•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
انبیاء علیھم السلام کا تقابل کرنا کیسا ہے؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ زید نے دورانے خطاب کہا کہ ہمارے مذہب میں سب طریقہ ہے عیسائی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ میرے مذہب میں سارا طریقہ ہے اس کے مذہب میں سارا طریقہ نہیں ہے عیسائی سے کہو شادی کیسے کریگا تیرے نبی حضرت عیسیٰ نے تو شادی ہی نہیں کی اگر عیسائی کو شادی کرنا ہوگا تو میرے نبی کی زندگی کو دیکھے گا
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی 63 سالہ عمر میں زندگی کے ہر شعبے پر کام کیا جبکہ جنہیں 500 یا 900 سالہ زندگی ملی انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں کام نہیں کیا مزید زید نے انفرادی طور پر کہا کہ حضرت نوح 900 سال دنیا میں تشریف فرما رہے ظاہری زندگی تقریباً 1000 سال لیکن زندگی کے ہر شعبے پر کام نہیں ملے گا آپ کو حضرت موسیٰ کی زندگی میں ہر شعبے پر کام نہیں ملے گا آپ کو حضرت عیسیٰ کی زندگی میں ہر شعبے میں کام نہیں ملے گا آپ کو اب دریافت طلب امر یہ ہے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام کے درمیان اس طرح کا تقابل جائز ہے یا نہیں؟ اور اس طرح کا تقابل کرنے والے کے لیے کیا حکم ہے؟ اور مذکورہ بالا صورت میں جو حضرات اس تقابل میں نعرہ لگا کر داد و تحسین سے نواز رہے تھے ان کے لیے شرع کا کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ زید نے دورانے خطاب کہا کہ ہمارے مذہب میں سب طریقہ ہے عیسائی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ میرے مذہب میں سارا طریقہ ہے اس کے مذہب میں سارا طریقہ نہیں ہے عیسائی سے کہو شادی کیسے کریگا تیرے نبی حضرت عیسیٰ نے تو شادی ہی نہیں کی اگر عیسائی کو شادی کرنا ہوگا تو میرے نبی کی زندگی کو دیکھے گا
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی 63 سالہ عمر میں زندگی کے ہر شعبے پر کام کیا جبکہ جنہیں 500 یا 900 سالہ زندگی ملی انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں کام نہیں کیا مزید زید نے انفرادی طور پر کہا کہ حضرت نوح 900 سال دنیا میں تشریف فرما رہے ظاہری زندگی تقریباً 1000 سال لیکن زندگی کے ہر شعبے پر کام نہیں ملے گا آپ کو حضرت موسیٰ کی زندگی میں ہر شعبے پر کام نہیں ملے گا آپ کو حضرت عیسیٰ کی زندگی میں ہر شعبے میں کام نہیں ملے گا آپ کو اب دریافت طلب امر یہ ہے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام کے درمیان اس طرح کا تقابل جائز ہے یا نہیں؟ اور اس طرح کا تقابل کرنے والے کے لیے کیا حکم ہے؟ اور مذکورہ بالا صورت میں جو حضرات اس تقابل میں نعرہ لگا کر داد و تحسین سے نواز رہے تھے ان کے لیے شرع کا کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد ابراہیم رضا قادری دہلی
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
غیر مذہب میں کس کا کیا طریقہ ہے اس سے ہم کو غرض نہیں، البتہ اتنا ضرور ہے، کہ ہر مذہب میں طریقہ موجدود ہے۔
یہ کہنا غلط ہے کہ شادی کا طریقہ نہیں ہےچونکہ جو بھی غیر مذہب کا شادی کرتا ہے، وہ بھی ایک طریقہ پر کرتا ہے اور طریقہ کے مطابق ہی کرتا ہے، حضرت عیسی نے شادی نہ کی تو اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کی طریقہ ہی نہ ہو یا طریقہ ہی نہ بتایا ہو۔ اگر اس خطیب سے بدلے میں کوئی یہ کہے کہ حضرت عیسٰی آپ کے بھی تو نبی ہیں۔ چونکہ وہ نبی تھے، اب انہونے شادی نہیں کی، تو کیا اس وقت حضرت عیسٰی علیہ السلام تھے آپ کی شریعت میں کیا شادی کا طریقہ موجود نہیں تھا ؟
کیونکہ آپ ہی بولے ہو انہوں نے شادی نہیں کی تو طریقہ نہیں پتہ عیسائی کو، تو کا اس دور کے مسلمانوں نے بلا طریقہ کے شادی کی تھی؟ کیوں کے ان کے نبی حضرت عیسی نے تو شادی کی نہیں، تو اس خطیب کو جان،چھڑانا بھاری ہو جاۓ گا،، اس طرح کی بے بنیاد فضول کی باتیں بیان نہ کی جاۓ،
خطیب کا یہ کہنا 500 ، 900 سالہ زندگی میں بھی وہ کام نہ کیا اور انہوں نے ہر شعبے میں کام نہ کیا مراد تمام نبی ہیں۔ بلکل غلط ہے، اس طرح کہنا جائز نہیں، میں حسن ظن رکھتے ہوۓ گستاخی تو نہیں کہوں گا، خطیب کی کم علمی پر محمول کرتے ہوۓ جواب دیتا ہوں، اس طرح انبیاء کے لیے کہنا فلاں نبی نے ہر شعبے میں کام نہ کیا جائز نہیں ان کی شان کے خلاف ہے،
