Type Here to Get Search Results !

تعویذ پہنے کا ثبوت قرآن وحدیث میں کہاں ہے؟


•┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
(سوال نمبر 4265)
تعویذ پہنے کا ثبوت قرآن وحدیث میں کہاں ہے؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ تعویذ پہنے کی ثبوت قرآن وحدیث میں کہاں ہے ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- ایاز حسین اتردیناجپور ویسٹ بنگال انڈیا
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 
تعویذ گلے میں لٹکانے کا ثبوت مندرجہ ذیل ہے 
جن احادیث میں تعویذ لٹکانے کی ممانعت ہے اس میں بھی وہی تعویذ مراد ہے جو کفر و شرم پر مشتمل ہو یا اس اعتقاد سے لٹکانے گلے میں ڈالے کہ تعویذ ہی اصل قوت ہے اور بدون اذن رب مکمل فائدہ اسی میں ہے ۔
جبکہ صحیح حدیث گلے میں لٹکانے یا ڈالنے پر دال ہے ۔
جس حدیث میں لٹکانے والی تعویذ سے منع کیا گیا ہے الفاظ حدیث یہ ہے 
رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن الرقى والتمائم والتولة شرك
(رواه أبو داود .مشکوٰۃ المصابیح)
اس میں رقہ تمیمہ اور تولہ تینوں کو شرک کہاں گیا ہے جب قرانی آیات سے دم جھاڑ پھوک کسی کے نزدیک منع نہیں ہے 
پھر صرف تمیمہ اور تولہ کو لیں اور رقہ کو چھوڑ دے یہ کیسے ممکن ہے جبکہ تینوں الفاظ حدیث میں ایک ساتھ شرک گردانا گیا ہے تو لا محالہ تمیمہ اور تولہ سے وہی مراد لینا ہوگا جو شرعا جائز نہیں ہے جیسا کہ دوسری صحیح حدیث میں جواز ثابت ہے ۔
تمائم جمع ہے تمیمہ کی،تمیمہ کے بہت معانی ہیں: جادو
 ،منتر،ٹونہ جانوروں کی ہڈیاں درد آنکھ کے لیے باندھنا اورتعویذ۔(اشعۃ اللمعات) بحوالہ المرات ج 6)
تمیمہ ان سیپیوں اور کوڑیوں کو کہتے ہیں جن کو (زمانہ جاہلیت میں عرب) گلوں میں لٹکاتے تھے، اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اس سے مصائب دور ہوتے ہیں اور جو تعویذ لٹکائے جاتے ہیں ان کو بھی تیمیمہ کہتے ہیں (الی قولہ) ان کو لٹکانے کی اس وجہ سے ممانعت کی گئی ہے کہ اہل جاہلیت کا یہ اعتقاد تھا کہ یہ مصائب دور ہونے کی علت ہیں اور ان سے مکمل عافیت حاصل ہوتی ہے، اور اگر ان کو اللہ کے ذکر سے برکت حاصل ہوتی ہے، اور اگر ان کو اللہ کے ذکر سے برکت حاصل کرنے کے لیے لٹکایا جائے اور اعتقاد یہ ہو کہ اللہ کے سوا کوئی مصیبت کو ٹالنے والا نہیں ہے تو پھر کوئی حرج نہیں۔ (سنن کبری ج ٩ ص ٣٥٠ ملحضًا، مطبوعہ نشر السنہ ملتان)
تمیمہ اور تولہ وغیرہ کے معنی اور ان کا شرعی حکم۔ پر تفصیل ملاحظہ فرمائیں 
علامہ مبارک بن محمد المعروف بابن الاثیر الجذری المتوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : ٹمائم کا معنی ہے تعاویذ اور خروز (ڈوری میں پروئی ہوئی سیپیاں اور کوڑیاں) اور ان کے عقد کا معنی ہے ان کو گلے میں لٹکانا۔ (جامع الاصول ج ٤ ص ٧٣٣، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ) علامہ محمد طاہر پٹنی متوفی ٩٨٦ ھ لکھتے ہیں : عقد التمائم کا معنی ہے ڈوری میں پروئی ہوئی سیپیوں اور کوڑیوں کو اور تعویذوں کو گلے میں لٹکانا 
(مجمع بحار الانوار ج ١ ص ٢٧٤، مطبوعہ مکتبہ دارالایمان المدینہ المنورہ، ١٤١٥ ھ)
