Type Here to Get Search Results !

کیا نبی علیہ السلام نبوت سے پہلے لکھنا پرھنا جانتے تھے؟


•┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
 کیا نبی علیہ السلام نبوت سے پہلے لکھنا پرھنا جانتے تھے؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
کیا حضور صلی اللہ علیہ و سلم قبل نبوّت پڑھنا لکھنا جانتے تھے ؟
سائل:- سہیل اشرفی راجستھان انڈیا 
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وت کے بعد لکھنا پڑھنا جانتے تھے یہ تو درست ہے جن لوگوں نے نبوت کے بعد کی بھی نفی کی ہے،، ہم اس پر کلام نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کا جواب دینا مقصود ہے، اصل سوال کا جواب جو طلب کیا گیا ہے، اس کی طرف میں آتا ہوں،،نبی علیہ السلام کا ایک لقب امی ہے، جس کے کئ معنی ہیں میں صرف دو کو ذکر کرتا ہوں، امی کا ایک معنی ہے، جو پڑھا لکھا نہ ہو، 
اور دوسرا معنی ہیں، جو مکہ. مکرمہ کا رہنانے والا ہو،، ہمارے نزدیک امی کا یہی دوسرا معنی مراد صحیح ہے،، کیونکہ کہ، نبی علیہ السلام نبوت سے قبل بھی لکھنا پڑھنا جانتے تھے، یہ الگ بات ہے، آپ اس میں مشغول نہیں رہے، کیونکہ اس دور میں مکہ مکرمہ میں پڑھے لکھے لوگ بہت کم ہوا کرتے تھے، اور ان پڑ کے سامنے لکھنےسے کوئی فائدہ نہیں ہے، جیسا کی ہمارے یہاں کہا جاتا ہے، جو انپڑ ہو اس کے لیے کہا جاتا ہے، کالا اکسر بھینس برابر،، نبی علیہ السلام نبوت سے پہلے لکھنا پڑھنا جانتے تھے ،اس کی دلیل یہ ہے،،. نبی علیہ السلام 8 سال کی عمر سے ابو طالب کی کفالت میں رہے ہیں یعنی نبی علیہ السلام کی تعلیم تربیت ابو طالب نے ہی کی ہے، 
یہا تک کے تجارت کی بھی تربیت کی اور 12 سال کی عمر میں ملک شام کو اپنے ساتھ لیکر گئے تجارت کی غرض سے چونکہ ابو طالب لکھنا پڑھنا جانتے تھے، جیسا کی ان کے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے، جب قحط پڑا تھا اور نبی علیہ السلام کو کھانے کعبہ میں لیکر گئے اور بارش ہونے لگی، اس وقت آپ نے نبی علیہ السلام کی شان میں 
 ایک قصیدہ پڑھا
و ابیض یستفی الغمام 
شمائل اللتیامی و عصمتہ للارامل
اس قصیدہ کے 80 اشعار ہے، ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: 
ابو طالب نے اس قصیدہ کو بعثت کے بعد لکھا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے، ابو طالب لکھنا پڑھنا جانتے تھے، نیز نبی علیہ السلام کے نکاح کے وقت ولولہ خیز جو خطبہ پڑھا اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے، ابو طالب پڑھے لکھے انسان تھے، چونکہ نبی کریم کی پرورش ابو طالب نے کی ہے، تو آپ علیہ السلام کو لکھنا پڑھنا بھی سکھایا ہوگا قرین قیاس یہی ہے، جب بچپن میں ہی ملک شام ساتھ لیجاکر تجارت کی تربیت دیتے ہو تو ظاہر بات، لکھنا پڑھنا بھی سکھایا ہوگا، کیونکہ تجارت میں لکھائی پڑھائی کا کام ہوتا ہے،، 
نبی علیہ السلام لکھنا پڑھنا جانتے تھے نبوت سے قبل اس پر قرآن پاک کی یہ آیت کریمہ بھی دال ہے،
وَ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا
اور بولے اگلوں کی کہانیاں ہیں جو انہوں نے لکھ لی ہیں تو وہ ان پر صبح و شام پڑھی جاتی ہیں (الفرقان آیت 5)
اس آیت مبارکہ میں فرمایا گیا ہے،، کفار بولے یہ اگلوں کی کہانیاں ہے، جو انہوں نے لکھلی ہے،،
