•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
غوث اعظم رحمتہ اللہ علیہ کا علمی مقام
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
اولیاء کرام کے مقامات و کمالات میں بہت سی چیزیں آتی ہیں۔ مگر یہ کمالات یہ مقامات دو چیزیں کے گرد گھومتے ہیں، ایک تو علم ہے اور دوسری قدرت ہے،
اور اللہ عزوجل جسے اپنا ولی بنانا چاہتا ہے اس کو علم عطا فرماتا ہے، اور پھر وہ اس علم پر عمل کرتا ہوا تمام منزلیں عبور کرتا ہوا مقام ولایت پر پہنچ جاتا ہے۔ اور اسے دنیا پھر غوث قطب قلندر مجدد وغیرہ نام سے یاد کیا کرتی ہے، علم ایک ایسی چیز ہے کے اس پر عمل کرنے والا اللہ کا مقرب بندہ بنجاتا ہے، علم کے ذریعے ہی حلال حرام کی تمیز کرتا ہے اور تمام گناہوں سے علم کے ذریعے ہی بچتا ہے، جاہل شخص اللہ کا والی نہیں ہو سکتا۔
امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
اولیاء کرام کے مقامات و کمالات میں بہت سی چیزیں آتی ہیں۔ مگر یہ کمالات یہ مقامات دو چیزیں کے گرد گھومتے ہیں، ایک تو علم ہے اور دوسری قدرت ہے،
اور اللہ عزوجل جسے اپنا ولی بنانا چاہتا ہے اس کو علم عطا فرماتا ہے، اور پھر وہ اس علم پر عمل کرتا ہوا تمام منزلیں عبور کرتا ہوا مقام ولایت پر پہنچ جاتا ہے۔ اور اسے دنیا پھر غوث قطب قلندر مجدد وغیرہ نام سے یاد کیا کرتی ہے، علم ایک ایسی چیز ہے کے اس پر عمل کرنے والا اللہ کا مقرب بندہ بنجاتا ہے، علم کے ذریعے ہی حلال حرام کی تمیز کرتا ہے اور تمام گناہوں سے علم کے ذریعے ہی بچتا ہے، جاہل شخص اللہ کا والی نہیں ہو سکتا۔
امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
وما اتخذ اللّٰہ ولیاً جاھلاً ۔ اللہ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا۔ یعنی بنانا چاہا تو پہلے اسے علم دے دیا اس کے بعد ولی کیا کہ جو علم ِظاہر نہیں رکھتا، علم باطن کہ اس کا ثمرہ و نتیجہ ہے کیونکر(کس طرح ) پاسکتاہے۔"(فتاویٰ رضویہ،21/530)
محقِّقِ اہلسنت علامہ شیخ علی بن سُلطان القاری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفیٰ1014ھ)
بھی اِس حقیقت کو یوں تحریرفرماتے ہیں کہ :
محقِّقِ اہلسنت علامہ شیخ علی بن سُلطان القاری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفیٰ1014ھ)
بھی اِس حقیقت کو یوں تحریرفرماتے ہیں کہ :
" ومااتخذ اللّٰہ ولیاً جاھلاً ولو اتخذہ لعلمہ۔" یعنی،اللہ تعالیٰ نے کسی جاہل کو ولی نہ بنایا، اور اگر ولی منتخب فرماناچاہا تو اُسے علم عطا فرمادیا۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ،1/427)
اللہ ربّ العزت کے کسی بھی سچے ولی کا جب تذکرہ ہوتا ہے تو سطحِ ذہن پر کشف و کرامت کا تصوّر اُبھرتاہے۔ لیکن کسی بھی ولیُ اللہ کے مقام ِ وِلایت پر سرفراز ہونے اور صاحبِ کرامت بننے کا بنیادی سبب شریعتِ مطہرہ کے احکامات پر استقامت اختیار کرنا ہوتاہے۔ علومِ شریعت کو جانے اور اِن پر عمل کیۓ بغیر بارگاہِ الٰہی میں قُرب پالینے کا خیال محض جنون ہی جنون ہے۔ ربِّ علیم و خبیر عزوجل نے اپنے اَولیاء کاذکر فرماتے ہوئے اُن کی دو بنیادی شرائط اورعلامات بیان فرمائی ہیں: ایمان والا ہونا متّقی یعنی پرہیزگار ہونا۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہوتاہے:
