(سوال نمبر 2182)
حالت ناپاکی میں غسل میں کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا فرض ہے تو روزہ کی حالت میں کیسے غسل کیا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
حیض کی مدت پوری ہوئی مگر غسل کرنے سے پہلے روزہ رکھا۔اب غسل کریں تو کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا فرض ہے تو اب روزہ کی حالت میں کیسے غسل کیا جائے؟
شرعی راہنمائی فرما دیں
جزاک اللہ خیرا
سائل:مقدس عطاریہ شہر لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
ماہ صیام میں جب حیض سے پاک ہوئی چاہئے تو یہ تھا کہ غسل کرکے سحری کرے
پر غسل واجب ہو اور وہ صبح صادق سے پہلے غسل نہ کرسکی اور سحری کرکے روزہ رکھ لی تو روزہ درست ہے، ناپاک ہونے کی وجہ سے روزہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، البتہ جلد از جلد غسل کرلینا چاہیے، غسل میں اتنی تاخیر کرنا کہ فجر کی نماز قضا ہوجائے گناہ کا باعث ہے۔
اور روزے کی حالت میں غسل کا وہی طریقہ ہے جو عام حالات میں ہے، البتہ روزہ کی وجہ سے ناک میں اوپر تک پانی ڈالنا اور کلی میں غرارہ کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ ناک میں پانی چڑھانے سے یا غرارہ کرنے سے پانی حلق میں چلا گیا تو اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا، لہذا صرف کلی کرلے اور ناک میں پانی ڈال لے توغسل صحیح ہوجائے گا
حدیثپاک میں ہے
حضرت ابوبکر بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں اپنے والد ماجد کے ساتھ گیا۔ یہاں تک کہ ہم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے فرمایا
اَشْهَدُ عَلَی رَسُولِ اﷲِ إِنْ کَانَ لَيُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ جِمَاعٍ غَيْرِ احْتِلَامٍ ثُمَّ يَصُومُهُ ثُمَّ دَخَلْنَا عَلَی اُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ مِثْلَ ذَلِکَ.
میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اگر احتلام سے (ہی) نہیں، جماع سے جنابت کی حالت میں صبح ہوتی تو روزہ رکھ لیا کرتے۔ پھر ہم حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اُنہوں نے بھی اسی طرح فرمایا۔
(بخاري، الصحيح، 2: 681، رقم: 1830، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)
لہٰذا مجبوری کی وجہ سے حالتِ جنابت میں سحری کر سکتے ہیں اور روزہ بھی رکھنا جائز ہے ناپاکی سے روزہ میں کوئی نقص نہیں ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
حالت ناپاکی میں غسل میں کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا فرض ہے تو روزہ کی حالت میں کیسے غسل کیا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
حیض کی مدت پوری ہوئی مگر غسل کرنے سے پہلے روزہ رکھا۔اب غسل کریں تو کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا فرض ہے تو اب روزہ کی حالت میں کیسے غسل کیا جائے؟
شرعی راہنمائی فرما دیں
جزاک اللہ خیرا
سائل:مقدس عطاریہ شہر لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
ماہ صیام میں جب حیض سے پاک ہوئی چاہئے تو یہ تھا کہ غسل کرکے سحری کرے
پر غسل واجب ہو اور وہ صبح صادق سے پہلے غسل نہ کرسکی اور سحری کرکے روزہ رکھ لی تو روزہ درست ہے، ناپاک ہونے کی وجہ سے روزہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، البتہ جلد از جلد غسل کرلینا چاہیے، غسل میں اتنی تاخیر کرنا کہ فجر کی نماز قضا ہوجائے گناہ کا باعث ہے۔
اور روزے کی حالت میں غسل کا وہی طریقہ ہے جو عام حالات میں ہے، البتہ روزہ کی وجہ سے ناک میں اوپر تک پانی ڈالنا اور کلی میں غرارہ کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ ناک میں پانی چڑھانے سے یا غرارہ کرنے سے پانی حلق میں چلا گیا تو اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا، لہذا صرف کلی کرلے اور ناک میں پانی ڈال لے توغسل صحیح ہوجائے گا
حدیثپاک میں ہے
حضرت ابوبکر بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں اپنے والد ماجد کے ساتھ گیا۔ یہاں تک کہ ہم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے فرمایا
اَشْهَدُ عَلَی رَسُولِ اﷲِ إِنْ کَانَ لَيُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ جِمَاعٍ غَيْرِ احْتِلَامٍ ثُمَّ يَصُومُهُ ثُمَّ دَخَلْنَا عَلَی اُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ مِثْلَ ذَلِکَ.
میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اگر احتلام سے (ہی) نہیں، جماع سے جنابت کی حالت میں صبح ہوتی تو روزہ رکھ لیا کرتے۔ پھر ہم حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اُنہوں نے بھی اسی طرح فرمایا۔
(بخاري، الصحيح، 2: 681، رقم: 1830، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)
لہٰذا مجبوری کی وجہ سے حالتِ جنابت میں سحری کر سکتے ہیں اور روزہ بھی رکھنا جائز ہے ناپاکی سے روزہ میں کوئی نقص نہیں ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و
9/4/2022
9/4/2022