•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
حضرت عمار کو باغی گروہ قتل کریگا کا جواب
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا حضرت عمار کو باغی گروہ قتل کریں گا وہ اُنہیں (باغی گروہ کو) جنت کی طرف بلائیں گے مگر وہ اُنہیں جہنّم کی طرف بلائے گا اور وہ باغی گروہ امیر معاویہ کا تھا ایک تفضیلی یہ سنّیوں کو بہکا رہا ہے اِس کی کیا حقیقت ہے حضرت رہنمائی فرمائیں ۔
سید راکب علی، امراؤتی ضلع مہاراشٹر
نبی کریم ﷺ نے فرمایا حضرت عمار کو باغی گروہ قتل کریں گا وہ اُنہیں (باغی گروہ کو) جنت کی طرف بلائیں گے مگر وہ اُنہیں جہنّم کی طرف بلائے گا اور وہ باغی گروہ امیر معاویہ کا تھا ایک تفضیلی یہ سنّیوں کو بہکا رہا ہے اِس کی کیا حقیقت ہے حضرت رہنمائی فرمائیں ۔
سید راکب علی، امراؤتی ضلع مہاراشٹر
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
و علیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب ھو الھادی الی الصواب
اس حدیث پاک میں جو باغی گروہ کی بات کہی گئ وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود خارجی گروہ کے وہ لوگ ہے،
جنہوں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو قتل کیا، اس سے حضرت امیر معاویہ ہرگز مراد نہیں، اور نہ ہی انکا نام موجود ہے، اس طرح کے خارجی لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں بھی شامل تھے، تو باغی گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں، جو خارجی شامل تھے، اس لیے الزام نہ تو حضرت علی پر ہوگا اور نہ ہی حضرت معاویہ پر،، اگر بضد ہوکر یہی بولے، چونکہ قتل حضرت معاویہ کے گروہ نے قتل کیا ہے، تو الزام انہی پر ہوگا، تو پھر ہم کہیں گے حضرت علی کے لشکر میں موجود ایک شخص نے حضرت زبیر بن عوام کو قتل کردیا تھا، اور اس قتل کرنے والے کے لیے جہنم کی خوشخبری نبی علیہ السلام نے پہلے ہی سنا دی تھی چونکہ وہ حضرت علی کے گروہ کا شخص تھا تو کیا اب، الزام حضرت علی پر ہوگا اور جو بات حضرت امیر معاویہ کے لیے کہی آپ نے تو کیا وہی بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے بھی کہیں گے
حدیث یہ ہے،،
حَدَّثَنَا زَائِدَۃُ عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ جُرْمُوزٍ عَلٰی عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ وَأَنَا عِنْدَہُ، فَقَالَ عَلِیٌّ رضی اللہ عنہ : بَشِّرْ قَاتِلَ ابْنِ صَفِیَّۃَ بِالنَّارِ، ثُمَّ قَالَ عَلِیٌّ رضی اللہ عنہ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیًّا وَحَوَارِیَّ الزُّبَیْرُ۔)) سَمِعْت سُفْیَانَ یَقُولُ: الْحَوَارِیُّ النَّاصِرُ۔
زربن جیش سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ابن جرموز نے ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹےیعنی سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو۔ اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نبی کا ایک حواری ہوتاہے اور میرا حواری زبیر ہے۔ امام سفیان نے کہا: حواری سے مراد مددگار ہے۔
(مسند احمد حدیث 11701)
حضرت زبیر بن عوام کو قتل کرنے والا یہ شخص حضرت علی کے لشکر میں موجود تھا تو کیا اس وجہ اب حضرت علی پر جہنمی ہونے کا الزام لگائیں گے،،
جس طرح حضرت علی پر کوئی الزام نہیں ہوگا، اسی طرح حضرت معاویہ پر بھی باغی ہونے کا کوئی الزام نہ ہوگا، الزام انہی باغی خارجیوں پر ہوگا جو اس میں شامل تھے
اگر بالفرض اس حدیث کے مطابق حضرت امیر معاویہ باغی تھیرے تو، پھر امام حسین اور حضرت حسن کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، کیونکہ ان دونوں حضرات نے نہ صرف بیعت کی حضرت معاویہ سے بلکہ مسلمانوں. کا امیر بھی بنا دیا،
کیا حضرت حسن و حسین ایک باغی جہنمی کی بیعت کر سکتے ہیں
اور انہیں سلطنت دے سکتے ہیں،، کیا یہ حدیث حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو معلوم نہ تھی، جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کرلی،، اس حدیث کا مفہوم یہ دونوں حضرات زیادہ بہتر سمجھتے تھے، جو ان سے بیعت کی، یا پھر یہ شیعہ تفضیلی زیادہ بہتر جانتے ہیں،،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا بیٹا مسلمانوں کے دو گروہ میں صلاح کروائے گا، تو پھر گروہ باغی کیسے ہو سکتا ہے،، اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ باغی گروہ سے صلاح کیوں کریں گے،،
حضرت امیر معاویہ کا مطالبہ کوئی حکومت حاصل کرنے یا خلیفہ بننے کا نا تھا بلکہ ان کا مطالبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے اس کا قصاص لیا جائے یہ آپ کا مطالبہ تھا
امام ذہبی رحمۃاللہ نے تاریخ اسلام میں لکھا ہے،، حضرت معاویہ سے معلوم کیا گیا آپ حضرت علی سے خلافت کے معاملے میں اتنا تنازعہ کیوں کرتے ہیں،، آپ نے جواب دیا حضرت علی مجھ سے افضل ہیں، خلافت کے زیادہ حقدار ہے،