 امام حسین بنن مسعود بغوی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں : تمائم ان سیپیوں یا کوڑیوں کو کہتے ہیں جن کو عرب اپنے بچوں کے گلوں میں لٹکاتے تھے، ان کا اعتقاد تھا کہ اس سے نظر نہیں لگتی، شریعت نے اسکو باطل کردیا۔ روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فضل بن عباس کے گلے سے تمیمۃ کو کاٹ دیا۔ (المستدرک ج ٤ ص ٤١٧) حضرت عائشہ نے فرمایا : مصیبت نازل ہونے کے بعد جو تعویذ گلے میں لٹکایا جائے وہ تمیمہ نہیں ہے، لیکن تمیمہ وہ ہے جو مصیبت نازل ہونے سے پہلے لٹکایا جائے، تاکہ اس سے اللہ کی تقدیر کو رد کیا جائے۔ (اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تقدیر رد کرنے کا اعتقاد نہ ہو تو مصیبت نازل ہونے سے پہلے بھی تعویز لٹکانا جائز ہے۔ )
عطاء نے کہا جو تعویذ قرآن مجید سے لکھے جائیں ان کو تمائم میں سے شمار نہیں کیا جائے گا۔ سعید بن مسیب سے سوال کیا گیا کہ عورتوں اور چھوٹے بچوں کے گلوں میں ایسے تعویذ لٹکائے جائیں جن میں قرآن مجید لکھا ہوا ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انہوں نے کہا جب وہ تعویذ چمڑے میں منڈھا ہوا ہو یا لوہے کی ڈبیہ میں ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اور تولہ جادو کی ایک قسم ہے، اسمعی نے کہا یہ وہ چیز ہے، جس کی وجہ سے خاوند کے دل میں عورت کی محبت ڈال دی جاتی ہے، اور حضرت جابر سے مروی ہے کہ نشرہ شیطان کا عمل ہے، (مسند احمد جج ٣ ص ٢٩٤، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٨٦٨) نشرہ ایک قسم دم ہے، جس شخص کے متعلق یہ گمان ہو کہ اس کو جن کا آسیب ہے اس سے اس کا علاج کیا جاتا ہے، متعدد فقہاء نے اس کو مکروہ کہا ہے۔ حسن نے کہا یہ جادو ہے سعید بن مسیب نے کہا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(شرح السنہ ج ١٢ ص ١٥٩۔ ١٥٨، ملحضًا، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت، ١٥١٦ ھ)
 امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ لکھتے ہیں : تمیمہ ان سیپیوں اور کوڑیوں کو کہتے ہیں جن کو (زمانہ جاہلیت میں عرب) گلوں میں لٹکاتے تھے، اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اس سے مصائب دور ہوتے ہیں اور جو تعویذ لٹکائے جاتے ہیں ان کو بھی تیمیمہ کہتے ہیں (الی قولہ) ان کو لٹکانے کی اس وجہ سے ممانعت کی گئی ہے کہ اہل جاہلیت کا یہ اعتقاد تھا کہ یہ مصائب دور ہونے کی علت ہیں اور ان سے مکمل عافیت حاصل ہوتی ہے، اور اگر ان کو اللہ کے ذکر سے برکت حاصل ہوتی ہے، اور اگر ان کو اللہ کے ذکر سے برکت حاصل کرنے کے لیے لٹکایا جائے اور اعتقاد یہ ہو کہ اللہ کے سوا کوئی مصیبت کو ٹالنے والا نہیں ہے تو پھر کوئی حرج نہیں۔
(سنن کبری ج ٩ ص ٣٥٠ ملحضًا، مطبوعہ نشر السنہ ملتان)
 ملا علی بن سلطان محمد القاری متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں : حدیث میں جس تمیمہ کو شرک فرمایا ہے (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٨٨٣) یہ وہ تعویذ ہے جس کو بچے کے گلے میں ڈالا جائے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے اسماء، قرآنی آیات اور ماثورہ (منقولہ) دعائیں نہ ہوں، اور ایک قول یہ ہے کہ یہ وہ سیپیاں، کوڑیاں ہیں جن کو عرب بچوں کے گلوں میں اس لیے ڈالتے تھے کہ ان کو نظر نہ لگے اور یہ باطل ہے، اس کو شرک اس لیے فرمایا ہے کہ ان کا اعتقاد تھا کہ یہ سبب قوی ہیں یا ان کی (خود بہ خود) تاثیر ہے، یا ان میں ایسے کلمات ہوتے تھے جو شرک خفی یا شرک جلی کو متضمن ہوتے تھے۔ (مرقات ج ٨ ص ٣٥٩، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان، ١٣٩٠ ھ) نیز ملا علی قاری فرماتے ہیں : جو تعویذات آیات قرآنیہ، اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات اور منقولہ دعائوں پر مشتمل ہوں ان میں کوئی حرج نہیں ہے، خواہ وہ تعویذ ہوں، دم ہو یا نثرہ ہو، البتہ غیر عربی میں جائز نہیں کیونکہ ان میں شرک کا احتمال ہے۔ (مرقات ج ٨ ص ٣٦١۔ ٣٦٠، مطبو ٤ عہ مکتبہ امدادیہ ملتان، ١٣٩٠ ھ) علامہ سید احمد طحطاوی متوفی ١٢٣١ ھ لکھتے ہیں : ہندیہ میں مذکور ہے کہ تعویذ لٹکانا جائز ہے لیکن بیت الخلاء جاتے وقت یا عمل زوجیت کے وقت تعویذ اتار لینا چاہیے۔ (حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار ج ٤ ص ١٨٣، مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت، ١٣٩٥ ھ)
