•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
تاویل کرنے والے کی تکفیر کیوں نہیں کی جاتی ہے؟
♦•••••••••••••••••••••••••♦
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں اگر کسی قول میں تاویل نکلتی ہو تو تاویل قبول کیوں ہوتی ہے جبکہ جملہ کفریہ ہوتا ہے،تفصیلی جواب عطا ہو،،
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
تاویل عربی لفظ ہے۔، اس کا مادہ الف واو اور لام ہے یعنی اول ہے۔
اول کے معنی رجوع عود لوٹنے کے آتے ہیں۔، تاویل جہاں ہوگی وہاں لوٹنے کا مفہوم پایا جاۓگا۔ اصل سے عدول پایا جاۓ گا اور ایک معنی سے دوسرے معنی کی طرف پھیرنا پایا جاۓ گا،۔بلاغت کی اصطلاح میں لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے غیر ظاہر معنی کی طرف پھیرنے کو تاویل کہتے ہیں،۔ التاویل ھو صرف اللفظ عن ظاھرہ الی غیرہ،
اہل اصول اور ارباب کلام کی تعریفات بھی اسی سے ملتی جلتی ہے، علامہ سید الدین آمدی۔، فرماتے ہیں،،
تاویل لفظ کو ظاہری معنی کے احتمال کے ساتھ اسے غیر ظاہری معنی پر محمول کرنے کا نام ہے ،لیکن تاویل قبول ہونے کے لیے وہاں کوئی ایسی دلیل ہو جو غیر ظاہری معنی کے مراد ہونے کو تقویت بخشتی ہو،
ھو حمل اللفظ علی مدلو لہ الظاھر منہ۔، مع احتمالہ لہ۔، و اما التاءویل المقبول الصحیح فھو حمل اللفظ علی غیر مدل لہ الظاھر منہ مع احتمالہ،۔ بدلیل یعضدہ،،۔
(الاحکام فی اصول الاحکام)
یہاں ایک سوال پیدا ہوگا جب قول کفری ہے تو پھر اس میں تاویل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے،۔ جب ظاہر معنی کفری ہے تو اسے کفر پر محمول کرنا چاہیے نہ کی تاویل کر کے کفریات گوئی کے جواز کے لیے راستہ ہموار کرنا چاہے ، اس کا مختصر جواب یہ ہے یہ بات بلکل درست ہے قول و عمل میں اصل یہی ہے ،
کہ کلام کو اس کے ظاہر پر رکھا جاۓ، اس میں تاویل نہ کی جاۓ تاویل خلاف اصل ہے، اور خلاف اصل کے لیے کوئی اضافی قرینہ دلیل اور علمی ضروت مطلوب ہوتی ہے،،لیکن اس کے باوجود مسلمان کے بظاہر کفری قول و عمل میں تاویل اس لیے کی جاتی ہے ، وہاں تاویل کے لیے قرینہ دلیل موجود ہوتی ہے،
وہ یہ ہے ایک مسلمان اسلام پر قائم ہے تو بظاہر اس سے اسلام کا انکار متصور نہیں ہو سکتا،، اسلام قبول نہیں ہوتا تو اسلام پر قائم کیوں رہتا ،،ایسے میں اس کے قول یا عمل سے کفری معنی نکل رہا ہے تو ممکن ہے کہ وہ اپنی بات بتانے میں یا ہم اس کی بات سمجھنے میں کہیں نہ کہیں خطا کر رہے ہیں ایسے میں ضروری ہے کہ اس کے قول و عمل کا ایسا محمل و معنیٰ تلاش کیا جاۓ جو اصول اسلام اور مقتضیات سے ہم اہنگ ہو،
رہے وہ لوگ جو پہلے سے ہی ملت کفر کا حصہ ہو۔، تو اب ان کے کفری اقوال و اعمال کا ظاہر معنی یہی ہے کہ ان کی مراد وہی کفر ہے،۔ بھلا ایک شخص جو پہلے سے ہی کافر ہو وہ کفری قول بول کر ایمانی معنیٰ کیوں مراد لے گا کہ بلا وجہ اور بلا ضرورت اس کے کفری قول و عمل میں ایمانی معنیٰ پیدا کرنے کی کوشش کی جاۓ،۔ یہ جاننے کے بعد کے تاویل کفر نہیں ہے اور یہ کہ اہل قبلہ کی تاویل مقبول ہے، اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کیا ہر تاویل قبول ہے اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اہل قبلہ کی تاویل اسی وقت قبول ہوگی، جب ان کے قول و عمل میں تاویل کی گنجائش ہو،۔
