےسے ٢ منٹ پهلے پڑھں تو عصر کی نماز هوگی یا نهیں؟ جواب عنا یت فرمائیں حوالہ کے ساتھ بہت مہربانی هو گی
سائل:- الیاس احمد رضوی ممبی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
عصر کی نماز کا آخری وقت غروبِ شمس سورج غروب ہونے سے پہلے تک ہے لیکن سورج کی ٹکیا زرد پڑجانے اور اس کی تیزی ماند پڑجانے سے پہلے ہی عصر کی نماز ادا کرلینی چاہیے
مذکورہ صورت میں
اس روز اگر عصر کی نماز نہیں پڑھی تو اگرچہ آفتاب ڈوبتا ہو پڑھ لے مگر اتنی تاخیر کرنا حرام ہے
فتاوی شامی میں یے
ثلاث ساعات لاتجوز فیہا المکتوبة و لاصلاة الجنازة ․․․․․ وعند احمرارہا إلی أن یغیب إلا عصر یومہ ذلک فإنہ یجوز أداوٴہ عن الغروب الخ (فتاوی ہندیہ: ۱/ ۵۲، )
صحیح مسلم میں ہے
عن عقبة بن عامر الجهني رضي اللّٰه عنه یقول: ثلاث ساعات کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم نهانا أن نصلي فیهن: حین تطلع الشمس بازغةً حتی ترتفع، وحین یقوم قائم الظهیرة حتی تمیل الشمس، وحین تضیف الشمس للغروب حتی تغرب۔(صحیح مسلم: (باب الأوقات التي نهي عن الصلاة فیها، رقم الحدیث: 831)
مراقي الفلاح میں ہے
وطلوع الشمس في الفجر لطرو الناقص علی الکامل، وزوالها أي الشمس في صلاة العیدین، ودخول وقت العصر في الجمعة".
(مراقي الفلاح: (ص 180)
الدر المختار میں ہے
وغروب إلا عصر یومه فلایکره فعله؛ لأدائه کما وجب بخلاف الفجر
(الدر المختار (372/1، ط: دار الفکر)
فتاوی رضویہ میں ہے
نمازِ عصر میں ابر کے دن تو جلدی چاہیئے، نہ اتنی کہ وقت سے پیشتر ہوجائے۔ باقی ہمیشہ اس میں تاخیر مستحب ہے۔۔۔ مگر ہرگز ہرگز اتنی تاخیر جائز نہیں کہ آفتاب کا قرص متغیر ہوجائے اُس پر بے تکلف نگاہ ٹھہرنے لگے۔۔۔۔ اور ادھر جب غروب کو بیس منٹ رہیں وقتِ کراہت آجائے گا، اور آج کی عصر کے سوا ہر نماز منع ہوجائے گی۔
سائل:- الیاس احمد رضوی ممبی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
عصر کی نماز کا آخری وقت غروبِ شمس سورج غروب ہونے سے پہلے تک ہے لیکن سورج کی ٹکیا زرد پڑجانے اور اس کی تیزی ماند پڑجانے سے پہلے ہی عصر کی نماز ادا کرلینی چاہیے
مذکورہ صورت میں
اس روز اگر عصر کی نماز نہیں پڑھی تو اگرچہ آفتاب ڈوبتا ہو پڑھ لے مگر اتنی تاخیر کرنا حرام ہے
فتاوی شامی میں یے
ثلاث ساعات لاتجوز فیہا المکتوبة و لاصلاة الجنازة ․․․․․ وعند احمرارہا إلی أن یغیب إلا عصر یومہ ذلک فإنہ یجوز أداوٴہ عن الغروب الخ (فتاوی ہندیہ: ۱/ ۵۲، )
صحیح مسلم میں ہے
عن عقبة بن عامر الجهني رضي اللّٰه عنه یقول: ثلاث ساعات کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم نهانا أن نصلي فیهن: حین تطلع الشمس بازغةً حتی ترتفع، وحین یقوم قائم الظهیرة حتی تمیل الشمس، وحین تضیف الشمس للغروب حتی تغرب۔(صحیح مسلم: (باب الأوقات التي نهي عن الصلاة فیها، رقم الحدیث: 831)
مراقي الفلاح میں ہے
وطلوع الشمس في الفجر لطرو الناقص علی الکامل، وزوالها أي الشمس في صلاة العیدین، ودخول وقت العصر في الجمعة".