قرآن مجید سے جسمانی شفاء کے حصول کے متعلق احادیث اور آثار حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا ) بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوتے تو اپنے اوپر قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر دم فرماتے اور اپنا ہاتھ اپنے جسم پر پھیرتے، پھر جب آپ اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کی وفات ہوگئی تو میں قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر آپ پر دم کرتی جن کو پڑھ کر آپ دم فرماتے تھے، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ آپ کے جسم پر پھیرتی تھی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٣٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩١٢، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٩٠٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٥٢٩، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٧٥٤٤، موطا امام مالک رقم الحدیث : ٧٥١) حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا ) بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آپ اس کے اوپر قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر دم فرماتے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٩٢، مشکوۃ رقم الحدیث : ١٥٣٢) حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چند اصحاب سفر میں تھے، ان کا عرب کے قبیلوں میں سے ایک قبیلہ کے پاس سے گزر ہوا، صحابہ نے ان سے مہمانی طلب کی، انہوں نے صحابہ کو مہمان نہیں بنایا۔ اس قبیلہ کے سردار کو بچھو نے ڈنک مارا ہوا تھا، انہوں نے اس کے تمام جتن کیے لیکن کسی چیز سے اس کو فائدہ نہیں ہوا، پھر ان میں سے کسی نے کہا یہ جماعت جو یہاں ٹھہری ہوئی ہے ہوسکتا ہے ان کے پاس کوئی چیز ہو، وہ ان کے پاس گئے اور کہا اے لوگو ! ہمارے سردار کو بچھو نے ڈنک مار دیا ہے اور ہم ہر قسم کی کوشش کرچکے ہیں اس کو کسی چیز سے فائدہ نہیں ہوا، کیا تم میں سے کسی کے پاس کوئی چیز ہے۔ بعض صحابہ نے کہا ہاں ! اللہ کی قسم میں دم کرتا ہوں، لیکن اللہ کی قسم ہم نے تم سے مہمانی طلب کی تھی، تم نے ہماری مہمانی نہیں کی، اب تم پر بالکل دم نہیں کروں گا حتی کہ تم مجھے کوئی انعام نہ دو ۔ انہوں نے بکریوں کی ایک معین تعداد (سنن ابن ماجہ میں ہے تیس بکریاں) پر صلح کرلی۔ پھر وہ گئے اور الحمد للہ رب العالمین (مسلم میں ہے سورة فاتحہ) پڑھ کر اس پر دم کیا، وہ بالکل تندرست ہوگیا اور اس طرح چلنے لگا، گویا اس کو کوئی بیماری نہیں تھی۔ سردار نے کہا ان سے جس انعام کا وعدہ کیا ہے وہ ان کو پورا پورا دو ۔ بعض صحابہ نے کہا اس انعام کو پورا پورا تقسیم کرلو بعض نے کہا نہیں یہ دم کی اجرت ہے اس کو اس وقت تک تقسیم نہ کرو حتی کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچ جائیں اور ہم آپ کے سامنے یہ تمام ماجرا بیان کریں پھر دیکھیں آپ اس میں کیا حکم فرماتے ہیں۔ جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے تو آپ سے اس کو بیان کیا۔ آپ نے فرمایا : تمہیں کس نے بتایا یہ (زمانہ جاہلیت کا) دم ہے، پھر آپ نے فرمایا : تم نے درست کیا اس کو تقسیم کرلو اور اس میں سے میرا حصہ بھی نکالو، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنسے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٢٧٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٠١، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٩٠٢، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٠٦٤، سنن ابنماجہ رقم الحدیث : ٢١٥٦، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ١٠٨٦٨، مسند احمد رقم الحدیث : ج ٣ ص ١٠، مصنف ابن اب ی شیبہ ج ٨ ص ٥٤۔ ٥٣، کراچی، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦١١٢، سنن دارقطنی ج ٣ ص ٦٤۔ ٦٣) یہ حدیث صحیح ہے جس سے معلوم ہوا کہ دم کرنے کی اجرت لینا جائز ہے اور جن احادیث میں ممانعت ہے وہ تمام احادیث ضعیف ہیں۔ حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ بیان فرماتے ہیں : حضرت ابو الا حوص (رضی اللہ عنہ ) بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ ) کے پاس آیا اور کہا میرے بھائی کے پیٹ میں تکلیف ہے۔ انہوں نے اس کو خمر (شراب) پینے کا مشورہ دیا، پھر کہا سبحان اللہ ! اللہ تعالیٰ نے نجس چیز میں شفا نہیں رکھی، شفا صرف دو چیزوں میں ہے : قرآن میں اور شہد میں۔ ان میں دل کی بیماریوں کے لیے شفا ہے اور لوگوں کے لیے شفا ہے۔ (العجم الکبیر رقم الحدیث : ٨٩١٠) امام ابن المنذر اور امام ابن مردویہ نے حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ ) سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس نے کہا میرے سینہ میں تکلیف ہے۔ آپ نے فرمایا : قرآن پڑھو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : شفاء لما فی الصدور۔ امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت واثلہ بن الاسقع (رضی اللہ عنہ ) سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حلق میں درد کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا : تم قرآن پڑھنے کو لازم رکھو۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٢٥٨٠) امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن مسعود (رضی اللہ عنہ ) سے روایت کیا ہے کہ قرآن پڑھا جائے تو وہ آرام محسوس کرتا ہے، حضرت خثیمہ جب بیمار ہوئے تو میں ان کے پاس گیا، میں نے کہا آج آپ تندرست لگ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا آج میرے پاس قرآن مجید پڑھا گیا تھا۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٢٥٧٩، الدرالمنثور ج ٤ ص ٣٦٦، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٤ ھ) امام الحسین بن مسعود البغوی المتوفی ٥١٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا ) اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتی تھیں کہ تعوذ کے کلمات پڑھ کر پانی پر دم کیا جائے پھر اس کے ساتھ مریض کا علاج کیا جائے۔ مجاہد نے کہا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ قرآن مجید کی آیات لکھ کر ان کو دھولیا جائے اور اس کا غسالہ (دھو ون) مریض کو پلا دیا جائے، اسی کی مثل ابو قلابہ سے مروی ہے اور نحعی اور ابن سیرین نے اس کو مکروہ قرار دیا، اور حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ ) سے مروی ہے کہ ایک عورت وضع حمل میں مشکل پیش آرہی تھی تو حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ قرآن مجید کی کچھ آیتیں اور کچھ کلمات طیبات لکھ کر انہیں دھو کر اس کا غسالہ (دھو ون) اس عورت کو پلایا جائے۔ ایوب نے کہا میں نے ابو قلابہ کو دیکھا انہوں نے قرآن مجید کی کچھ آیتیں لکھیں پھر ان کو پانی سے دھویا اور اس شخص کو پلادیا جس کو جنون تھا۔ (شرح السنہ ج ١٢ ص ١٦٦، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت، ١٤٠٣ ھ) امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت علی (رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ ایک رات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا، تو اس پر بچھو نے ڈنگ مارا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی جوتی سے اس بچھو کو مار دیا، پھر آپ نے واپس مڑتے ہوئے فرمایا : اللہ تعالیٰ بچھو پر لعنت فرمائے یہ نمازی کو چھوڑتا ہے نہ غیر نمازی کو، نبی کو چھوڑتا ہے نہ غیر نبی کو مگر اس کو ڈنک مار دیتا ہے، پھر آپ نے پانی اور نمک منگا کر اس کو ایک برتن میں ڈالا پھر جس انگلی پر بچھو نے ڈنک مارا تھا اس کو پانی میں ڈبو یا اور اس پر پانی لگایا اور قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٢٣٥٤٢، بیروت، شعب الایمان رقم الحدیث : ٢٥٦٥) امام محمد بن یزید ابن ماجہ متوفی ٢٧٥ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت علی (رضی اللہ عنہ ) نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بہترین دوا قرآن ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٥٠١، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ) علامہ شمس الدین محمد بن ابوبکر ابن قیم جو زیہ متوفی ٧٥١ ھ لکھتے ہیں : یہ بات معلوم ہے کہ بعض کلام کے خواص ہوتے ہیں اور اس کی تاثیرات ہوتی ہیں تو تمہارا رب العالمین کے کلام کے متعلق کیا گمان ہے جس کی ہر کلام پر فضیلت اس طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی فضیلت تمام مخلوق پر ہے، اس کا کلام مکمل شفاء ہے، عصمت، نافعہ، نور، ہادی اور رحمت عامہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا : و ننزل من القران ما ھو شفآء ’‘ و رحمۃ ’‘ للمؤمنین۔ (بنو اسرائیل : ٨٢) ہم قرآن مجید کی ان آیات کو نازل فرماتے ہیں جو مومنین کے لیے شفاء اور رحمت ہیں۔ اور قرآن مجید کی تمام آیات شفا ہیں اور سورة فاتحہ کے متعلق تمہارا کیا گمان ہے جس کی مثل قرآن میں ہے نہ تورات میں نہ انجیل میں اور نہ زبور میں۔ ایک مرتبہ میں مکہ میں بیمار ہوگیا، مجھے دوا اور طبیب میسر نہ آسکے، تو میں سورة فاتحہ سے اپنا علاج کرتا تھا، میں ایک گھونٹ زمزم کا پانی پیتا اور اس پر کوئی سورة فاتحہ پڑھتا، پھر ایک گھونٹ زمزم کا پانی پیتا، میں نے کئی بار یہ عمل کیا حتی کہ میرے تمام درد اور تکلیفیں دور ہوگئیں اور مجھے مکمل فائدہ ہوگیا۔ (زد المعادج ٤، ص ١٤١۔ ١٤٠، ملحضًا، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٩ ھ)
کلمات طیبہ سے دم کرنے کے جواز کے متعلق احادیث الشفاء بنت عبداللہ بیان کرتی ہیں کہ میں حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا ) کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، اس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا : تم اس کو پھوڑے کا دم کیوں نہیں سکھاتیں جس طرح تم نے اس کو لکھنا سکھایا ہے۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٨٨٧، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٠٥٧) سہیل بن حنیف سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دم صرف بیمار شخص یا سانپ یا بچھو کے ڈسے ہوئے میں ہے۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٨٨٨ مختصراً ) (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٨٨٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٥٣٠، شرح السنہ رقم الحدیث : ٣٢٤٠، مسند احمد رقم الحدیث : ٣٦١٥، المستدرک ج ٤ ص ٤١٨۔ ٤١٧، ج ٤ ص ٢١٧۔ ٢١٦، سنن کبری للبیہقی ج ٩ ص ٣٥٠) امام الحسین بن مسعود البغوی المتوفی ٥١٦ ھ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں : اس قسم کی جھاڑ پھونک اور دم کرنے کی ممانعت ہے جس میں کلمات شرک ہوں یا اس میں سرکش شیاطین کا ذکر ہو یا اس میں عربی کے علاوہ کسی اور زبان کے کلمات ہوں یا ان کلمات کا کچھ پتا نہ ہو، ہوسکتا ہے کہ اس میں جادو کے کلمات ہوں یا کفریہ کلمات ہوں، لیکن جس میں قرآن مجید کے کلمات ہوں یا اس میں اللہ عزو جل کا ذکر ہو تو ان کلمات کے ساتھ دم کرنا جائز ہے اور مستحب ہے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورة الفلق اور سورة الناس پڑھ کر اپنے اوپر دم فرماتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٣٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩١٢) اور جن صحابہ نے بکریوں کے عوض سورة فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا، ان سے آپ نے فرمایا : تم کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ (زمانہ جاہلیت کا) دم ہے، اس کو تقسیم کرو، اور اس میں سے میرا حصہ بھی نکالو اور فرمایا : جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں اجرت کی سب سے زیادہ مستحق اللہ کی کتاب ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٧٣٧، ٢٢٧٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٠١) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت حسن اور حضرت حسین پر یہ کلمات پڑھ کر دم کرتے تھے : اعوذ بکلمات اللہ التامۃ من کل شیطان و ھامۃ و من کل عین لامۃ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٧١) ” میں ہر شیطان اور ہر زہریلے کیڑے اور ہر نظر بد کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں۔ “ اور حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوئے تو حضرت جبرئیل نے یہ پڑھ کر آپ پر دم کیا : بسم اللہ ارقیک من کل شئی یؤذیک من شر کل نفس او عین حاسد اللہ یشفیک بسم اللہ ارقیک۔ اللہ کے نام سے آپ پر دم کرتا ہوں، اللہ آپ کو شفا دے ہر اس چیز سے جو آپ کو ایذا دے اور ہر نفس کے شر سے اور ہر حاسد نظر سے، اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٨٥، ٢١٨٦، سنن الترمذیرقم الحدیث : ٩٧٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٦٥٢٣، سنن کبری للنسائی رقم الحدیث : ١٠٨٤٣) اور عوف بن مالک اشجعی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ہم زمانہ جاہلیت میں دم کرتے تھے، یا رسول اللہ ! آپ کی اس کے متعلق کیا رائے ہے۔ آپ نے فرمایا : اپنے دم کے کلمات مجھے پڑھ کر سنائو، اس وقت تک دم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جب تک کہ ان میں شرکیہ کلمات نہ ہوں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٠٠، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٨٨٦) (شرح السنہ ج ١٢ ص ١٦٠، ١٥٩، مطبوعہ دارالمکتب الاسلامی بیروت، ١٤٠٣ ھ)