اگر وہ صراحت کے ساتھ دین کی بنیادی باتوں ضروریات دین کا منکر ہو یا ان کی اہانت کرتا ہو جسے علمائے کرام نے انکار کے ہم معنیٰ قرار دیا ہے،۔ تو ایسی صورت میں وہ اہل قبلہ میں شامل ہی نہ رہےگا۔، لہٰذا اب ان کے کسی قول و عمل میں تاویل نہیں کی جاۓ گی اگر اس صورت میں بھی کوئی تاویل کرتا ہے تو یہ تاویل غیر مقبول باطل ہوگی،۔ البتہ اگر کوئی اہل قبلہ ہے،۔ وہ دین کی بنیادی باتوں کو تسلیم کرتا ہے، فروعی باتوں کا انکار کرتا ہے، جو ضروریات دین میں شامل نہیں ہیں۔، تو ایسا شخص اس انکار کے باوجود اہل قبلہ اور مسلمان ہی رہے گا،۔
واضح رہے کہ تاویل صرف اہل قبلہ کے قول و عمل میں کی جاۓ گی،۔ اب تاویل قبول کیوں کی جاتی ہے ،۔ اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ، قول و عمل میں اصل یہ ہے اس کو ظاہر پر محمول کیا جاۓ، قول و عمل میں تاویل ضرورت کے پیش نظر کی جاتی ہے،۔ اور اس ضرورت کا تحقق صرف اہل قبلہ یا اہل اسلام کے قول و عمل میں ہوتا ہے،۔ دوسروں میں نہیں ہوتا ہے،۔ اس لیے دوسروں کے قول و عمل میں تاویل بھی نہیں کی جاۓ گی ۔، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ یہاں تاویل سے مراد یہ ہے کہ کسی کے بظاہر کفری قول و عمل کو کفر پر محمول نہ کر کے اسلام پر محمول کیا جاۓ،۔ ظاہر ہے ایسا ہمیں اسی وقت کرنے کی ضرورت پڑے گی جب ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ شخص متعلق پہلے سے مسلمان ہے،۔ اہل قبلہ ہے،۔ اب ایک مسلمان سے کسی ایسے کفری قول و عمل کا صدور ہو تو ہم یہی سمجھیں گے کہ اس کی مراد کچھ اور کہنا یا کرنا رہا ہوگا ایک مسلمان بھلا کفر کیوں کرے گا اس ضرورت کے پیش نظر ہم اس کے بظاہر کفری قول و عمل میں کوئی مناسب تاویل تلاس کریں گے اور اگر اس کو دور سے بھی کوئی اسلامی معنیٰ پہنانا ممکن ہوگا۔،تاویل کی کوئی صورت بھی نکل رہی ہوگی خواہ تاویل بعید ہی سہی۔، تو تاویل کریں گے اور اس کے ظاہر کفری قول و عمل کو ایمان پر محمول کریں گے۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں اگر کسی قول میں تاویل نکلتی ہو تو تاویل قبول کیوں ہوتی ہے جبکہ جملہ کفریہ ہوتا ہے،تفصیلی جواب عطا ہو،،
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
تاویل عربی لفظ ہے۔، اس کا مادہ الف واو اور لام ہے یعنی اول ہے۔
اول کے معنی رجوع عود لوٹنے کے آتے ہیں۔، تاویل جہاں ہوگی وہاں لوٹنے کا مفہوم پایا جاۓگا۔ اصل سے عدول پایا جاۓ گا اور ایک معنی سے دوسرے معنی کی طرف پھیرنا پایا جاۓ گا،۔بلاغت کی اصطلاح میں لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے غیر ظاہر معنی کی طرف پھیرنے کو تاویل کہتے ہیں،۔ التاویل ھو صرف اللفظ عن ظاھرہ الی غیرہ،
اہل اصول اور ارباب کلام کی تعریفات بھی اسی سے ملتی جلتی ہے، علامہ سید الدین آمدی۔، فرماتے ہیں،،
تاویل لفظ کو ظاہری معنی کے احتمال کے ساتھ اسے غیر ظاہری معنی پر محمول کرنے کا نام ہے ،لیکن تاویل قبول ہونے کے لیے وہاں کوئی ایسی دلیل ہو جو غیر ظاہری معنی کے مراد ہونے کو تقویت بخشتی ہو،
ھو حمل اللفظ علی مدلو لہ الظاھر منہ۔، مع احتمالہ لہ۔، و اما التاءویل المقبول الصحیح فھو حمل اللفظ علی غیر مدل لہ الظاھر منہ مع احتمالہ،۔ بدلیل یعضدہ،،۔
(الاحکام فی اصول الاحکام)
یہاں ایک سوال پیدا ہوگا جب قول کفری ہے تو پھر اس میں تاویل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے،۔ جب ظاہر معنی کفری ہے تو اسے کفر پر محمول کرنا چاہیے نہ کی تاویل کر کے کفریات گوئی کے جواز کے لیے راستہ ہموار کرنا چاہے ، اس کا مختصر جواب یہ ہے یہ بات بلکل درست ہے قول و عمل میں اصل یہی ہے ،
کہ کلام کو اس کے ظاہر پر رکھا جاۓ، اس میں تاویل نہ کی جاۓ تاویل خلاف اصل ہے، اور خلاف اصل کے لیے کوئی اضافی قرینہ دلیل اور علمی ضروت مطلوب ہوتی ہے،،لیکن اس کے باوجود مسلمان کے بظاہر کفری قول و عمل میں تاویل اس لیے کی جاتی ہے ، وہاں تاویل کے لیے قرینہ دلیل موجود ہوتی ہے،