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ
توہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں۔ (پارہ11،یونس:63)
یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ایمان کی حقیقت ،تفصیلات اور اس کے تقاضوں سے آگاہی ،نیز تقویٰ کےدرجات کا حُصول علمِ دین کے ذریعے ہی ہوسکتاہے۔بے علمِ دین سے جاہل یا فاسق شخص ہرگز اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا۔ علمِ شریعت کے حصول اور اس پر عمل کا انعام طریقت میں کشف و کرامت کے ذریعے ظاہر ہوتاہے۔ ہاں اگر علمِ الٰہی میں کسی شخص کا وِلایت کے مرتبے سے سرفراز ہونا طے ہو اور بظاہر اُس کے پاس علم نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سےاُس شخص کو علمِ لدنی عطا فرماکر اپنا ولی بنا لیتاہے۔
اگر بندے کے پاس علمِ دین نہ ہو تو شیطان عبادت اور مجاہدے کے نام پراُسے اپنا کھلونا بنائے رکھتا ہے ۔جاہل صوفی اورعابد اپنے کاموں کو عبادت اور طاعت سمجھ رہا ہوتاہے ،لیکن لاعلمی کی وجہ سے اور اعمال کی ادائیگی میں احکاماتِ شرعیہ کی مخالفت ہونے کی بناء پر اُس کی ساری محنتیں اَکارت و برباد ہوجاتی ہیں۔ علمِ دین پاس نہ ہونے کی صورت میں شیطان صوفی وعابد کا کیا حال کرتاہے ،اس کا منظر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ: بےعلم مجاہدہ والوں کو شیطان اُنگلیوں پر نچاتا ہے، منہ میں لگام ، ناک میں نکیل ڈال کر جدھر چاہے کھینچے پھرتاہے ۔
(فتاویٰ رضویہ، 21/528)
ایک اورمقام پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ: " اَولیائے کرام فرماتے ہیں: صوفی جاہل شیطان کا مسخرہ ہے۔"
(فتاویٰ رضویہ،21/528)
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ولی کے لئے علومِ دینیہ سے واقف ہونا ضروری ہے تو پھر کیا عالَم ہوگا اُس ہستی کے پایۂ علم کا ،جو کہ کِشورِ ولایت کے بادشاہ ہیں۔جی ہاں! ولیُ الاَولیاء ،امامُ الاَصفیاء،قُطب الاَقطاب، غوثُ الاَغواث ، تاجُ الاَوتاد،مرجع الاَبدال،غوثِ اعظم ابو محمد سیِّد شیخ عبدالقادر حَسنی حُسینی جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جس طرح آسمانِ طریقت کےروشن آفتاب ہیں،اِسی طرح چرخِ شریعت کے چمکتے دمکتے مہتاب بھی ہیں۔
چنانچہ اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ علامہ علی قاری حنفی مکی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی کتاب " نزھۃ الخاطرالفاتر" کے حوالے سےسیِّد کبیر قُطب شہیر سیِّدنا اَحمد رفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ الشیخ عبدالقادر بحرُ الشریعۃ عن یمینہ و بحرُالحقیقۃ عن یسارہ ، مِنْ اَیِّھِما شاء اغترف السید عبدالقادر لاثانی لہ فی عصرنا ھذا رضی اللّٰہ تعالی عنہ۔ شیخ عبدالقادر وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر اُن کے دہنے ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر اُن کے بائیں ہاتھ، جس میں سے چاہیں پانی پی لیں۔ اس ہمارے وقت میں سیِّد عبدالقادر کا کوئی ثانی نہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