تمام انبیاء اپنی امت کی ہر شعبے میں رہنمائی کرتے ہیں، ان کو ہر شعبے کا علم عطا کرتے ہیں، خطیب صاحب ذرا بتاۓ وہ کون کون سے نبی ہیں ،اور کون کون سے شعبے ہے جن میں انبیاء نے معاذ اللہ کام نہ کیا یا اپنی امت کو نہیں بتایا، بلکہ ہم دیکھتے ہیں چاہے جنگ کے معاملات ہو یا کاروباری، یا زندگی گزارنے کے ہر شعبے میں انبیاء اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہیں، اور یہ جو خطیب نے انبیاء کے درمیان تقابل کیا ہے، یہ بھی جائز نہیں، کہ نبی علیہ السلام فرماتے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کسی شخص کے لیے یہ کہنا لائق نہیں کہ میں یونس بن متی سے افضل ہوں۔ (3416 صحیح بخاری)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے، جب میری شان بیان کی جاۓ تو اس طرح بیان نہ کرو کی یونس علیہ السلام یا دیگر انبیاء کی توہین یا ان کی شان کم ہوجاۓ،
خلاصہ کلام یہ ہے، خطیب کا یہ کہنا انبیاء نے ہر شعبے میں رہنمائی نہ کی علم نہ دیا جائز نہیں، اور نہ ہی اس طرح تقابل کرنا جائز ہے، خطیب کو چاہئے توبہ کرے اور آئندہ اس طرح کے خطابات نہ کرے۔
♦•••••••••••••••••••••••••♦
غیر مذہب میں کس کا کیا طریقہ ہے اس سے ہم کو غرض نہیں، البتہ اتنا ضرور ہے، کہ ہر مذہب میں طریقہ موجدود ہے۔
یہ کہنا غلط ہے کہ شادی کا طریقہ نہیں ہےچونکہ جو بھی غیر مذہب کا شادی کرتا ہے، وہ بھی ایک طریقہ پر کرتا ہے اور طریقہ کے مطابق ہی کرتا ہے، حضرت عیسی نے شادی نہ کی تو اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کی طریقہ ہی نہ ہو یا طریقہ ہی نہ بتایا ہو۔ اگر اس خطیب سے بدلے میں کوئی یہ کہے کہ حضرت عیسٰی آپ کے بھی تو نبی ہیں۔ چونکہ وہ نبی تھے، اب انہونے شادی نہیں کی، تو کیا اس وقت حضرت عیسٰی علیہ السلام تھے آپ کی شریعت میں کیا شادی کا طریقہ موجود نہیں تھا ؟
کیونکہ آپ ہی بولے ہو انہوں نے شادی نہیں کی تو طریقہ نہیں پتہ عیسائی کو، تو کا اس دور کے مسلمانوں نے بلا طریقہ کے شادی کی تھی؟ کیوں کے ان کے نبی حضرت عیسی نے تو شادی کی نہیں، تو اس خطیب کو جان،چھڑانا بھاری ہو جاۓ گا،، اس طرح کی بے بنیاد فضول کی باتیں بیان نہ کی جاۓ،
خطیب کا یہ کہنا 500 ، 900 سالہ زندگی میں بھی وہ کام نہ کیا اور انہوں نے ہر شعبے میں کام نہ کیا مراد تمام نبی ہیں۔ بلکل غلط ہے، اس طرح کہنا جائز نہیں، میں حسن ظن رکھتے ہوۓ گستاخی تو نہیں کہوں گا، خطیب کی کم علمی پر محمول کرتے ہوۓ جواب دیتا ہوں، اس طرح انبیاء کے لیے کہنا فلاں نبی نے ہر شعبے میں کام نہ کیا جائز نہیں ان کی شان کے خلاف ہے،
تمام انبیاء اپنی امت کی ہر شعبے میں رہنمائی کرتے ہیں، ان کو ہر شعبے کا علم عطا کرتے ہیں، خطیب صاحب ذرا بتاۓ وہ کون کون سے نبی ہیں ،اور کون کون سے شعبے ہے جن میں انبیاء نے معاذ اللہ کام نہ کیا یا اپنی امت کو نہیں بتایا، بلکہ ہم دیکھتے ہیں چاہے جنگ کے معاملات ہو یا کاروباری، یا زندگی گزارنے کے ہر شعبے میں انبیاء اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہیں، اور یہ جو خطیب نے انبیاء کے درمیان تقابل کیا ہے، یہ بھی جائز نہیں، کہ نبی علیہ السلام فرماتے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کسی شخص کے لیے یہ کہنا لائق نہیں کہ میں یونس بن متی سے افضل ہوں۔ (3416 صحیح بخاری)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے، جب میری شان بیان کی جاۓ تو اس طرح بیان نہ کرو کی یونس علیہ السلام یا دیگر انبیاء کی توہین یا ان کی شان کم ہوجاۓ،
خلاصہ کلام یہ ہے، خطیب کا یہ کہنا انبیاء نے ہر شعبے میں رہنمائی نہ کی علم نہ دیا جائز نہیں، اور نہ ہی اس طرح تقابل کرنا جائز ہے، خطیب کو چاہئے توبہ کرے اور آئندہ اس طرح کے خطابات نہ کرے۔
♦•••••••••••••••••••••••••♦
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی قادری
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ہلدوانی نینیتال
9917420179📲
ہلدوانی نینیتال
9917420179📲