وہ یہ ہے ایک مسلمان اسلام پر قائم ہے تو بظاہر اس سے اسلام کا انکار متصور نہیں ہو سکتا،، اسلام قبول نہیں ہوتا تو اسلام پر قائم کیوں رہتا ،،ایسے میں اس کے قول یا عمل سے کفری معنی نکل رہا ہے تو ممکن ہے کہ وہ اپنی بات بتانے میں یا ہم اس کی بات سمجھنے میں کہیں نہ کہیں خطا کر رہے ہیں ایسے میں ضروری ہے کہ اس کے قول و عمل کا ایسا محمل و معنیٰ تلاش کیا جاۓ جو اصول اسلام اور مقتضیات سے ہم اہنگ ہو،
رہے وہ لوگ جو پہلے سے ہی ملت کفر کا حصہ ہو۔، تو اب ان کے کفری اقوال و اعمال کا ظاہر معنی یہی ہے کہ ان کی مراد وہی کفر ہے،۔ بھلا ایک شخص جو پہلے سے ہی کافر ہو وہ کفری قول بول کر ایمانی معنیٰ کیوں مراد لے گا کہ بلا وجہ اور بلا ضرورت اس کے کفری قول و عمل میں ایمانی معنیٰ پیدا کرنے کی کوشش کی جاۓ،۔ یہ جاننے کے بعد کے تاویل کفر نہیں ہے اور یہ کہ اہل قبلہ کی تاویل مقبول ہے، اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کیا ہر تاویل قبول ہے اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اہل قبلہ کی تاویل اسی وقت قبول ہوگی، جب ان کے قول و عمل میں تاویل کی گنجائش ہو،۔
اگر وہ صراحت کے ساتھ دین کی بنیادی باتوں ضروریات دین کا منکر ہو یا ان کی اہانت کرتا ہو جسے علمائے کرام نے انکار کے ہم معنیٰ قرار دیا ہے،۔ تو ایسی صورت میں وہ اہل قبلہ میں شامل ہی نہ رہےگا۔، لہٰذا اب ان کے کسی قول و عمل میں تاویل نہیں کی جاۓ گی اگر اس صورت میں بھی کوئی تاویل کرتا ہے تو یہ تاویل غیر مقبول باطل ہوگی،۔ البتہ اگر کوئی اہل قبلہ ہے،۔ وہ دین کی بنیادی باتوں کو تسلیم کرتا ہے، فروعی باتوں کا انکار کرتا ہے، جو ضروریات دین میں شامل نہیں ہیں۔، تو ایسا شخص اس انکار کے باوجود اہل قبلہ اور مسلمان ہی رہے گا،۔
واضح رہے کہ تاویل صرف اہل قبلہ کے قول و عمل میں کی جاۓ گی،۔ اب تاویل قبول کیوں کی جاتی ہے ،۔ اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ، قول و عمل میں اصل یہ ہے اس کو ظاہر پر محمول کیا جاۓ، قول و عمل میں تاویل ضرورت کے پیش نظر کی جاتی ہے،۔ اور اس ضرورت کا تحقق صرف اہل قبلہ یا اہل اسلام کے قول و عمل میں ہوتا ہے،۔ دوسروں میں نہیں ہوتا ہے،۔ اس لیے دوسروں کے قول و عمل میں تاویل بھی نہیں کی جاۓ گی ۔، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ یہاں تاویل سے مراد یہ ہے کہ کسی کے بظاہر کفری قول و عمل کو کفر پر محمول نہ کر کے اسلام پر محمول کیا جاۓ،۔ ظاہر ہے ایسا ہمیں اسی وقت کرنے کی ضرورت پڑے گی جب ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ شخص متعلق پہلے سے مسلمان ہے،۔ اہل قبلہ ہے،۔ اب ایک مسلمان سے کسی ایسے کفری قول و عمل کا صدور ہو تو ہم یہی سمجھیں گے کہ اس کی مراد کچھ اور کہنا یا کرنا رہا ہوگا ایک مسلمان بھلا کفر کیوں کرے گا اس ضرورت کے پیش نظر ہم اس کے بظاہر کفری قول و عمل میں کوئی مناسب تاویل تلاس کریں گے اور اگر اس کو دور سے بھی کوئی اسلامی معنیٰ پہنانا ممکن ہوگا۔،تاویل کی کوئی صورت بھی نکل رہی ہوگی خواہ تاویل بعید ہی سہی۔، تو تاویل کریں گے اور اس کے ظاہر کفری قول و عمل کو ایمان پر محمول کریں گے۔
_________(❤️)_________
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
♦•••••••••••••••••••••••••♦
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی قادری
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ہلدوانی نینیتال
9917420179📲
ہلدوانی نینیتال
9917420179📲