(مراقي الفلاح: (ص 180)
الدر المختار میں ہے
وغروب إلا عصر یومه فلایکره فعله؛ لأدائه کما وجب بخلاف الفجر
(الدر المختار (372/1، ط: دار الفکر)
فتاوی رضویہ میں ہے
نمازِ عصر میں ابر کے دن تو جلدی چاہیئے، نہ اتنی کہ وقت سے پیشتر ہوجائے۔ باقی ہمیشہ اس میں تاخیر مستحب ہے۔۔۔ مگر ہرگز ہرگز اتنی تاخیر جائز نہیں کہ آفتاب کا قرص متغیر ہوجائے اُس پر بے تکلف نگاہ ٹھہرنے لگے۔۔۔۔ اور ادھر جب غروب کو بیس منٹ رہیں وقتِ کراہت آجائے گا، اور آج کی عصر کے سوا ہر نماز منع ہوجائے گی۔
(فتاوی رضویہ،ج 5،ص 136،138،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
بہار شریعت میں ہے
اوقاتِ مکروہہ طلوع و غروب و نصف النہار، ان تینوں وقتوں میں کوئی نماز جائز نہیں ،نہ فرض ،نہ واجب، نہ نفل ،نہ ادا، نہ قضا، یوہیں سجدۂ تلاوت و سجدۂ سہو بھی ناجائز ہے، البتہ اس روز اگر عصر کی نماز نہیں پڑھی، تو اگرچہ آفتاب ڈوبتا ہو پڑھ لے ،مگر اتنی تاخیر کرنا حرام ہے
اوقاتِ مکروہہ طلوع و غروب و نصف النہار، ان تینوں وقتوں میں کوئی نماز جائز نہیں ،نہ فرض ،نہ واجب، نہ نفل ،نہ ادا، نہ قضا، یوہیں سجدۂ تلاوت و سجدۂ سہو بھی ناجائز ہے، البتہ اس روز اگر عصر کی نماز نہیں پڑھی، تو اگرچہ آفتاب ڈوبتا ہو پڑھ لے ،مگر اتنی تاخیر کرنا حرام ہے
(بہار شریعت،ج 1ح 3،ص 454،مکتبۃ المدینہ کراچی)
بہار شریعت میں ہے
جنازہ اگر اوقاتِ ممنوعہ میں لایا گیا ،تو اسی وقت پڑھیں کوئی کراہت نہیں۔ کراہت اس صورت میں ہے کہ پیشتر سے تیار موجود ہے اور تاخیر کی یہاں تک کہ وقتِ کراہت آ گیا۔ان اوقات میں آیت سجدہ پڑھی تو بہتر یہ ہے کہ سجدہ میں تاخیر کرے ،یہاں تک کہ وقتِ کراہت جاتا رہے اور اگر وقت مکروہ ہی میں کر لیا ،تو بھی جائز ہے اور اگر وقتِ غیر مکروہ میں پڑھی تھی، تو وقتِ مکروہ میں سجدہ کرنا، مکروہ تحریمی ہے۔‘‘
بہار شریعت میں ہے
جنازہ اگر اوقاتِ ممنوعہ میں لایا گیا ،تو اسی وقت پڑھیں کوئی کراہت نہیں۔ کراہت اس صورت میں ہے کہ پیشتر سے تیار موجود ہے اور تاخیر کی یہاں تک کہ وقتِ کراہت آ گیا۔ان اوقات میں آیت سجدہ پڑھی تو بہتر یہ ہے کہ سجدہ میں تاخیر کرے ،یہاں تک کہ وقتِ کراہت جاتا رہے اور اگر وقت مکروہ ہی میں کر لیا ،تو بھی جائز ہے اور اگر وقتِ غیر مکروہ میں پڑھی تھی، تو وقتِ مکروہ میں سجدہ کرنا، مکروہ تحریمی ہے۔‘‘
(بھار شریعت،ج 1،ح 3،ص 454،مکتبۃ المد
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
30_09/2023