اس آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے، نبی کریم لکھانا جانتے تھے، اور یہ بات کفار کے علم میں تھی، تبھی تو کفار نے کہا یہ انہونے لکھ لی ہے، اگر نبی علیہ السلام. نبوت سے قبل لکھنا نہیں جانتے تھے اور یہ بات کفار کو بھی معلوم ہو، یہ لکھنا نہیں جانتے، پھر بھی ایسا کہے اپنے پاس سے لکھ لی ہے، ایسا نہیں ہو سکتا، کفار کو معلوم بھی ہو یہ لکھنا جانتے نہیں پھر بھی کہے اپنے پاس سے لکھلی ہے، اگر نبی علیہ السلام لکھنا نہیں جانتے اور یہ بات کفار کو معلوم بھی ہو تو، کفار اس طرح کہتے، یہ اگلوں کی کہانیاں ہے، جو انہونے لکھوالی ہے،، کفار کا یہ کہنا لکھ لی ہیں ، صاف ظاہر کرتا ہے، نبی علیہ السلام لکھنا جانتے تھے چونکہ تقریباً 53 سال مکہ میں رہے تو کفار کو یہ. معلوم تھا، یہ لکھنا پڑھنا جانتے ہیں،، تبھی انہوں نے کہا،، انہوں نے لکھ لی ہیں،،
چونکہ یہ سورہ بھی مکی ہے، اور مکہ والے یہ جانتے تھے، نبی علیہ السلام کو لکھنا آتا ہے، تبھی انہوں نے ایسا، کہا، اگر نبی لکھنا نہیں جانتے تو کفار کو تعجب ہوتا کہ انہونے یہ کیسے لکھدیا جبکہ یہ جانتے نہیں لکھنا، یا پھر یہ کہتے آپ. نے لکھوایا ہے، نہ تو انہوں نے تعجب کا اظہار کیا اور نہ ہی کہا لکھوایا ہے، بلکہ کہا انہو نے لکھ لی ہے،
اور یہ جو بعض نے کہا ہے نہ نبوت سے پہلے اور نہ ہی نبوت کے بعد لکھنا جانتے تھے، اور دلیل میں یہ آیت لاتے ہیں
 (سورة العنكبوت -48)
وَ مَا کُنۡتَ تَتۡلُوۡا مِنۡ قَبۡلِہٖ مِنۡ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیۡنِکَ اِذًا لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ ﴿۴۸﴾
اور اس سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے یوں ہوتا تو باطل ضرور شک لاتے
اس آیت سے ان کا استدلال کرنا صحیح نہیں، اس آیات اس بات کی نفی نہیں ہے، کی آپ لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتے تھے بلکہ، اس کہا گیا ہے، لکھتے اور پڑھتے نہیں تھے، نفی ہونا الگ بات ہے لکھنا پڑھنا نہیں آیا الگ بات ہے،
 اس آیت مبارکہ کا مطلب یہ نہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا، بلکہ نبی علیہ السلام کے پاس کوئی اور دوسری اللہ کی کتاب نہیں تھی جس کو آپ پڑھتے یا لکھتے، جب قرآن پاک اللہ نے آپ علیہ السلام کو عطا کردیا تو لکھا بھی اور پڑھا بھی،، لہذا جن حضرات نے اس آیت کو دلیل بنا کر قبل نبوت اور بعد نبوت لکھنے پڑھنےکی نفی کی ہے، ان کا 
استدلال اس آیت سے صحیح نہیں
اعتراض،، تمام علماء نے لکھا ہے، بعد نبوت لکھنا پڑھنا یہ معجزہ ہے، اگر آپ کی تحقیق کو قبول کیا جائے تو ان علماء نے جو کہا یہ معجزہ ہے، بعد نبوت لکھنا پڑھنا، اور کسی سے نہ سیکھنا، تو اس پر اعتراض لازم آئےگا
جواب دونوں قول میں اس طرح تطبیق کی جاسکتی ہے،، قبل نبوت لکھنا پڑھنا جو سیکھا اپنے، اس وقت کے لکھنے پڑھنے 
میں مہارت حاصل نہ تھی، لیکن بعد نبوت اللہ نے آپکی زبان مبارک اور ہاتھ مبارک پر مہارت کے ساتھ لکھنا پڑھنا جاری فرما دیا۔ اس طرح دونوں قول میں تعرض ختم ہوجائے گا
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی دانش حنفی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
ہلدوانی نینیتال
 9917420179📲

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area