(فتاویٰ رضویہ،28/396)
اور غوث پاک کو یہ مقام کمالات علم ہی کی بدولت حاصل ہوۓ ہیں آپ ارشاد فرماتے ہیں۔
دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتّٰی صِرْتُ قُطْباً وَنِلْتُ السَّعْدَ مِنْ مَّوْلَی الْمَوَالِیْ
میں (ظاہری و باطنی) علم پڑھتے پڑھتے قُطب بن گیا اور میں نے مخلص دوستوں کے آقا و مولا عزوجل کی مدد سے سعادت کوپالیا۔
اور امام اہلسنت فرماتے ہیں۔
حضور ہمیشہ سے حنبلی تھے اور بعد کو جب عین الشریعۃ الکبرٰی تک پہنچ کرمنصب اجتہاد مطلق حاصل ہوامذہب حنبل کو کمزور ہوتا ہوا دیکھ کر اس کے مطابق فتوٰی دیا کہ حضور محی الدین اور دین متین کے یہ چاروں ستون ہیں لوگوں کی طرف سے جس ستون میں ضعف آتا دیکھا اس کی تقویت فرمائی۔۔
آپ کے علم کا مقام یہ تھا آپ رحمہ اللہ تیرہ علوم میں تقریر فرمایا کرتے تھے آپ کے مدرسہ میں ایک درس فروعات مذہبی پر اور ایک اس کے خلافیات پر ہوا کرتا ہر روز دن کو اول و آخر آپ تفسیر و حدیث اور اصول و علم نحو وغیرہ کا درس دیتے تھے اور قران مجید کا ترجمہ ظہر بعد پڑھایا کرتے تھے۔
درس کے ساتھ ساتھ آپ فتاوی کے جواب بھی دیا کرتے تھے عراق کے سوا دیگر بلاد سے بھی آپ کے پاس فتاوی آیا کرتے تھے۔ جب آپ کے پاس کوئ فتوی آتا تو آپ کو اس میں غور و فکر کرنے کی ضرورت نہ ہوا کرتی تھی کسی فتاوی کو اپنے پاس نہ رکھتے تھے بلکہ اسی وقت اس کا جواب تحریر فرمادیا کرتے تھے، اور امام شافعی و امام احمد بن حنبل دونو میں سے کسی ایک کے مذہب پر آپ فتوی دیا کرتے تھے۔ آپ کے فتوے سے علماۓ عراق پر بھی پیش ہوتے تھے تو ان کو آپ کی سرعت جواب پر نہایت تعجب ہوتا اور حیرت میں ڈوب جاتے۔
آپ کے صاحب زادے شیخ عبد الرزاق بیان کرتے ہیں۔
کہ ایک مرتبہ بلاد عجم سے ایک فتوی آپ کے پاس آیا اس سے پیشتر یہ فتوی علماۓ عراق پر ہو چکا تھا مگر کسی نے بھی اس کا جواب ثانی نہ نہ دیا۔
صورت مسئلہ یہ ہے کہ اکابر علمائے شریعت مندرجہ ذیل مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے طلاق ثلاثہ کے ساتھ اس بات کی قسم کھائ کہ وہ ایک ایسی عبادت کرے گا جس میں وہ یہ عبادت کرتے وقت تمام لوگوں سے متفرد ہوگا بینوا توجروا۔
جب آپ کے پاس یہ فتوی آیا تو آپ نے یہ پڑھتے ہی فوراً لکھ دیا کہ یہ شخص مکہ معظمہ جاکر
خانہ کعبہ کو خالی کراۓ اور سات دفعہ اس کا طواف کر کے اپنی قسم اتارے چنانچہ یہ جواب ملتے ہی مستفتی اسی روز مکہ معظمہ روانہ ہو گیا۔
(قلائد الجواہر فی مناقب شیخ عبد القادر گیلانی صفحہ 131)
یہ ایسا جواب تھا جس کو پڑھنے کے بعد سب لوگ حیرت میں پڑ گۓ کہ غوث اعظم کو اللہ عزوجل نے کیا ہی فقہانہ شان عطا فرمائ ہے کس قدر رب تعالیٰ نے آپ کو علم سے نوازا ہے۔ آپ کے علم جوہر کے بارے میں اگر لکھا جاۓ، کئ دفتر وجود میں آجاۓ مگر پھر بھی آپ کے علم کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔
