•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
(سوال نمبر 4300)
کیا لاک ڈائون کی تنخواہ مدرس کا حق ہے؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ میں کہ زید کسی دارالعلوم میں درس وتدریس کا انجام دے رہا تھا اچانک کسی آفت جیسے لاک ڈاؤن کی وجہ سے مدرسہ بند ہو گیا اب مدرسہ بند ہونے تک زید کی ڈیڑھ مہینے کی تنخواہ باقی ہے ۔جب مدرسہ بند ہوا سارے لوگ گھر چلے گئے لیکن ابھی تک زید کو اس کی تنخواہ نہیں ملی ہے جب کہ صدر المدرسین اپنی بقایا تنخواہ بعد میں لے چکا ہے۔ صدر المدرسین کے ساتھ سارے اراکین مدرسہ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ زید کی ڈیڑھ مہینے کی تنخواہ باقی ہے اور وہ لوگ اقرار بھی کر رہے ہیں کہ ہاں باقی ہے مگر دے نہیں رہے ہیں ۔ ایسے صدر المدرسین اور اراکین مدرسہ پر شریعت کا کیا حکم ہے جواب عنایت فرمائیں ۔
سائل:- ناصر حسین سیتا مڑھی بہار انڈیا
یہ سوال میرے پاس آیا تھا اس لیے سائل کے نام کے ساتھ ہی پوچھ لیا ہے ۔
ج۔ع۔مصباحی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
کام کے بغیر اجرت نہیں یعنی اجرت کا حقدار نہیں پر مذکورہ صورت میں عرفا جب کسی مصیبت کی بنا پر چھٹی ہونے سے سب نے تنخواہ لی تو زید بھی تنخواہ کا حقدار ہے انتظامیہ زید کی تنخواہ دے ورنہ حقوق العباد میں گرفتار ہوں گے بلا وجہ ٹال مٹول کرنے میں گناہ کے مرتکب ہوں گے
آقا علیہ السلام نے فرمایا
تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں خود ان سے جھگڑوں گا ایک وہ شخص ہے جس نے میرے نام کی قسم کھائی پھر وہ قسم توڑ ڈالی دوسرا وہ آدمی ہے جس نے کسی آزادکو پکڑ کر فروخت کردیا پھر اس کی قیمت کھا گیا تیسرا وہ آدمی جس کو کسی نے مزدوری پر لگایا اور اس سے پورا کام لیا مگر اس کی مزدوری نہ دی
آقا علیہ السلام نے فرمایا
مزدور کو اس کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔(یعنی جب مزدور اپنا کام پورا کر چکے تو اس کی مزدوری فوراً دے دو، اس میں تاخیر نہ کرو)
قصدا جان بوجھ کر منتطم کو اس طرح کرنے سے حشر کے میدان میں گرفت ہوگی اگر اس نے مرنے سے پہلے پہلے توبہ کے ساتھ اگر مولانا سے معافی نہیں مانگی تو
اللہ کا فرمان ہے
وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ.(سورہ انبیاء آیت 47)
اور (ہاں) قیامت کے روز ہم میزان عدل قائم کریں گے(اور سب اعمال کا وزن کریں گے) کسی پر اصلا ظلم نہ ہوگا، اور اگر( کسی کا) عمل راۓ کے دانے کے برابر بھی ہوگا تو ہم اس کو (وہاں) حاضر کردیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں
آقا علیہ السلام نے فرمایا
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قال الله تعالى: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر ورجل باع حرا فأكل ثمنه ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعطه أجره ،رواه البخاري(مشكاة المصابيح،كتاب البيوع،باب الإجارة، الفصل الأول،ج:2، ص899، ط: المكتب الإسلامي،بيروت)
دوسری حدیث شریف میں ہے
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه . رواه ابن ماجه.