دم اور تعویذ کی ممانعت کے متعلق حضرت ابن مسعود کا ارشاد اور امام بغوی سے اس کی توجیہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دم کرنا تمائم (تعویذ لٹکانا) اور تولہ (بیوی سے خاوند کی محبت کا جادو) شرک ہیں، حضرت عبداللہ کی بیوی نے کہا آپ اس طرح کیوں کہتے ہیں، خدا کی قسم ! میری آنکھ میں کچھ پڑگیا تھا میں فلاں یہودی کے پاس جایا کرتی تھی وہ میری آنکھ پر دم کرتا تھا اور جب وہ مجھ پر دم کرتا تھا تو مجھے آرام آجاتا تھا۔ حضرت عبداللہ نے کہا یہ شیطان کا عمل تھا، وہ اپنے ہاتھ سے آنکھ میں چبھوتا تھا اور جب وہ یہودی دم کرتا تھا تو وہ اپنے ہاتھ کو ہٹا لیتا تھا، تمہارے لیے یہ کافی ہے کہ تم اس طرح پڑھو جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھتے تھے : اذھب الباس رب الناس اشف انت الشافی لا شفاء الا شفاءک لا یغادر سقما۔ اے لوگوں کے رب ! تکلیف کو دور کر دے، شفا دے تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا کسی کی شفا نہیں ہے جو بیماری کو باقی رہنے نہیں دیتی۔ 
تعویذ اور دم کی ممانعت کے متعلق ابن حکیم اور حضرت عقبہ بن عامر کا ارشاد اور امام بیہقی، امام ابن الاثیر اور دیگر علماء سلف کی توجیہ عیسیٰ بن عبدالرحمن بن ابی لیلی بیان کرتے ہیں کہ میں عبداللہ بن حکیم ابو معبد الجہنی کی عیادت کرنے کے لیے گیا ان پر ورم تھا۔ ہم نے کہا آپ کوئی چیز کیوں نہیں لٹکاتے ؟ (ایک روایت میں ہے آپ تعویذ کیوں نہیں لٹکاتے، مشکوۃ رقم الحدیث : ٤٥٥٦) انہوں نے کہا موت اس سے زیادہ قریب ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کسی چیز کو لٹکایا وہ اسی کے سپرد کردیا جائے گا۔ امام ترمذی نے کہا عبداللہ بن عکیم کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سماع ثابت نہیں اور یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں تھا، اور اس باب میں حضرت عقبہ بن عامر سے بھی روایت ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٠٧٢، مسند احمد ج ٤ ص ٣١٠، المستدرک ج ٤ ص ٢١٦، سنن کبری للبیہقی ج ٩ ص ٣٥١، شرح السنہ ج ١٢ ص ١٦٠) امام ترمذی نے حضرت عقبہ بن عامر کی جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے : حضرت عقبہ بن عامر (رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے، جس شخص نے تمیمہ (تعویذ) لٹکایا، اللہ اس کے مقصد کو پورا نہ کرے اور جس شخص نے کوڑی (سیپی) کو لٹکایا اللہ اس کی حفاظت نہ کرے۔ (مسند احمد (ج ٤ ص ١٥٤، مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ١٧٥٩، المعجم الکبیر ج ١٧ ص ٢٩٧، ج ٤ ص ٤١٧، مجمع الزوائد ج ٥ ص ١٠٣) امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ اس قسم کی احادیث کے متعلق لکھتے ہیں : اس قسم کی احادیث میں ان تمائم (تعویذات) کو شرک فرمایا، جن تعویذات کو لٹکانے والوں کا یہ اعتقاد ہو کہ مکمل عافیت اور بیماری کا مکمل زوال ان تعویذات کی وجہ سے ہوگا جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں مشرکین کا عقیدہ تھا، لیکن جس نے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے برکت حاسل کرنے کے لیے تعویذ کو لٹکایا اور اس کا اعتقاد ہو کہ مصیبت کو ٹالنے والا اور مرض کو دور کرنے والا صرف اللہ عزو جل ہے تو پھر تعویذ لٹکانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (سنن کبری للبیہقی ج ٩ ص ٣٥٠، مطبوعہ ملتان) نیز امام بیہقی فرماتے ہیں حضرت ابن مسعود سے مرفوعاً روایت ہے کہ دم، تولہ، اور تمائم شرک ہیں، اس سے ان کی یہ مراد ہے کہ وہ دم اور تعویذ وغیرہ شرک ہیں جو عربی زبان میں نہ ہوں اور ان کے معنی غیر معلوم ہوں۔ (سنن صغیر ج ٢ ص ٤٢٣، مطبوعہ دارالمجید بیروت، ١٤١٥ ھ) علامہ مجد الدین ابو السعادات المبارک بن محمد ابن الاثیر الجذری المتوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : تمائم (تعویذات) کو شرک اس لیے فرمایا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں وہ تمائم کے متعلق مکمل دوا اور شفاء کا اعتقاد رکھتے تھے، اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ تمائم اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی تقدیر کو ٹال دیتے ہیں اور وہ اللہ کے غیر سے مصائب کو دور کرنا چاہتے تھے۔ (النہایہ ج ١ ص ١٩٣، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ) علامہ شرف الدین حسین بن محمد الطیبی متوفی ٧٤٣ ھ لکھتے ہیں : تعویذ اور کوڑی لٹکانے پر آپ نے شرک کا اطلاق اس لیے فرمایا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ان کے لٹکانے کا جو طریقہ معروف اور مروج تھا وہ شرک کو متضمن تھا کیونکہ ان کے متعلق ان کا اعتقاد شرک کی طرف لے جاتا تھا، میں کہتا ہوں کہ شرک سے مراد یہ اعتقاد ہے کہ یہ تعویذات قوی سبب ہیں اور ان کی اصل تاثیر ہے اور یہ توکل کے منافی ہے۔ (شرح الطیبی ج ٨ ص ٣٠١، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی، ١٤١٣ ھ) علامہ محمد طاہر پٹی متوفی ٩٨٦ ھ نے بھی اسی طرح لکھا ہے۔ (مجمع بحار الانوار ج ١ ص ٢٧٤، مطبوعہ دارالایمان مدینہ منورہ، ١٤١٥ ھ)
تعویذ لٹکانے کے متعلق عبداللہ بن عمرو کی روایت اور اس کے حوالہ جات امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : علی بن حجر، اسماعیل بن عیاش، از محمد بن اسحاق از عمرو بن شعیب از والد خود از جد خود روایت ہے : بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نیند میں ڈر جائے تو وہ یہ دعا کرے : اعوذ بکلمات اللہ التامۃ من غضبہ و عقابہ و شرعبادہ و من ھمزات الشیطان و ان یحضرون، تو پھر شیاطین اس کو نقصان نہیں پہنچائیں گے، حضرت عبداللہ بن عمرو اپنے بالغ بچوں کو اس دعا کی تلقین کرتے تھے اور جو نابالغ بچے تھے ان کے گلے میں ایک کاغذ پر یہ دعا لکھ کر لٹکا دیتے تھے۔
امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٢٨، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٨٩٣، مسند احمد ج ٢ ص ١٨١، طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث : ٦٦٩٦ طبع دارلحدیث قاہرہ، اس کے حاشیہ میں شیخ احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے، المستدرک ج ١ ص ٥٤٨، حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور ذہبی نے اس پر جرح نہیں کی، بلکہ حافظ ذہبی نے خود اس حدیث سے استدلال کیا ہے، الطب النبوی ص ٢٨١، کتاب الآداب للبیہقی رقم الحدیث : ٩٩٣، شیخ البانی نے اس حدیث کو اپنی صحیح ترمذی میں درج کیا ہے، رقم الحدیث : ٢٧٩٣، مصابیح السنہ ج ٢ ص ٢١٦، مشکوۃ المصابیح رقم الحدیث : ٢٣٤٧٧، المصنف لا بن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٢٣٥٣٧، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٢٣٨٤، دار ابن کثیر بیروت، ١٤١٤ ھ، الترغیب و الترہیب ج ٢ ص ٤٥٦، ٤٥٥، مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ، ١٤٠٧ ھ، حافظ منذری نے حدیث کو امام نسائی کے حوالے سے بھی ذکر کیا ہے، 
(عمل الیوم واللیلہ رقم الحدیث : ٧٦٥، مختصر سنن ابو دائود للمنذری رقم الحدیث : ٣٧٤٤ بحوالہ تفسیر تبیان القران)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
01/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area