ساتھ ہی ایک غلط فہمی کا ازالہ کرتے چلے کہ
ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے اور خطیب حضرات بھی خوب جوش و خروش کے ساتھ یہ بیان کرتے ہیں کہ غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ پہلے حنفی تھے غوث اعظم نے خواب دیکھا کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرا مذہب کمزور ہوا جاتا ہے لہذا تم میرے مذہب میں آجائیں میرے مذہب کی تقویت ہو جائے گی اسی لیے غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ حنفی سے حنبلی ہو گۓ اس روایت کی بابت امام اہلسنت حضور سیدی اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
یہ روایت صحیح نہیں ہے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ سے حنبلی تھے اور جب آپ کو منصب اجتہاد مطلق حاصل ہوا مذہب حنبلی کو کمزور ہوتا دیکھا تو اس کے مطابق فتوی دیا حضور غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ محی الدین اور دین متین کے یہ چار ستون ہیں لوگوں کی طرف سے جس ستون میں کمزوری آتی دیکھی اس کی تقویت فرمائی واللہ اعلم
(فتاوی رضویہ جلد 26 صفحہ نمبر 433)
اللہ ربّ العزت کے کسی بھی سچے ولی کا جب تذکرہ ہوتا ہے تو سطحِ ذہن پر کشف و کرامت کا تصوّر اُبھرتاہے۔ لیکن کسی بھی ولیُ اللہ کے مقام ِ وِلایت پر سرفراز ہونے اور صاحبِ کرامت بننے کا بنیادی سبب شریعتِ مطہرہ کے احکامات پر استقامت اختیار کرنا ہوتاہے۔ علومِ شریعت کو جانے اور اِن پر عمل کیۓ بغیر بارگاہِ الٰہی میں قُرب پالینے کا خیال محض جنون ہی جنون ہے۔ ربِّ علیم و خبیر عزوجل نے اپنے اَولیاء کاذکر فرماتے ہوئے اُن کی دو بنیادی شرائط اورعلامات بیان فرمائی ہیں: ایمان والا ہونا متّقی یعنی پرہیزگار ہونا۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہوتاہے:
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ
توہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں۔ (پارہ11،یونس:63)
یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ایمان کی حقیقت ،تفصیلات اور اس کے تقاضوں سے آگاہی ،نیز تقویٰ کےدرجات کا حُصول علمِ دین کے ذریعے ہی ہوسکتاہے۔بے علمِ دین سے جاہل یا فاسق شخص ہرگز اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا۔ علمِ شریعت کے حصول اور اس پر عمل کا انعام طریقت میں کشف و کرامت کے ذریعے ظاہر ہوتاہے۔ ہاں اگر علمِ الٰہی میں کسی شخص کا وِلایت کے مرتبے سے سرفراز ہونا طے ہو اور بظاہر اُس کے پاس علم نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سےاُس شخص کو علمِ لدنی عطا فرماکر اپنا ولی بنا لیتاہے۔
اگر بندے کے پاس علمِ دین نہ ہو تو شیطان عبادت اور مجاہدے کے نام پراُسے اپنا کھلونا بنائے رکھتا ہے ۔جاہل صوفی اورعابد اپنے کاموں کو عبادت اور طاعت سمجھ رہا ہوتاہے ،لیکن لاعلمی کی وجہ سے اور اعمال کی ادائیگی میں احکاماتِ شرعیہ کی مخالفت ہونے کی بناء پر اُس کی ساری محنتیں اَکارت و برباد ہوجاتی ہیں۔ علمِ دین پاس نہ ہونے کی صورت میں شیطان صوفی وعابد کا کیا حال کرتاہے ،اس کا منظر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ: بےعلم مجاہدہ والوں کو شیطان اُنگلیوں پر نچاتا ہے، منہ میں لگام ، ناک میں نکیل ڈال کر جدھر چاہے کھینچے پھرتاہے ۔