(مشكاة المصابيح، كتاب البيوع باب الإجارة،الفصل الأول،ج:2، ص:900
ط: المكتب الإسلامي بيروت)
ایضاً
عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " مطل الغني ظلم، وإذا احلت على مليء، فاتبعه، ولا تبع بيعتين في بيعة
(سنن الترمذي،أبواب البيوع،باب ما جاء في مطل الغني أنه ظلم،ج:2 ص:578، ط:دار الغرب الإسلامي-بيروت)
ایضاً
عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا خلص المؤمنون من النار حبسوا بقنطرة بين الجنة والنار، فيتقاصون مظالم كانت بينهمفي الدنيا حتى إذا نقوا وهذبوا، أذن لهم بدخول الجنة، فوالذي نفس محمد صلى الله عليه وسلم بيده، لأحدهم بمسكنه في الجنة أدل بمنزله كان في الدنيا (البخاري كتاب المظالم،باب قصاص المظالم،ج:2، ص 861، ،دار ابن كثير، دار اليمامة)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب مومنوں کو دوزخ سے نجات مل جائے گی تو انہیں ایک پل پر جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہو گا روک لیا جائے گا اور وہیں ان کے مظالم کا بدلہ دے دیا جائے گا۔ جو وہ دنیا میں باہم کرتے تھے۔ پھر جب پاک صاف ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں داخلہ کی اجازت دی جائے گی۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، ان میں سے ہر شخص اپنے جنت کے گھر کو اپنے دنیا کے گھر سے بھی بہتر طور پر پہچانے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
لأن الملك من شانه أن یتصرف فيه بوصف الاختصاص
(کتاب البیوع ، ج:4، ص:504، ط:سعید)
تفسیر ابن کثیر میں ہے
حقوق الآدميين وهي لا تسقط بالتوبة، ولا فرق بين المقتول والمسروق منه، والمغصوب منه والمقذوف وسائر حقوق الآدميين، فإن الإجماع منعقدٌ على أنها لا تسقط بالتوبة، ولا بد من أدائها إليهم في صحة التوبة، فإن تعذر ذلك فلا بد من الطلابة يوم القيامة."
(سورة النساء آيت:92،ص:381،ج2،ط:دار طيبة للنشر والتوزيع)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
ويجب على الغاصب رد عينه على المالك وإن عجز عن رد عينه بهلاكه في يده بفعله أو بغير فعله فعليه مثله إن كان مثليا كالمكيل والموزون فإن لم يقدر على مثله بالانقطاع عن أيدي الناس فعليه قيمته يوم الخصومة عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى - وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى -: يوم الغصب وقال محمد - رحمه الله تعالى -: يوم الانقطاع كذا في الكافي.... وإن غصب ما لا مثل له فعليه قيمة يوم الغصب بالإجماع كذا في السراج الوهاج".
(كتاب الغصب، الفصلالاول في تفسير الغصب..؛ج:5، ص:119، ط:دارالفكر بيروت)
حاصل کلام یہ ہے کہ مولانا کو چھٹی میں جتنی تنخواہ سب لی ہے اتنی دینا لازم ہے البتہ اگر انہیں مدرسہ سے چھٹی سے پہلے مستعفی کردئے ہوں تو الگ بات ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب
کیا لاک ڈائون کی تنخواہ مدرس کا حق ہے؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ میں کہ زید کسی دارالعلوم میں درس وتدریس کا انجام دے رہا تھا اچانک کسی آفت جیسے لاک ڈاؤن کی وجہ سے مدرسہ بند ہو گیا اب مدرسہ بند ہونے تک زید کی ڈیڑھ مہینے کی تنخواہ باقی ہے ۔جب مدرسہ بند ہوا سارے لوگ گھر چلے گئے لیکن ابھی تک زید کو اس کی تنخواہ نہیں ملی ہے جب کہ صدر المدرسین اپنی بقایا تنخواہ بعد میں لے چکا ہے۔ صدر المدرسین کے ساتھ سارے اراکین مدرسہ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ زید کی ڈیڑھ مہینے کی تنخواہ باقی ہے اور وہ لوگ اقرار بھی کر رہے ہیں کہ ہاں باقی ہے مگر دے نہیں رہے ہیں ۔ ایسے صدر المدرسین اور اراکین مدرسہ پر شریعت کا کیا حکم ہے جواب عنایت فرمائیں ۔
سائل:- ناصر حسین سیتا مڑھی بہار انڈیا
یہ سوال میرے پاس آیا تھا اس لیے سائل کے نام کے ساتھ ہی پوچھ لیا ہے ۔
ج۔ع۔مصباحی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
کام کے بغیر اجرت نہیں یعنی اجرت کا حقدار نہیں پر مذکورہ صورت میں عرفا جب کسی مصیبت کی بنا پر چھٹی ہونے سے سب نے تنخواہ لی تو زید بھی تنخواہ کا حقدار ہے انتظامیہ زید کی تنخواہ دے ورنہ حقوق العباد میں گرفتار ہوں گے بلا وجہ ٹال مٹول کرنے میں گناہ کے مرتکب ہوں گے
آقا علیہ السلام نے فرمایا
تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں خود ان سے جھگڑوں گا ایک وہ شخص ہے جس نے میرے نام کی قسم کھائی پھر وہ قسم توڑ ڈالی دوسرا وہ آدمی ہے جس نے کسی آزادکو پکڑ کر فروخت کردیا پھر اس کی قیمت کھا گیا تیسرا وہ آدمی جس کو کسی نے مزدوری پر لگایا اور اس سے پورا کام لیا مگر اس کی مزدوری نہ دی
آقا علیہ السلام نے فرمایا
مزدور کو اس کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔(یعنی جب مزدور اپنا کام پورا کر چکے تو اس کی مزدوری فوراً دے دو، اس میں تاخیر نہ کرو)
قصدا جان بوجھ کر منتطم کو اس طرح کرنے سے حشر کے میدان میں گرفت ہوگی اگر اس نے مرنے سے پہلے پہلے توبہ کے ساتھ اگر مولانا سے معافی نہیں مانگی تو
اللہ کا فرمان ہے
وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ.(سورہ انبیاء آیت 47)
اور (ہاں) قیامت کے روز ہم میزان عدل قائم کریں گے(اور سب اعمال کا وزن کریں گے) کسی پر اصلا ظلم نہ ہوگا، اور اگر( کسی کا) عمل راۓ کے دانے کے برابر بھی ہوگا تو ہم اس کو (وہاں) حاضر کردیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں
آقا علیہ السلام نے فرمایا
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قال الله تعالى: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر ورجل باع حرا فأكل ثمنه ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعطه أجره ،رواه البخاري(مشكاة المصابيح،كتاب البيوع،باب الإجارة، الفصل الأول،ج:2، ص899، ط: المكتب الإسلامي،بيروت)
دوسری حدیث شریف میں ہے
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه . رواه ابن ماجه.
