Type Here to Get Search Results !

درس حدیث قسط نمبر 1


•┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
(درس حدیث 1)
عَنْ مَعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أنَّ رَسُوْلَ ﷲ ِ صَلَّی ﷲ ُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَہٗ إِلَی الْیَمَنِ قَالَ کَیْفَ تَقْضِي إِذَا عَرَضَ لَکَ قَضَآءٌ ؟ قَالَ أَقْضِيْ بِکِتَابِ ﷲ ِ قَالَ فَإنْ لَّمْ تَجِدْ فِيْ کِتَابِ اﷲ ِ ؟قَالَ فَبِسُنَّۃِ رَسُوْلِ اﷲ ِ صَلَّی ﷲ ُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإنْ لَّم تَجِدْ فِيْ سُنَّۃِ رَسُوْلِ ﷲ ِ صَلَّی ﷲ ُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَھِدُ رَأیِيْ وَلا اٰلُوْا قَالَ فَضَرَبَ رَسُوْلُ ﷲ ِ صَلَّی اﷲ ُ تَعالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِيْ صَدْرِہٖ قَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ ﷲ ِ لِمَا یَرْضٰی بِہٖ رَسُوْلُ ﷲ ِ ۔رَوَاہُ الْتِّرْمِذِیُ وَ أَبُوْ دَاؤُدَ وَالْدَّارَمِيّ۔ (جَامِعُ الْتِرْمِذِیْ ۳/۶۱۶‘ سُنَنِ اَبِیْ دَاؤد ۳/۳۰۳‘ الدارمی ۱/۷۲)
ترجمہ الحدیث
حضرت سیدنا معاذ بن جبل رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب ان کو رسول ﷲ صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یمن کی طرف قاضی بناکر بھیجا تو فرمایا کہ جب تجھے کوئی معاملہ پیش آئے تو تُو کیسے فیصلہ کرے گا۔ حضرت سیدنا معاذ رضی ﷲ عنہ نے عرض کیا کہ میں ﷲ عزوجل کی کتاب کے ساتھ حکم کروں گا۔ آپ صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا اگر ﷲ عزوجل کی کتاب میں تو اس کا حکم نہ پائے تو پھر کیا کرے گا۔ انہوں نے عرض کی کہ رسول کریم صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی سنت کے ساتھ فیصلہ کروں گا۔ آپ صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا اگر تو رسول علیہِ السّلام کی سنت میں بھی اس حکم کو نہ پائے تو پھر کیا کرے گا ؟ انہوں نے عرض کی کہ میں اپنی عقل اور رائے کے ساتھ اجتہاد کروں گا اور طلب ثواب میں کمی نہ کروں گا۔ حضرت سیّدنا معاذرضی ﷲ عنہ کہتے ہیں پھررسول کریم رؤف رحیم صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا الحمد ﷲ عزوجل کہ ﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جس کے ساتھ ﷲ تعالیٰ عزوجل کا رسول صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم راضی ہے۔
شرح الحدیث:-
۱۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ استخراج احکام میں قرآن مقدم ہے پھر حدیث ۔ 
۲۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کو کھینچ تان کر حدیث کے تابع نہیں کرنا چاہیئے بلکہ حدیث کو قرآن کے تابع کرنا چاہیئے ۔
چنانچہ مسئلہ فاتحہ خلف الامام میں جوکہ مقلدین (ائمہ شریعت کے پیروکار) اور غیرمقلدین(تقلید کا انکار کرنے والے) کا متنازعہ فیہ (باہمی جھگڑا)مسئلہ ہے اس میں پہلے قرآن دیکھنا چاہیئے ۔ ﷲ تعالیٰ عزوجل قرآن شریف میں فرماتا ہے:
وَ إِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ 
ترجمۂ کنز الایمان :اور جب قرآن پڑھا جائے تو اُسے کان لگاکر سُنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو ۔(اعراف ۹/ ۲۰۴)
اور حدیث میں آیا ہے اس کی نماز نہیں جو الحمد نہ پڑھے۔ اب ہمیں حدیث کو تابع قرآن سمجھنا چاہیئے کہ یہ حدیث امام اور منفرد کے لئے ہے مقتدی کیلئے نہیں ۔اس طرح آیت اور حدیث میں تطبیق بھی ہوگئی اور مطلب بھی صاف ہوگیا ۔ لیکن اگر ہم آیت کو کھینچ تان کر یہ مطلب لیں کہ یہ آیت کافروں کے بارے میں ہے حالانکہ کسی حدیث میں اس کا نزول کفار کے بارے میں نہیں آیا ۔یا یہ کہیں کہ قرآن سے مراد آیت میں الحمد کے آگے سورت ہے ۔ یا یہ کہیں کہ استماع (کان لگا کر سننا)و انصات(خاموش رہنا)کے یہ معنی ہیں کہ اونچی نہ پڑھو وغیرہ وغیرہ ۔تو اس صورت میں قرآن کو حدیث کے تابع کرنا ہے ۔ جو حدیث مذکور کے خلاف ہے۔