میں یہ چاہتا ہوں حضرت عثمان جو کے میرے چچازاد بھائی ہے، ان کو ظلما قتل کردیا گیا، میں یہ چاہتا ہوں حضرت علی ان قاتلوں کو میرے حوالے کردے،،،
خلاصہ کلام یہ ہے، باغی گروہ سے وہ خارجی مراد ہیں جو دونوں لشکر میں موجود تھے، اور الزام بھی انہی لوگوں پر ہیں، نہ کے حضرت علی یا حضرت امیر معاویہ پر
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
و علیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب ھو الھادی الی الصواب
اس حدیث پاک میں جو باغی گروہ کی بات کہی گئ وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود خارجی گروہ کے وہ لوگ ہے،
جنہوں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو قتل کیا، اس سے حضرت امیر معاویہ ہرگز مراد نہیں، اور نہ ہی انکا نام موجود ہے، اس طرح کے خارجی لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں بھی شامل تھے، تو باغی گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں، جو خارجی شامل تھے، اس لیے الزام نہ تو حضرت علی پر ہوگا اور نہ ہی حضرت معاویہ پر،، اگر بضد ہوکر یہی بولے، چونکہ قتل حضرت معاویہ کے گروہ نے قتل کیا ہے، تو الزام انہی پر ہوگا، تو پھر ہم کہیں گے حضرت علی کے لشکر میں موجود ایک شخص نے حضرت زبیر بن عوام کو قتل کردیا تھا، اور اس قتل کرنے والے کے لیے جہنم کی خوشخبری نبی علیہ السلام نے پہلے ہی سنا دی تھی چونکہ وہ حضرت علی کے گروہ کا شخص تھا تو کیا اب، الزام حضرت علی پر ہوگا اور جو بات حضرت امیر معاویہ کے لیے کہی آپ نے تو کیا وہی بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے بھی کہیں گے
حدیث یہ ہے،،
حَدَّثَنَا زَائِدَۃُ عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ جُرْمُوزٍ عَلٰی عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ وَأَنَا عِنْدَہُ، فَقَالَ عَلِیٌّ رضی اللہ عنہ : بَشِّرْ قَاتِلَ ابْنِ صَفِیَّۃَ بِالنَّارِ، ثُمَّ قَالَ عَلِیٌّ رضی اللہ عنہ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیًّا وَحَوَارِیَّ الزُّبَیْرُ۔)) سَمِعْت سُفْیَانَ یَقُولُ: الْحَوَارِیُّ النَّاصِرُ۔
زربن جیش سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ابن جرموز نے ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹےیعنی سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو۔ اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نبی کا ایک حواری ہوتاہے اور میرا حواری زبیر ہے۔ امام سفیان نے کہا: حواری سے مراد مددگار ہے۔
(مسند احمد حدیث 11701)
حضرت زبیر بن عوام کو قتل کرنے والا یہ شخص حضرت علی کے لشکر میں موجود تھا تو کیا اس وجہ اب حضرت علی پر جہنمی ہونے کا الزام لگائیں گے،،
جس طرح حضرت علی پر کوئی الزام نہیں ہوگا، اسی طرح حضرت معاویہ پر بھی باغی ہونے کا کوئی الزام نہ ہوگا، الزام انہی باغی خارجیوں پر ہوگا جو اس میں شامل تھے
اگر بالفرض اس حدیث کے مطابق حضرت امیر معاویہ باغی تھیرے تو، پھر امام حسین اور حضرت حسن کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، کیونکہ ان دونوں حضرات نے نہ صرف بیعت کی حضرت معاویہ سے بلکہ مسلمانوں. کا امیر بھی بنا دیا،
کیا حضرت حسن و حسین ایک باغی جہنمی کی بیعت کر سکتے ہیں
اور انہیں سلطنت دے سکتے ہیں،، کیا یہ حدیث حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو معلوم نہ تھی، جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کرلی،، اس حدیث کا مفہوم یہ دونوں حضرات زیادہ بہتر سمجھتے تھے، جو ان سے بیعت کی، یا پھر یہ شیعہ تفضیلی زیادہ بہتر جانتے ہیں،،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا بیٹا مسلمانوں کے دو گروہ میں صلاح کروائے گا، تو پھر گروہ باغی کیسے ہو سکتا ہے،، اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ باغی گروہ سے صلاح کیوں کریں گے،،
حضرت امیر معاویہ کا مطالبہ کوئی حکومت حاصل کرنے یا خلیفہ بننے کا نا تھا بلکہ ان کا مطالبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے اس کا قصاص لیا جائے یہ آپ کا مطالبہ تھا
امام ذہبی رحمۃاللہ نے تاریخ اسلام میں لکھا ہے،، حضرت معاویہ سے معلوم کیا گیا آپ حضرت علی سے خلافت کے معاملے میں اتنا تنازعہ کیوں کرتے ہیں،، آپ نے جواب دیا حضرت علی مجھ سے افضل ہیں، خلافت کے زیادہ حقدار ہے،
میں یہ چاہتا ہوں حضرت عثمان جو کے میرے چچازاد بھائی ہے، ان کو ظلما قتل کردیا گیا، میں یہ چاہتا ہوں حضرت علی ان قاتلوں کو میرے حوالے کردے،،،
خلاصہ کلام یہ ہے، باغی گروہ سے وہ خارجی مراد ہیں جو دونوں لشکر میں موجود تھے، اور الزام بھی انہی لوگوں پر ہیں، نہ کے حضرت علی یا حضرت امیر معاویہ پر
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ہلدوانی نینیتال
9917420179📲
ہلدوانی نینیتال
9917420179📲