(فتاویٰ رضویہ، 21/528)
ایک اورمقام پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ: " اَولیائے کرام فرماتے ہیں: صوفی جاہل شیطان کا مسخرہ ہے۔"
(فتاویٰ رضویہ،21/528)
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ولی کے لئے علومِ دینیہ سے واقف ہونا ضروری ہے تو پھر کیا عالَم ہوگا اُس ہستی کے پایۂ علم کا ،جو کہ کِشورِ ولایت کے بادشاہ ہیں۔جی ہاں! ولیُ الاَولیاء ،امامُ الاَصفیاء،قُطب الاَقطاب، غوثُ الاَغواث ، تاجُ الاَوتاد،مرجع الاَبدال،غوثِ اعظم ابو محمد سیِّد شیخ عبدالقادر حَسنی حُسینی جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جس طرح آسمانِ طریقت کےروشن آفتاب ہیں،اِسی طرح چرخِ شریعت کے چمکتے دمکتے مہتاب بھی ہیں۔
چنانچہ اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ علامہ علی قاری حنفی مکی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی کتاب " نزھۃ الخاطرالفاتر" کے حوالے سےسیِّد کبیر قُطب شہیر سیِّدنا اَحمد رفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ الشیخ عبدالقادر بحرُ الشریعۃ عن یمینہ و بحرُالحقیقۃ عن یسارہ ، مِنْ اَیِّھِما شاء اغترف السید عبدالقادر لاثانی لہ فی عصرنا ھذا رضی اللّٰہ تعالی عنہ۔ شیخ عبدالقادر وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر اُن کے دہنے ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر اُن کے بائیں ہاتھ، جس میں سے چاہیں پانی پی لیں۔ اس ہمارے وقت میں سیِّد عبدالقادر کا کوئی ثانی نہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
(فتاویٰ رضویہ،28/396)
اور غوث پاک کو یہ مقام کمالات علم ہی کی بدولت حاصل ہوۓ ہیں آپ ارشاد فرماتے ہیں۔
دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتّٰی صِرْتُ قُطْباً وَنِلْتُ السَّعْدَ مِنْ مَّوْلَی الْمَوَالِیْ
میں (ظاہری و باطنی) علم پڑھتے پڑھتے قُطب بن گیا اور میں نے مخلص دوستوں کے آقا و مولا عزوجل کی مدد سے سعادت کوپالیا۔
اور امام اہلسنت فرماتے ہیں۔
حضور ہمیشہ سے حنبلی تھے اور بعد کو جب عین الشریعۃ الکبرٰی تک پہنچ کرمنصب اجتہاد مطلق حاصل ہوامذہب حنبل کو کمزور ہوتا ہوا دیکھ کر اس کے مطابق فتوٰی دیا کہ حضور محی الدین اور دین متین کے یہ چاروں ستون ہیں لوگوں کی طرف سے جس ستون میں ضعف آتا دیکھا اس کی تقویت فرمائی۔۔
آپ کے علم کا مقام یہ تھا آپ رحمہ اللہ تیرہ علوم میں تقریر فرمایا کرتے تھے آپ کے مدرسہ میں ایک درس فروعات مذہبی پر اور ایک اس کے خلافیات پر ہوا کرتا ہر روز دن کو اول و آخر آپ تفسیر و حدیث اور اصول و علم نحو وغیرہ کا درس دیتے تھے اور قران مجید کا ترجمہ ظہر بعد پڑھایا کرتے تھے۔