آمین بالجہر (اونچی آواز سے آمین کہنا): 
۳۔ اسی طرح مسئلہ آمین بالجہر میں ہم پہلے قرآن کو دیکھتے ہیں ۔  
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :
اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً۔(الاعراف۸؍۵۵)
ترجمۂ کنز الایمان : اپنے رب سے دُعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ ۔اور ظاہر ہے کہ آمین دعا ہے ۔اصل دعا میں اخفا (آوازپست یعنی ہلکی کرنا)ہے ۔تو اس آیت کو مقدّم سمجھ کر اصل آمین میں اخفاسمجھنا چاہیئے ۔اور اگر کسی حدیث میں رسول کریم صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا آمین کہنا ذرا آواز کھینچ کر بھی آیا ہو تو اسے تعلیم پر حمل کرنا چاہیئے ۔نہ یہ کہ حدیث کو تو کچھ نہ کیا جائے اور آیت کا کوئی او ر مطلب گھڑا جائے۔
تقلید:-
۴۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تقلید صحابہ رضی ﷲعنہم کے زمانے میں پائی جاتی تھی بلکہ رسول ﷲصلّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے تقلید کا ارشاد فرمایا کیونکہ حدیث میں جب کسی مسئلہ کا قرآن و حدیث سے فیصلہ نہ ہو تو حضرت سیدنا معاذ بن جبل رضی اﷲعنہ نے اپنے اجتہاد اور رائے کے ساتھ فیصلہ کرنا کہا اور حضور صلّی ﷲعلیہ واٰلہٖ وسلّم نے پسند فرمایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ حضرت سیدنا معاذرضی ﷲعنہ اجتہاد سے فیصلہ کریں اور دوسرے مسلمان اس فیصلہ کو تسلیم کریں ۔کیونکہ حضرت معاذ رضی ﷲعنہ کو حضور صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے قاضی بنا کر بھیجا۔ تو اگر لوگ ان کے فیصلہ کو قبول نہ کریں تو وہ قاضی کیسے ہوئے ؟ او ر کسی کے اجتہاد کو بلا معرفت دلیل قبول کرنا بھی تقلید ہے ۔اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سرور عالم صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّمنے حضرت سیدنا معاذ رضی اﷲ عنہ کو یہ نہیں فرمایا کہ اگرکوئی مسئلہ قرآن یا حدیث سے نہ ملے تو مجھ سے دریافت کرلینا، کسی کو بھیج کر مجھ سے فیصلہ دریافت کرلینا ۔ بلکہ ان کے اجتہاد کو پسند فرمایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ مجتہد، اگرقرآن و حدیث میں صریح (واضح طور پر)مسئلہ نہ پائے تو اجتہاد اور قیاس سے جو حکم کرے اس کا حکم ماننا غیر مجتہد پر لازم ہے اور یہی تقلید ہے جو آپ صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے زمانہ میں آپ صلّی ﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی اجازت سے لوگ کیا کرتے تھے ۔       
شیخ عبدالحق علیہ الرحمۃ اشعۃ اللمعات میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
دریں حدیث دلیل است برشریعت قیاس و اجتہاد بر خلاف اصحاب ظواہر کہ منکر قیاس اند
 (ترجمہ: قیاس اور اجتہاد کے شرعی ہونے پر اس حدیث میں دلیل ہے برخلاف اہل ظواہر کے کہ وہ قیاس کا انکار کرتے ہیں)۔ 
ایک شبہ :
 بعض لوگ شبہ کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا معاذ رضی اﷲ عنہ کی حدیث صحیح نہیں۔
علاّمہ ابن القیّم اعلام الموقعین ص ۷۳ میں اس کے جواب میں فرماتے ہیں:
 کہ اس حدیث کوسب اہل علم نے نقل کیا ہے اور اس کے ساتھ حجت پکڑی ہے ۔ نیز اس کی ایک سند متصل بھی ہے جس کے رجال(راوی) مؤثق(قابل اعتماد) ہیں ۔ پھر بحوالہ خطیب نقل کرتے ہیں :
قَالَ اَبُوْ بَکْرِ الْخَطِیْبُ وَ قَدْ قِیْلَ اَنَّ عِبَادَۃَ بْنِ نَسی رَوَاہٗ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ غَنَمِ بْنِ مُعَاذٍ وَ ھٰذَا اِسْنَادٌ مُتَّصِلٌ وَ رِجَالُہٗ مَعْرُوْفُوْنَ بِالثِّقَۃِ ۔اِنْتَھٰی۔
ترجمہ:ابو بکر خطیب نے کہا ’’اور کہا گیا ہے کہ عبادہ بن نسی نے عبد الرحمن بن غنم بن معاذ سے اس حدیث کو روایت کیا اور اس کی اسناد متصل ہیں اور اس کے رجال معروف بالثقہ ہیں‘‘ ۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area