Type Here to Get Search Results !

امام کو فرض کے بعد اسی جگہ سنن و نوافل پڑھنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 4532)
امام کب جاکر ممبر پر بیٹھے؟ امام کو فرض کے بعد اسی جگہ سنن و نوافل پڑھنا کیسا ہے؟
................................
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیان شرع متین زید مسجد کا امام ہے جمعہ کی تقریر کے آخر میں اعلان کرتے ہیں کہ جو لوگ سنت نہیں پڑھے ہیں وہ سنت پڑھ لیں لوگ سنت پڑھتے ہیں اور خود اعلان کے بعد ممبر پہ جاکر فوراً بیٹھ جاتے ہیں
جب ایک عالم دین نے شرعی رہنمائی فرمائیں کہ امام صاحب آپ خود اعلان کرتے ہیں کہ جو لوگ سنت نہیں پڑھے ہیں وہ پڑھ لیں پھر آپ ممبر پہ جاکر بیٹھ جاتے ہیں ایسا نہ کریں آپ مصلے پہ بیٹھ جائیں لوگ سنت سے فارغ ہو جاٸیں تو پھر آپ ممبر پہ جاٸیں امام صاحب اس عالم دین سے کہتے ہیں کہ میں بیس سال سے امامت کرتا ہوں ایسا ہی کرتا ہوا آیا ہوں آپ دلیل اور حوالہ دیجۓ تو پھر عمل کروں گا
یہ کہا اور اسی پہ انکا آج بھی عمل ہے
٢/ اور فرض نماز پڑھنے کے بعد اسی مصلے پہ سنت اور نفل پڑھتے ہیں جب ان سے عالم دین نے شرعی رہنماٸ فرماٸ کہ آپ مصلے سے داٸیں باٸیں ہوجاٸیں یا پھر پیچھے آجاٸیں آپکا ایسا کرنا مکروہ ہے تو انہوں نے نہیں مانا آج بھی اسی پہ انکا عمل ہے
 ایسا کرنے اور کہنے والے امام صاحب پر از روۓ شرع کیا حکم شریعت عاٸد ہوتی ہے
اسے ادلہ اربعہ کی روشنی میں واضح فرماٸیں
سائل:- محمَّد ظہیرالدین قادری بہابل پور ، کٹک انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

١/ امام جب ممبر پر بیٹھ جائے تو آذان خطبہ دینی چاہئے امام صاحب غلط ہیں اپنے قول سے رجوع کریں امام صاحب کی جو اصلاح کی گئی ہے درست ہے۔غلط مسئلہ پر 100 سال سے قائم رہنا صحیح نہیں ہوجائے گا ۔
حدیث میں آیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اذان دی جاتی فقہاء نے بھی اسی کی صراحت کی ہے اور سلف سے یہی توارث چلا رہا ہے
قال فی الشامی
ویوٴذن ثانیاً بین یدیہ أی الخطیب ․․․․․ إذا جلس علی المنبر۔ (۳/۳۸) وفی فتح القدیر: وإذا صعد الامام المنبر جلس وأذن الموٴذنون بین یدی المنبر بذلک جری التوارث (۲/۳۸)۔ 
الحدیث عن السائب بن یزید قال: کان یوٴذن بین یدی رسول اللہ إذا جلس علی المنبر یوم الجمعة علی باب المسجد وأبي بکر وعمر ثم ساق نحو حدیث یونس۔ رواہ ابوداوٴد (۱/۴۶۴)
٢/ امام کے لیے اگر فرض نماز کے بعد سنتوں کی ادائیگی کے لیے الگ جگہ دائیں۔بائیں یا آگے پیچھے ہوجانے کی سہولت ہو تو سنتیں اور نوافل الگ جگہ پر پڑھنا مستحب ہے اور یہ استحباب اس بنا پر ہے کہ نماز پڑھنے والے کے لیے دو مقام گواہ بن جائیں یا فرائض اور نوافل میں امتیاز ہوجائے
لیکن اگر جگہ موجود نہ ہو یا مجبوری ہو یا نماز کے بعد دعا وغیرہ کی وجہ سے فاصلہ ہوچکا ہو تو امام نماز سے فارغ ہوکر محراب میں سنتیں اور نوافل ادا کرسکتا ہے اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں 
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے 
(وإن) كانت صلاة بعدها سنة يكره له المكث قاعدًا، وكراهة القعود مروية عن الصحابة رضي الله عنهم روي عن أبي بكر وعمر رضي الله عنهما أنهما كانا إذا فرغا من الصلاة قاما كأنهما على الرضف؛ ولأنّ المكث يوجب اشتباه الأمر على الداخل فلايمكث ولكن يقوم ويتنحى عن ذلك المكان ثم يتنفل، لما روي عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: {أيعجز أحدكم إذا فرغ من صلاته أن يتقدم أو يتأخر}، وعن ابن عمر رضي الله عنه أنه كره للإمام أن يتنفل في المكان الذي أمّ فيه؛ ولأنّ ذلك يؤدي إلى اشتباه الأمر على الداخل فينبغي أن يتنحى إزالةً للاشتباه، أو استكثارًا من شهوده على ما روي أن مكان المصلي يشهد له يوم القيامة ۔
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 135)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
25/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area