درس کے ساتھ ساتھ آپ فتاوی کے جواب بھی دیا کرتے تھے عراق کے سوا دیگر بلاد سے بھی آپ کے پاس فتاوی آیا کرتے تھے۔ جب آپ کے پاس کوئ فتوی آتا تو آپ کو اس میں غور و فکر کرنے کی ضرورت نہ ہوا کرتی تھی کسی فتاوی کو اپنے پاس نہ رکھتے تھے بلکہ اسی وقت اس کا جواب تحریر فرمادیا کرتے تھے، اور امام شافعی و امام احمد بن حنبل دونو میں سے کسی ایک کے مذہب پر آپ فتوی دیا کرتے تھے۔ آپ کے فتوے سے علماۓ عراق پر بھی پیش ہوتے تھے تو ان کو آپ کی سرعت جواب پر نہایت تعجب ہوتا اور حیرت میں ڈوب جاتے۔
آپ کے صاحب زادے شیخ عبد الرزاق بیان کرتے ہیں۔
کہ ایک مرتبہ بلاد عجم سے ایک فتوی آپ کے پاس آیا اس سے پیشتر یہ فتوی علماۓ عراق پر ہو چکا تھا مگر کسی نے بھی اس کا جواب ثانی نہ نہ دیا۔
صورت مسئلہ یہ ہے کہ اکابر علمائے شریعت مندرجہ ذیل مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے طلاق ثلاثہ کے ساتھ اس بات کی قسم کھائ کہ وہ ایک ایسی عبادت کرے گا جس میں وہ یہ عبادت کرتے وقت تمام لوگوں سے متفرد ہوگا بینوا توجروا۔
جب آپ کے پاس یہ فتوی آیا تو آپ نے یہ پڑھتے ہی فوراً لکھ دیا کہ یہ شخص مکہ معظمہ جاکر
خانہ کعبہ کو خالی کراۓ اور سات دفعہ اس کا طواف کر کے اپنی قسم اتارے چنانچہ یہ جواب ملتے ہی مستفتی اسی روز مکہ معظمہ روانہ ہو گیا۔
(قلائد الجواہر فی مناقب شیخ عبد القادر گیلانی صفحہ 131)
یہ ایسا جواب تھا جس کو پڑھنے کے بعد سب لوگ حیرت میں پڑ گۓ کہ غوث اعظم کو اللہ عزوجل نے کیا ہی فقہانہ شان عطا فرمائ ہے کس قدر رب تعالیٰ نے آپ کو علم سے نوازا ہے۔ آپ کے علم جوہر کے بارے میں اگر لکھا جاۓ، کئ دفتر وجود میں آجاۓ مگر پھر بھی آپ کے علم کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔
ساتھ ہی ایک غلط فہمی کا ازالہ کرتے چلے کہ
ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے اور خطیب حضرات بھی خوب جوش و خروش کے ساتھ یہ بیان کرتے ہیں کہ غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ پہلے حنفی تھے غوث اعظم نے خواب دیکھا کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرا مذہب کمزور ہوا جاتا ہے لہذا تم میرے مذہب میں آجائیں میرے مذہب کی تقویت ہو جائے گی اسی لیے غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ حنفی سے حنبلی ہو گۓ اس روایت کی بابت امام اہلسنت حضور سیدی اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
یہ روایت صحیح نہیں ہے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ سے حنبلی تھے اور جب آپ کو منصب اجتہاد مطلق حاصل ہوا مذہب حنبلی کو کمزور ہوتا دیکھا تو اس کے مطابق فتوی دیا حضور غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ محی الدین اور دین متین کے یہ چار ستون ہیں لوگوں کی طرف سے جس ستون میں کمزوری آتی دیکھی اس کی تقویت فرمائی واللہ اعلم
(فتاوی رضویہ جلد 26 صفحہ نمبر 433)
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ہلدوانی نینیتال
4/9/2023
ہلدوانی نینیتال
4/9/2023