(مشكاة المصابيح، كتاب البيوع باب الإجارة،الفصل الأول،ج:2، ص:900
ط: المكتب الإسلامي بيروت)
ایضاً
عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " مطل الغني ظلم، وإذا احلت على مليء، فاتبعه، ولا تبع بيعتين في بيعة
(سنن الترمذي،أبواب البيوع،باب ما جاء في مطل الغني أنه ظلم،ج:2 ص:578، ط:دار الغرب الإسلامي-بيروت)
ایضاً
عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا خلص المؤمنون من النار حبسوا بقنطرة بين الجنة والنار، فيتقاصون مظالم كانت بينهمفي الدنيا حتى إذا نقوا وهذبوا، أذن لهم بدخول الجنة، فوالذي نفس محمد صلى الله عليه وسلم بيده، لأحدهم بمسكنه في الجنة أدل بمنزله كان في الدنيا (البخاري كتاب المظالم،باب قصاص المظالم،ج:2، ص 861، ،دار ابن كثير، دار اليمامة)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب مومنوں کو دوزخ سے نجات مل جائے گی تو انہیں ایک پل پر جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہو گا روک لیا جائے گا اور وہیں ان کے مظالم کا بدلہ دے دیا جائے گا۔ جو وہ دنیا میں باہم کرتے تھے۔ پھر جب پاک صاف ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں داخلہ کی اجازت دی جائے گی۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، ان میں سے ہر شخص اپنے جنت کے گھر کو اپنے دنیا کے گھر سے بھی بہتر طور پر پہچانے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
لأن الملك من شانه أن یتصرف فيه بوصف الاختصاص
(کتاب البیوع ، ج:4، ص:504، ط:سعید)
تفسیر ابن کثیر میں ہے
حقوق الآدميين وهي لا تسقط بالتوبة، ولا فرق بين المقتول والمسروق منه، والمغصوب منه والمقذوف وسائر حقوق الآدميين، فإن الإجماع منعقدٌ على أنها لا تسقط بالتوبة، ولا بد من أدائها إليهم في صحة التوبة، فإن تعذر ذلك فلا بد من الطلابة يوم القيامة."
(سورة النساء آيت:92،ص:381،ج2،ط:دار طيبة للنشر والتوزيع)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
ويجب على الغاصب رد عينه على المالك وإن عجز عن رد عينه بهلاكه في يده بفعله أو بغير فعله فعليه مثله إن كان مثليا كالمكيل والموزون فإن لم يقدر على مثله بالانقطاع عن أيدي الناس فعليه قيمته يوم الخصومة عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى - وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى -: يوم الغصب وقال محمد - رحمه الله تعالى -: يوم الانقطاع كذا في الكافي.... وإن غصب ما لا مثل له فعليه قيمة يوم الغصب بالإجماع كذا في السراج الوهاج".
(كتاب الغصب، الفصلالاول في تفسير الغصب..؛ج:5، ص:119، ط:دارالفكر بيروت)
حاصل کلام یہ ہے کہ مولانا کو چھٹی میں جتنی تنخواہ سب لی ہے اتنی دینا لازم ہے البتہ اگر انہیں مدرسہ سے چھٹی سے پہلے مستعفی کردئے ہوں تو الگ بات ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
04_09/2023
04_09/2023